Monday, September 2, 2013

دوسری قسط تبصرہ برصحیح بخاری کا مطالعہ اورفتنہ انکارحدیث




دوسری قسط تبصرہ برصحیح بخاری کا مطالعہ اورفتنہ انکارحدیث

ڈاکٹرغطریف شہباز ندوی *

ایک دوسراالزام صحابہ کرام کی شان میں گستاخی :

اپنی گستاخیوں،بدتمیزیوں،شرارت اورجہل مرکب میں مبتلامولوی نورپوری جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے گئے اوران کے طائفہ کے تینوں مولویوں اور سرپرستوں نے ان کوٹوکانہیں بلکہ ان کے اس کارنامے پر خوب بغلیں بجائیں۔چنانچہ دوسراالزام اس بے چارے جہل میں مبتلامولوی نے یہ لگایاکہ علامہ شبیراحمدصحابہؓ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں:لکھاہے کہ: ’’صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی شبیراحمدازہرمیرٹھی صاحب کی مرغوب عادت ہے ۔جسے وہ بہانے بہانے سے پوراکرتے رہتے ہیں۔(صفحہ 170)دلیل میں نورپوری نے ایک راوی طارق بن شہاب بجلی پر علامہ میرٹھی کی تنقیدکوپیش کیاہے۔طارق بن شہاب بجلی ایک تابعی ہیں علامہ میرٹھی کی تحقیق میں ان کی صحابیت ثابت نہیں ،البتہ بعض اہل علم نے ان کوصحابی بھی کہاہے۔چونکہ ان کی صحابیت مشکوک یاکم ازکم مختلف فیہ ہے اور اگرعلامہ میرٹھی ان پر تنقیدکرتے ہیں تو اس کوصحابی کی شان میں گستاخی کیسے قراردیاجاسکتاہے؟آپ کومیرٹھی ؒ تنقیدسے اختلاف ہے تودلائل کی روشنی میں اختلاف کیجئے ،کس نے آپ کوروکاہے ۔جب یہ آپشن موجودہے تواس کواختیارنہ کرکے اپنی طرف سے لچراوربودا الزام کیوں گھڑتے ہیں!یہ تومنافقوں کی علامت ہوئی کسی صاحب ایمان کی نہیں ۔کہ صحیح حدیث میں منافق کی علامتوں میں آیاہے:واذاخاصم فجر(جب کسی سے بحث کرے توفجوراورگالم گلوج اورالزام تراشی پراترآئے )۔نورپوری کذاب نے طارق بن شہاب بجلی کومسلمہ طورپر صحابی مان کرپوری بحث کی ہے۔اورعلامہ میرٹھی پر طارق پر جرح کرنے کی وجہ سے خوب لعن طعن کی ہے۔حافظ ابن حجرنے طارق بن شہاب بجلی کے بارے میں لکھاہے :رأ النبی وروی عنہ مرسلا ۔۔۔قال ابوداؤدرأ النبی ولم یسمع منہ شیئا،وقال ابن ابی حاتم لیست لہ صحبۃ :(تہذیب التہذیب ،المجلدالخامس،الطاء ص۴ الطبعۃ الاولی1984 دارالفکرللطباعۃوالنشروالت وزیع) ابن حجرکی اس تصریح سے ثابت ہوتاہے کہ زیربحث طارق کے بارے میں تین اقوال ہیں ابن حجراورابوداؤدنے نبی کودیکھنے مگر کچھ نہ سننے کی صراحت کی ہے جبکہ ابن ابی حاتم نے یہ صراحت کی ہے کہ ان کوشرف صحابیت بھی نہیں ملا۔اب فیصلہ کس طرح ہوگاتواس بارے میں یہ مسلمہ حقیقت سامنے رکھیے کہ ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کوئی منصوص چیز نہیں ہیں۔بلکہ سراسراجتہادی چیز ہیں اوردلیل وحجت کی روشنی میں ان سے اختلاف کیاجاسکتاہے ۔علامہ میرٹھی کا رجال کے بارے میں ایک دقیق اصول جوان کی کتابوں کومسلسل پڑھنے سے معلوم ہوتاہے ،یہ ہے کہ وہ محض ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کوسامنے رکھ کرکسی نتیجہ پر نہیں پہنچتے بلکہ راوی کوجاننے کے لیے اس کی جملہ مرویات کوسامنے رکھ کراس کی شخصیت کے بارے میں حقیقت کا پتہ لگاتے ہیں۔یہ چیز اپنے آپ میں بڑی دقت طلب اورپتہ ماری کی ہے مولوی نورپوری جیسے گستاخوں اورسلف کی اندھی تقلیدکرنے والوں کی بس کی بات نہیں۔بہرحال اپنے اسی اصول کوسامنے رکھ کرعلامہ میرٹھی نے طارق بن شہاب بجلی کی مرویات کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکالاکہ یہ صحابی نہیں ہیں اوران کی روایات میں بہت سی غلطیاں ہیں۔لیکن ایسے شخص کومسلمہ صحابی مان کرنورپوری طارق بن شہاب پر میرٹھی ؒ کی تنقیدسے یوں تلملائے اوران کے تن بدن میں آگ لگ گئی کہ انہوں نے میرٹھیؒ کوخردماغ ہونے اوران کی عقبی ٰخراب ہونے کی بات تک کہ ڈالی ۔لیکن وہ خودعقل ودماغ سے بالکل عاری ہوچکے ہیں اورنوجوانی میں ہی سٹھیارہے ہیں اورچلے ہیں علامہ میرٹھی جیسے جبل العلم کے منہ آنے ؂ دامن کوذرادیکھ ذرابندقبادیکھ !

ایک اوردعوی ’’انکاربخاری انکارقرآن ہے‘‘!

اپنے جہل مرکب میں مبتلانورپوری گستاخ نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ یہ بھی دعوی کیاہے کہ انکارِبخاری دراصل انکارقرآن ہے ‘‘۔پہلی بات تویہ ہے آپ کا یہ دعوی ہی غلط ہے کہ بخاری کاانکارکیاجارہاہے ۔علامہ میرٹھی نے بخاری کا انکارکہاں کیا؟وہ توامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت علمی کے آپ سے زیادہ معترف ہیں۔اپنی کتا ب کے مقدمہ میں ہی لکھتے ہیں کہ ‘‘بخاری ومسلم امت کے گرامی مرتبہ محسنین میں سے تھے ۔‘‘(بخاری کا مطالعہ جلداول ص۱ ،ہندوستانی ایڈیشن)آپ میں اوران میں فرق یہ ہے کہ آپ اپنی جہالت اورغرورعلم اورپستئ کردارکے باعث بخاری کوبت بنائے بیٹھے ہیں اوربخاری کی کسی روایت پر تنقیدسے جیسے آپ کی جان نکل جاتی ہے ایمان خطرہ میں پڑجاتاہے ۔چونکہ بخاری کو علامہ نے ؒ عمر بھر پڑھا اور پڑھایاہے اورپڑھابھی انتہائی دقت نظرسے ،تحقیق سے اورغوروفکرسے اس لیے بخاری کے مالہ وماعلیہ سے بھی وہ آپ سے ہزاردرجہ بہترواقف ہیں۔بخاری کے کارنامۂعظیم کی صحیح قدربھی وہی کرسکتے ہیں اوراس میں جوکچھ خلاء رہ گئے ہیں ان سے بھی وہی واقف ہیں۔صحیح بخاری سے اچھی طرح اوردقت نظرسے واقف ہونے کے باعث وہ کہ سکتے ہیں کہ ؂ مستندہے میرافرمایاہوا
نورپوری اوران کے ہم نواتینوں مولوی اہل حدیث ہیں ۔اس فرقہ کوسب سے زیادہ دوسروں کے عقائدناپنے کی فکررہتی ہے مگراپنی ذہنی بیماری ،عقلی وعلمی افلاس اوربدعقیدگی پرکوئی نظرنہیں ہے ۔ ہمارے نزدیک بخاری کوقرآن کے ہم پلہ قراردیناخودایک بڑی بدعت ،بدعقیدگی اورپرلے درجہ کی جہالت ہے ۔سوال یہ ہے کہ قرآن توحرفااورمعنیً منزل من اللہ ہے ۔بخاری دوسری صدی ہجری میں لکھی گئی کتاب ہے ۔امام بخاریؒ قرون مشہودلہابالخیر(یعنی صحابہؓ تابعینؒ اورتبع تابعینؒ تینوں کا زمانہ )کے بعدکے ہیں۔اب سوال یہ ہے بخاری پراگرایساہی ایمان لاناضروری تھا، اس کی عصمت کا اعتقاد اگرایساہی ضروری تھاتوصحابہ ،تابعین اورتبع تابعین ان تینوں کے زمانہ میں تویہ کتاب ہی نہیں لکھی گئی تھی پھران حضرات کے ایمان کا کیا ہو گا ؟ذرااہل حدیث جغادری اس سوال کا جواب دیں؟
ظاہرہے کہ قرآن کتاب منزل ہے ۔اس کے حروف اورمعانی سب اللہ کی طرف سے ہیں جبکہ حدیث کا معاملہ ایسانہیں ہے ۔حدیث کومن حیث المجموع وحی غیرمتلوکہاجاتاہے ۔حدیث کی کسی ایک متعین کتاب (مثلابخاری ومسلم ) کووحی متلوکا کامل مجموعہ نہیں کہاجاسکتاہے ۔ پھریہ ہے کہ حدیث کابہت چھوٹاساحصہ ہے جس کوباللفظ بھی روایت کیاگیاہے زیادہ ترحدیثیں بالمعنی ہیں۔متواترحدیثوںیاحدیث قدسی کی بات الگ ہے ۔ البتہ وہ بھی کسی ایک کتاب کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔وجہ صاف ظاہرہے کہ قرآن کتاب منزل من اللہ ہے حدیث کی کوئی کتاب بعینہ منزل من اللہ ہرگز نہیں ہے ۔بحیثیت مجموعی حدیث کتاب اللہ کی شرح یقیناہے ۔مگرکسی شرح کواصل متن پرفوقیت حاصل نہیں ہوتی ۔ امام شافعی کے نزدیک حدیث سراسرکتا ب اللہ ہی سے مستنبط ہے لہذاوہ کتاب اللہ ہی کے تابع ہوگی اس پر حاکم نہیں۔
یہ تواصولی بات ہوئی اب رہی یہ بات کہ بخاری کے حرف بہ حرف صحیح ہونے پر امت کا اجماع ہے ۔توپہلی بات تویہ ہے کہ صحیح قول کے مطابق جیساکہ امام شافعی ؒ کہتے ہیں اجماع صرف صحابہ کا معتبرہے (یہی امام ابن تیمیہ کا بھی موقف ہے ) بعدوالوں کا نہیں ۔(دیکھیں:ڈاکٹرغطریف شہبازندوی ڈاکٹرمحمدحمیداللہ ،مجددعلوم سیرت ،فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز نئی دہلی طبع 2004)اورپھراجماع شرعیات میں ہوتاہے اخبارووقائع میں نہیں۔اس لیے یہ کہنااصولی طورپربالکل غلط ہے کہ کہ بخاری ومسلم کی مطلق عصمت وصحت پر اجماعِ امت ہوچکاہے ۔کیونکہ بخاری ومسلم عہدصحابہ تو کجا عہدتابعین وتبع تابعین کے بھی بعدکے ہیں۔یعنی قرون مشہودلہابالخیرکے بعدکے ۔لہٰذااجماع کا دعوی توبالکل ہی درست نہیں ۔ بخاری کی جلالت شان کے پیش نظرکسی نے یہ بات کہ دی تھی کہ اس میں کوئی حدیث ضعیف نہیں اسی کولوگ نقل درنقل کرتے چلے گئے ۔اورنقل درنقل کواجماع نہیں کہاجاتا۔ جیساکہ علامہ میرٹھیؒ خودلکھتے ہیں: عمومااہل علم ونظرکوصحیح بخاری کی حدیثوں کوپرکھنے سے تین وجوہ نے روکاہے ۔اول : یہ کہ کسی نے اس کے متعلق یہ مبالغہ آمیز بات کہ دی تھی کہ اصح الکتاب بعدکتاب اللہ صحیح البخاری ایسی ہی مبالغہ آمیز بات پہلے امام مالک کی مؤطاکے بارے میں کہی گئی تھی مگر صحیح بخاری کے متعلق کہی گئی بات زیادہ پھیل گئی ۔بے علم واعظین اورغیرمحتاط مصنفین نے اسے خوب ہوادی ۔۔۔ ۔۔۔یہ مبالغہ آمیز جملہ نہ صرف پڑھے لکھے بلکہ تمام دیندارمسلمانوں کے دلوں میں بیٹھاہواہے ۔اس لیے اورتواورعلماء کے تصورمیں بھی نہیں آتاکہ صحیح بخاری میں کوئی ایسی بھی حدیث ہوسکتی ہے جس کی صحت میں کلام کرنے کی گنجائش ہو۔کسی حدیث کے متعلق یہ معلوم ہوجائے کہ وہ صحیح بخاری میں ہے علی الفوراس کی صحت کا یقین کرلیاجاتاہے ۔۲۔اسی کا یہ برانتیجہ نکلاہے کہ صدیوں سے صحیح بخاری کورحمت وبرکت کے حصول اور دعاؤں کی پذیرائی کا تیربہدف ذریعہ اورنقدونظرسے بالاترمقدس کتاب ماناجاتاہے ۔۔۔۔۳۔صحیح بخاری کی حدیثوں کے معنی ومطلب سے خود علماء کرام کی بے توجہی کا حال بھی بڑاماتم انگیز ہے ۔۔۔۔۴۔ خودامام بخاری کے حفظ وضبط کی اعجازی قوت اورتیقظ کے متعلق بھی تذکرہ نویسوں نے افراط وتفریط میں گندھی ہوئی حکایتیں وضع کرڈالی ہیں جوصحیح بخاری کی دراست کے آغاز میں طلبہ کوسنائی جاتی ہیں ۔ حالانکہ خود صحیح بخاری کی شہادت یہ ہے کہ اس لحاظ سے امام بخاری کوئی غیرمعمولی شخص نہ تھے ۔وہ ایک ثقہ محدث تھے اوردیگرثقہ محدثین کی طرح بخاری کے یہاں بھی بھول چوک اورقصوربیان اورغلط فہمی کی سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔الغرض امام بخاری وصحیح بخاری کے متعلق پھیلائی ہوئی مبالغہ آرائیوں کی وجہ سے عرب وعجم کے اہل علم ونظرصحیح ڈھنگ سے صحیح بخاری کا مطالعہ کرنے سے قاصررہے ۔(17 دیکھیں خاتمہ صحیح بخاری کامطالعہ قسط دوم صفحہ 382تا384)

صحیح بخاری پر ماضی میں جوتنقیدیں ہوئی ہیں ان کے سلسلہ میں تھوڑی سی تفصیل راقم کے ایک مقالہ :علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ؒ کی خدمات حدیث کا مطالعہ وجائزہ ‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے :یہ مقالہ اس سائٹ پر موجودہے:

فتنۂ انکارِ قرآن ، کب اور کیسے ؟: Interpretation of Quran Verse by Sahih Bukhari Hadith

ہمیں تسلیم ہے کہ بہت بڑے بڑے محدثین ،ائمہ اورعلماء یہی مانتے ہیں کہ صحیحین کی صحت پر اتفاق ہے اوران کی کسی حدیث پر نقدکرناصحیح نہیں ہے لیکن ہماراکہنایہ ہے کہ یہ ان کی رائے ہی توہے کوئی نص شرعی تونہیں جواس کومانناواجب اورضروری سمجھاجائے۔تقلیدائمہ پر سینکڑوں علماء کے اسی طرح کے اقوال مل جائیں گے جن میں بڑے بڑے محدثین بھی ہیں اورتقلیدکوواجب اورعدم تقلیدکوگمراہی قراردیتے ہیں۔ مگر غیر مقلدین حضرات ان سب اقوال کودیوارپر دے مارتے ہیں ۔رکعات تراویح کے مسئلہ میں اورطلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں یہ لوگ حضرات صحابہؓ کے اجتہاداوراقوال کوبھی نظرانداز کردیتے ہیں کیونکہ ایساان کے نزدیک روح دین (یعنی قولی احادیث )کے خلاف ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ بخاری ومسلم پرنقدکرنے کا مسئلہ بھی ایساہی ہے ۔جولوگ اُسے غلط سمجھتے ہیں وہ سمجھتے رہیں ہم اقوال الرجال کونص شرعی نہیں سمجھتے لہٰذاوہ ہمارے نزدیک کوئی دلیل نہیں ہوتے ۔مثال کے طورپر فرقہ اہل حدیث جن متعددمسائل میں عام امت سے الگ ہے ان میں سے چندیہ ہیں:

(
۱) تقلیدائمہ
(
۲) طلاق ثلاثہ کا مسئلہ
(
۳) 20رکعات تراویح

تقلیدکے وجوداورضرورت پر ساری امت کا اجماع اوراتفاق ہے ،یہاں تک کہ پانچویں صدی کے بعدکے تمام محدثین کا بھی (ملاحظہ کریں کتاب تقلیدکی شرعی حیثیت ازمولانایحیٰ نعمانی )مگرفرقہ اہل حدیث اس اجماع کودرخوراعتناء نہیں سمجھتا،طلاق ثلاثہ کا مسئلہ اجماعی رہاہے ساتویں صدی ہجری میں پہلی بارعلامہ ابن تیمیہ اورحافظ ابن القیم نے اس مسئلہ سے اختلاف کیا۔جن کی اتباع فرقہ اہل حدیث کرنے لگاہے سوال یہ ہے کہ بخاری کی عصمت پر اجماع اجماع کی دہائی دینے والے مولوی نورپوری اوران کے ہم نواامت کے ان اجماعات کومانتے ہیں؟اگرنہیں مانتے توہم سے وہ بخاری ومسلم کی صحت پراجماع کوماننے کا اورقرآن کی تفسیرمیں مفسرین سلف اورمحدثین کے اقوال کوماننے کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ہماری بات کا جواب نورپوری دے دیں ہم بھی ان کے اعتراضات کا جواب دے دیں گے ۔نورپوری صاحب نے جودعوی کیاہے کہ انکاربخاری دراصل انکارقرآن ہے وہ تواپنے اس لچراورپوچ دعوی کی صداقت تاقیامت ثابت نہیں کرسکتے مگرہمارادعوی اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ ’’بخاری کی عصمت اوراس میں ایک حرف بھی غلط نہ ماننے کا دعوی دراصل انکارقرآن ہے ‘‘۔اپنے اس دعوے اوراس کے دلائل کوہم آئندہ قسط میں پیش کریں گے ۔

(جاری)
__________________
بلاگ:http://studyhadithbyquran.blogspot.com
كان شعبة بن الحجاج بن الورد يقول لأصحاب الحديث:"يا قوم! إنكم كلما تقدمتم في الحديث تأخرتم في القرآن"
قرآن کے اثر کو روک دینے کیلئے : ہم پہ راویوں کا لشکر ٹوٹا


No comments:

Post a Comment