Saturday, September 28, 2013

تیسری قسط: تبصرہ برصحیح بخاری کا مطالعہ اورفتنہ انکارحدیث


تیسری قسط: تبصرہ برصحیح بخاری کا مطالعہ اورفتنہ انکارحدیث

ڈاکٹرغطریف شہباز ندوی *

شروع ہی میں ہم واضح کیے دیتے ہیں کہ ہم علامہ میرٹھیؒ کی عصمت کے قائل نہیں۔  بربنائے بشریت ان سے بھی بھول چوک اور حکم لگانے میں غلطی ہوسکتی ہے اور ہوئی ہے۔ صحیح بخاری بخاری کامطالعہ (تیسراحصہ ) میں ہم نے جہاں بھی ان کی تنقیدناکافی، دلائل غیروزنی معلوم ہوئے وہاں بغیرکسی رورعایت کے ہم نے ان سے اپنے اختلاف کا اظہارکردیاہے۔ ہمارے نزدیک ان کے نقدبخاری کی اصل اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے بخاری کے تنقیدی مطالعہ کی ریت توڈالی جس کوعلماء نے ممنوع قراردے رکھاہے۔ اور یوں علم حدیث میں ایک نئی طرح کے بانی بن گئے ۔ اور ان کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے۔ اب اہل علم کافرض ہے کہ ان کے اس تنقیدی کام کا جائزہ لیں، اس کوآگے بڑھائیں۔ وہ ایساکرتے ہیں توعلم وتحقیق کے قافلہ کوآگے بڑھانے والے ثابت ہوں گے، اگر ایسا نہیں کرتے توعنداللہ جواب دہ ہوں گے اورعلم وتحقیق کی عدالت میں مجرم ہوں گے۔

اب ہم اصل موضوع کی طرح آتے ہیں۔ اس سے پہلی قسط میں ہم نے لکھاتھا کہ مولوی نورپوری اوران کے ہم نواؤں کے اس دعوے کہ
’’
انکار بخاری دراصل انکارقرآن ہے‘‘
کے برعکس ہمارادعوی ہے کہ
’’
بخاری کی عصمت اور اس میں ایک حرف بھی غلط نہ ماننے کا دعوی دراصل انکار قرآن ہے‘‘
تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ: قرآن کریم میں ہے : وماخلقت الجن والانس الالیعبدون (الزاریات : 56) میں نے جن وانس کواپنی عبادت کے لیے پیداکیاہے۔ آیت کریمہ کا معنی واضح ہے۔ لیکن بخاری نے اس کی اول جلول تفسیرکی ہے : ماخلقت اہل السعادۃ من اہل الفریقین الالیوحدون( صحیح بخاری، ص 719 طبع ہندقدیم) دونوں فریقوں میں سے اہل سعادت کو میں نے نہیں پیداکیامگراس لیے کہ میری توحیدکی گواہی دیں۔ سوال یہ ہے کہ صرف اہل سعادت کوکس دلیل کی وجہ سے خاص کیاجارہاہے، قرآن کے الفاظ توعام ہیں۔ اس میں الف لام جنس کا استعمال ہواہے جس کامفہوم یہ ہے کہ سارے انسانوں اورسارے جنوں کوعبادت کے لیے پیداکیاگیا۔ آپ اہل سعادت کے لیے کیوں خاص کررہے ہیں پھرعبادت ایک وسیع المعنی لفظ ہے آپ اس کوتوحیدسے کس دلیل کی بنیادپر خاص کررہے ہیں؟ صحیح بات تویہ ہے کہ یہ تفسیرنہیں تحریف معنوی ہے۔ اب جوقرآن کوماننے والے ہیں وہ بلاکسی چون وچراکے پکاراٹھیں گے کہ امام بخاری سے اس تفسیر میں غلطی ہوئی ہے۔ اورقرآن کا معنی بے غبارہے جسے بخاری کی تفسیرکی کوئی ضرورت نہیں۔ مگرنورپوری اوران کے جیسے متبعینِ زیغ وضلال اورکج فکرمقلدینِ بخاری وہ اس کو مان کرنہ دیں گے اورطرح طرح کی تاویلیں کرکے بات بنانے کی کوشش کریں گے۔ صرف یہی ایک آیت نہیں بلکہ اس طرح کی متعدد قرآنی آیات کی تفسیر میں بخاری نے لغوی ومعنوی ہرطرح کی غلطیاں کی ہیں۔ اتناہی نہیں آفت تویہ ہے کہ بخاری میں کئی آیات ہی غلط نقل ہوگئی ہیں۔ مثال کے طورپر : امام بخاری نے لکھا ہے : باب قول اللہ تعالیٰ انما امرنا لشئی اذا اردناہ ان نقول لہ کن فیکون۔ (صحیح بخاری، ص ۱۱۱۱) امرَنا غلط ہے، بخاری بھول گئے، آیت میں انما قولنا ہے۔ (النحل :40 ) حیرت ہے کہ بخاری کو کبھی اس غلطی پر تنبہ نہیں ہوا۔ نہ ان کے شاگردوں میں سے کسی نے اس پر ٹوکا۔ سورہ یٰسین میں جہاں امراستعمال ہواہے تووہا ں ہے : اِنماامرہ اذاارادشیئاان یقول لہ کن فیکون ( 82 ) ایک اورجگہ امام بخاری نے اللہ تعالیٰ کا قول ذکر کیا ہے اُذْکُرُونی اَذَکُرْکم۔ (ص ۱۱۲۱) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فَاذْکُرُونی اذکر کم فرمایا ہے جوسورہ بقرہ :152 ) میں ہے۔ سورہ حجر میں آیاہے: والارضَ مددناھا و اَلْقَقینا فیہا رواسِیَ و اَنْبَتْنا فیہا مِن کل شیءٍ مَّوْزُوْنٍ۔ (الحجر:19 ) اور زمین کو دیکھو ہم نے اسے پھیلایا اور اس میں لنگروں کی طرح پہاڑ گاڑ دئیے اور اس میں ہر مطلوب چیز کی جنس سے (بہت کچھ) اُگایا۔ اس میں امام بخاری نے دو غلطیاں کی ہیں۔ ایک تواس کوسورہ شعراء کی تفسیرمیں ذکرکیا ہے حالانکہ سورہ شعراء میں موزون نہیں آیا، دوسرے اس کے معنیمعلوم‘ کے بتادیے ہیں جوعربی کے لحاظ سے صریحا غلط ہے۔ اس طرح کی بے احتیاطیاں اورغلطیاں اوربھی آیات کے نقل کرنے میں ہوئی ہیں۔ حالانکہ قرآن کا مقام روایات سے بہت بلندہے۔ اگرآپ روایات کی تحقیق کررہے ہیں اوران میں اعلی معیارقائم کررہے ہیں توقرآن کے نقل وحوالہ میں اس سے کہیں زیادہ اعلی معیارقائم کرناچاہیے تھا!!
اس بارے میں ہم یہ کہیں گے کہ یہ غلطیاں امام صاحب سے بربنائے بشریت ہوئی ہیں ۔ انہوں نے جان بوجھ کرنہیں کیں۔ اس لیے ان کے مقامِ عظمت میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔ اوریہ غلطیاں بھی اس کی دلیل ہیں کہ وہ انسان تھے ایک بشرتھے اوربشری کام غلطی سے مبرانہیں ہوتا۔ بے خطاہونا توصرف خداوندلازوال کے لیے اوراس کے کلام کے لیے مقدرکردیاگیاہے۔ اسلامی تاریخ میں آتا ہے کہ امام شافعی نے اپنی ایک کتاب میں سومرتبہ حذف وترمیم کی اوراس کے بعدکتاب کوبندکرکے کہا: ویابیٰ اللہ الاان یکون کلامہ معصومافقط(یعنی اللہ تعالیٰ کویہ منظورنہیں کہ اس کے علاوہ کسی اورکے کلام میں غلطی نہ رہ جائے۔
قرآن میں کسی لفظ میں زبرزیر اورشوشہ کا فرق بھی نہیں کیاجاسکتا۔ یہ با ت اور ہے کہ سبعۃ قراء ات یاعشر قراء ا ت کے نام پرمسلمانوں نے اوران کے قراء نے خوب تحریفات کورواج دینے کی کوشش کی ہے۔اورعلم سے تہی علما خاص کرغریب اہل حدیث ان کومتواترقرائت باورکیے ہوئے ہیں اوربے چارہ سادے لوگوں کوباورکرائے جارہے ہیں۔مثال کے طورپر قرائتوں کے اختلاف کی روایتیں، خاص کرسبعۃ احرف کی بحث اورتدوین قرآن کے بارے میں یہ عام موقف کہ قرآن عہد ابوبکرؓ میں جمع و مرتب ہوا، اور یہ کہ رسول اکرم امی بمعنی ان پڑھ تھے۔ اسی طرح یہ قول کہ قرآن مجید کی ترتیب میں اجتہاد کو دخل ہے نہ کہ نص کو۔ مصحف عثمانیؓ سے عبداللہ بن مسعودؓ کے اختلاف کی روایتیں وغیرہ۔ سب سے زیادہ کنفیوژن سبعۃ احرف کی تاویل پیداکرتی ہے۔علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ ہم معنی الفاظ اقبل، ھلم اورتعال میں سے کسی ایک کو اختیارکیاجاسکتاہے، عجل کی جگہ امھل کا استعمال بھی قرآن میں وہی معنی دے گا۔بقول طبری حضوراکرم نے حضرت عمرؓ سے فرمایاکہ قرآن میں ہر طرح کے الفاظ کااستعمال درست ہے۔بشرط یہ کہ تورحمت کی جگہ عذاب اورعذاب کی جگہ رحمت کا لفظ نہ رکھ دے ۔بات صرف اتنی ہی نہیں بلکہ کنز العمال اورالاتقان فی علوم القرآن میں اس قسم کی روایتوں اوراقوال کی کمی نہیں کہ اگر تلاوت میں اعراب کی تبدیلی کی وجہ سے معنی میں تبدیلی ہوجائے تو بھی کوئی حرج نہیں سمجھاجائے گا۔ مثلافتَلّقی آدمُ من ربہ کلماتکو فتُلقی آدمُ من ربہ کلمات، والذین ھم لاماناتھم وعھدہم راعون (المومنون: ۸) کو لامانتھم بصیغہ واحد پڑھنابھی جائز سمجھاگیا۔ الفاظ میں تقدیم و تاخیر اورحروف میں کمی بیشی بھی روا کرلی گئی۔
بہرحال یہاں قراءات کے مثلہ پر ہم زیادہ بحث نہیں کرناچاہتے وہ سردست ہمارے موضوع سے خارج ہیں۔یہاں توہم تویہ سوال کرناچاہتے ہیں کہ نورپوری اوران کے ہم نوامولوی جوبخاری کی عصمتِ مطلقہ کا اعتقادرکھتے ہیں وہ مذکورہ آیت کریمہ کواس طرح پڑھیں گے جیسے وہ متداول ہے اور قرآن میں لکھی ہوئی ہے یا اُس طرح پڑھیں گے جس طرح بخاری نے نقل کیاہے ۔اگروہ اِس طرح پڑھتے ہیں جس طرح متداول ہے تو بخاری کے خلاف کرتے ہیں اورہمارامدعاحاصل ۔اگروہ اُس طرح پڑھتے ہیں جس طرح بخاری میں لکھاہے تو وہ قرآن میں تحریف کے مجرم ہوں گے۔ مزیدمثالیں دیکھیے :
علامہ میرٹھی نے اپنی کتاب صحیح بخاری کا مطالعہ (تیسرا حصہ جو زیرطبع ہے ) میں لکھا ہے۔ کتاب الرقاق۔ کہا ہے باب مثل الدنیا والاٰخرۃ و قولہ تعالیٰ اِنما الحیٰوۃ الدنیا لعبّ و لَہوٌ و زینۃ۔ (صحیح بخاری، ص ۹۴۹)
بخاریؒ سے ذہول ہو گیا جس سے پڑھنے والے غلطی کر سکتے ہیں۔ اس لئے کہ پڑھنے والے اسے اِنَّمَا پڑھیں گے کسرہ (زیر)کے ساتھ حالانکہ قرآن میں اَنَّما ہے فتحہ (زبر)کے ساتھ قرآن شریف میں ہے اعْلَمُوْا اَنَّما الْحیٰوۃُ الدنیا۔۔۔ الآیہ۔ (سورۃ الحدید، ع ۳) بخاری نے ’’اِعلَمُوْا‘‘ ذکر نہیں کیا۔ اسے ساقط کر کے انما کہہ دیا ہے۔
علامہ میرٹھی نے اپنی کتاب صحیح بخاری کا مطالعہ (تیسراحصہ ) میں لکھاہے : ’’کتاب الطب۔ کہا ہے باب لاصفر۔ وہوداء یأخذالبطنَ۔ (صحیح بخاری، ص ۸۵۱) یعنی بخاری کے نزدیک صَفَر ایک بیماری کا نام ہے جسے وہ لگتی ہے اس کے پیٹ میں اینٹھن (تشنج) کے ساتھ درد ہوتا ہے۔ سبحان اللہ بخاری کو یہ خیال نہ ہواکہ اگر صفر کسی بیماری کا نام ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نفی کیوں فرماتے لاصَفَر کیوں کہتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کی نفی فرمائیں بخاری اس کا اثبات کریں۔ توبہ توبہ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد لاصَفَر میں صَفَر سے مراد کوئی بیماری نہیں بلکہ اس نام کا وہ مہینہ ہے جو ماہِ محرم کے بعد آتا ہے۔ جاہلانِ عرب اس مہینے کو بیماریوں کا مہینہ بتایا کرتے تھے۔ لاصفر فرما کر آپ نے ان کے قول کو رد کیا تھا۔‘‘
بخاری کے کتنے ہی فقہی لغوی اورتفسیری اجتہادات، رائیں اوراقوال میں صریح وشدید غلطیاں پائی جاتی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ ان کا کبھی تنقیدی مطالعہ نہیں کیاگیاجس کی وجہ سے کتنی ہی آیات قرآن کی غلط اورباطل تفسیریں امت میں رائج ہوگئی ہیں۔ اوراس کا بڑا سبب علما کا امام بخاری کی یہی ٹھیٹ اندھی تقلیدکا رویہ ہے۔ قرآن اورفہم قرآن سے بالکل نابلدجاہل بعض علماء اہل حدیث بڑے نازاں ہیں کہ میرٹھی صاحب کوخوب گالیاں دے لیں اوردفاع بخاری کا فرض اداکردیا، آہ یہ ظالم یہ نہیں جانتے کہ بخاری کے دفاع سے کہیں بڑا فرض ان پر یہ تھا کہ قرآن کوسمجھنے اورسمجھجانے کی کوشش کرتے !! کیاان غریبوں کوپتہ نہیں کہ خداکے ہاں بخاری ان کا دامن نہیں پکڑے گی ہاں قرآن ضروران کا دامن پکڑے گا اور صاحبِ قرآن رب تعالیٰ سے شکوہ کرے گا: وقال الرسول یارب ان قومی اتخذواہذاالقرآن مہجورا( اورکہارسول نے اے میرے رب میری قوم نے ٹھیرایااس قرآن کو ایک بکواس، الفرقان :30) ہجرقرآن میں یہ بھی داخل ہے کہ اس پر غور و فکر اور تدبر نہ کیا جائے اورتفسیر قرآن کے نام پرحدیث وتفسیرکی کتابوں میں جو آخور جمع ہے اس پر آنکھ بندکرکے یقین کرلیا جائے جیسا کہ ان علماء کا شیوہ ہے۔ فالی اللہ المشتکی ٰ!
قرآن کریم کی ہرسورہ اورہرآیت منظم ومرتب اتری ہے۔یہ توہواہے کہ کوئی سورہ پہلے آئی ہو اورموجودمصحف میں اس کوبعدمیں رکھاگیاہو اور یہ بھی ہوا ہے کہ کوئی سورہ بعدمیں نازل ہوئی ہواورمصحف میں اس کوپہلے جگہ دی گئی ہو۔ کیونکہ اس سے نظم کلام نہیں بگڑتا۔تاہم ایساہرگزنہیں ہواکہ کسی سورہ کی اپنی آیات میں ترتیب نہ رہی ہواوراس میں تقدیم و تاخیرکی گئی ہو۔نہ ایساہواہے کہ کسی مکی سورہ میں مدنی آیت ہویامدنی میں مکی آیت آئی ہو۔ اپنے اس نظریہ پر مفسرمیرٹھی نے اپنی تفسیرمفتاح القرآن میں جابجابحث کی ہے۔ اورجن جن آیات کے بارے میں یہ غلط خیال لوگوں میں گھرکرگیاہے ان کی تفسیرلکھتے وقت ایسی ساری تفسیری اورشان نزول کی روایات پر بحث کرکے انہوں نے دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی کردیاہے۔شان نزول کی روایتوں نے یہ تصورعام کیاہے۔جو ہمارے نزدیک اس لیے غلط ہے کہ اس سے کتاب اللہ میں نقص لازم آتاہے۔چاہے اس قسم کی رواتیں بخاری ومسلم میں آئی ہویاکسی اورکتاب میں۔ اس طرح مفسرمیرٹھی کا یہ قطعی خیال ہے کہ کوئی آیت ناقص نازل نہیں ہوئی۔ یوں کہ اس کا ایک فقرہ پہلے نازل ہواہواوردوسرافقرہ اس کے کچھ دنوں بعد۔جیساکہ شان نزول کی روایتیں بکثرت بتاتی ہیں کہ قرآن کی متعدد آیات تکڑوں اورفقروں میں نازل ہوئیں۔ یہاں تک کہ یہ روایتیں یہ بھی کہتی ہیں کہ واوعاطفہ یافائے عاطفہ سے کوئی آیت یااس کا فقرہ شروع ہورہاہے۔ اور ماسبق ومابعدسے بالکل کٹاہواتسلیم کرلیاگیاہے۔ اوریہ محض شان نزول کی روایتوں کے سبب ہوا ہے۔ جوبخاری ومسلم اوردوسری کتب حدیث میں آئی ہیں۔ انہیں روایات کی بنا پر مفسرین بھی اسی بے تکی رائے کوبیان کرتے چلے گئے ہیں کہ فلاں آیت یااس کا فلاں ٹکڑا فلاں موقع پر نازل ہوا۔ فلاں آیت اتری تواس پر فلاں اشکال یا سوال پیداہوا تو اس کا جواب دینے کے لیے فلاں آیت یااس کا فلاں فقرہ نازل ہوا۔ بھلا بتائیے کہ کیا اس قسم کی کانٹ چھانٹ یابے ربطی کسی انسانی کلام میں آپ کوگواراہوتی ہے۔ ظاہرہے کہ نہیں ہوتی۔ پھریہ ظلم اللہ کی کتاب میں کیوں گواراکیا جارہاہے؟ محض شان نزول کی روایتوں کوبچانے کے لیے۔ محض بخاری ومسلم کی ثقاہت کوبچانے کے لیے۔
محض بخاری ومسلم کی عصمت کا اعتقادباطل رکھنے والو! کیاتم میں اتنی علمی جرأت وہمت بھی نہیں کہ عقل عام جس چیز کوببانگ دہل غلط کہ رہی ہواُسے تم غلط کہنے کی جرأت کرسکو! کیاتم اپنے ذاتی مفادات کے وقت بھی بزرگوں اوراسلاف کی ایسی ہی اندھی بہری تقلیدکرتے ہوجیسی تم نے قرآن کے معانی، اس کے ترجمہ اوراس کے نظم کلام کے ساتھ رواکررکھی ہے!!اوراس کے لیے تم رجال کے دفترکھنگالتے ہو، قدیم تفسیروں کے ذخیرہ اورعلوم القرآن پر لکھی گئی بے مغزاوربے روح کتابوں اوربحثوں کا حوالہ دیتے ہو اور یہ ساری مشقت صرف اس لیے کہ تم اِن سب چیزوں کے ذریعہ کتاب اللہ کومغلوب کرکے دکھادو!!کیااسلاف، ان کے خیالات اوران کی تحریروں کا درجہ کتاب اللہ سے بھی بڑھ گیا!! کہ ان کی تقلید میں بڑی آسانی سے اورٹھنڈے پیٹوں قرآن میں ہرتحریف گواراکرلیتے ہو!!
مفسرین سلف نے شان نزول کی روایتوں کے زیراثرکس طرح ٹھوکرکھائی ہے اس کی دومثالیں عرض کرتاہوں۔
۱۔ آیت کریمہ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا(المائدہ: 3 ) اپنے ماقبل ومابعدسے پوری طرح مربوط ہے ۔اورایک ہی سلسلۂ بیان میں عمرۃ القضاء سنہ سات ہجری میں نازل ہوئی۔ یہ پوری سورہ سورہ بھی اسی وقت سفر میں اتری ہے۔ مگرشان نزول کی روایات بتاتی ہیں کہ سورہ مائدہ عمرۃ القضاء کے موقع پر نازل ہوئی اوراس کی مذکورہ آیت پورے تین سال بعدحجۃ الوداع کے موقع پر مقام عرفہ میں اتری۔ ظاہرہے کہ اگربات ایسی ہے تومسلمان تین سال اس سورہ کوناقص پڑھتے رہے اورتین سال بعداس کواس سورہ میں موجودہ مقام پر گھسایاگیا۔ یہ عقل میں آنے والی بات نہیں ہے ۔اس لیے مفسرمیرٹھی نے اس رائے سے اختلاف کیاہے اوربتایاہے کہ پوری سورہ ایک ہی تسلسل میں عمرۃ القضاء کے بعدنازل ہوئی ہے۔اورشان نزول کی یہ روایت درست نہیں ہے۔مولوی نورپوری صاحب نے ایڑی چوٹی کا زورلگاکریہ ثابت کیاہے کہ سورہ مائدہ کا کچھ حصہ فتح مکہ کے موقع پر نازل ہوااورآیت کریمہ الیوم اکملت لکم دینکم حجۃ الوداع کے وقت ۔اس طرح اپنی دانست میں انہوں نے شان نزول پرواردہونے والے اشکال کا جواب دے دیا۔اوربخاری کی روایات کے دفاع کا فریضہ بھی اورمفسرمیرٹھی کوگالیاں بھی جوان کا فرض طبعی ہے!مگرعقل سے کورے مولوی کویہ احساس نہیں ہوسکاکہآپ نے سورہ مائدہ کا وقت نزول عمرۃ القضاء سن سات سے آگے بڑھاکرفتح مکہ قرار دے کرکون ساتیرمارلیا۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ وقت کم ہوگیامگرپھربھی آیت کے ماقبل ومابعد میں ایک سال کا فرق تواب بھی رہ گیااورجواشکال ہے وہ علی حالہ اپنی جگہ باقی، اس کا کیاجواب ہوگا!
سورہ البقرہ کی آیت کریمہ فلنولینک قبلۃ ترضاھا (: 144) کا صحیح ترجمہ ہے : تجھے اس قبلہ کا والی بنادیں گے جس کوآپ پسندکرتے ہیں۔اس کا مشہورعام ترجمہ ہے : ہم تجھے اس قبلہ کی طرف پھیردیں گے جوآپ کوپسندہے۔اشکال اصل یہ ہے کہ ولیّ کا ترجمہ عربی زبان میں پھیرنانہیں ہوتا۔پھیرنے کے معنی میں جب ہی استعمال ہوتاہے جب اس کے صلہ میں الی ٰ یااسی طرح کا اورکوئی لفظ آئے ۔اب ہمارے مفسرین نے ا س آیت کریمہ کوشان نزول کی روایتوں سے سمجھاتوانہوں نے اس کی تفسیرتحویلِ قبلہ کی روایات سے کی ۔مفسرمیرٹھی کے سامنے یہ اشکال آیاتوانہوں نے لغت عرب کی طرف رجوع کیا۔ اورلغت عرب میں ان کواس کی کوئی نظیرنہیں ملی کہ ولیّ بغیرکسی صلہ کے پھیردینے کے معنی میں آتاہو۔ تب انہوں نے تحویلِ قبلہ کی تحقیق کی اوران کی تحقیق میں یہ ساری روایات جوبخاری ومسلم اوردوسری کتب حدیث میں ہیں کمزورنظرآئیں لہذانہوں نے آیت کی تفسیرکامداران پر نہیں رکھابلکہ قرآن کے نظم سے جومعنی ٰنکل رہے تھے وہی معنی لیے۔بے چارے ابویحی ٰنورپوری فہمِ قرآن سے توبے بہرہ ہیں ہی عقل سے بھی پیدل ہیں۔فقہ کی بات آئے تووہ عدم تقلیدکی بات کرتے ہیں مگرتفسیروحدیث کی تحقیق میں سابق مفسرین ومحدثین کی جامدتقلیدہی ان کا سرمایہ ہے۔ (پھربھی غیرمقلدہونے کا دعوی!) چنانچہ یہ بے چارے میرٹھی کے تفسیری اشکالات کاتوکوئی معقول جواب دے نہیں سکے ۔دورکی ایک کوڑی لائے کہ قبلہ کا معنی خودجہت ہوتاہے اس لیے اس میں صلہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کوپتہ نہیں کہ میرٹھی کواعتراض قبلہ پرنہیں ولیّٰ کا ترجمہ پھردیناکرنے پرہے۔جس کی کوئی دلیل انہوں نے کلام عرب سے پیش نہیں کی! تحویلِ قبلہ کی بحث میں کہاجاتا ہے کہ جب مدینہ جاکرقبلہ تبدیل ہواتوصحابہؓ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ’’ہمارے جوبھائی بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازیں پڑھتے رہے ہیں اوراسی پر ان کی وفات ہوگئی ہے، شایدان کی نمازیں قبول نہ ہوں گی‘‘ اس اشکال کے ازالہ کے آیت وماکان اللہ لیضیع ایمانکم ( : 143) اتری ۔اس شان نزول پر مفسرمیرٹھیؒ کواعتراض یہ ہے کہ ’’اطاعت موجودہ حکم کی ہی کی جاسکتی ہے۔ نہ کہ ا س حکم کی جوہنوزآیاہی نہ ہوپھرحکم نفاذکے بعدہی فرماں برداری اورنافرمانی کی کسوٹی بنتاہے۔ موجودہ حکم کی تعمیل کرتاہواجوشخص دنیاسے رخصت ہواہے ا س کے مرجانے کے بعدحاکم اس حکم کے بجائے دوسراحکم نافذکرے تومرنے والے شخص کے متعلق کسی بھی عقل مندکوشبہ نہیں ہوسکتاکہ اس نے جوموجودہ حکم کا زمانہ نہ پانے کی وجہ سے اُس پر عمل نہ کیاتووہ حاکم کا فرماں بردارسمجھاجائے یانافرمان ‘‘۔مولوی ابویحیٰ اس اصولی اورقانونی اورعاقلانہ اشکال کا کوئی جواب نہیں دے سکے ۔کیونکہ ا س کا کوئی جواب ہے ہی نہیں۔صرف تیرتکے لوگ چلاتے ہیں۔چنانچہ انہوں نے بھی حدیث نافق حنظلۃ پیش کی ۔لیکن اتنی تمیز نہیں کہ حدیث نافق حنظلۃ میں ایک عارضی کیفیت کوبتایاگیاہے، اس میں کوئی قانونی اوراصولی بات نہیں ہے۔اسی طرح وہ آیات قرآنیہ پیش کی ہیں جن میں لوگوں کے سوالوں کاجواب دینے کے لیے آپ وحی کا انتظارفرماتے تھے ۔اس طرح کی بعض اول جلول باتیں کہ کراصل سوال سے کنی کاٹ گئے ہیں۔ظاہرہے کہ علماء سابقین کی اندھی تقلیدکریں گے، اپنے دل ودماغ کوبندکرکے رکھیں گے تویہی انجام ہوگا۔
تحویل قبلہ سے متعلق ہی آیت قدنری تقلب وجھک فی السماء ( البقرہ 144: ) جس کا مشہورعام ترجمہ یہ کیاجاتاہے کہ ہم آپ کے چہرہ کا باربارآسمان کی طرف اٹھنادیکھ رہے ہیں۔مفسرمیرٹھی نے ترجمہ کیاہے : ہم عالم بالا میں آپ کی بے چینی کامشاہدہ فرما رہے ہیں۔مشہورعام پرترجمہ پر اشکال یہ ہے کہ : تقلب وجہ کا معنی چہرہ کا باربارآسمان کی طرف اٹھناعربیت کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔اوراسی طرح فی السماء کا ترجمہ الی السماء کرناصحیح نہیں۔نورپوری نے یہاں بھی ڈنڈی ماری اورمختلف مفسرین کے اقوال نقل کرکے تقلب وجہ کا معنی ’’چہرہ کا باربارآسمان کی طرف اٹھنا‘‘ثابت کرناچاہاہے۔حالانکہ مفسرین سلف کے یہ اقوال میرٹھیؒ کوتسلیم نہیں کیونکہ وہ سب شان نزول کی روایات کے تابع ہیں۔جن کے اقوال کوتسلیم نہیں کیاجارہاہے وہ میرٹھی کے خلاف حجت کیسے بن جائیں گے۔ علمی بحث میں دلیل تودی جاتی ہے توفریقین کے قابل تسلیم ہو۔اسی طرح ابن قتیبہ دینوری کا ایک آدھاادھواراقتباس، جس سے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی، نقل کرکے وہ عبث ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’فی کوالی‘‘کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ پورااقتبا س دیتے توسیاق وسباق سے پتہ چلتاکہ ابن قتیبہ کیاکہناچاہتے ہیں۔اتنی موٹی سی بات ان لوگوں کی عقل میں نہیں آتی ہے کہ بھلاآدھی آیت، آیت کا کوئی فقرہ جس پر حرف عطف داخل ہے یافائے عطف داخل ہے، آگے پیچھے سے کٹاہواکس طرح نازل ہوسکتاہے۔اللہ کے کلام معجز نظام کی سب سے بڑی خوبی اورجمال وخوبصورتی نیز اس کی حیرت انگیز تاثیراس کے نظم اورصوتی نظام میں ہی توپنہاں ہے۔ اور یہی اس کی بلاغت کی جان ہے۔ اوراس کے نظم وبلاغت ہی میں توتحدی ہے جس کے آگے سارے فصحاء وبلغائے عرب ڈھیرہوگئے تھے۔ قرآ ن کریم کتاب ہدی ہے۔ وہ دنیاکی ہربڑی سے بڑی کتاب سے عظیم تر، ہربلند نوشتہ سے بلندتر نوشتہ ہے۔ قرآن کی عظمت، رفعت نزاکت، لطافت اورملاحت تک پورا بار پانا لفظی و معنوی ہراعتبارسے انسانی حدود سے ماوراء ہے۔اس کا مرتبہ بلاغت اعلی، بے نظیراورحد بشری سے مافوق ہے ۔اس کی ایک ایک آیت میں جس شدت کا زور اورایک ایک ترکیب میں جس غضب کی تاثیرہے اسی سے یہ ممکن ہوسکاکہ عربوں کے پتھردل موم ہوکررہ گئے ۔ان کے دل ودماغ میں ایک انقلاب برپاہوگیا، اور بڑے سے بڑامخالف عربی ادیب وشاعر پکاراٹھاکہ: ان لہ لحلاوۃ وان علیہ لطلاوۃ ان اعلاہ لمثمروان اسفلہ لمغدق انہ یعلوولایعلی علیہ مااتی علی شےء الاحطمہ۔یہ ولیدبن مغیرہ کاقول ہے۔جوایک بار نبی اکرم کی خدمت میں آیا تو آپ نے اسے قرآن پڑھ کرسنایا۔ وہ بڑا متاثر ہوا اور چپ چاپ چلاگیا۔ قریش کوجب یہ خبر ملی تو لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ تو ابوجہل ولیدکے پاس آیا اور بولا: یاعم! محمدکے بارے میں کچھ ایسی بات کہدیجئے جس سے لوگ مطمئن ہوجائیں کہ آپ اس کے دعوے کوسچ نہیں سمجھتے، ولیدنے کہا: آخرکیاکہوں؟ بخدا شعر، رجز، قصائد، جنوں کاکلام، یعنی کلام عرب کی ان سب صنفوں کو میں سب سے زیادہ جانتاہوں لیکن خدا کی قسم یہ شخص جوکلام پیش کررہاہے، وہ ان میں سے کسی بھی چیز کے مشابہ نہیں۔ بخدا اس کلام میں عجیب حلاوت ہے، اورایک خاص طرح کا حسن ہے۔اس کی شاخیں پھلوں سے لدی ہوئی اوراس کی جڑیں بالکل شاداب ہیں۔یقیناًوہ ہرکلام سے بلندہے اورکوئی دوسراکلام اسے نیچا نہیں دکھا سکتا ۔ بے شک وہ ہراس چیز کو توڑکررکھ دے گاجس پر وہ آئے گا۔ (الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، جلددوم صفحہ ۵۰۶ طبع دائرۃ المعارف دکن ۱۳۳۴ء )
کیااتناعظیم اوررفیع الشان کلام راویوں کی اس بے ہودگی کا متحمل ہوسکتاہے جس کا بوجھ نورپوری جیسے لوگ ڈھورہے ہیں؟
( جاری )
__________________
بلاگ:http://studyhadithbyquran.blogspot.com
كان شعبة بن الحجاج بن الورد يقول لأصحاب الحديث:"يا قوم! إنكم كلما تقدمتم في الحديث تأخرتم في القرآن"
قرآن کے اثر کو روک دینے کیلئے : ہم پہ راویوں کا لشکر ٹوٹا