Saturday, January 5, 2013

لڑکیوں کے بالغ ہونے کی شرط

لڑکیوں کے بالغ ہونے کی شرط

بلوغت کے بغیر "نکاح  کی عمر  کو  کہاں پہنچنا" ہے ؟؟؟

قرآن حکیم فتویٰ دیتا ہے کہ نکاح کے لئے بلوغت عمر شرط ہے۔

از قلم: rana ammar mazhar

بَلَغُوا النِّكَاحَ : نکاح کیلئے نہ صرف بلوغت کی شرط :: رُشْدًا : رشد و عرفان کی بھی شرط لگائی ہے۔

وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ

بَلَغُوا النِّكَاحَ : نکاح کیلئے نہ صرف بلوغت کی شرط :: رُشْدًا : کھرے کھوٹے میں تمیز اور رشد و عرفان کی بھی شرط لگائی ہے۔

قرآن حکیم نے نکاح کیلئے نہ صرف بلوغت کی شرط لگائی ہے بلکہ بلوغت کے ساتھ ساتھ سماجیات کو سمجھنے کیلئے کھرے کھوٹے میں تمیز اور رشد و عرفان کی بھی شرط لگائی ہے۔

وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا ۚ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا (4:6)
اور یتمیوں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔

از قلم:  محمدمبشرعلی

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar
وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ

بَلَغُوا النِّكَاحَ : نکاح کیلئے نہ صرف بلوغت کی شرط :: رُشْدًا : کھرے کھوٹے میں تمیز اور رشد و عرفان کی بھی شرط لگائی ہے۔

قرآن حکیم نے نکاح کیلئے نہ صرف بلوغت کی شرط لگائی ہے بلکہ بلوغت کے ساتھ ساتھ سماجیات کو سمجھنے کیلئے کھرے کھوٹے میں تمیز اور رشد و عرفان کی بھی شرط لگائی ہے۔

وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا ۚ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا (4:6)
اور یتمیوں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔

بھائی اس آیت سے آپ نے نکاح کے لئے بلوغت کی شرط کوکیسے اخذ کر لیا؟

جب کہ میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ نا بالغ بچوں بچیوں کا نکاح بھی ان کے ولی کی طرف سے ہو سکتا ہے (اب پتا نہیں یہ فقہی مسئلہ تھا یا حدیث)

از قلم: rana ammar mazhar

قرآن کے مطابق ذہنی اور جسمانی بلوغت نکاح کے لئے لازم ہے۔

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : محمدمبشرعلی
بھائی اس آیت سے آپ نے نکاح کے لئے بلوغت کی شرط کوکیسے اخذ کر لیا؟

جب کہ میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ نا بالغ بچوں بچیوں کا نکاح بھی ان کے ولی کی طرف سے ہو سکتا ہے (اب پتا نہیں یہ فقہی مسئلہ تھا یا حدیث)

قرآن کے مطابق ذہنی اور جسمانی بلوغت نکاح کے لئے لازم ہے۔

وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبً (سورۃ النساء آیت نمبر چھ)

۔ اور یتمیوں کو پرکھتے رہو
- یہاں تک کہ وہ بالغ ہو کر نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں : حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ
-
پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو
اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے

Fateh Muhammad Jalandhary اور یتمیوں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور حقیقت میں تو اللہ ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے

از قلم: شکاری

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar

وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبً (سورۃ النساء آیت نمبر چھ)

۔ اور یتمیوں کو پرکھتے رہو
-
یہاں تک کہ وہ بالغ ہو کر نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں : حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ

سورہ نساء آیت چھ میں‌کہیں‌بھی بلوغت کا تذکرہ نہیں ہے۔ آیت کا درست ترجمہ وہ ہے جو فتح محمد جالندھری صاحب کے علاوہ دیگر مترجمین نے کیا ہے:

اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر ان میں ہوشیاری دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو

از قلم: rana ammar mazhar

فاروق سرور خان صاحب کو اظہار خیال کی دعوت ہے !!!

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری
سورہ نساء آیت چھ میں‌کہیں‌بھی بلوغت کا تذکرہ نہیں ہے۔ آیت کا درست ترجمہ وہ ہے جو فتح محمد جالندھری صاحب کے علاوہ دیگر مترجمین نے کیا ہے:

اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر ان میں ہوشیاری دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو

فاروق سرور خان صاحب کو اظہار خیال کی دعوت ہے !!!

از قلم: سام

والئی یئسن من المحیض من نسائکم ان ارتبتم فعدتھن ثلثہ اشھر ولئی لم یحضن

اس آیت کےمطابق توبلوغت شرط نکاح نہیں ۔اورمیری معلومات کے مطابق حضرت عائشہ کانکاح بلوغت سےپہلےہواتھا۔

از قلم: rana ammar mazhar

تو ہم سب کو اس سنت کو زندہ کرنا چاہئے!!!

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : سام
والئی یئسن من المحیض من نسائکم ان ارتبتم فعدتھن ثلثہ اشھر ولئی لم یحضن

اس آیت کےمطابق توبلوغت شرط نکاح نہیں ۔اورمیری معلومات کے مطابق حضرت عائشہ کانکاح بلوغت سےپہلےہواتھا۔

تو ہم سب کو اس سنت کو زندہ کرنا چاہئے!!!

از قلم: سام

محترم میں نےاپکےمراسلہ 19 پراپنی رائےکااظہارکیاہے۔آیت کی دلیل کےساتھ کہ بلوغت شرط نکاح نہیں ۔
رہی سنت تو زندہ کریں یانہ کریں کہ نکاح کرنےوالابھی مرداورولی بھی مرد۔

از قلم: rana ammar mazhar

بچیوں سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں‌ 1 سال کی لڑکیاں بچیاں بالیاں بھی شامل ہیں‌؟؟؟

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : سام
محترم میں نےاپکےمراسلہ 19 پراپنی رائےکااظہارکیاہے۔آیت کی دلیل کےساتھ کہ بلوغت شرط نکاح نہیں ۔
رہی سنت تو زندہ کریں یانہ کریں کہ نکاح کرنےوالابھی مرداورولی بھی مرد۔

کیا ایسی بچیوں سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں‌ 1 سال ، 2 سال، 3 سال، 4 سال، 5 سال کی لڑکیاں بچیاں بالیاں بھی شامل ہیں‌؟؟؟ ان کو بھی تو حیض‌ نہیں‌ آتا ؟؟؟

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : فاروق سرورخان
اب آئیے ایک اور حوالہ دیکھتے ہیں۔ بہت ہی سادہ ہے لیکن معنی خیز ہے۔

65:1
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے

یہاں اللہ تعالی نے لفظ‌ استعمال کیا ہے "النساء" جس کے معانی لغۃ‌ القریش یعنی رسول اکرم کی عربی میں‌ہیں -- عورت --- یہ لفظ ایک عاقل ، دانا اور بالغ‌عورت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ جب کہ لگ بھگ 6 سے لگ بھگ 13 سال کی لڑکی کے لئے الگ لفظ‌ عربی زبان میں مخصوص ہے ۔ وہ ہے "جاریہ" اور چھوٹی بچی کے لیے الگ لفظ ہے ۔ وہ ہے "سبایہ" جبکہ 13 سال کی عمر سے لے کر عاقل بالغ‌ہونے سے پہلے تک کی جوان لڑکی کو جوہانۃ کہتے ہیں -- کسی بھی 6 یا سات یا 9 سال کی لڑکی کے لئے النساء‌کا لفظ استعمال نہیں‌ہوتا۔

اب اس آیت کو دیکھتے ہیں‌جس سے ایک طبقہ بچیوں سے ازدواجی تعلقات پر اپنی دلیل لاتا ہے ۔
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے

یہاں بھی اللہ تعالی "نساء"‌ کا لفظ‌استعمال کرتے ہیں۔
اب اگر اس طبقے کو استدلال ہے کہ طلاق "عورتوں" کو دی جائے گی جن کو حیض‌ نا آیا ہو۔۔۔۔ تو ایسی عورتیں 35 یا 40 سال کی بھی ہوسکتی ہیں‌جن کو فزیالوجیکل وجوہات کی بناء‌پر حیض نا آیا ہو۔۔۔۔۔۔ اس میں "ابھی" کا لفظ‌لگا کر کہنا کہ " عورتیں جن کو ابھی حیض‌ نہیں آیا" اور پھر اس آیت سے "جاریہ" یعنی چھوٹی لڑکی مراد لینا --- لفظ عورت کو کھینچ تان کر فٹ‌کرنا ہے۔
والسلام

از قلم: ام غزل

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : سام
والئی یئسن من المحیض من نسائکم ان ارتبتم فعدتھن ثلثہ اشھر ولئی لم یحضن

اس آیت کےمطابق توبلوغت شرط نکاح نہیں ۔اورمیری معلومات کے مطابق حضرت عائشہ کانکاح بلوغت سےپہلےہواتھا۔

اسلام علیکم
بےشک آیت کے مطابق بلوغت شرط نکاح نہیں‌ ،اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ ویسلم نے حضرت عائشہ سے نکاح ان کی بلوغت سے پہلے کیا ،
مگر میری بہن انہوں‌ نے حضرت عائشہ کے ساتھ رشتہ اذدواج ان کی بلوغت سے پہلے قائم نہیں‌ کیا اور ان کے بالغ ہونے کا انتظار کیا ۔
شکریہ

از قلم: سام

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : ام غزل
اسلام علیکم
بےشک آیت کے مطابق بلوغت شرط نکاح نہیں‌ ،اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ ویسلم نے حضرت عائشہ سے نکاح ان کی بلوغت سے پہلے کیا ،
مگر میری بہن انہوں‌ نے حضرت عائشہ کے ساتھ رشتہ اذدواج ان کی بلوغت سے پہلے قائم نہیں‌ کیا اور ان کے بالغ ہونے کا انتظار کیا ۔
شکریہ

جی بجافرمایا۔میں بھی ایساہی سمجھتی ہوں ،

از قلم: سام

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar

کیا ایسی بچیوں سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں‌ 1 سال ، 2 سال، 3 سال، 4 سال، 5 سال کی لڑکیاں بچیاں بالیاں بھی شامل ہیں‌؟؟؟ ان کو بھی تو حیض‌ نہیں‌ آتا ؟؟؟

میں نےنکاح کی بات کی ہےیہ ازدواجی تعلقات کہاں سےآگئے ۔میں نےکئی باراپنامراسلہ پڑھاہےاسمیں اشارتاًبھی نےایساکوئی ذکرنہیں ۔رہی 1سال ،2سال،3 سال 4 سال 5 سال کی بچیاں ،توکوئی جانورہی ایساسوچ سکتاہے۔

از قلم: rana ammar mazhar

بَلَغُوا النِّكَاحَ :: بَلَغُوا کا مطلب بالغ نہیں :: النِّكَاحَ کا مطلب نکاح نہیں ::

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : سام
میں نےنکاح کی بات کی ہےیہ ازدواجی تعلقات کہاں سےآگئے ۔میں نےکئی باراپنامراسلہ پڑھاہےاسمیں اشارتاًبھی نےایساکوئی ذکرنہیں ۔رہی 1سال ،2سال،3 سال 4 سال 5 سال کی بچیاں ،توکوئی جانورہی ایساسوچ سکتاہے۔

بَلَغُوا النِّكَاحَ :: بَلَغُوا کا مطلب بالغ نہیں :: النِّكَاحَ کا مطلب نکاح نہیں :: یہاں تک کہ وہ بالغ ہو کر نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں- : حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar

قرآن کے مطابق ذہنی اور جسمانی بلوغت نکاح کے لئے لازم ہے۔

وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبً (سورۃ النساء آیت نمبر چھ)

۔ اور یتمیوں کو پرکھتے رہو
- یہاں تک کہ وہ بالغ ہو کر نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں : حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ
-
پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو
اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔

از قلم: شکاری

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar

بَلَغُوا النِّكَاحَ :: بَلَغُوا کا مطلب بالغ نہیں :: النِّكَاحَ کا مطلب نکاح نہیں :: یہاں تک کہ وہ بالغ ہو کر نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں- : حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ

آپ کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔
بلغو کا مطلب بالغ نہیں ہوتا۔
بلغو پہنچ جانے کے معنی میں ہے۔ ہو جانا، یا پہنچ جانا۔ کسی بھی عربی لغت کو اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ روٹ ورڈ ہے ۔ بلغ۔

لہٰذا آیت کا درست ترجمہ یہ ہوگا:

اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔

بلکہ اسی سورہ نساء آیت چھ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح کی عمر کو پہنچ جانے کے باوجود رشد کو پہنچ جانا ضروری نہیں۔

اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر ان میں رشد دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ :

1
۔ نکاح کی عمر کو پہنچنا ، رشد کو مستلزم نہیں۔ گویا رشد نہ بھی ہو تو نکاح کیا جا سکتا ہے۔
2
۔ اس آیت میں‌بلوغت کا کہیں ذکر نہیں۔

از قلم: کنعان

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar

بَلَغُوا النِّكَاحَ :: بَلَغُوا کا مطلب بالغ نہیں :: النِّكَاحَ کا مطلب نکاح نہیں :: یہاں تک کہ وہ بالغ ہو کر نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں- : حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ

یہاں تک  کہ وہ نکاح  کی عمر  کو پہنچ جائیں۔

از قلم: rana ammar mazhar

بلوغت کے بغیر "نکاح کی عمر کو پہنچنا" کیا ہے ؟؟؟

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری
آپ کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔
بلغو کا مطلب بالغ نہیں ہوتا۔
بلغو پہنچ جانے کے معنی میں ہے۔ ہو جانا، یا پہنچ جانا۔ کسی بھی عربی لغت کو اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ روٹ ورڈ ہے ۔ بلغ۔
لہٰذا آیت کا درست ترجمہ یہ ہوگا:
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔
بلکہ اسی سورہ نساء آیت چھ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح کی عمر کو پہنچ جانے کے باوجود رشد کو پہنچ جانا ضروری نہیں۔
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر ان میں رشد دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ :
1
۔ نکاح کی عمر کو پہنچنا ، رشد کو مستلزم نہیں۔ گویا رشد نہ بھی ہو تو نکاح کیا جا سکتا ہے۔
2
۔ اس آیت میں‌ بلوغت کا کہیں ذکر نہیں۔

بلوغت کے بغیر "نکاح کی عمر کو پہنچنا" کیا ہے ؟؟؟

از قلم: ابو احمد

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar

کیا ایسی بچیوں سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں‌ 1 سال ، 2 سال، 3 سال، 4 سال، 5 سال کی لڑکیاں بچیاں بالیاں بھی شامل ہیں‌؟؟؟ ان کو بھی تو حیض‌ نہیں‌ آتا ؟؟؟

جہاں تک میں سمجھا ہوں۔ اس پوری بحث میں نکاح ڈسکس ہوا ہے ازدواجی تعلقات نہیں۔ جس کے تناظر میں آپ یہ پوسٹ کررہے ہیں۔ اس لئے آپ کی پوسٹ غیر متعلقہ ہے۔ (معذرت کے ساتھ)

از قلم: rana ammar mazhar

بچہ نکاح کی عمر کو کب پہنچتا ہے ؟؟؟

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : کنعان
یہاں تک  کہ وہ نکاح  کی عمر  کو پہنچ جائیں۔

بچہ نکاح کی عمر کو کب پہنچتا ہے ؟؟؟

از قلم: عادل سہیل

رانا عما ر صاحب کے فرمودات کے بارے میں کچھ معلومات اور ان سے کچھ سوالات

رانا صاحب ، دوسروں سے سوال کرنے سے پہلے جو کچھ آپ پیش کر چکے ہیں اس کے بارے میں کچھ جوابات دیجیے ، اور کاپی پیسٹ کے بغیر ، اور آسان فہم اسلوب میں دیجیے ، اگر ایسانہیں کر سکتے تو خاموشی اختیار کیجیے ، اور ہر موضوع کو پراگندہ کرنے کا گندہ کام روک دیجیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
میرے اس تھریڈ میں بھی رانا عمار صاحب نے حسب عادت قران حکیم کی آیات کو اپنے ہی مفاہیم میں استعمال کرتے ہوئے قران کریم کی آیات مبارکہ کی معنوی تحریفات کی کوششیں کی ہیں ، جن کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کو مشکوک بنانا ہے ،
ایک محترم بھائی نے مجھے ان لوگوں کی یہاں مداخلت کی خبر کی ، اللہ تعالیٰ اُس بھائی کو بہترین اجر سے نوازے ،
میں کچھ عجلت میں اور مختصر طور پررانا صاحب کے مراسلات کے جواب میں کچھ گذارشات پیش کر رہا ہوں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مراسلہ رقم 19 میں رانا صاحب نے سُورت النِساء (4) کی آیت مبارکہ رقم 6 نقل کی اور اس کا ترجمہ لکھا :::

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar
وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ

بَلَغُوا النِّكَاحَ : نکاح کیلئے نہ صرف بلوغت کی شرط :: رُشْدًا : کھرے کھوٹے میں تمیز اور رشد و عرفان کی بھی شرط لگائی ہے۔

قرآن حکیم نے نکاح کیلئے نہ صرف بلوغت کی شرط لگائی ہے بلکہ بلوغت کے ساتھ ساتھ سماجیات کو سمجھنے کیلئے کھرے کھوٹے میں تمیز اور رشد و عرفان کی بھی شرط لگائی ہے۔

وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا ۚ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا (4:6)
اور یتمیوں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔

بھائی شکاری صاحب نے اس کا مختصر اور جامع جواب مراسلہ رقم 33 میں ارسال کر دیا ،
اور کنعان بھائی نے مراسلہ رقم 34میں تحت لفظی ترجمے کا عکس لگا کر مزید واضح کر دیا کہ رانا صاحب کس قدر غلط فہمی کا شکار ہیں ،
اس کے بعد گو کہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی لیکن اس اُمید پرکہ شاید الفاظ و انداز کی کچھ تبدیلی معاملے کو کچھ مزید واضح کر سکے اِن شاء اللہ ، ، میں بھی کچھ گذارشات پیش کر رہا ہوں ،
رانا صاحب نے حسب عادت اپنے محدود فہم قران کو بروئے کار لاتے ہوئے اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے منقولہ بالا فرمان مبارک کو کچھ کا کچھ سمجھانےکی کوشش کر ڈالی ،
اس فرمان مبارک میں بڑی ہی وضاحت سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ یتیموں کو اس وقت اپنی زیر نگرای رکھو اور انہیں آزماتے رہو جب تک کہ وہ نکاح ہو سکنے کی عمر تک پہنچ جائیں ، اور جب وہ اس عمر تک پہنچ جائیں تو پھر یہ دیکھو کہ وہ سمجھ داری اور عقل مندی میں پختہ بھی ہوئے ہیں یا صرف جسمانی طور پر نکاح کے قابل ہو ئے ہیں ، اگر تو وہ سمجھ داری اور عقل مندی میں اس پختہ ہو چکے ہوں تو پھر ان کے اموال ان کے سپرد کر دو،
قارئین کرام ، غور فرمایے ، اس آیت مبارکہ میں دو کیفیات کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے ،
(1)
نکاح کی عمر
(2)
سمجھ داری اور عقل مندی کی پختگی ،
رانا صاحب ، کیا ہمیں یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ان دونوں کیفیات کو الگ الگ کیوں بیان فرمایا گیا ؟؟؟
قارئین کرام ، اس آیت مبارکہ میں کہیں سے کسی بھی طور نکاح کی عمر کی کو ئی حد مقرر نہیں ہوتی ،
کوئی رانا صاحب سے پوچھے تو ، کہ جناب قران حکیم میں سے یہ بھی تو بتا دیجیے کہ نکاح کی عمر کیا ہوتی ہے؟؟؟
اور یہ بھی تو بتا دیجیے سماجیات کے جِس کھرے او رکھوٹے کی تمیز یا فرق کر لینے کو آپ نے ‘‘‘رشد ’’’ قرار دیا ہے ، قران پاک میں سے اُس سماجیات ، اور پھر اُس کے کھرے اور کھوٹے کی کوئی تعریف کوئی پہچان بھی بتا دیجیے ؟؟؟
آخر کس طرح پتہ چلے گا کہ کون ‘‘‘رشد ’’’ تک پہنچ چکا ہے اور اسے پا چکا ہے ؟؟؟
اور قران کریم میں سے یہ بھی سمجھا دیجیے کہ سماجیات کے کھرے کھوٹے کا عرفان کیا ہوتا ہے ؟؟؟
اور کس کے بارے میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ سماجیات کے کھرے کھوٹے کا عرفان حاصل کر چکا ہے ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانا صاحب نے اسی پر توقف نہیں فرمایا ، بلکہ ، مراسلہ رقم 22 میں اپنی غلط ترجمانی پر اصرار کرتے رہے ،
اور (((((إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ))))) کو بالغ ہونا ہی ثابت کرنے پر زور لگاتے رہے ،
کوئی ان سے پوچھے کہ اگر ‘‘‘ بَلَغُوا’’’ کا مطلب بالغ ہونا ہے تو درج ذیل آیات مبارکہ کا کیا مطلب ہو گا؟؟؟
(((((
حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ ))))) سُور ت لکھف(18)/ آیت 86،
رانا صاحب کے فلسفے کے مطابق اس مذکورہ بالا آیت کریمہ کا معنی ہوا ((((( یہاں تک سورج کا مغرب بالغ ہو گیا ))))) کیا راناصاحب اس سے متفق ہیں ؟؟؟
(((((
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا ))))) سُور ت لکھف(18)/ آیت 61،
رانا صاحب کے فلسفے کے مطابق اس مذکورہ بالا آیت کریمہ کا معنی ہوا ((((( جب ان دونوں کے درمیان جمع ہونے کا مقام بالغ ہو گیا ))))) کیا راناصاحب اس سے متفق ہیں ؟؟؟
(((((
وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ ،،،،،، اس کے بعد والا لفظ میں قصداً نہیں لکھ رہا))))) سُورت الاحزاب (10)/آیت33،
رانا صاحب کے فلسفے کے مطابق اس مذکورہ بالا آیت کریمہ کا معنی ہوا ((((( اور جب نگاہیں پتھرا گئیں اور دِل بالغ ہو گئے ))))) کیا راناصاحب اس سے متفق ہیں ؟؟؟
(((((
وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ ،،،،،))))) سُورت البقرۃ (2)/آیت 196 ،
رانا صاحب کے فلسفے کے مطابق اس مذکورہ بالا آیت کریمہ کا معنی ہوا ((((( اور اس وقت تک اپنے سر نہیں منڈواؤ جب تک قربانی جانور بالغ نہ ہو جائے ))))) کیا راناصاحب اس سے متفق ہیں ؟؟؟
(((((
حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ))))) سُورت البقرۃ (2)/آیت 235،
رانا صاحب کے فلسفے کے مطابق اس مذکورہ بالا آیت کریمہ کا معنی ہوا ((((( یہاں تک کہ کتاب بالغ ہو جائے ))))) کیا راناصاحب اس سے متفق ہیں ؟؟؟
(((((
حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ ))))) سُورت القمر (54)/ آیت 5،
رانا صاحب کے فلسفے کے مطابق اس مذکورہ بالا آیت کریمہ کا معنی ہوا ((((( بالغ شدہ حکمت ))))) کیا راناصاحب اس سے متفق ہیں ؟؟؟
(((((
فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ))))) سُورت الأنعام(6)/ آیت 149،
رانا صاحب کے فلسفے کے مطابق اس مذکورہ بالا آیت کریمہ کا معنی ہوا ((((( لہذا اللہ کے لیے بالغ ہو چکی حجت ہے ))))) کیا راناصاحب اس سے متفق ہیں ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانا صاحب جب اپنی غلطی کو کسی علمی انداز میں درست ثابت کرنے کی کوشش سے عاجز ہو رہے تومراسلہ رقم 28 میں سام بہن کی ایک بات میں مزید الٹی سیدھی کہہ ڈالی اور یہ بھی خیال نہیں ہوا کہ وہ اپنی ایک مسلمان بہن سے بات کررہے ہیں ،اور لکھا :::

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar

کیا ایسی بچیوں سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں‌ 1 سال ، 2 سال، 3 سال، 4 سال، 5 سال کی لڑکیاں بچیاں بالیاں بھی شامل ہیں‌؟؟؟ ان کو بھی تو حیض‌ نہیں‌ آتا ؟؟؟

اس کا جواب سام بہن اور بھائی ابو احمد نے اچھی طرح دیا ہے ،
لیکن رانا صاحب اپنی دُھن میں مست اپنی ہی کہے جا رہے ہیں ، اور مراسلہ رقم 35 میں پینترا بدلتے ہوئے یہ سوال داغ دِیا کہ :::

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar
بلوغت کے بغیر "نکاح کی عمر کو پہنچنا"کیا ہے ؟؟؟

رانا صاحب کے اس سوال سے میری سابقہ باتوں کو تقویت ملی ، کہ رانا صاحب نکاح کی عمر تک پہنچنے کے لیے جسمانی طور پر بالغ ہونے کو ضروری سمجھ رہے ہیں ، جس کی قران حکیم میں کوئی دلیل نہیں ، بس رانا صاحب کی ترجمہ خوری کا نتیجہ ہے ،
اور الحمد للہ یہ بھی ظاہر ہوا کہ رانا صاحب ‘‘‘ نکاح ’’’ کو صرف جسمانی تعلق سمجھ کر یہ ساری بحث کیے جا رہے ہیں ،
اگر رانا صاحب میرے سوالات کا کوئی جواب دیں تو معاملہ مزید واضح ہوجائے، اِن شاء اللہ ،
اور اگر نہیں دیں تو واضح ہو ہی چکا ہے ، الحمد للہ ، کہ ان کی ترجموں کی محتاج قرانی فہمی کہاں لے جانے والی ہے ،
رانا صاحب یہاں اپنی مددگاری کے لیے کسی اور کو بھی دعوت دیتے رہے اور جب اس کی طرف سے شمولیت نہیں ہوئی تواسی مراسلہ رقم 28 میں اس کے کسی مراسلے کا اقتباس یہاں لگا دیا ، اور اقتباس لگاتے ہوئے اُس میں سے ربط غائب کر دیا ، تا کہ قارئین کرام وہاں نہ پہنچ سکیں جہاں سے اقتباس لیا گیا ہے ، کیونکہ وہاں اقتباس والے صاحب کی علمی حقیقت کافی واضح ہوپڑی ہے ،
بہرحا ل ، میں اپنے اس تھریڈ میں پھیلائے گئے شکوک کی صفائی کے لیے یہ کہتا ہوں کہ رانا صاحب نے مراسلہ رقم 28 میں جس شخص کے ایک مراسلے کا اقتباس لگایا ہے ، اور شاید رانا صاحب اس شخص کے لکھے ہوئی بہت کام کی چیز سمجھے ہیں ،جب کہ وہ سوائے آیات کریمات کے اُس اقتباس میں بھی فقط التباس سے کام لیا گیا ،
اُس مراسلے کے لکھنے والے نے سورت الطلاق (65) کی پہلی آیت مبارکہ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[[[[[
اب آئیے ایک اور حوالہ دیکھتے ہیں۔ بہت ہی سادہ ہے لیکن معنی خیز ہے۔

65:1
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے

یہاں اللہ تعالی نے لفظ‌ استعمال کیا ہے "النساء" جس کے معانی لغۃ‌ القریش یعنی رسول اکرم کی عربی میں‌ہیں -- عورت --- یہ لفظ ایک عاقل ، دانا اور بالغ‌عورت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ جب کہ لگ بھگ 6 سے لگ بھگ 13 سال کی لڑکی کے لئے الگ لفظ‌ عربی زبان میں مخصوص ہے ۔ وہ ہے "جاریہ" اور چھوٹی بچی کے لیے الگ لفظ ہے ۔ وہ ہے "سبایہ" جبکہ 13 سال کی عمر سے لے کر عاقل بالغ‌ہونے سے پہلے تک کی جوان لڑکی کو جوہانۃ کہتے ہیں -- کسی بھی 6 یا سات یا 9 سال کی لڑکی کے لئے النساء‌کا لفظ استعمال نہیں‌ہوتا۔]]]]]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ یہ رانا صاحب نے نقل کیا ہے اس لیے اس کے جواب میں اُن کی خدمت میں چند سوال پیش کرتا ہوں ، اگر انہوں نے کاپی پیسٹ کیے بغیر اپنے الفاظ میں اور انسانوں کی سمجھ میں آ سکنے والے اسلوب میں جواب دیے تو اِن شاء اللہ بہت کچھ واضح ہو جائے گا ،
رانا صاحب ، یہ تو بتایے کہ یہ خبر کس نے دی ہے کہ‘‘‘ نِساء ’’’ کے معانی قریش کی زبان میں ، یعنی نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک میں ‘‘‘عورت ’’’تھا؟؟؟
اور یہ خبر کس نے دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ قریش کی زبان میں سے استعمال کیا ہے قران کریم میں تو ایسی کوئی خبر نہیں کہ کون کون سا لفظ قریش کی زبان میں سے ہے ؟؟؟
اور نہ ہی یہ خبر ہے کہ قریش کی زبان میں لفظ نِساء کا معنی ‘‘‘ عاقل بالغ عورت ’’’ ہی تھا اور اسی معنی کو قران میں مقرر کر دیا گیا ہے ؟؟؟
میں کہتا ہوں کہ ‘‘‘ نساء ’’’ کو ‘‘‘بالغ عورت ’’’کے معنی میں قید کرنا قران کے خلاف ہے ، کیا آپ اس سے انکار کر سکتے ہیں ؟؟؟
قران کریم میں یہ قید کہاں سے میسر ہوتی ہے کہ ‘‘‘ لگ بھگ 6 سے 13 سال کی لڑکی کے لئے لفظ "جاریہ" ’’’ استعمال ہوتا ہے ؟؟؟
بلکہ آپ کی کسوٹی کے مطابق تو یہ لفظ کسی حجت کے قابل ہی نہیں ہے کیونکہ قران کریم میں یہ کہیں استعمال ہی نہیں ہوا!!!،
اور قران پاک میں یہ کہاں مذکور ہے کہ ‘‘‘چھوٹی بچی کے لیے الگ لفظ ہے ۔ وہ ہے "سبایہ" ’’’؟؟؟
رانا صاحب ، لگتا ہے کہ آپ کے مراسلہ نگار نے کہیں سے انگلش کے الفاظ کو اردو حروف ہجائی میں عربی بنا کر لکھنےکی کوشش کی ہے ، اور شاید اپنی ہی طرف سے اسے مؤنث کرنے کی کوشش بھی کرڈالی ہے ،
اپنے صاحب مراسلہ کو بتا دیجیے کہ درست لفظ ‘‘‘سبایۃ ’’’ نہیں ہوتا ، یہ لفظ کہیں کسی عربی کتاب میں میسر نہیں ہو سکتا ،
درست لفظ ‘‘‘ سبایا ’’’ ہے ، اِس کا معنی ‘‘‘دُشمنوں میں سے مؤنث قیدی ’’’ ہوتا ہے ، یہ لفظ مؤنث سماعی ہے ، جسے شاید آپ کے مراسلہ نگار نے اپنی کمزور و لاچار اور ابگلش کے ذریعے سمجھی ہوئی عربی کے مطابق اپنے ہی طور پر تائے تانیث لگا کر مؤنث بنانے کی کوشش کی ہے ،
اور جناب کو یقینا ً یہ علم نہیں کہ جو بچی ‘‘‘ جاریۃ ’’’ سے چھوٹی ہو اُس کے لیے ‘‘‘ صبیۃ ’’’ استعمال ہوتا ہے ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ،
اور ایک بہت ہی سادہ اور معنی خیز بات بھی سمجھتے چلیے ، جو دُنیا کے تقریباً ہر معاشرے میں معروف تھی اور ہے کہ ‘‘‘ غیر شادی شدہ کو کافی بڑی عمر تک پہنچنے کے باوجود لڑکی کہا جاتا تھا ، اور کہا جاتا ہے ، اور شادی شدہ کو عورت کہا جانے لگتا ہے خواہ اس کی عمر چھوٹی ہی رہی ہو’’’
مزید غلطی در غلطی کرتے ہوئے مراسلہ نگار نے لکھا :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[[[[[ 13
سال کی عمر سے لے کر عاقل بالغ‌ہونے سے پہلے تک کی جوان لڑکی کو جوہانۃ کہتے ہیں]]]]]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا یہ بھی بتا دیجیے گا رانا صاحب کہ قران پاک میں یہ کہاں مذکور ہے کہ ‘‘‘13 سال کی عمر سے لے کر عاقل بالغ‌ہونے سے پہلے تک کی جوان لڑکی کو جوہانۃ کہتے ہیں’’’؟؟؟
بلکہ اس سے پہلے تو یہ بتایے کہ یہ ‘‘‘ جوہانہ ’’’ ہوتا کیا ہے ؟؟؟
قران کریم ، حدیث شریف ، لغت کی کسی کتاب میں سے اس کی کوئی خبر تو مہیا کیجیے ؟؟؟
لگتا ہے یہ بھی کسی انگلش ورڈ کو عربیانے کی بھونڈی اور ناکام کوشش ہے ،
رانا صاحب ذرا اپنے مراسلہ نگار کو بتاتے آیے کہ ‘‘‘جاریۃ ’’’کے بعد اور بالغ ہونے تک کی عمر والی لڑکی کو ‘‘‘ فتاۃ ’’’ کہا جاتا ہے،
اور یہ بھی بتاتے آیے گا اور خود بھی سمجھ لیجیےگا کہ قران کریم میں لفظ ‘‘‘ النِساء ’’’ کے استعمال میں کہیں سے بھی کم سے کم عمر کا کوئی تعین نہیں ہوتا ، رہا لغوی طور پر عمر کے مختلف حصوں کے لیے مختلف الفاظ کے استعمال کا معاملہ تو آپ لوگوں تو ان سب باتوں کو ماننا ہی نہیں چاہیے کیونکہ یہ سب قران کریم میں تو وارد نہیں ہوئی ہیں ، بلکہ لوگوں کی کتابوں میں مذکور ہیں اور کیا پتہ کس نے کیا خود سے بنا کر لکھ رکھا ہو
رانا صاحب ، آخر یہ باتیں آپ لوگوں کو کس طرح اور کیوں اس درجہ قبول ہوگئیں کہ انہیں اپنے فلسفوں کی دلیل بنانے لگے ؟؟؟ جبکہ ان باتوں کی قران حکیم سے کوئی دلیل میسر نہیں !!!
قارئین کرام ، چلیے اب اقتباس شدہ مراسلے میں لکھی ہوئی اگلی باتوں کو بھی دیکھتے چلتے ہیں ،
لکھنے والے نے لکھا :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[[[[[
اب اس آیت کو دیکھتے ہیں‌جس سے ایک طبقہ بچیوں سے ازدواجی تعلقات پر اپنی دلیل لاتا ہے ۔
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے

یہاں بھی اللہ تعالی "نساء"‌ کا لفظ‌استعمال کرتے ہیں۔
اب اگر اس طبقے کو استدلال ہے کہ طلاق "عورتوں" کو دی جائے گی جن کو حیض‌ نا آیا ہو۔۔۔۔ تو ایسی عورتیں 35 یا 40 سال کی بھی ہوسکتی ہیں‌جن کو فزیالوجیکل وجوہات کی بناء‌پر حیض نا آیا ہو۔۔۔۔۔۔ اس میں "ابھی" کا لفظ‌لگا کر کہنا کہ " عورتیں جن کو ابھی حیض‌ نہیں آیا" اور پھر اس آیت سے "جاریہ" یعنی چھوٹی لڑکی مراد لینا --- لفظ عورت کو کھینچ تان کر فٹ‌کرنا ہے۔ ]]]]]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانا صاحب اپنے مراسلہ نگار کو بتایے کہ (((( لم یحضن )))) کا معنی ‘‘‘‘‘عورتیں جنہیں ابھی تک حیض جاری نہیں ہوا ’’’’’بنتا ہے ،
کچھ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ‘‘‘‘‘عورتیں جنہیں ابھی تک حیض نہیں آیا ’’’’’
آپ کے صاحب مراسلہ کو اگر عربی لغت کی کچھ خبر ہوتی تو یہ الزام نہ لگاتے کہ ‘‘‘اس میں "ابھی" کا لفظ‌لگا کر کہنا کہ " عورتیں جن کو ابھی حیض‌ نہیں آیا" اور پھر اس آیت سے "جاریہ" یعنی چھوٹی لڑکی مراد لینا --- لفظ عورت کو کھینچ تان کر فٹ‌کرنا ہے۔ ’’’ ،
بہرحال اس قسم کے الزامات لگانا آپ صاحبان کے مسلک کی ضرورت ہے ، آپ نے جہاں سے یہ مراسلہ مقتبس کیا ہے اسی تھریڈ میں مراسلہ نگار کو عربی لغت کے مطابق ‘‘‘ لم ’’’ کے استعمال کے بارے میں بھائی طاہر رفیق صاحب نے کافی معلومات دی ہیں ،
میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ حرف ‘‘‘ لم ’’’ جب ‘‘‘ مضارع ’’’ یعنی ‘‘‘حال یا مستقبل ’’’کے صیغے سے پہلے لگایا جاتا ہے تو وہ ‘‘‘ مضارع ’’’ کو ‘‘‘ ماضی منفی ’’’ بنا دیتا ہے ، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ صفت بھی بتاتا ہے کہ جس کام کی نفی کی جارہی ہے وہ تا وقت کلام واقع نہیں ہوا ،
قران کریم میں سے اس کی چند ایک مثالیں ذکر کرتا چلوں :::
(((((
سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ::: اُن کے لیے ایک ہی جیسا کہ خواہ آپ اُنہیں ڈراوادِیا یا آپ نے( ابھی تک) انہیں ڈراوا نہیں دیا ، وہ اِیمان نہیں لائیں گے)))))
(((((
فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ::: پس اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو ، (ابھی تک، تاوقت کلام ) باسی نہیں ہوئیں )))))
(((((
أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا :::بے شک تُم لوگوں نے اللہ کے ساتھ (وہ کچھ )شریک بنا لیا، جِس کے (شریک ہونے کے)بارے میں اللہ نے تُم لوگوں پر(ابھی تک)کوئی دلیل نہیں اُتاری)))))
ایسی اور بہت بھی سی مثالیں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ میں موجود ہیں ، لہذا آپ کے مراسلہ نگار کی منقولہ بات بھی محض ایک اعتراض ہی نہیں ، بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کے خلاف ہے اور اس مخالفت کے ساتھ ساتھ اللہ کے ایک فرمان کی معنوی تحریف بھی ہے ،
یہ بھی سمجھ لیجیے کہ ((((لم یحضن )))) میں جس قدر بڑی عمر تک پہنچنے کے باوجود حیض نہ آنے والی عورتیں شامل ہوتی ہیں ، اسی قدر وہ عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں جو عام معمول کے مطابق ابھی حیض کی عمر تک پہنچی ہی نہ ہوں ، لہذ االلہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان مبارک کو صرف ان عورتوں کے لیے خاص نہیں کیا جاسکتا جن پر بڑی عمر تک پہنچنے کے باوجود حیض آنا جاری ہی نہ ہوا ہو ، بلکہ ‘‘‘‘‘ لم ’’’’’کے استعمال میں جو تحدید ہے اس کے مطابق یہ فرمان مطابق اُن شادی شدہ عورتوں کےلیے خاص ہے جو عام معمول کے مطابق حیض جاری ہوجانے والی عمر تک پہنچی ہی نہ ہو ں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانا صاحب نے اپنے مراسلہ رقم 37 میں سوال کیا ہے :::

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar
بچہ نکاح کی عمر کو کب پہنچتا ہے ؟؟؟

جوابا کہتا ہوں ، جناب رانا صاحب ہمیں تو اس سوال کا جواب ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ میں بڑی تفصیل کے ساتھ میسر ہے ، و للہ الحمد،
آپ ہمیں قران حکیم میں سے اس کا جواب عنایت فرمایے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آخر میں ایک دفعہ پھر انتظامیہ سے گذارش ہے کہ میرے اس تھریڈ میں بھی کسی بھی قسم کے کاپی پیسٹ والے مراسلے کو حذف کر دیا جائے ، خواہ پیسٹ شدہ مواد اسی تھریڈ میں سے ہو یا کسی اور جگہ سے لایا گیا ہو، اور خواہ وہ پیسٹ کسی مراسلے میں کی جائے یا انعامی پیغام میں ،
میں نے اپنے اس مراسلے میں ، رانا صاحب کے مراسلہ رقم 28 میں لگائے گئے اقتباس میں سے پیسٹ اس لیے کیا ہے کہ رانا صاحب کے مراسلے کا اقتباس لیتے ہوئے وہ عبارات ظاہر نہیں ہوتیں ،
کیونکہ جب سے میں کاپی پیسٹ والے مراسلات کے حذف کیے جانے کی گذارشات کر رہا ہوں ، رانا صاحب اب انعامی پیغام والے مراسلے کے ذریعے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں ،
میں اپنی ان بہنوں اور بیٹیوں سے بھی معذرت خواہ ہوں کہ ہمارے دِین اسلام کے احکام کے دوسرے مصدر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ کے مخالفین نے یہاں بھی ، آپ لوگوں کو آپ سے متعلق ،ہمارے دِین کے ایک أہم اور بنیادی معاملے کو سمجھنے کی راہ میں مشکلات اور شکوک پھیلانے شروع کر دیے ہیں ، لیکن میں یہاں انہیں اس کام سے روک نہیں سکتا ، زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے جو توفیق عطاء فرمائے اس کے مطابق ان لوگوں کی غلطیوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کے دلائل کی روشنی میں واضح کرتا چلوں ۔ والسلام علیکم۔

از قلم: rana ammar mazhar

نکاح کی عمر کو کہاں پہنچنا ہے ؟؟؟

از قلم: شکاری

حیاکم اللہ و بارک فیکم عادل سہیل بھائی۔
اللہ تعالیٰ‌آپ کے علم و عمل میں‌خوب برکتیں‌ عطا فرمائیں۔ آمین۔۔

از قلم: rana ammar mazhar

عادل سہیل صاحب کے فرمودات کے بارے میں ایک سوال : نکاح کی عمر کو کہاں پہنچنا ہے ؟؟؟

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : عادل سہیل
رانا عمار صاحب کے فرمودات کے بارے میں کچھ معلومات اور ان سے کچھ سوالات

عادل سہیل صاحب کے فرمودات کے بارے میں ایک سوال : نکاح کی عمر کو کہاں پہنچنا ہے، شادی کی عمر marriageable age کیا ہے ؟؟؟

Tahir ul Qadri :
اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے۔

Ahmed Ali : اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر ان میں ہوشیاری دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو اور انصاف کی حد سے تجاوز کر کے یتیموں کا مال نہ کھا جاؤ اور ان کے بڑے ہونے کے ڈر سے ان کا مال جلدی نہ کھاؤ اور جسے ضرورت نہ ہو تو وہ یتیم کے مال سے بچے او رجو حاجت مند ہو تو مناسب مقدار کھالے پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کر و تو اس پر گواہ بنا لو اور حساب لینے کے لیے الله کافی ہے۔

Ahmed Raza Khan : اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے قابل ہوں تو اگر تم ان کی سمجھ ٹھیک دیکھو تو ان کے مال انہیں سپرد کردو اور انہیں نہ کھاؤ حد سے بڑھ کر اور اس جلدی میں کہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں اور جسے حاجت نہ ہو وہ بچتا رہے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدر مناسب کھائے، پھر جب تم ان کے مال انہیں سپرد کرو تو ان پر گواہ کرلو، اور اللہ کافی ہے حساب لینے کو۔

Shabbir Ahmed : اور جانچتے پرکھتے رہو یتیموں کو یہاں تک کہ جب پہنچ جائیں وہ نکاح کی عمر کو پھر اگر پاؤ تم ان میں عقل کی پختگی تو دے دو ان کو مال اُن کے اور نہ کھاؤ اس مال کو فضول خرچی کر کے جلدی جلدی کہ کہیں بڑے ہوجائیں (اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے لگیں) اور جو ہو آسودہ حال اسے چاہیے کہ بچ کر رہے (اُن کے مال سے) اور جو ہو غریب تو اُسے چاہیے کہ کھائے جائز طریقے سے۔ پھر جب حوالے کرنے لگو اُن کو اُن کے مال تو گواہ بنالو اُن پر اور کافی ہے اللہ حساب لینے والا۔

Fateh Muhammad Jalandhary : اور یتمیوں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور حقیقت میں تو اللہ ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔

Mehmood Al Hassan : اور سدھاتے رہو یتیموں کو جب تک پہنچیں نکاح کی عمر کو پھر اگر دیکھو ان میں ہوشیاری تو حوالہ کر دو ان کے مال ان کو اور کھا نہ جاؤ یتیموں کا مال ضرورت سے زیادہ اور حاجت سے پہلے کہ یہ بڑے نہ ہو جائیں اور جس کو حاجت نہ ہو تو مال یتیم سے بچتا رہے اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Abul Ala Maududi : اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں۔ پھر اگر تم اُن کے اندر اہلیت پاؤ تو اُن کے مال اُن کے حوالے کر دو۔ ایسا کبھی نہ کرنا کہ حد انصاف سے تجاوز کر کے اِس خوف سے اُن کے مال جلدی جلدی کھا جاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Literal : And test the orphans until when they reached the marriage, so if you perceived from them correct guidance , so pay to them their properties/possessions and do not eat it excess of the limit/extravagance hastening that they become old, and who was/is rich, so he should refrain/restrict (E) and who was/is poor, so he should eat with the kindness , so if you paid to them their properties/possessions, so call a witness on them and (it is) enough with God counting/calculating.

Yusuf Ali : Make trial of orphans until they reach the age of marriage; if then ye find sound judgment in them, release their property to them; but consume it not wastefully, nor in haste against their growing up. If the guardian is well-off, Let him claim no remuneration, but if he is poor, let him have for himself what is just and reasonable. When ye release their property to them, take witnesses in their presence: But all-sufficient is Allah in taking account.

Pickthal : Prove orphans till they reach the marriageable age; then, if ye find them of sound judgment, deliver over unto them their fortune; and devour it not by squandering and in haste lest they should grow up Whoso (of the guardians) is rich, let him abstain generously (from taking of the property of orphans); and whoso is poor let him take thereof in reason (for his guardianship). And when ye deliver up their fortune unto orphans, have (the transaction) witnessed in their presence. Allah sufficeth as a Reckoner.

Arberry : Test well the orphans, until they reach the age of marrying; then, if you perceive in them right judgment, deliver to them their property; consume it not wastefully and hastily ere they are grown. If any man is rich, let him be abstinent; if poor, let him consume in reason. And when you deliver to them their property, take witnesses over them; God suffices for a reckoner.

Shakir : And test the orphans until they attain puberty; then if you find in them maturity of intellect, make over to them their property, and do not consume it extravagantly and hastily, lest they attain to full age; and whoever is rich, let him abstain altogether, and whoever is poor, let him eat reasonably; then when you make over to them their property, call witnesses in their presence; and Allah is enough as a Reckoner.

Sarwar : Before returning orphan's property to them, make sure that they have reached maturity. Do not consume their property wastefully until such a time. The rich (guardian) should not take any of his ward's property. However, a poor (guardian) may use a reasonable portion. When you return their property, make sure you have witness. God is a perfect in taking accounts.

H/K/Saheeh : And test the orphans [in their abilities] until they reach marriageable age. Then if you perceive in them sound judgement, release their property to them. And do not consume it excessively and quickly, [anticipating] that they will grow up. And whoever, [when acting as guardian], is self-sufficient should refrain [from taking a fee]; and whoever is poor let him take according to what is acceptable. Then when you release their property to them, bring witnesses upon them. And sufficient is Allah as Accountant.

Malik : Observe the orphans through testing their abilities until they reach the age of marriage, then if you find them capable of sound judgment, hand over to them their property; and do not consume it wastefully in haste lest they grow up to demand it. If the guardian is well-off, he should not take compensation from the orphan's property, but if he is poor let him take a just and reasonable remuneration. When you hand over their property to them, call in some witnesses; even though Allah is sufficient in taking the accountability.[6]

Maulana Ali** : And test the orphans until they reach the age of marriage. Then if you find in them maturity of intellect, make over to them their property, and consume it not extravagantly and hastily against their growing up. And whoever is rich, let him abstain, and whoever is poor let him consume reasonably. And when you make over to them their property, call witnesses in their presence. And Allah is enough as a Reckoner.

Free Minds : And test the orphans until they reach the age of marriage, then if you determine in them sound judgment, then give them their wealth, and do not deliberately consume it wastefully or quickly before they grow up. And whoever is rich, then let him not claim anything, and if he is poor then let him consume only in goodness. If you give to them their wealth, then make a witness for them, and God is enough for Reckoning.

Qaribullah : And test the orphans until they reach (the age of) marriage. If you perceive in them right judgment, hand over to them their wealth, and do not consume it wastefully, nor hastily before they are grown. And whosoever is rich let him abstain, if poor, let him consume with kindness. When you hand over to them their wealth, take witness over them; it is sufficient that Allah is the Reckoner.

George Sale : And examine the orphans until they attain the age of marriage: But if ye perceive they are able to manage their affairs well, deliver their substance unto them; and waste it not extravagantly, or hastily, because they grow up. Let him who is rich abstain entirely from the orphans estates; and let him who is poor take thereof according to what shall be reasonable. And when ye deliver their substance unto them, call witnesses thereof in their presence: God taketh sufficient account of your actions.

JM Rodwell : Because they are growing up. And let the rich guardian not even touch it; and let him who is poor use it for his support (eat of it) with discretion. And when ye make over their substance to them, then take witnesses in their presence: God also maketh a su

Asad : And test the orphans [in your charge] until they reach a marriageable age; then, if you find them to be mature of mind, hand over to them their possessions; and do not consume them by wasteful spending, and in haste, ere they grow up. And let him who is rich abstain entirely [from his ward's property]; and let him who is poor partake thereof in a fair manner. And when you hand over to them their possessions, let there be witnesses on their behalf - although none can take count as God doess.

Khalifa** : You shall test the orphans when they reach puberty. As soon as you find them mature enough, give them their property. Do not consume it extravagantly in a hurry, before they grow up. The rich guardian shall not charge any wage, but the poor guardian may charge equitably. When you give them their properties, you shall have witnesses. GOD suffices as Reckoner.

Hilali/Khan** : And try orphans (as regards their intelligence) until they reach the age of marriage; if then you find sound judgement in them, release their property to them, but consume it not wastefully, and hastily fearing that they should grow up, and whoever amongst guardians is rich, he should take no wages, but if he is poor, let him have for himself what is just and reasonable (according to his work). And when you release their property to them, take witness in their presence; and Allah is AllSufficient in taking account.

QXP Shabbir Ahemd** : Train and educate the orphans well. When they reach the age of marriage, and attain sound judgment, release their property to them. The marriageable age shall mean attainment of physical and mental maturity when one can legally make a solemn contract (4:21). Do not consume their property or let it be wasted. Nor hastily spend it fearing that they will come of age. If the guardian is well off, let him claim no compensation for the management of the property. But, if he is poor he may have a just and reasonable amount. When you are releasing the property to the orphans be sure to take witnesses. Remember that Allah is Competent in taking account.

http://www.openburhan.net/ob.php?sid=4&vid=6

عادل سہیل صاحب کے فرمودات کے بارے میں ایک سوال : نکاح ہو سکنے کی عمر کیا ہے ؟؟؟

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : عادل سہیل
اس فرمان مبارک میں بڑی ہی وضاحت سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ یتیموں کو اس وقت اپنی زیر نگرای رکھو اور انہیں آزماتے رہو جب تک کہ وہ نکاح ہو سکنے کی عمر تک پہنچ جائیں ، اور جب وہ اس عمر تک پہنچ جائیں تو پھر یہ دیکھو کہ وہ سمجھ داری اور عقل مندی میں پختہ بھی ہوئے ہیں یا صرف جسمانی طور پر نکاح کے قابل ہو ئے ہیں ، اگر تو وہ سمجھ داری اور عقل مندی میں اس پختہ ہو چکے ہوں تو پھر ان کے اموال ان کے سپرد کر دو،
قارئین کرام ، غور فرمایے ، اس آیت مبارکہ میں دو کیفیات کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے ،
(1)
نکاح کی عمر
(2)
سمجھ داری اور عقل مندی کی پختگی ،
رانا صاحب ، کیا ہمیں یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ان دونوں کیفیات کو الگ الگ کیوں بیان فرمایا گیا ؟؟؟
قارئین کرام ، اس آیت مبارکہ میں کہیں سے کسی بھی طور نکاح کی عمر کی کو ئی حد مقرر نہیں ہوتی ،
کوئی رانا صاحب سے پوچھے تو ، کہ جناب قران حکیم میں سے یہ بھی تو بتا دیجیے کہ نکاح کی عمر کیا ہوتی ہے؟؟؟

نکاح ہو سکنے کی عمر کیا ہے ؟؟؟

از قلم: عادل سہیل

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شکاری
حیاکم اللہ و بارک فیکم عادل سہیل بھائی۔
اللہ تعالیٰ‌آپ کے علم و عمل میں‌خوب برکتیں‌ عطا فرمائیں۔ آمین۔۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا، شکاری بھائی ، و رزقک احسن مما دعوتَ لی ، و السلام علیکم۔

از قلم: عادل سہیل

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar

نکاح ہو سکنے کی عمر کیا ہے ؟؟؟

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
محترم قارئین ، ایک دفعہ پھر دیکھ لیجیے کہ رانا صاحب کو یا تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ان کے منھج و مسلک کی غلطیاں واضح ہو چکی ہیں ، یا پھر سمجھنا ہی نہیں چاہتے اور یا پھر جان بوجھ کر بھی انجان بن جاتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنت مبارکہ کی دُشمنی کی رو میں بہتے چلے جارہے ہیں ، ان کو جواب دیا جا چکا ہے کہ :::

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : عادل سہیل
جوابا کہتا ہوں ، جناب رانا صاحب ہمیں تو اس سوال کا جواب ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ میں بڑی تفصیل کے ساتھ میسر ہے ، و للہ الحمد،
آپ ہمیں قران حکیم میں سے اس کا جواب عنایت فرمایے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

میرے اسی مراسلے میں رانا صاحب کے لیے بہت سے سوالات ہیں ،
میں پہلے بھی بہت سے مقامات پر ان سے کہہ چکا ہوں اور ایک دفعہ پھر کہتا ہوں کہ اگر آپ کے پاس کچھ بھی علمی اور اخلاقی جرات ہے تو میرے سوالات کے جواب دیجیے ، جب تک آپ ان سوالات کے کاپی پیسٹ کیے بغیر ، لوگوں کی باتوں کی کاٹ چھانٹ کیے بغیر ، اپنے الفاظ میں اور انسانوں کی سمجھ میں آ سکنے والے اسلوب میں ، اسلامی علوم اور اخلاقیات کے مطابق کوئی جواب نہیں دیتے ، آپ کو سوال کرنے کا کوئی حق نہیں ، اس لیے براہ مہربانی میرے تھریڈ کو آلودہ کرنے سے باز رہیے ، بات کرنی ہے تو اس طرح کیجیے جس طرح آپ کو ابھی ابھی اور بار بار کہا جا چکا ہے ، ورنہ یہ تو یقینی ہو ہی جائے گا کہ آپ اخلاقی طور پر بھی قران حکیم کے خلاف ہی ہیں ۔ والسلام علی من اتبع الھدیٰ۔

از قلم: rana ammar mazhar

بچہ نکاح کی عمر کو کب پہنچتا ہے ؟؟؟

کیا قرآن کے مطابق شادی یا نکاح کی عمر چھ سال ہے ؟؟؟

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : عادل سہیل
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
محترم قارئین ، ایک دفعہ پھر دیکھ لیجیے کہ رانا صاحب کو یا تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ان کے منھج و مسلک کی غلطیاں واضح ہو چکی ہیں ، یا پھر سمجھنا ہی نہیں چاہتے اور یا پھر جان بوجھ کر بھی انجان بن جاتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنت مبارکہ کی دُشمنی کی رو میں بہتے چلے جارہے ہیں ، ان کو جواب دیا جا چکا ہے کہ :::

میرے اسی مراسلے میں رانا صاحب کے لیے بہت سے سوالات ہیں ،
میں پہلے بھی بہت سے مقامات پر ان سے کہہ چکا ہوں اور ایک دفعہ پھر کہتا ہوں کہ اگر آپ کے پاس کچھ بھی علمی اور اخلاقی جرات ہے تو میرے سوالات کے جواب دیجیے ، جب تک آپ ان سوالات کے کاپی پیسٹ کیے بغیر ، لوگوں کی باتوں کی کاٹ چھانٹ کیے بغیر ، اپنے الفاظ میں اور انسانوں کی سمجھ میں آ سکنے والے اسلوب میں ، اسلامی علوم اور اخلاقیات کے مطابق کوئی جواب نہیں دیتے ، آپ کو سوال کرنے کا کوئی حق نہیں ، اس لیے براہ مہربانی میرے تھریڈ کو آلودہ کرنے سے باز رہیے ، بات کرنی ہے تو اس طرح کیجیے جس طرح آپ کو ابھی ابھی اور بار بار کہا جا چکا ہے ، ورنہ یہ تو یقینی ہو ہی جائے گا کہ آپ اخلاقی طور پر بھی قران حکیم کے خلاف ہی ہیں ۔ والسلام علی من اتبع الھدیٰ۔

اپنے الفاظ میں اور انسانوں کی سمجھ میں آ سکنے والے اسلوب میں بتائیں، کیا قرآن کے مطابق شادی یا نکاح کی عمر چھ سال ہے ؟؟؟

بلوغت کے بغیر "نکاح کی عمر کو پہنچنا" کہاں ہے ؟؟؟

Ahmed Ali :
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر ان میں ہوشیاری دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو اور انصاف کی حد سے تجاوز کر کے یتیموں کا مال نہ کھا جاؤ اور ان کے بڑے ہونے کے ڈر سے ان کا مال جلدی نہ کھاؤ اور جسے ضرورت نہ ہو تو وہ یتیم کے مال سے بچے او رجو حاجت مند ہو تو مناسب مقدار کھالے پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کر و تو اس پر گواہ بنا لو اور حساب لینے کے لیے الله کافی ہے۔

نکاح کی عمر کو کہاں پہنچنا ہے، شادی کی عمر marriageable age کیا ہے ؟؟؟

از قلم: ابو احمد

ویسے تو آپ کا سوال عادل سہیل بھائی سے ہے اور وہ ماشااللہ آپ کو تسلی بخش جواب دے رہے جس سے آپ کی تسلی تو بے شک نہیں ہو رہی مگر میرے جیسے کئی کم علم دوستوں کی تسلی ضرور ہو جاتی ہے۔ مگر میں بھی اس نیک کام میں تھوڑا سا حصہ ڈالنا چاہتا ہوں۔

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar

اپنے الفاظ میں اور انسانوں کی سمجھ میں آ سکنے والے اسلوب میں بتائیں، کیا قرآن کے مطابق شادی یا نکاح کی عمر چھ سال ہے ؟؟؟

بھائی بے شک آپ کی نظر میں حدیث رسول صلی اللہ و آلہ وسلم کی کوئی اہمیت نہیں مگر آپ کو یہ تو سوچنا چاہیئے کہ جن سے آپ سوال کر رہے ان کی نظر میں حدیث رسول صلی اللہ و آلہ وسلم کی آئینی حثیت مسلم ہے۔ اس لئے ایسے لوگوں سے بحث کرتے ہوئے بے جا طور پر صرف قرآن پر زور دینا آپ کو زیب نہیں دیتا ۔

اپنے الفاظ میں اور انسانوں کی سمجھ میں آ سکنے والے اسلوب میں بتائیں، کیا قرآن کے مطابق چھ سال کی عمر میں شادی یا نکاح کرنے کی ممانعت ہے ؟؟؟ اگر ہے تو حوالہ ذرا تفصیل سے دیں کیونکہ میرے جیسے کم فہم کو آپ کے حوالوں سے یہی پتہ نہیں چلتا کہ آپ کہ کیا رہے ہیں اور کہنا کیا چاہتے ہیں۔ (اس کو طنز بالکل نہ سمجھیں میں سنجیدگی سے بتا رہا ہوں کہ آپ کی اکثر پوسٹوں کو کئی کئی دفعہ پڑھنے پر بھی کچھ پلے نہیں پڑتا۔ آپ پوسٹ لکھتے وقت کم از کم میرے جیسے کم فہم لوگوں کا خیال تو رکھا کریں۔)

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar

بلوغت کے بغیر "نکاح کی عمر کو پہنچنا" کہاں ہے ؟؟؟
نکاح کی عمر کو کہاں پہنچنا ہے، شادی کی عمر marriageable age کیا ہے ؟؟؟

پچھلی پوسٹوں میں واضح طور بتایا جا چکا ہے کیا آپ کی نظر میں آنے سے رہ گیا یا سمجھ میں نہیں آیا حالانکہ عام فہم الفاظ میں لکھا گیا ہے۔
اور آپ بھی تفصیل سے جانتے ہیں کہ آپ کے ماخذ کیا کیا ہیں اور آپ کے مخالفین کے ماخذ کیا کیا ہیں۔

از قلم: rana ammar mazhar

نکاح ہو سکنے کی عمر کیا ہے ؟؟؟

بچہ نکاح کی عمر کو کب پہنچتا ہے ؟؟؟

بلوغت کے بغیر "نکاح کی عمر کو پہنچنا" کہاں ہے ؟؟؟






حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ (4:6) : نکاح کے لیے بالغ ہونے کی شرط



اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : ابو احمد مراسلہ دیکھیں
اپنے الفاظ میں اور انسانوں کی سمجھ میں آ سکنے والے اسلوب میں بتائیں، کیا قرآن کے مطابق چھ سال کی عمر میں شادی یا نکاح کرنے کی ممانعت ہے ؟؟؟

حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ (4:6) : نکاح کے لیے بالغ ہونے کی شرط

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ ۚ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (24:58)
مومنو! تمہارے غلام لونڈیاں اور جو بچّے تم میں سے بلوغ کو نہیں پہنچے تین دفعہ یعنی (تین اوقات میں) تم سے اجازت لیا کریں۔ (ایک تو) نماز صبح سے پہلے اور (دوسرے گرمی کی دوپہر کو) جب تم کپڑے اتار دیتے ہو۔ اور تیسرے عشاء کی نماز کے بعد۔ (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے (کے) ہیں ان کے (آگے) پیچھے (یعنی دوسرے وقتوں میں) نہ تم پر کچھ گناہ ہے اور نہ ان پر۔ کہ کام کاج کے لئے ایک دوسرے کے پاس آتے رہتے ہو۔ اس طرح خدا اپنی آیتیں تم سے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور خدا بڑا علم والا اور بڑا حکمت والا ہے (24:58)
O ye who believe! let those whom your right hands possess, and the (children) among you who have not come of age ask your permission (before they come to your presence), on three occasions: before morning prayer; the while ye doff your clothes for the noonday heat; and after the late-night prayer: these are your three times of undress: outside those times it is not wrong for you or for them to move about attending to each other: Thus does Allah make clear the Signs to you: for Allah is full of knowledge and wisdom. (24:58)

وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (24:59)
اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں تو ان کو بھی اسی طرح اجازت لینی چاہیئے جس طرح ان سے اگلے (یعنی بڑے آدمی) اجازت حاصل کرتے رہے ہیں۔ اس طرح خدا تم سے اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے۔ اور خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے (24:59)
But when the children among you come of age, let them (also) ask for permission, as do those senior to them (in age): Thus does Allah make clear His Signs to you: for Allah is full of knowledge and wisdom. (24:59


لڑکیوں کے بالغ ہونے کی حد

No comments:

Post a Comment