Thursday, September 12, 2013

وہ کس جرم میں مارڈالی گئی ۔



وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ (81:8)
اور جب لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا (81:8)
When the female (infant), buried alive, is questioned
اورجب قبرمیں زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھاجائے گاکہ وہ کس جرم میں مارڈالی گئی ۔(التکویر:8)

انٹرنیٹ پر یہ جوخبرگردش کررہی ہے کہ یمن میں ایک چالیس سالہ مردنے ایک آٹھ سال کی معصوم لڑکی سے نکاح کیااورنکاح کی پہلی ہی رات میں اس سے مباشرت کی جس کی وجہ سے اس لڑکی کے اندرونی اعضاءسخت متاثرہوئے اورمسلسل خون نکلنے سے وہ مرگئی ۔اناللہ وانا الیہ راجعون ۔یہ دل دہلانے والی خبر(اگروہ صحیح ہے )سچ پوچھیے تواسلام کے ٹھیکہ داروںکا نوحہ ہے۔یہ خبر یہاں دہلی میں میں نے انگریزی اخباردی ٹائمز آف انڈیامیں (The Times of India 11September) میں پڑھی ،جس میں یہ بھی تھاکہ یمن میں بہت سے غریب ماں باپ اپنی چھوٹی لڑکیوں کوکچھ رقم کے عوض مال دارعرب شیوخ سے بیاہ دیتے ہیں۔اس قسم کے عیاش اورمالدارعرب شیوخ سے متعلق اس طرح کی کہانیاں میڈیا میں مسلسل گردش کرتی رہتی ہیں۔ہندوستان میں آندھراپردیش کا حیدرآبادان منچلوں کی خاص شکارگاہ ہے۔خبرمیں یہ بھی بتایاگیاکہ جب خون بہت نکلااورلڑکی کی حالت نہیں سنبھلی تواس کواسپتال لیکرگئے مگرخون زیادہ بہنے کی وجہ سے ڈاکٹربھی کچھ نہیں کرسکے اوراس معصوم کا انتقال ہوگیا۔خبرمیں یہ بھی بتایاگیاکہ قبیلہ کے شیوخ نے اس خبرکوچھپانے کی بھرپورکوشش کی اورمقامی صحافی جس نے اس کی رپورٹنگ کی تھی کوجان سے مارڈالنے کی دھمکی بھی دی ۔وہ تو کہیے کہ حقوق انسانی کے کسی کارکن کی جرا ت سے یہ اندوہناک خبرباہرآسکی ۔
سوال یہ ہے کہ کیااس کے مجرم ہم عام مسلمان نہیں ہیں ۔جنہوں نے اپنے دین کوماضی کے فقہاءاورحدیث کے راویوں کے توہمات کا اسیرکررکھاہے ؟ہمارادین دین ِفطرت ہے ۔اورفطرت کا فیصلہ یہ ہے کہ بالعموم لڑکیاں14-15سال سے پہلے بالغ نہیں ہوتیں۔بعض استثناءہوسکتے ہیں جوکسی قاعدہ کی بنیادنہیں بنتے ،جبکہ لڑکوںمیں بلوغ کاعمل13۔14سال کی عمرمیں ہی شروع ہوجاتاہے ۔تاہم نکاح اورشادی کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے کم سے کم 16سال کی عمرتوقانونامقررکی ہی جانی چاہیے جس سے پہلے کسی لڑکی سے شادی اوراس سے مباشرت پر قانونی پابندی ہونی چاہیے ۔ ہمارے ملک ہندوستان میں یہ عمرلڑکی کے لیے 18سال اورلڑکے کے لیے 21 سال ہے ۔ لیکن ہمارے معاشرہ میں راویان ِحدیث کی کم فہمی اورفقہاءوعلماءکی نارسائی کے باعث امت میں اس خیال نے قبول ِعام حاصل کرلیاہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کا حضور سے نکاح 6سال کی عمرمیں ہواتھااوررخصتی 9سال کی عمرمیں ۔حالانکہ جن روایات میں یہ عمرآئی ہے ان کی بہترتوجیہ کی جاسکتی کہ راوی سے ایک عددچھو ٹ گیاہے اوراصل متن میں 16رہاہوگا۔مگرہم ٹھیرے اسلاف کے اندھے بہرے مقلداس لیے ان کی رائے سے ہٹ کرکچھ سوچ ہی نہیں سکتے !اب ذراسوچےے جب ام المومنین کی رخصتی 9سال کی عمرمیں ہوسکتی ہے تو پھرکسی وحشی عرب کواپنی جنسی ہوس پوری کرنے کے لےے آٹھ سال کی کسی معصوم کلی کوکچلنے اوربالآخراسے مارڈالنے میں باک بھلا کیوں کر ہوگا! کیاہم اورہماری فرسودہ اوردیمک زدہ ماضی کی تقدیس کرنے والی فکراس معصوم کی گناہ گارنہیں ! اوراگرمغرب کے لوگ ہم کواجڈ اورگنوارقرار دیں توکیاوہ حق بجانب نہ ہوں گے ؟ کیاہم اس معصوم کے گناہ گارنہیں؟

Mohammad Ghitreef 

No comments:

Post a Comment