Saturday, January 5, 2013

نابالغ صغیر بچوں کا نکاح

نابالغ صغیر بچوں کا نکاح

امام بخاری صاحب نے اپنے مجموعہ احاد یث صحیح بخاری کی کتاب النکاح میں ایک باب باندھا ہے جس کانمبر40اور عبارت یوں ہے کہ :
 
تزویج الصغارمن الکبار
 اس باب کی حدیث نمبر72یوں ہے کہ
:
ان النبی صلے اﷲ علیہ و سلم خطب عائشہ الی ابی بکر فقال لہ ابوبکر انما انا اخوک فقال انت اخی فی دین اللہ و کتابہٖ وھی لی حلال ۔

خلاصہ :
 حضورصلے اﷲ علیہ و سلم نے عائشہؓ کے ساتھ شادی کے لئے ابوبکر کو کہا تو ابوبکر نے کہا کہ میں تو آپ کا بھائی ہوں تو آپ نے فرمایا کہ تو میرا بھائی ہے اللہ کے دین اور کتاب کی رو سے اور عائشہ میرے لئے حلال ہے ۔

 تبصرہ:جناب معزز قارئین !
 بخاری صاحب نے اپنے ترجمۃ الباب یعنی عنوان میں جو فقہی قانون جوڑا ہے کہ صغیر بچی کی شادی بڑی عمر والے سے ہوسکتی ہے ۔
پہلے تو بخاری صاحب کی بنائی ہوئی یہ فقہ سراسر غلط ہے کیونکہ قرآن حکیم نے نکاح کی عمر بلوغت کو پہنچنا قرار دی ہوئی ہے ۔

 ملاحظہ فرمائیں !
وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا ۚ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا (4:6)

اور یتمیوں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔
وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ
اس آیت میں لفظ نکاح کو اللہ تعالیٰ نے بلوغت اور شعوری عمرکی جگہ استعمال کرکے نکاح کے معنی میں بلوغت کو اتنا لازم بنادیا ہے کہ گویا مترادف کردیا ہے یعنی نکاح اور بلوغت کو ہم معنی قرار دے دیا ہے تو اس کے بعد یہ نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم قرآن کے حکم کے خلاف نابالغ بچی کے ساتھ شادی کرے ۔

مزید غور فرمائیں کہ حدیث کے متن میں عائشہ کی صغیر سنی اور بچپن کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔
صرف یہ بات ہے کہ اس کے باپ سے اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنے کا مطالبہ کیا گیاہے ۔
اس سے گویا کہ بخاری صاحب یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ عائشہ کا صغیر ہونا نابالغ ہونا یہ کوئی اختلافی بات تو ہے ہی نہیں۔
عائشہ سے شادی قبل بلوغت صغیر سنی میں بخاری اسے مسلمات میں سے شمار کررہا ہے ۔
 جو
بخاری کی رسول اللہ پر ایک مزید افتراء  باندھنے کی جسارت ہے ۔
اور مزید یہ کہ حضرت صدیق اکبرؓ کا حضوؐر سے یہ کہنا کہ میں آپ کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں اس لئے عائشہ آپ کی بھتیجی ہوئی ۔
اس سے آپ کی شادی مناسب نہیں ۔
یہ بخاری صاحب کی گھڑی ہوئی بات ہے یا اس کے استادوں کی ۔
حضرت صدیق اکبرپر الزام ہے کہ وہ دینی بھائی اور نسلی بھائی میں بھی فرق کرنا نہیں جانتے تھے۔
ان میں اتنا بھی عقل اور شعور نہیں تھا کہ نظریاتی و فکری بھائی چارہ اور اخوت ایک الگ چیز ہے اور نسلی اخوت ایک الگ چیز ہے۔

میں یہاں صرف اتنا بتانا کافی سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ کی بی بی عائشہ سے شادی بیس سال کے لگ بھگ کی عمر میں ہوئی ہے۔
کیونکہ حکم قرآن کے مطابق بلوغت نکاح اسی عمر کو کہتے ہیں ۔
بخاری صاحب کی فقہ من گھڑت ، جھوٹی اور خلاف قرآن ہے جس میں اس نے خود
 رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم اور صدیق اکبرؓ پربھی قرآن مخالف ہونے کا الزام  لگایا ہے۔

از قلم : عزیزاللہ بوھیو
Azizullah Bohio

No comments:

Post a Comment