Wednesday, January 23, 2013

تفسیرمفتاح القرآن کا ایک مطالعہ (مخطوطہ ومطبوعہ اجزاء)



تفسیرمفتاح القرآن کا ایک مطالعہ (مخطوطہ ومطبوعہ اجزاء)

ڈاکٹرغطریف شہباز ندوی *

تفسیرمفتاح القرآن مؤلفہ علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ؒ بیسویں صدی میں انجام دیاگیاایک عظیم قرآنی کارنامہ ہے ۔یہ مقالہ اسی تفسیر کے معروضی تعارف پر مشتمل ہے ۔اس میں محاکمہ اورتجزیہ کی کوشش نہیں کی گئی ہے بس اس کے تعارف تک ہی محدودرہاگیاہے۔
تفسیرکا مادہ ف س رہے (
۱) جس کا مطلب ہے معنی ومفہوم کی وضاحت کرنااصطلاحاقرآن کریم کے معانی ومطالب کی توضیح وتشریح کو تفسیر یاعلم تفسیرکہتے ہیں۔اصول تفسیرمیں اصول فقہ ،اصول کلام اورعلوم عربیہ سب سے مددملتی ہے(۲)

تفسیرکی شرائط :
 اس کی شرائط میں سب سے پہلے تقوی ،تصحیح نیت اوراخلاص قلبی جیسی معنوی صفات شامل ہیں اس کے بعدعربی علوم ،ادب ،بلاغت ،نحووصرف ،لغت اوراسالیب قرآن کامطالعہ اورادب جاہلی ادب پر عبورہے ۔اِس کے علاوہ تفسیری روایات ،احادیث کے ذخیرہ سے گہری واقفیت وغیرہ شامل ہیں(
۳)۔تفسیرکی روایتی طورپر دوقسمیں کی جاتی ہیں تفسیربالرائے اورتفسیرماثور۔تفسیربالرائے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی عقل سے پہلے سے کوئی معنی ومفہوم متعین کرکے قرآنی الفاظ کو کھینچ تان کر اس کے مطابق کرنا ،یہ فعل حرام ہے ۔( ۴ )مگراس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ آدمی قرآن کے سلسلہ میں عقل سے کام لیناچھوڑدے اورغوروفکرنہ کرے ۔ایساسمجھناخودقرآن کے خلاف ہے جوعقل سے کام لینے اور غوروفکراورتدبرپرابھارتاہے ۔جیساکہ فرمایا: افلایتدبرون القرآن ام علی قلوبہم اقفالہا (۵)
تفسیرماثوروہ ہے جس میں تفسیری روایات ،اقوال صحابہ اور تابعین کے تفسیری اقوال اوررائیں نقل کی جاتی ہیں۔اورتفسیربالرائی المحمود(پسندیدہ )وہ ہے جس میں مفسرماثورتفسیری اقوال کے ساتھ اپنی رائے بھی بیان کردیتاہے یامختلف اقوال کا محاکمہ کرکے ترجیحی رائے ظاہرکرتاہے جیساکہ امام ابن جریرطبریؒ ،اورابن کثیرؒ نیز امام رازیؒ تفسیرکبیرمیں بہت سی جگہوں پر کرتے ہیں۔(
۶)

اردوتفسیریں:
 تفسیرکا اصل اوراوریجنل ذخیرہ عربی زبان میں ہے مگراس کے ساتھ ہی اردومیں بھی تفسیراورعلوم قرآن پر بڑاکام ہواہے ۔ خاص کربیسویں صدی میں۔اردومیں لکھی گئی اہم اورنمایاں تفسیروں میں تفسیرعثمانی،ترجمان القرآن ،بیان القرآن،تفسیرثنائی ،معارف القرآن ،تفسیر ماجدی ،تدبرقرآن ،تفہیم القرآن اورتفسیردعوۃ القرآن وغیرہ شامل ہیں۔جبکہ اردوترجموں میں سب سے اہم ترجمہ شاہ عبدالقادردہلویؒ کا ہے جس کوبجاطورپر ام التراجم کہاجاتاہے ۔ان تفاسیرمیں سے ہرایک تفسیرکی اپنی خصوصیات وامتیازات ہیں مگرتفسیرمفتاح القرآن جس کا یہاں مطالعہ پیش نظرہے ان تمام تفاسیر پر یک گونہ فوقیت رکھتی ہے ۔اس کے اندربعض وہ خصوصیات ہیں جواسے پورے تفسیری ذخیرہ میں ممتاز کرتی ہیں۔

مفسرکا تعارف:
 تفسیرمفتاح القرآن کے مؤلف علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ؒ (
۳۲۹۱ء۔۵۰۰۲ء) نے میرٹھ شہر میں علوم عربیہ واسلامیہ کی تحصیل مولاناشاہ اخترخاں امروہوی ؒ سے حاصل کی ۔اوردورۂحدیث ازہرہند دارالعلوم دیوبندسے کیا،جہاں انہوں نے شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنی ؒ ،مولانافخرالحسن مرادآبادیؒ ،علامہ ابراہیم بلیاوی ؒ اورشیخ الادب مولانااعزازعلی امروہویؒ جیسے اساطین علم وعمل سے شرف تلمذحاصل کیا۔ علامہ قرآ ن وحدیث ،فقہ اورعلوم عربیت میں مطلق امامت کے درجہ پر فائزتھے ۔انہوں نے ساری عمردارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤاورمدرسۃ الاصلاح سرائمیر سمیت مختلف بڑے عربی مدارس میں بخاری سمیت حدیث کی اہم کتابوں کا درس دیا،انہوں نے بخاری اورمسنداحمدبن حنبل کی شرحیں بھی لکھی ہیں۔ساری زندگی قرآن پرغوروفکراورمطالعہ وتحقیق میں گزاری اوراس دوربلاخیز میں شہرت وناموری کے ہرپہلوسے کٹ کراورزخارف دنیاسے مونھ موڑکرگوشہ نشینی کی زندگی گزاری ۔تفسیرمفتاح القرآن ان کی ساری عمرکے مطالعہ وتدبرکا نچوڑہے ۔(۷)۔اگلی سطورمیں ہم تفسیرمفتاح القرآن پر روشنی ڈالتے ہیں،مقالہ میں کوشش کی جائے گی کہ یہ مطالعہ جامع ہو اور قاری کے سامنے اس تفسیرکی ایک مکمل تصویرآجائے۔
تفسیرمفتاح القرآن کی تصنیف کا آغاز علامہ میرٹھی ؒ نے 2شعبان 1384ھ میں کیاتھا اور25جمادی الثانی 1405ھ میں تقریبا 21سال کی مدت میں یہ تفسیرمکمل ہوئی ۔ابھی تک اس کے صرف چندہی اجزاء شائع ہوسکے ہیں ۔سورہ فاتحہ سے سورہ انعام تک الگ لگ اجزاء میں اوردرمیانِ تفسیرسے سورہ نورالگ شائع ہوئی ہے جس میں واقعہ افک کی تحقیق ہے ۔اس مطالعہ میں اس تفسیر کے مطبوعہ اجزاء کے ساتھ ہی اس کے مسودات کا حوالہ بھی آئے گا،کیونکہ یہ مسودات راقم الحروف کی تحویل میں ہیں اوراس کو ان کے مطالعہ کی سعادت حاصل ہے ۔اوروہ فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز کی جانب سے اس کی اشاعت کے لیے کوشاں ہے۔مطبوعہ اجزاء جومکتبہ ازہریہ رائدھنہ میرٹھ سے شائع ہوئے ہیں ،اب فاؤنڈیشن میں ہی دستیا ب ہیں۔راقم کی نظرمیں اس تفسیرکے امتیازی اورنمایاں پہلودرج ذیل ہیں:

تفسیری روایات کا تحقیقی مطالعہ :
یہ اس تفسیرکا وہ علمی پہلوہے جس میں یہ تفسیرتمام قدیم وجدیدعربی واردوتفاسیرپر فوقیت رکھتی ہے ۔اوراس کی وجہ یہ ہے کہ مفسرگرامی علوم قرآن کے ساتھ ہی علوم حدیث کے بھی امام تھے ۔اورعلم الحدیث پر ان کو اتناعبورحاصل تھا کہ انہوں نے صحیحین پر بھی نقدکیاہے ۔مسلم پر توانہوں نے تنقیدی کام شروع ہی کیاتھا کہ اللہ تعالی ٰکے ہاں سے بلاواآگیا،مگربخاری پر انہوں نے عربی میں اپنی شرح بخاری موسوم بہ تحفۃ القاری بشرح صحیح البخاری میں تفیصل سے اوراردومیں اختصارکے ساتھ اپنے تنقیدی مطالعہ کو دوجلدوں میں شائع کردیا ہے ۔ (
۸) اصل میں تفسیری روایات کا بیشترحصہ بے سروپاباتوں پر مشتمل ہے ،اس میں مرفوع احادیث کاحصہ بہت کم ہے ۔یہاں تک بخاری میں تفسیرقرآن کے باب میں جو احادیث وآثارجمع کیے ہیں ،ان میں امام بخاری نے تقریبامکمل طورپر علی بن ابی طلحہ ،نافع اور دوسرے راویوں کے تفسیری اقوال پر اعتمادکرلیاہے۔امام احمدکا مشہورقول ہے کہ : تین چیزیں ایسی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں : ثلاثۃ لااصل لہا: المغازی والملاحم والتفسیر۔ابن تیمیہؒ نے امام احمدکے قول کی توجیہ یہ کی ہے ای لااسنادلہا،اوراس کے بعدلکھاہے لان الغالب علیہا المراسیل کہ تفسیری روایات کا بیشترحصہ مرسلات پر مشتمل ہے ۔(۹) لیکن بہت ساری تفسیری روایات جو حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں اور یہاں تک کہ بخاری ومسلم میں بھی جن کو مفسرین بالعموم نقل کرتے آرہے ہیں ان میں سے بھی اکثروبیشترغلط سلط رواتیں ہیں جیساکہ علامہ نے تفصیل سے اپنی تفسیرکے مختلف متعلقہ مقامات پر ہرایک روایت کاتفصیلی مطالعہ کرکے ثابت ومحقق کردیاہے۔ تفسیری روایات کے تحقیقی مطالعہ وتجزیہ کے اس کام کو مزیدآگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

الفاظ قرآنی کی تحقیق :
 مفسرگرامی الفاظ قرآنی کی مختصرتحقیق کرتے جاتے ہیں۔اوربہتیری جگہوں پر انہوں نے قرآنی نظائراوراستعمالات کو بھی جمع کردیاہے۔مثال کے طورپر ملاحظہ ہو حروف مقطعات کی بحث ۔۔۔(
۰۱) اسی طرح صبرکی تفسیرجہاں کرتے ہیں تواس کے متعدد نظائرجمع کردیتے ہیں۔(مثال کے طورپرملاحظہ ہوصفحہ 396مفتاح القرآن )اورنمونہ کے طورپر درج ذیل مثال ملاحظہ ہو:
’’ ننجیجک اس آیت میں نجوۃ سے ماخوذ ہے جو اونچی جگہ کے معنی میں ہے،لسان العرب میں ہے ’’قولہ تعالی ’’فالیوم ننجیک ببدنک ‘‘ای نجعلک فوق نجوۃ من الارض فنظہرک اونلقیک علیہا لتعرف لانہ قال ببدنک ولم یقل بروحک،قال الزجاج معناہ نلقیک عریانالتکون لکن خلفک عبرۃ ‘‘ پس ببدنک کا مطلب یہ ہے کہ ہم تجھے ننگا دھڑنگااونچی جگہ ڈال دیں گے ۔اوربعض اہل علم نے اس کا مطلب یہ بتایاہے کہ یہ موت وہلاکت سے کنایہ ہے کیونکہ زندہ شخص پانی سے تیرکراورہاتھ پاؤں مارکرباہرنکلتاہے اورمردہ شخص کا بدن پانی پر تیرتارہتاہے پانی کی موجیں اس کے بے حس وحرکت بدن کو اِدہراُدھربھی منتقل کردیتی ہیں ‘‘(لسا ن العر ب ،مادہ نجا) (
۱۱)
وان یمسسک اللہ بضرفلاکاشف لہ الاہو( یونس : 107 )میں مس کی تشریح میں لکھاہے :
واضح رہے کہ مس کے معنی ہیں کسی چیز کو چھونایعنی کسی شخص یاکسی چیز یاکسی حالت کا کسی کو بلاواسطہ لگ جانااوراس سے متصل ہوجانا،اسی لیے مردوعورت کے جماع کو بھی مس کہاجاتاہے ،سورۃ البقرۃ ع
۳ اورسورۃ الاحزاب ع ۶ میں یہ لفظ اسی معنی میں آیاہے ۔جہاں بیوی کو جماع سے پہلے طلاق دینے کاذکرہے ۔آسیب زدگی ودیوانگی کوبھی مس کہاجاتاہے ۔سورۃ البقرہ میں ہے ،الذی یتخبطہ الشیطان من المس ۔(275 )آیات قرآنیہ کا تتبع کرنے سے ثابت ہواکہ فعل مس کی اسنادانسان ،شیطان ،حسنہ ،نار،عذاب ،شر،ضراء،ضُر،بأساء کی طرف ہوئی ہے ۔ اوردوآیتوں میں اس کی اسناد اللہ تعالی نے خاص اپنی ذات کی طرف فرمائی ہے ۔ارشادہے کہ ولاتمسوہابسوء فیاخذکم عذاب الیم (الاعراف: 73 ) ان تمسسکم حسنہ تسوۂم (آل عمران :120) ذوقوامس سقر(القمر: 28 ) لن تمسناالنارالاایامامعدودۃ (البقرہ : 80)لیمسنکم مناعذاب الیم (یٰسین:18) انی اخاف ان یمسک عذا ب من الرحمن (مریم : 45 ) واذا مسہ الشرفذودعاء عریض (حم السجدۃ :51 ) واذا اذقنا الناس رحمۃ من بعدضراء مستہم (یونس :21) واذا مس الانسان الضُردعانا(یونس :12 ) مستہم الباساء والضراء (البقرۃ :214 ) اوروہ دونوںآیتیں جن میں فعل مس کی اسنادحق تعالی ٰ کی طرف ہے ۔یہ ہیں وان یمسسک اللہ بضرفلاکاشف لہ الاہووان یمسسک بخیرفہوعلی کل شیء قدیر(الانعام: 17 )وان یمسسک اللہ بضرفلاکاشف لہ الاہووان یردک بخیر فلا راد لفضلہ (یونس :107 ) (آیات کے نمبرمصنفِ مقالہ نے ڈالے ہیں )ان دونوںآیتوں میں خطاب نبی کریم ﷺ سے ہے ۔اِ سناد سے واضح ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب پاک ﷺ سے ہرحال میں بلاواسطہ تعلق ہے۔مضرت کی حالت میں بھی اورمنفعت کی حالت میں بھی ۔ اس تعلق کی عظمت کاہم صرف احساس ہی کرسکتے ہیں مگراس کی شرح وتوضیح سے ہم قطعاعاجزہیں۔البتہ تقریباللفہم ایک مثال بیان کرتا ہوں۔بسااوقات بتقاضائے محبت ایک محب صادق اپنے ہاتھوں سے اپنے محبوب کی آرائش وزیبائش کرتاہے۔اس کے سرورخ پر عطر لگادیتاہے،اُسے دل پسندوفاخرلباس پہنادیتاہے۔اللہ کا اپنے حبیب ﷺ کو خیرکے ساتھ چھونااسی قبیل سے سمجھ لیجئے ۔اورکبھی محب اپنے محبوب کو چھیڑکرلطف اٹھاتاہے اس کے جسم میں ہلکی سی چٹکی لے کریاگدگدی کرکے اُسے ایک لذیذسی تکلیف پہنچاتاہے حالانکہ واقعی تکلیف پہنچانااسے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں ہوتا۔اللہ تعالی ٰ کا اپنے حبیب ﷺ کوضُرکے ساتھ چھونا کچھ اسی انداز کا ہوگا۔بہرکیف اللہ تعالی کا آپؐ سے بلاواسطہ تعلق تھا خواہ آپ ؐ کو کسی ضُرسے سابقہ پڑتایاکوئی خیرآپ پر نثارہوتی فرق یہ تھاکہ آپ کو ضُرپہنچانامقصودحق نہ تھا اورخیرسے نوازنا مقصودومرادتھابس اس مقام پر اس سے زایدلکھنے کی نہ صلاحیت ہے نہ طاقت ۔اللہم صل علی رسولک وحبیبک وبارک وسلم (۲۱)

صحیح احادیث سے استفادہ :
 مفسرصحیح احادیث سے استفادہ اوراستدلال ناگزیرسمجھتے ہیں ۔مثلاسیطوقون مابخلوابہ یوم القیامۃ(آل عمران : 180) کی تفسیرمیں حضرت ابوہریرۃ سے مروی حدیث نقل کی ہے من آتاہ اللہ مالافلم یؤد زکاتہ مثل لہ شجاعا اقرع لہ زبیبتان یطوقہ یوم القیامۃ یاخذبلہزمتیہ یعنی شدقیہ یقول انامالک اناکنزک(اخرجہ البخاری فی صحیحہ عن عبدالرحمن بن عبداللہ بک دینارعن ابیہ عن صالح عن ابی ہریرۃؓ واخرجہ ابن حبان ،اورامام احمدونسائی نے بھی اسی مضمون کی حدیثِ مرفوع روایت کی ہے۔(
۳۱) یعنی جو شخص دنیامیں زکاۃ ادانہ کرے توقیامت کے دن ایک گنجازہریلاسانپ اس کی گردن میں ڈال دیاجائے گاوہ دونوں جبڑوں سے اسے تھام کرکہے گامیں تیرامال ہوں میں تیراخزانہ ہوں۔ مگراحادیث کی صحت وسقم کے سلسلہ میں وہ سلف کی رایوں پر کلی اعتمادنہ کرکے خودہر حدیث وروایت کی تحقیق ضروری خیال کرتے ہیں اور اس کا انہوں نے پوری تفسیرمیں زبردست التزام کیاہے ۔

اسرائیلیات :
اسرائیلات سے یہ تفسیربالکل خالی ہے۔اورصحابہ وتابعین کے تفسیری اقوال میں بھی مفسرگرامی صرف انہیں کو قبول کرتے ہیں جو نقل صحیح کے علاوہ قرآن کے نظم اوراس کے سیاق وسباق میں فٹ بیٹھتے ہیں۔ورنہ ان کو بھی قطعی طورپر مستردکریتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں اس اصل پر عمل ہے کہ الحجۃ فیماروی الصحابی لافیمارأ(صحابی کی روایت حدیث میں حجت ہے مگراس کی رائے کی اتباع کرناضروری نہیں )۔
تفسیرکے ایک اسکالرڈاکٹرسیدشاہدعلی کے بقول وہ’’ضعیف وموضوع روایات جن کا چرچابہت عام ہے کی نشاندہی کرکے مضبوط دلیل کے ساتھ ان کا ردکرتے ہیں۔جیسے سورہ بقرہ میں قصۂآدم کے تحت لکھتے ہیں: ’’یہاںیہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالی ٰ کا ارشاد یاٰآدم اسکن انت وزوجک الجنۃ) البقرہ :25)صراحتہ یہ بتارہاہے کہ جنت میں سکونت پذیرہونے پہلے ہی حضرت آدم کی بیوی حواپیداکردی گئی تھیں،لہٰذا وہ روایات غلط ہیں جن میں یہ مذکورہے کہ آدم کا جنت میں تنہاجی نہیں لگتاتھااوروہ بے چین سے رہتے تھے تب ان کی تانیس وتالیف کے لیے حواکو جنت میں ہی پیداکیاگیا۔یہ اسرائیلی کہانیاں ہیں ،اس بارے میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں‘‘۔(
۴۱)

قدیم وجدیدمفسرین سے استفادہ :
 مفسرگرامی قدیم مفسرین میں امام رازی ،زمخشری ،ابوحیان اندلسی اورابومسلم اصفہانی سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اوراس بارے میں وہ کسی مسلکی ومشربی تعصب سے کام نہیں لیتے زمخشری اورابومسلم اصفہانی دونوں معتزلی ہیں مگردونوں کے ہاں فہم قرآن کا جو ذوق ہے وہ بہت بلندہے اس لیے ان دونوں سے وہ کافی استفادہ کرتے ہیں۔مگرمتاخرمفسرین پر وہ زیادہ ترنقدہی کرتے ہیں خاص کر تفسیرمدارک اورتفسیرخازن کے مصنفین پر ۔اردوترجموں کے بارے میں ان کی رایے اچھی نہ تھی مگرمولانااشرف علی تھانوی ؒ کے ترجمہ و تفسیر کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مولاناتھانوی کو نہ معلوم کیوں تفسیرروح المعانی بہت پسندآگئی تھی ۔جورطب ویابس اورفضولیات سے بھری ہوئی کتاب ہے ۔مجموعی لحاظ سے مولاناتھانوی کی تفسیربیان القرآن اردوتفسیروں میں پسندیدہ ترہونے کے لائق ہے۔(
۵۱)اسی طرح مولانا عبدالماجددریابادی کی خدمت قرآنی کو بھی سراہاہے (۶۱) مولاناحمیدالدین فراہیؒ سے بہت سی باتوں میں اختلاف رکھتے تھے مثال کے طورمولانافراہی کی تفسیرسورہ فیل پر انہوں نے علمی نقدکیااورسلف کی تفسیر کی تائیدکی ہے ۔تاہم ان کے بارے میں بلندکلمات لکھے ہیں: مولاناحمیدالدین فراہی ؒ صاحب فکروبصیرت عالم تھے ،۔۔۔بہرحال قرآن کریم ان کے فکرونظرکاموضوع تھا،موصوف نے یہی مبارک روح سرائے میر(اعظم گڑھ ) کی مشہورعربی درسگاہ مدرسۃ الاصلاح میں پھونک دی تھی ‘‘۔(۷۱)
اردوتفسیروں میں علامہ میرٹھی نے سرسید،چودھری غلام احمدپرویز کے علاوہ متعددمواقع پر تفہیم القرآن پر بھی نقدکیاہے ۔حالانکہ وہ مولانامودودی کے عصری فہم و بصیرت وعظمت کے قائل تھے مگر علوم اسلامیہ اورخاص کرتفسیروحدیث کے میدان میں ان کے چنداں قائل نہ تھے ۔(
۸۱)تفہیم اردومیں سب سے زیادہ شائع ہونے والی تفسیرہے کیونکہ اس کے پیچھے ایک منظم جماعت ہے۔اورجماعت کے اہل علم افسوس ہے کہ مولانامودودی کے نرے مقلدواقع ہوئے ہیں ۔مولانامودودی کی تفسیری غلطیاں عوام وخواص میں خوب پھیل رہی ہیں اورجماعت کے حلقہ میں مولاناپر ذراسے نقدکو بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔اس لیے علامہ ازہرمیرٹھی اس تفسیرپرعلمی نقدکو بہت ضروری سمجھتے تھے۔جماعت سے شروع میں علامہ کا تعلق بھی رہاہے ،مگرجب انہوں نے اپنی تفسیرکی پہلی جلدشائع کی ،اس وقت ان کا قیام حیدرآبادمیں تھا،توجماعت کے لوگوں نے نہ صرف اس کا برامنایابلکہ ان کا راستہ روکنے کی کوشش بھی کی ۔مگرعلامہ کبھی اس قسم کی کسی چیزکو خاطرمیں نہیں لائے ۔

آیات کا باہمی ربط :
مفسرگرامی نے سورہ وآیات کے باہمی ربط وتعلق پربھی جابجاروشنی ڈالی ہے ،مثال کے طورپر ’’سورہ نوراورسورہ مومنین کے باہمی ربط کو ان الفاظ میں تحریرکرتے ہیں:
سورۃ المومنین کے شروع میں مذکورہے کہ عفت وپارسائی سے متصف ہونامومن کی شان ہے اوریہ وصف ان چھ اوصاف میں سے ہے جو فوزوفلاح کا سبب ہیں اورسورۃ النورمیں عفت وپارسائی کی تاکیدمذکورہے اوراس کی حفاظت کی سلبی اورایجابی تدبیریں ارشادہوئی ہیں ۔ اس لحاظ سے سورۃ النورکابیشترحصہ سورۃ المومنین کی آیت والذین ہم لفروجہم حافظون الاعلی ازواجہم اوماملکت ایمانہم فانہم غیرملومین (المومنین:6)کی شرح وتفسیرہے ‘‘۔(
۹۱)

ہرسورہ مرتب ومنظم نازل ہوئی :
نظم قرآنی کے سلسلہ میں صاحب مفتاح القرآن کی رائے یہ ہے کہ ہرسورہ اسی ترتیب سے اتری ہے جس ترتیب سے وہ درج مصحف ہے ۔ یہ توہواہے کہ کوئی سورہ پہلے نازل ہوئی ہو،اسے مصحف میں بعدمیں درج کیاگیاہو،مگرایسانہیں ہواکہ ایک ہی سورہ کی آیات میں تقدیم و تاخیر ہوگئی ہو۔نہ ہی ایساہواہے کہ کوئی آیت یاکوئی سورہ کئی بارنازل ہوئی ہو۔اس سلسلہ میں وہ لکھتے ہیں: (
۰۲)حق وصحیح بات یہ کہ دیگر دوسری سورتوں کی طرح سورہ آل عمران کی آیات بھی اسی ترتیب کے ساتھ نازل ہوئی تھیں جس ترتیب سے وہ درج مصحف ہیں۔بے شک قرآن کریم کی سورتوں میں زمانی ترتیب نہیں ہے ۔چنانچہ چارابتدائی سورتیں ،سورۃ البقرہ،وآل عمران وسورۃ النساء وسورۃ المائدہ مدنیہ ہیں پھرسورۃ الانعام وسورۃ الاعراف دونوں مکیہ ہیں ۔لیکن یقین کرناچاہیے کہ ہرسورہ شریفہ کی آیات میں زمانی ترتیب ہے ۔ان میں عدم ترتیب کا خیال کرنایعنی یہ سمجھناکہ کسی سورہ میں بعدمیں نازل ہونے والی آیات پہلے اورپہلے نازل ہونے والی آیات بعدمیں درج مصحف ہیں بالکل غلط ہے ۔کسی سورۃ کی آیات میں ترتیب زمانی نہ ہونے کا غلط وبیہودہ خیال دراصل اہل رفض کا تراشیدہ ہے ۔خاص مقصدیعنی صحابہ کرام کو مطعون کرناان کے پیش نظرتھا ۔غیرمحتاط راویوں نے یاتقیہ اختیارکرکے رافضیوں نے ہی اہل سنت میں اس خیال کو قوت پہنچانے والی روایات پھیلائی ہیں‘‘۔ اس رائے کا اظہارعلامہ نے اوربھی متعددجگہوں میں کیاہے ۔سورہ آل عمران کی شان نزول میں مولانامودوی نے چارتقریریں قراردی ہیں۔(تفہیم القرآن ج۱،دیباچہ تفسیرآل عمران )اس پر نقدکرتے ہوئے علامہ میرٹھیؒ لکھتے ہیں:
سوال یہ ہے کہ یہ سورت حضورﷺ نے مسلمانوں کو کب تعلیم فرمائی تھی اورکاتبان وحی سے کب لکھوائی تھی ؟ کیاتکمیل نزول کے بعدسنہ
۹ھ میں جب وہ تقریرنازل ہوچکی ہے جسے مودودی صاحب اس سورہ کی تقریر۲بتارہے ہیں اورجس کا زمانہ نزول ۹ھ قراردے رہے ہیں ؟ یاجیسے جیسے اس کی آیات نازل ہوتی رہیںآپ صحابہؓ کو تلقین فرماتے اورکاتبان وحی سے لکھواتے رہے؟ یقیناپہلی صورت نہیں ہوئی نہ ہی کوئی شخص اس کا قائل ہے ،دوسری ہی صورت تھی یعنی جوآیات نازل ہوئی فوراان کی تلقین بھی فرمادی گئی اورکاتبان وحی سے وہ لکھوادی گئیں ۔پس مولانامودودی کے خیال مذکورکو مان لینے سے لازم آتاہے کہ اہل ایمان سنہ ۴،۵،۶،۷،اورسنہ۸ تک پورے پانچ سال تک اس سورہ کو اس طرح پڑھتے رہے ہوں کہ چوتھے رکوع کی دوآیتوں کے بعد’’قل یاٰاھل الکتاب تعالوالی کلمۃ سواء بینناوبینکم ( آل عمران :64)پڑھتے ہوں جواس سورہ کا ساتواں رکوع ہے اوراسی طرح لکھنے والوں نے لکھاہوپھرجب سنہ ۹ میں یہ آیات جنہیں مودوی صاحب نے اس سورت کی دوسری تقریر بتایاہے اتری ہوں تب حضورﷺ نے مسلمانوں کو بتایاہوکہ یہ سورہ جوتمہیں محفوظ ہے یاتمہارے پاس بصورت مکتوب موجودہے تواس میں فلاں آیت اورفلاں آیت کے درمیان یہ آیات اوریادکرلواورلکھ لو،یہ لازم آنے والی بات یقیناغلط ہے ۔لامحالہ جس بات سے یہ غلط بات لازم آرہی ہے وہی غلط ہے۔
دوسراسوال مودودیؒ صاحب کو یہ حل کرناچاہیے کہ ان کے قول کے مطابق اس سورہ کے چارحصے ہیں،پہلاحصہ اورتیسراحصہ توجنگ احد سے پہلے نازل ہواتھااورچوتھاحصہ جوختم سورہ تک ہے جنگ احدکے بعداتراتھا۔اس طرح سنہ
۴ تک اس کے تین حصے نازل ہوچکے تھے ،تومودودی صاحب ذرایہ بتائیں توسہی کہ ان تین حصوں کا سنہ ۹ یعنی وفدنجران کی آمدسے پہلے تک امتیازی نام کیاتھا،عرف صحابہ میں یہ آیات کس نام سے موسوم تھیں؟ظاہرہے کہ آل عمران تونام ہونہیں سکتاتھاکیوں کہ یہ نام تواُس آیت سے ماخوذ ہے جوچوتھے رکوع کی تیسری آیت ہے اوریہ آیت مودودی صاحب کی تحقیق میں سنہ ۹ میں وفدنجران کی آمدکے موقع پر اتری ہے؟۔‘‘(۱۲)

حروف مقطعات :
 حروف مقطعات کے بارے میں مفسرین کا عام رجحان یہ ہے کہ ان کے معانی اللہ تعالی ٰ ہی کومعلوم ہیں۔اوران کو معلوم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔مگربعض مفسرین نے اس کے برخلاف ان کے معانی متعین کرنے کی کوشش بھی فرمائی ہے ۔اردومیں مولاناثناء اللہ امرتسری ؒ نے اس کی کوشش کی ہے(
۲۲ )علامہ میرٹھی بھی اسی گروہ علماء سے تعلق رکھتے ہیں،انہوں نے حروف مقطعات میں ہرایک کے معنی ومفہوم کو متعین کیاہے اوران کو سورہ بقرہ کے شروع میں جمع کردیاہے ۔اوریہ بحث ان کی تفسیرمیں صفحہ ۹۲سے ۷۴ تک چلی گئی ہے ۔پوری بحث پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔اس بحث کے آغازکے چندجملے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
’’الٰم۔اِس سورہ شریفہ کا عنوان ہے ۔اوریہ ہی اس کے بعدکی سورہ یعنی سورہ آل عمران کا پھرسورہ العنکبوت وسورۃ الروم وسورۃ لقمان وسورۃ السجدہ کا بھی عنوان ہے ۔اس طرح اوربھی متعددسورتوں کے عناوین ایسے ہی رکھے گئے ہیں۔قرآن کریم میں اِ س انداز کی سورتین انتیس ہیں،ان میں سے دو۔سورۃ البقرہ وسورۃ آ ل عمران ۔مدنیہ ہیں اوربقیہ سب مکیہ ہیں ۔اِ ن عناوین کو اصطلاح میں حروف مقطعات کہتے ہیں ۔ کیونکہ ان کا تلفظ حروف ہجاء کے طورپر پوراپورااورالگ الگ کیاجاتاہے ۔اورحضورﷺ سے ان کی قرأت اسی طرح ثابت ومنقول ہے ۔ مثلا’الم ‘کو الف لام میم پڑھاجاتاہے ۔ان حروف مقطعات میں فی الواقع ان مضامین ومطالب کی طرف اشارات فرمائے گئے ہیں جن کا ان سورتوں میں ذکرہے ۔مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہمیں آغاز سورۂ بقرہ میں ان تمام حروف مقطعات کی کچھ توضیح ہدیہ ناظرین کردی جائے ۔ اولامیں یک حرفی سورتوں کا ذکرکروں گاپھردوحرفی پھرسہ حرفی پھرچارحرفی اورآخرمیں پنچ حرفی سورتوں کا ۔
یک حرفی سورتیں تین ہیں:
(
۱)صٰ:اس سورہ شریفہ کے آغاز میں ہی ذی اثرکافروں کا یہ قول نقل کیاگیاہے ۔امشواواصبرواعلی آلہتکم(ص:6 )(اپنے قدیم مسلک ومذہب پر چلتے رہواوراپنے معبودوں اوردیوتاؤں پر جمے رہو) یعنی حضورﷺ کی دعوت حق میں جدوجہدکو دیکھ کراُن لوگوں نے باہم یہ طے کیاتھا اور اپنے عوام کو یہ پیغا م دیاتھاکہ اس دعوتِ توحیدکو بالکل ناکام بنادو،صبروثبات اوراستقلال کے ساتھ اپنے دھرم پر قائم رہو۔اس کے بعد ان کی اورچندبے ہودہ وگستاخانہ باتیں نقل کرکے اورانہیں زجروتوبیخ فرماکراللہ تعالی ٰ نے حضورﷺ سے فرمایاہے : اصبرعلی مایقولون واذکر عبدناداؤدَ ذاالاید(ص:17)یعنی آپ ان کی باتوں میں پر صبرفرمائیں اوراپنے کام میں لگے رہیں اورتسلی کے لیے گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرتِ صبروثبات پیش نظررکھیں ۔اس کے بعدان حضرات کے صبروثبا ت اوراس کے مختلف مظاہرکو پیش کیاہے ۔پھرچوتھے رکوع کے آخرمیں حق پر صبرکرنے والوں اورباطل سے چمٹے رہنے والوں کے الگ الگ اورمتضاداخروی انجام کا ذکرکیاہے۔پھرپانچویں رکوع میں باطل پر صبرکرنے والوں کے سب سے بڑے لیڈراورپیشوایعنی ابلیس اوراس کے انجامِ بدکا ذکرہواہے ۔پس اس سورہ شریفہ کا مرکزی و بنیادی مضمون صبرہے اوراس میں نہایت بلیغ ودلنشین انداز سے صبرعلی الحق اختیارکرنے اورصبرعلی الباطل کوچھوڑدینے کی ترغیب وتاکید فرمائی گئی ہے۔اورحرف صادکو اس کا عنوان وعلم قراردے کرا سکے اس موضوع کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔
ق:ٰ اس سورہ شریفہ کا موضوع قیامت کے دن کا بیان ہے ،اِس یوم عظیم کے خاص خاص احوال واہوال ذکرفرمائے گئے ہیں۔اسی جہت سے حرفِ قاف کو اس کا عنوان وعلم بنایاگیاہے ۔
نٰ: یہ سورۃ القلم کا عنوان ہے ،نون عربی میں بڑی مچھلی کو کہتے ہیں،اس سورہ شریفہ میں مچھلی والے نبی یعنی حضرت ذوالنون یونس بن متیٰ علیہ السلام کا ذکرہے ۔نیز نون نعمۃ ونعیم کا ابتدائی حرف ہے یہ سورہ دورکوعوں پر مشتمل ہے ،پہلے رکوع کے آغازمیں خلق عظیم کی توفیق اوررسالت کی نعمت کا ذکرہے جوحضورﷺ کوعطافرمائی گئی ہے اوردوسرے رکوع کے شروع میںیہ ارشادہواہے کہ اہل تقوی کے لیے اللہ تعالی ٰ کے یہاں جنات النعیم ہیں ،اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام وعنوان حرف نون کو قراردیاگیاہے ۔‘‘الخ((
۳۲)
حروف مقطعات کی بحث کے اخیرمیں انہوں نے لکھاہے : ’’واضح رہے کہ حروف مقطعات کے متعلق یہ جوکچھ میں نے لکھاہے اس میں سے اکثرحصہ کے متعلق بحمداللہ مجھے شرح صدرحاصل ہوچکاہے ۔۔۔پھریہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ حروف مقطعات کوسورتوں کے عنوان وعلم کے طورپر استعمال کرناقرآن کریم کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اوراس کے معجزانہ تفردات میں سے ایک تفردہے ۔کلامِ عرب میں حروف مقطعات کواس طرح استعمال کرنے کی کوئی نظیرثابت نہیں ۔۔۔واقعہ یہ ہے کہ یہ اسلو ب نہ تونزولِ قرآن کے پہلے معروف تھانہ نزول قرآن کے وقت رائج تھا اس لیے اس کا متروک ہوجانابے معنی بات ہے ۔اوریہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے وقت صحیح وفصیح عربی میں ادائے مطالب کے جواسالیب رائج ومعروف تھے وہ تمام کے تما م بلااستثناء قرآن کریم کی بدولت صحیح وفصیح عربی زبان میں اب بھی معروف ورائج ہیں اورجب تک روئے زمین پر قرآن باقی ہے معروف ورائج رہیں گے ‘‘۔(
۴۲)

لغوی دقائق :
مفسرعربی زبان وادب ،لغت واشتقاق ،نحووصرف اوربلاغت میں بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں ،جس کی وجہ سے وہ لغوی دقائق اورنکتہ سنجیوں تک بآسانی پہنچ جاتے ہیں۔ان کاسب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ ان علوم پر بھی مجتہدانہ نظررکھتے ہیں۔لہٰذاآیات کی تفسیرکے بعد تنبیہ کے عنوان سے جہاں بھی کوئی فنی ،ادبی ،لغوی یاحدیثی تحقیق پیش کرتے ہیں ان میں وہ اکثرجگہوں میں نہایت اطمینان بخش رائے دیتے ہیں ۔ عقلی ووجدانی طورپر قاری ان کی بات سے مطمئن اورسابق مفسرین کی رائے سے غیرمطمئن ہوجاتاہے۔مفسرگرامی قرآن پر مسلسل غور و فکر اورتدبرکرتے تھے ،لہٰذااس تدبراورغورفکرسے ان پر نت نئے معانی اورتحقیقات کا انکشاف ہوتارہتاتھا۔اورگویاوہ کیفیت تھی کہ ؂
ترے ضمیرپر نہ ہوجب تک نزول کتاب گرہ کشاہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
مثال کے طورپر آیت کریمۃ حتی اذاجاء امرناوفارالتنور قلنااحمل فیہامن کل زوجین اثنین واہلک الا من سبق علیہ القول ومن آمن (ہود:40 ) کاترجمہ یوں کیاہے : یہانتک کہ جب آجائے گاہماراحکم اورابل پڑے گاتنورتوہم فرمائیں گے کہ سوارکرلے اس میں ہرایک نوع سے نرومادہ کویعنی دوفردکواور اپنے گھروالوں کو اُس کے سِواجس کی تباہی کا حکم صادرہوچکاہے ۔اوراس گروہ کوجوایمان لے آیاہے اوراس قوم میں تھوڑے ہی لوگ ایمان لاکراس کے ساتھ ہوئے تھے ۔
آگے تنبیہات کے عنوان سے لکھتے ہیں: اس ترجمہ وتفسیرسے ناظرین سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ آیت واصنع الفلک باعینناووحیناولاتخاطبنی فی الذین ظلموا(ھود:37 )سے مرتبط ہے ۔اس آیت کا ترجمہ کرنے میں دیگرمفسرین ومترجمین سے چوک ہوگئی ہے ،انہوں نے حتی اذاجاء امرنا وفار التنور(ہود:40 ) کاترجمہ یہ کیاہے :یہاں تک کہ جب ہماراحکم آپہنچااورتنورنے جوش ماراتوہم نے کہا‘‘حالانکہ لفظ اذااس ترجمہ کی صحت سے مانع ہے ۔ اگراذاکی بجائے لمایااذہوتاتویہ ترجمہ درست ہوتاکیونکہ اذاکلمہ استقبال ہے ماضی کوبھی مضارع کے معنی میں کردیتاہے ،ان مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت سورۃ المومین کی اِس آیت کوبھی پیش نظررکھاہوتاتوغلطی سے بچ جاتے ‘‘فاوحیناالیہ ان اصنع الفلک باعینن اووحینافاذاجاء امرناوفارالتنورفاسلک فیہامن کل زوجین اثنین واہلک الامن سبق علیہ القول منہم ولاتخاطبنی فی الذین ظلمواانہم مغرقون (
۵۲) (المومون :27)

لوح محفوظ کی تحقیق :
 قرآن میں متعددجگہ کتاب مبین یاروزنامچۂ خداوندی کا تذکرہ آیاہے،جوتمام حوادث وواقعات عالم کومحیط ہے اورجس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔مفسرگرامی نے اس کتاب مبین کی متعددآیات کے تتبع سے تین قسمیں کی ہیں ۔(الف )منصوبۂ کائنات جو تخلیق کائنات سے بہت پہلے ہی لکھاجاچکاہے۔اس کے بارے میں قرآن کے علاوہ صحیح مسلم کی ایک حدیث بھی ناطق ہے۔(ب) عالم میں رونما ہونے والے حوادث وواقعات کا تفصیلی رجسٹرجیساکہ متعددآیات کریمہ بتاتی ہیں۔(ج) ہر شخص کا نامۂ اعمال ،متعددآیات میں مذکورہے کہ قیامت کے دن نیک بندوں کو یہی نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں ملے گااورکفارفجارکو بائیں ہاتھ میں۔اس کے بعدلکھتے ہیں:
پس قرآن مجیدسے اندراجات کی یہ تینوں قسم کی کتابیں ثابت ہیں ،لیکن تعجب ہے کہ جمہورمفسرین کوان میں تمییز کی توفیق نہیں ملی ۔انہوں نے قسم اول وثانی پر دلالت کرنے والی آیات میں ہر جگہ کتاب کو ’’لوح محفوظ ‘‘سے تعبیرکیاہے ۔اورلوح محفوظ کے متعلق یہ تصوردیاہے کہ وہ ایک کتاب عظیم ہے جس میں دنیابھرکی ہرچیز بے کم وکاست عالم کی آفرینش سے پہلے ہی درج کردی گئی ہے ۔حتی کہ تمام بندوں کے اچھے برے اعمال وافعال اورانہیں پیش آنے والے تمام احوال سب اس میں ثبت ہیں۔جتنے صحیفے انبیاء کرام پر نازل ہوئے قرآن کریم سمیت سب اس میں پہلے سے ہی لکھ دیے گئے تھے۔یہ لوح زمردکی ہے ،اس کا طول 500سال کی مسافت کاہے اورعرض 100سال کی مسافت کا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مزعومہ لوح محفوظ کا ذکرنہ توقرآن کریم میں کہیں ہے نہ کسی حدیث صحیح میں‘‘۔۔۔۔قرآن میں سورۃ البروج میں جولوح محفوظ آیاہے اس کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ ’’لیکن اس آیت میں لوح محفوظ کو معنی مذکورپر حمل کرنانہ لفظاصحیح ہے نہ معنی ‘‘۔اس کے بعداپنے دلائل دیے ہیں اورلوح محفوظ کے معنی یہ بتائے ہیں کہ وہ الواح اورتختیاں وغیرہ جن پر صحابہ کرامؓ قرآن کریم کی نازل شدہ آیات اہتمام کے ساتھ لکھ لیاکرتے تھے۔(
۶۲)

تفسیرالقرآن بالقرآن :
ڈاکٹرسیدشاہدعلی کی تحقیق کے مطابق: ’’آیات کی تفسیرکے سلسلہ میں آپ تفسیرالقرآن بالقرآن کے طرز کی مکمل پیروی کرتے ہیں ۔آپ کی زیادہ ترکوشش یہ ہوتی ہے کہ آپ ایک آیت کی دوسری آیات کی مددسے تفسیرکریں،مزیدیہ کہ دوسری آیات کے بیان پر ہی اکتفانہیں کرتے بلکہ ان کی بھی تشریح وتوضیح کردیتے ہیں۔جس سے موضوع کاپورااحاطہ ہوجاتاہے اورسلف صالحین کے مسلک کی مکمل پیروی بھی ہوتی ہے۔ومن یردثواب الدنیانوتہ منہاومن یرد ثواب الآخرۃ نوتہ منہاوسنجزی الشاکرین (اورجودنیاکے فائدے کو مقصودبنائے توہم اسے دنیاسے دے دیتے ہیں اورجوآخرت کے فائدہ کو مقصودبنائے توہم آخرت سے عطافرماتے ہیں اورشکرکرنے والوں کو ہم جزاعطافرمائیں گے ،آل عمران : 145 )کی تفسیرمیں لکھتے ہیں: ’’واضح رہے کہ مریدان دنیاکے متعلق سورہ بقرہ میں ہے ومالہ فی الآخرۃ من خلاق ( 200 )اورسورہٌ شوری میں ہے ومالہ فی الآخرۃ من نصیب( 20 ) اورسورہ بنی اسرائیل میں ہے من کان یرید االعاجلۃ عجلنالہ فیہامانشاء لمن نریدثم جعلنا لہ جہنم ( 18)یعنی دنیاکا مریدآخرت میں بالکل بے بہرہ اوردوزخ نصیب ہوگا(
۷۲)

عصرحاضرکے مشہورفکری تصورات پر نقد:
 یہ بھی اس تفسیرکی اہم علمی وفکری خصوصیت ہے ۔اس سلسلہ میں ہم اُس معرکۃ الآراء بحث کو پیش کرناچاہتے ہیں جس کو صاحبِ تفسیرنے مختصرااٹھایاتھا اوراب اس پر بحث جاری ہوگئی ہے ،البتہ بحث کرنے والوں نے ان کاحوالہ نہیں دیاہے ۔وہ ہے یہ بحث کہ کیا انسان اللہ کا خلیفہ ہے ۔ استخلاف فی الارض کامطلب ہے کہ ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو اس کی جگہ لے آنااورایک فرد کے بعد دوسرے فرد کو اس کی جگہ لے آنا ۔لفظ خلیفہ،استخلاف اورخلائف وغیرہ اوراس کے دوسرے مشتقات قرآن میں تقریبا
۵۱جگہ استعمال ہوئے ہیں ۔اورہرجگہ ان سے یہی معنی مراد لیے گئے ہیں کہ اللہ تعالی نے ایک فردیاایک قوم کی جگہ دوسرے فرد یاقوم کو اس کی جگہ عطاکردی ۔اکثرمفسرین کرام نے ان آیات کے مفہوم میں غلطی کی ہے ۔اوربے دلیل انسان کو خداکا خلیفہ قراردے ڈالاہے۔موجودہ زمانہ میں اس غلط فکر کوعام کرنے میں سب سے زیادہ حصہ مولانا مودودی ؒ کارہاہے۔جنہوں نے اس کو ایک پورافلسفہ ہی بناڈالاہے۔آیت کریمہ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (البقرہ :30 )جس کو خلافت الٰہیہ کے علمبرداروں نے اپنے فلسفہ کی اساس بنایاہے۔کی تشریح تفسیرمفتاح القرآن کی نہایت معرکۃ الآرا بحث ہے ۔جو صفحہ ۵۱۱ سے ۷۲۱تک چلی گئی ہے ۔اِ س آیت کی تفسیرمیں جومتعدداقوال ہیں مصنف علام پہلے ان کا محاکمہ کرتے ہیں پھرنظریہ خلافت والی رائے کونقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:متعدداہل علم حضرات نے جوخلیفہ کو اس آیت میں خلیفۃ اللہ یعنی نائبِ خداکے معنی میں سمجھتے ہیں ، وہ یہاں خلیفہ سے مطلق انسان انسان یعنی نوع انسانی مرادلیتے ہیں اورہمارے علم میں اس نقظۂ نظرکی مولاناابوالاعلی ؒ مودودی نے سب سے بڑھ چڑھ کراورکافی واضح ومفصل ترجمانی فرمائی ہے :آگے مولانامودودی کی عبارت نقل کرکے اس پر نقدکیاہے ۔
اور اس آیت کی تفسیرخودمصنف علام نے یوں کی ہے :
انی جاعل فی الارض خلیفۃ (ترجمہ : میں انسان کو جانشینی کے ساتھ آبادرہنے والی مخلوق کی حیثیت سے رکھنے والاہوں۔مطلب یہ ہے کہ میں نے طے کرلیاہے نوع انسان نسل درنسل زمین میں آبادرہے گی یہاں جاعل کے معنی ہیں رکھنے والاجعل کارکھنے کے معنی میں استعمال معروف ہے ۔۔۔پس انسان ہی وہ مخلوق ہے جس میں خلافت وجانشینی کاطریقہ فطری طورپر پایاجاتاہے ،قرآن کریم میں اس معنی کے لحاظ سے انسان کو خلیفہ اورانسانوں کوخلائف اورخلفاء کہاگیاہے لیکن شروع سے آخرتک قرآن کریم میں کسی جگہ بھی انسان کواللہ نہیں کہاگیاہے حتی کہ کسی نبی کے لیے بھی یہ لفظ نہیں آیا۔داؤد علیہ السلام کے متعلق بھی یہ ارشادہواہے کہ یاداؤداناجعلناک خلیفۃ فی الارض (ص:26)(اے داؤد ہم نے تجھے اس سرزمین میں خلیفہ بنایاہے ،یعنی سلطنت میں طالوت کا اورنبوت میں حضرت شمویل علیہ السلام کا۔۔۔اس کا ترجمہ یہ نہیں ہے کہ اے داؤوہم نے تجھے اپناخلیفہ بنایاہے ۔جن مترجمین نے یہ ترجمہ کیاہے غلط کیاہے اس ’’اپنا‘‘کالفظ بالکل غلط اضافہ ہے ۔اسی طرح یہاں انی جاعل فی الارض خلیفۃ کا یہ ترجمہ غلط ہے کہ ’’میں زمین میں اپنانائب بنانے والاہوں‘‘ہاں اگرخلیفتی یاخلیفۃ لی ہوتاتویہ ترجمہ صحیح قراردیاجاتا۔ اس بات کی تائیدمیں انہوں نے آگے حضرت ابوبکرکے اس قول کو بھی دلیل میں نقل کیاہے جس میں انہوں نے اس شخص کی تردیدکی تھی جس نے ان کویاٰخلیفۃ اللہ کہ کرپکاراتھا توآپؓ نے فرمایامیں اللہ کا نہیں اللہ کے رسول کا خلیفہ ہوں(
۸۲)

جہادوشوری :
صرف خلافت ہی نہیں بلکہ عصرحاضرکے دوسرے مسائل پر بھی انہوں نے اپنے خیالات کا اظہارکیاہے ۔مثال کے طورپر جہاداورشوری کا مسئلہ ۔جہادکے بارے میں ان کا موقف ٹھیک وہی ہے جوہمارے فقہاء کے ہاں پایاجاتاہے ،انہوں نے اس مسئلہ میں معاصرعلمااورمصنفین کا موقف قبول نہیں کیا۔اپنے خیالات کا اظہارمختلف مواقع پرکیاہے مثال کے طورپر آیت لاااکراہ فی الدین(بقرۃ : 256) کی تفسیرمیں ۔جہاں تک شوری کا معاملہ ہے تووہ اس کے قائل ہیں کہ شوری ملزمہ نہیں ہوتی ،یعنی امیرالمومنین پر شوری کا اتباع واجب نہیں ،البتہ ان کے لفظوں میں ’’حسن سیاست کا تقاضایہی ہے کہ امیرتاامکان کثرتِ رائے کے خلاف عمل نہ کرے‘‘۔اس موقع پرانہوں نے شوری سے مروجہ جمہوریت وڈیموکریسی کے حق میں دلیل لینے والوں پر نقدبھی کیاہے ۔(
۹۲)

قرأت سبعہ :
قرأت سبعہ کا مسئلہ بھی آج بحث وتمحیص کا میدان بناہواہے ،مثال کے طورپر قرائتوں کے اختلاف کی روایتیں،خاص کرسبعۃ احرف کی بحث اورتدوین قرآن کے بارے میں یہ عام موقف کہ قرآن عہد ابوبکرؓ میں جمع و مرتب ہوا،اوریہ کہ رسول اکرم ﷺامی بمعنی ان پڑھ تھے ۔ اسی طرح یہ قول کہ قرآن مجید کی ترتیب میں اجتہاد کو دخل ہے نہ کہ نص کو ۔مصحف عثمانیؓ سے عبداللہ بن مسعودؓ کے اختلاف کی روایتیں وغیرہ۔ سب سے زیادہ کنفیوژن سبعۃ احرف کی تاویل پیداکرتی ہے۔علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ ہم معنی الفاظ اقبل،ھلم اورتعال میں سے کسی ایک کو اختیارکیاجاسکتاہے،عجل کی جگہ امھل کا استعمال بھی قرآن میں وہی معنی دے گا۔بقول طبری حضوراکرم ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا:’’کہ قرآن میں ہر طرح کے الفاظ کااستعمال درست ہے۔بشرط یہ کہ تورحمت کی جگہ عذاب اورعذاب کی جگہ رحمت کا لفظ نہ رکھ دے ‘‘۔بات صرف اتنی ہی نہیں بلکہ کنز العمال اورالاتقان فی علوم القرآن میں اس قسم کی روایتوں اوراقوال کی کمی نہیں کہ اگر تلاوت میں اعراب کی تبدیلی کی وجہ سے معنی میں تبدیلی ہوجائے تو بھی کوئی حرج نہیں سمجھاجائے گا۔مثلافتَلّقی آدمُ من ربہ کلماتکو فتُلقی آدمُ من ربہ کلمات،والذین ھم لاماناتھم وعھدہم راعون (المومنون:
۸) کو لامانتھم بصیغہ واحد پڑھنابھی جائز سمجھاگیا۔الفاظ میں تقدیم وتاخیر اورحروف میں کمی بیشی بھی رواکرلی گئی۔ علامہ میرٹھیؒ چع اس قسم کی کسی قرأت کے قائل نہیں ہیں ۔وہ بہت سختی سے اس بات کی تردیدکرتے ہیں کہ موجودہ مدون مصحف کے طریقہ سے ہٹ کرقرآن کے کسی لفظ یاکلمہ کی قرأت کی جائے ۔چنانچہ الذی یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین (البقرۃ : 182 ) کی تفیسرمیں عطاء نے حضرت ابن عباس کی قرأت اورتفسیریہ نقل کی ہے کہ وہ اس کو یطََّوَقونہ پڑھاکرتے ۔ کونقل کرکے لکھتے ہیں(۰۳):
لیکن یہ تفسیربہ دووجہ واجب الرد ہے (الف) اگرعطاء کا بیان صحیح ہے اورفی الواقع حضرت ابن عباسؓ اس آیت میں یطوقونہ پڑھاکرتے تھے تویہ ٹھیک نہ تھا ،کیونکہ قرآن کریم کی عبارت وکلمات میں قیاس آرائی کوکوئی دخل نہیں ہے ۔قرآن کریم بطریق تواترحضورﷺ سے منقول ہے اوربلاشبہ آپ ؐ نے یطیقونہ ہی پڑھاپڑھایاہے ،یہ ہی آپ ﷺ نے صحابہؓ کو تلقین فرمایاتھا،اورنقل متواترکے خلاف کسی کو بھی قرآن کریم کاکوئی لفظ پڑھناجائزنہیں ہے۔مگرمیں سمجھتاہوں کہ عطاء کوحضرت ابن عباس کے متعلق یہ بات نقل کرنے میں وہم ہوگیاہے ۔حضرت ابن عباسؓ نے کلمۂ قرآن کی حیثیت سے نہیں بلکہ تفسیرِمطلب واظہارِمعنی کی غرض سے یطیقونہ کویطوقونہ سے تعبیرکردیاہوگا‘‘۔
مزیدیہ کہ آیت کریمہ وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین کی ان کی تفسیربھی معرکۃ الآراء ہے اورتمام متقدمین ومتاخرین سے الگ ہٹ کرہے اورنہایت مدلل ومستحکم رائے پرمبنی ہے ۔جویوں ہے ۔ترجمہ : اوراُن بیماروں اورمسافروں پر فدیہ یعنی ایک مسکین کا کھانالازم ہے جواس کی استطاعت رکھتے ہوں۔تشریح:مطلب یہ ہے کہ مریض ومسافراگراتنی مالی استطاعت رکھتاہوکہ ایک روزہ کے عوض ایک مسکین کو کھاناکھلادے تواس پر قضابھی لازم ہے اورفدیہ بھی اوراگراتنی استعاعت نہ رکھتاہوتواس پر صرف قضا واجب ہے فدیہ نہیں ۔(
۱۳)
اس کے بعدعلامہ نے آیت کریمہ کی تفسیرسلف وخلف سے منقول اقوال اوررایوں کا محکم دلائل کے ساتھ محاکمہ کیاہے ۔جو مطالعہ کے قابل ہے ۔(
۲۳)

لغوی تحقیقا ت :
عربی زبان کے قواعدولسانی اصول یوں توسماعی ہیں مگربعض جگہوں پر علامہ نے ان میں بھی اجتہادسے کام لیاہے اورمتقدمین سے اختلاف کیاہے مثال کے طورپر سورہ ہود کی آیت یوم یات لاتکلم نفس الا باذنہ فمنہم شقی وسعید ( 105 )جس وقت روز آخرت آدھمکے گااس حال میں کہ اللہ کی اجازت کے بغیرکوئی شخص بات نہ کرے گا۔توکچھ لوگ توبدبخت ہوں گے یعنی کفاراورکچھ خوش نصیب ہوں گے یعنی مومنین۔
اس پرتنبیہات کے تحت لکھتے ہیں: (
۱) یوم یأتِ حذف یاکے ساتھ ہی ثابت ہے ۔بعض قراء نے یہ خیال کرکے اسے یاتی پڑھاہے کہ یہاں کوئی جزم کرنے والاحرف یااسم نہیں ہے اوردیگرآیات قرآنیہ میں یاء قطعاثابت ہے ۔چنانچہ سورہ ہود کے پہلے رکوع میں ہے الایوم یاتیہم لیس مصروفاعنہم( ہود:۸ ) اورسورۃ النحل میں ہے یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسہا(النحل:۱۱۱ )اوربھی جس فعل مضارع پر لفظ یوم قرآن میں آیاہے تووہ فعل مرفوع ہی ہے جیسے یوم یجمع اللہ الرسل (المائدہ :۹۰۱ )،یوم یخرجون من الاجداث(القمر:۷ ) ،یوم ینفع الصادقین صدقہم(۹۱۱ ) اس لیے یہاں بھی مرفوع ہوناچاہیے۔مگراس کے متعلق ابن جریرطبری نے لکھاہے کہ : والصواب من القراءۃ فی ذلک عندی یومَ یأتِ بحذف الیاء فی الوصل والوقف اتباعالخط المصحف‘‘یعنی چونکہ مصحفِ عثمانی میں یأتِ لکھاہواہے نہ کہ یأتی اس لیے اسے حذفِ یاء کے ساتھ ہی پڑھنا ہی درست ہے۔ا ب سوال یہ ہے کہ یاء کس قانون کے تحت حذف ہوئی ہے؟ اس کا جواب ابن جریروغیرہ نے یہ دیاہے کہ یہ قبیلۂ ہذیل کے محاورہ کے مطابق ہے ۔ یہ قبیلہ حالتِ جزم کی طرح حالتِ رفع میں بھی مضارع منقوص کے آخر سے حرفِ علت گرادیتاہے ۔چنانچہ وہ لاادری کی جگہ لاادرِ بولتے ہیں۔ابن جریرلکھتے ہیں’’انہالغۃ معروفۃ لہذیل تقول مااَدرِماتقول ومنہ قول الشاعر
کفاک کف ماتلبق درہما جوداواخری تعطِ بالسیف الدما
لیکن میرادل اس توجیہ کی طر ف مائل نہیں ہوتا۔اس لیے کہ مضارع منقوص سے بحالت رفع بھی حذفِ حرف علت فصیح ہوتاتودیگرمواضع میں بھی یوم یاتِ اوریوم تاتِ فرمایاجاتا۔پھرقرآن کریم جیساکہ حدیث صحیح میں ہے، لغتِ قریش پر نازل ہواہے اورمعلوم ہے کہ حضرت عثمانؓ نے نقل مصاحف کے وقت اس حقیقت کا بڑالحاظ واہتمام فرمایاتھا۔میرے نزدیک اس کی صحیح توجیہ یہ ہے کہ متیٰ کی طرح یوم بھی اسم ظر ف ہے اورجیسے متی ٰشرط کے لیے بھی مستعمل ہوتاہے نحومتی تذہب اذہب اسی طرح یوم بھی شرط کے لیے استعمال کرلیاجاتاہے ،جیسے یومَ تسافراُسافر(جس دن توسفرکرے گامیں بھی سفرکروں گا) اگرمتیٰ محض ظرف کے معنی میں آئے شرط کے معنی میں نہ ہوتواس کے بعدآنے والا فعل مضارع مرفوع ہوتاہے جیسے تم کسی سے پوچھومتی ٰ تذہب (توکب جائے گا؟)یہ ہی حکم یوم کاہے کہ وہ شرط کے معنی سے مجرد ہوتواس کے بعدآنے والافعل مضارع مجزوم ہوتاہے ۔اسی طرح جب یوم شرط کے معنی دے تووہ بھی جازم ہوگاجیسے یومَ تذہب اذہب پس یومَ یاتِ اس آیت میں اس لیے ہے کہ لفظ یوم یہاں معنیً شرط کے معنی کافائدہ دے رہاہے ۔یومَ یاتِ شرط ہے اورفمنہم شقی وسعید اس کی جزاہے اوربیچ میں لاتکلم نفس الاباذنہ حال ہے ۔(
۳۳)
ِ ا ورمثلاوان کادولیفتنونک عن الذی اوحیناالیک (بنی اسرائیل : 77)میں فعل کادکی تحقیق ۔جس میں دوسرے مفسرین اس کو فعل مقاربہ میں سے سمجھ کرترجمہ وتفسیرکرتے ہیں ،لیکن علامہ نے اس کو باب سمع سے کادیکادسے قراردیکرترجمہ وتفسیرفرمائی ہے ۔(
۴۳)

عبادت واطاعت میں جوہری فرق :
 بانی جماعت اسلامی مولانامودودیؒ نے اپنے نظریہ کی تشریح کے لیے قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں لکھی اوراس میں عبادت و اطاعت دونوں اصطلاحوں کو لغات کی مددسے قریب قریب ایک ہی بنادیا۔سیدقطب شہیدؒ بھی اس سلسلہ میں ان ہی کے خوشہ چیں ہیں ،گرچہ مشہور اخوانی رہنماحسن الہضیبیؒ نے اس سے اختلاف کیاہے ،جماعت اسلامی کے اہل علم عام طورپر مولانامودودی ؒ کی اتباع ہی کرتے ہیں۔مولاناکی اس رائے سے متعدداہم علم (مثال کے طورپرمولاناعلی میاں ندوی ؒ ،مولانامنظوراحمدنعمانیؒ ؒ اورمولاناوحیدالدین خاں)نے اختلاف کیاہے ۔جن میں سے علامہ میرٹھی بھی ہیں ۔۔چنانچہ انہوں نے مفتاح القرآن میں تفصیل سے اس پر کلام کیاہے کہ عبادت اورطاعت میں جوہری و اساسی فرق ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے :
’’عبادت پرستش یاپوجااس اختیاری عمل کوکہتے ہیں جوکسی فوق البشری طاقت کی حامل ہستی کو خوش کرنے کے لیے انجام دیاجائے ،عبادت کا اصل مفہوم تویہی ہے البتہ کبھی کبھی مجازالفظ عبادت کو اطاعت کے معنی میں بھی استعمال کرلیاجاتاہے،مثلاشیرکا اطلاق انسان پرمجازا کردیا جاتاہے ۔اطاعت کسی صاحب اقتداروبااختیارہستی کے حکم کوماننااوراس کی رضاچاہناہے ۔یہ دونوں معنی آپس میں نہ متضادہیں نہ متلازم ۔اس لیے ان دونوں کااجتماع بھی ممکن ہے اورافتراق بھی ۔یہ ممکن ہے کہ کوئی عمل عبادت وطاعت دونوں ہو،اوریہ بھی کہ کوئی عمل اطاعت ہو،عبادت نہ ہو۔مثال کے طورپر فرض نماز عبادت بھی ہے اطاعت بھی مگرنفل نماز عبادت ہے اطاعت نہیں،کہ اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا ۔ اسی طرح چورکاہاتھ کاٹنایازانی کوسزادینااطاعت ہے مگروہ عبادتی عمل نہیں ۔اسی طرح مجازایہ کہاجاتاہے کہ مومن کا ہرکام عبادت ہے ۔حالانکہ عبادت اوراطاعت میں جوہری فرق ہے ۔وہ یوں کہ اسلام میں عبادت صرف خداکا حق ہے ،اللہ تعالی کے سواکسی کی عبادت کی قطعاکوئی گنجائش نہیں،اس دین کی بنیادہی اِس پرہے کہ اللہ تعالی اورصرف اللہ تعالی کو ہی معبودسمجھاجائے ۔اس میں اللہ کے علاوہ کسی اورکی خواہ وہ مقرب فرشتہ ہویانبی ورسول عبادت کرنااکبرالکبائراورگناہ عظیم ہے ۔جبکہ اطاعت کے معاملہ میں نسبۃًوسعت ہے کہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ ہی رسول کی اطاعت بھی فرض ہوتی ہے اوراولوالامرکی مشروط اطاعت کا بھی حکم ہے ۔(
۵۳)
وماانزل علی الملکین ببابل ہاروت وماروت (البقرہ :102 )میں ’ما‘کو مصدریہ مان کرعام طورپر یہ ترجمہ وتفسیرکرتے ہیں کہ ہاروت و ماروت نامی دوفرشتے تھے جن کو اللہ نے جادوکا علم دے کرآزمائش کے لیے زمین پر بھیجاتھا۔مگراشکال یہ ہے کہ اس سے لازم آتاہے کہ سحر بھی منزل من اللہ اورحق ہو،اوراللہ تعالی ٰنے خودہی لوگوں کو سحرکی تعلیم دینے کا انتظام فرمایاہوحالانکہ سحرکو اللہ تعالی نے کفربتایاہے ۔اس نا قابل حل اشکال کے باعث علامہ میرٹھی نے’ما‘کونافیہ مان کریہ ترجمہ وتشریح کی ہے: اورنہ ہی بابل میں ہاروت وماروت نامی دو فرشتوں پر جادواتاراگیاہے ،(پس یہ بھی ان شیاطین کی دروغ بافی ہے)اصل بات یہ ہے کہ سرزمین بابل میں جوکہ صدیوں سے ویران وغیر آباد پڑی تھی دوجادوگروں نے اپنی کُٹی بنارکھی تھی ۔۔۔۔اغلب یہ کہ یہ دونوں عبرانی نسل کے تھے کیونکہ اس انداز کے نام اسی نسل میں ملتے ہیں ۔۔۔ ہاروت وماروت نامی ان جادوگروں نے اپنے ہم پیشہ لوگوں کی طرح ویرانہ نشینی اختیارکرکے اپنی شخصیت کو پراسرار بنا رکھا تھا ۔ ۔۔۔وہ کسی خام طلب شخص کو منہ نہ لگاتے بلکہ اچھی طرح ٹھونک بجاکردیکھ لیتے جسے طلب کا سچاپاتے اسے ہی بتاتے ۔(
۶۳)
لولاکتاب من اللہ سبق :اسی طرح غزوہ بدرکے سلسلہ میں آیت کریمہ لولاکتاب من اللہ سبق لمسکم فی ما اخذتم عذاب عظیم(الانفال:
۸۶) (اگراللہ کی طرف سے ایک حکم نہ ہوتا جو پہلے ہی صادرہوچکاہے تویقینااس مالِ غنیمت کی وجہ سے جوتم نے لیاہے تم پر عذاب آپڑتا)کے بارے میں جوعام تفسیرہے وہ یہ کہ مکہ کے سترمشرک قیدیوں کو فدیہ لے کرچھوڑدیاگیااس پر عتا ب کے بطوریہ آیت نازل ہوئی ۔
اس کی تشریح علامہ ؒ نے یوں کی ہے کہ: ’’چونکہ اللہ تعالی پہلے ہی طے فرماچکاہے کہ امت محمدیہ کے مجاہدین کو شکست خوردہ کفارکا مال لیناجائز و حلال ہے ،اس لیے اس جنگ میں جواموالِ غنیمت تم نے حاصل کیے ہیں انہیں تمہارے حق میں جائز رکھاگیاہے ،اگراللہ تعالی کا یہ حکم سابق نہ ہوتاتوتمہارایہ پو ری طرح قابوپالینے کے باوجودکفارکی اچھی طرح خونریزی سے گریز کرکے اموال غنیمت جمع کرنے پر ٹوٹ پڑنااللہ کی نعمت کی ناقدری اورمتاع دنیاکی طر ف رغبت کے معنی میں ہونے کی وجہ سے ایسی سخت بات تھی کہ اس کی وجہ تم عذاب عظیم کی گرفت میں آجاتے ،خیرتمہاری یہ غلطی معاف کردی گئی لہذاخمس نکالنے کے بعد جو مال غنیمت تمہیں حصہ میں ملاہے اسے شوق سے اپنے تصرف میں لاؤ‘‘اس کے بعداس آیت کریمہ کے سلسلہ میں مشہورعام تفسیرپر یوں نقدکرتے ہیں:
’’مفسرین سے بعض روایات کی وجہ سے ان آیات کا صحیح مطلب سمجھنے میں چوک ہوگئی ہے ۔انہوں نے یہ سمجھاسمجھایاہے کہ غزوہ بدرمیں جو سترکفارگرفتارہوئے تھے ،اورنبی کریم ﷺ نے ابوبکرؓ وغیرہ کے مشورہ سے فدیہ لے کررہاکردیاتھا توان آیات میں اسی پر عتاب کیا گیا ہے ،اوربتایاگیاہے کہ ان قیدیوں کومارڈالناہی اولی وانسب تھانہ کہ فدیہ لے کرچھوڑدینا۔لیکن حضرات مفسرین نے اگرکماحقہ ان آیات پر غور کیاہوتااوران روایات کوبھی پرکھاہوتاتواس غلط فہمی میں نہ پڑتے ‘‘۔(
۷۳)
مفسرین ایک روایت یہ بیان کرتے ہیں کہ ان قیدیوں کے متعلق وحی الٰہی نے مسلمانوں کو اختیاردیاتھاکہ چاہوتوانہیں قتل کردوچاہوتوفدیہ لے کرچھوڑدولیکن چھوڑوگے توآئندہ سال تم سے سترآدمی شہیدہوں گے ،صحابہؓ نے اسی کوترجیح دی ‘‘اس بارے میں علامہ کاکہناہے کہ یہ کوئی حدیث نہیں ،بلکہ واقدی اورسدی جیسے افسانہ طراز راویوں کی افسانہ طرازی ہے ۔امام بخاری توکیاامام مسلم نے بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔حیرت ہے کہ ان لوگوں نے یہ نہ سوچاکہ اگراللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اختیاردیاہوتاتوفدیہ لینے پرعتاب کیوں ہوتااوراسے عذاب عظیم کا سزاوارکیوں قراردیاجاتاکیونکہ جب کسی کو دوکاموں کااختیاردیاجائے کہ خواہ یہ کرخواہ وہ کرتووہ ان دوشقوں میں سے جوشق بھی اختیار کرے بہرحال لائق ملامت نہیں ہوتا۔‘‘(
۸۳) )اس کے بعدصحیح مسلم کی ایک متعلق روایت کوبھی زیرِنقدلائے ہیں ،جس پر بحث تفصیلی ہے اورتین صفحات تک چلی گئی ہے ۔اس کے علاوہ اس واقعہ سے متعلق ترمذی کی روایت کردہ روایتوں پر بھی مفصل نقدکیاہے ۔ (۹۳)
فاسق سے حضرت ولیدؓمرادنہیں:اسی طرح آیت کریمہ واذاجائکم فاسق بنباء فتبینوا (الحجرات :6)میں بہت سارے مفسرین نے فاسق سے مرادحضرت ولیدبن عقبہؓ کو لیاہے جوعمالِ عثمان میں اہم شخصیت تھے ،اورجن پر حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓاورحضرت عثمانؓ تینوں خلفاء نے اعتمادکیااوراہم مناصب پر فائزرکھا۔مگرخلیفۂ مظلوم حضرت عثمانؓ کو بطورخاص باغیوں نے اورامت کے بہت سے علماء نے ولیدکو کوفہ کی امارت دینے پر ظالمانہ طورپر مطعون کیاہے ۔مفسرگرامی نے اس سورہ کی تفسیرمیں ان تمام روایات کا تفصیل سے ناقدانہ جائزہ لیاہے اورسب کو موضوع ثابت کرکے حضرت ولیداموی کی شخصیت کوداغدارکرنے والے قصہ کے تاروپودبکھیرکررکھ دیے ہیں جس کوہمارے مفسرین نمک مرچ لگا کربیان کرتے ہیں۔(
۰۴)

ابراہیم علیہ السلام اورکذبات ثلاثہ :
اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سربعض مفسرین نے بخاری کی ایک روایت سے دھوکہ کھاکرکذب کا الزام منڈھ دیاہے حالانکہ وہ روایت مرفوع متصل نہیں حضرت ابوہریرہ کی موقوف روایت ہے جوان کو کعب احبارسے معلوم ہوئی تھی ۔اس بارے میں مفسرگرامی نے لکھاہے : ’’اس طرح اہل کتاب کی متعدداناپ شناپ باتیں کتب حدیث وتفسیرمیں احادیث نبویہ کے طورپر جگہ پاگئیں۔ازاں جملہ یہ حدیث ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عمرمیں تین بارجھوٹ بولاتھا۔ایک باراُس وقت جب بتوں کوتوڑنے کے لیے اپنی بیماری کا بہانہ کردیاتھا،دوسری باراس وقت جب کہ دیاتھاکہ ان بتوں کو بڑے بت نے توڑاہے تیسری باراس وقت جب اپنی بیوی سارہ کو بادشاہ مصرکے ڈرسے اپنی بہن بتایاتھا۔مگریہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی بیان فرمودہ نہیں ہے ۔ابوہریرہؓ نے کعب احباریاکسی اورنومسلم یہودی سے سنی تھی اوراس کا حوالہ دیے بغیراس کا ذکرکردیاتھا،اورسادگی کی بناء پر اس نومسلم یہودی کی بیان کی ہوئی اس کہانی کو عقل ونقل کی میزان میں نہ تولاتھاکہ اس کا جھوٹ ہوناان پر واضح ہوجاتا۔ صحیح بخاری کی کتاب الانبیاء میں اس حدیث کی جواسنادمذکورہے وہ واضح طورپر بتارہی ہے کہ یہ حدیث مرفوع یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ نہیں ہے۔امام بخاری ؒ فرماتے ہیں: حدثناسعیدبن تلید الرعینی اخبرنی ابن وہب اخبرنی جریربن حازم عن ایوب عن محمدعن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اللہ ﷺ لم یکذب ابراہیم الاثلاثا ح وحدثنامحمد بن محبوب ثناحماد بن زید عن ایوب عن محمد عن ابی ہریرۃؓ قال لم یکذب ابراہیم الاثلاث کذبات ۔الح یعنی حضرت ابوہریرہؓ سے یہ بات محمدبن سیرین نے اوران سے ایوب سختیانی نے سنی تھی ،اورایوب سے دوشخصوں جریربن حازم اورحمادبن زیدنے ۔۔اورائمہ رجال نے تصریحات کی ہیں کہ جریربن حازم ضعیف الحفظ تھے ،جریرکی بیان کردہ اُن ہی حدیثوں پر اعتمادکیاجاتاہے جوجریرنے اعمش سے سنی تھیں--جریرکی اسنادمیں ہے کہ ابوہریرہؓ نے کہا،فرمایارسول اللہ ﷺ نے ‘‘لیکن حماد بن زیدنے جو جریرسے بدرجہاقوی تراورثبت وثقہ محدث تھے اس کی اسناد میں رسول اللہ ﷺ کا ذکرنہیں کیابلکہ اسے خودابوہریرۃؓ کے قول کے طورپر بیان کیاہے ۔الحاصل جریرنے اسے حدیث مرفوع کے طورپر بیان کیاہے ، اورحمادبن زیدنے حدیث موقوف اورقول ابوہریرہؓ کے طورپر۔پس اسے مرفوع یعنی حدیث نبوی بتادیناجریربن حازم کا وہم ہے ۔یہ مرفوع حدیث نہیں ہے بلکہ حضرت ابوہریرہؓ کی بیان کی ہوئی بات ہے جو انہوں نے کعب احباریاکسی اورشخص سے سن کرنقل کردی تھی اور اس نے تلبیس یہ کی کہ بائبل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام وسارہ کی جو عمرمذکورہے اس کا ذکرنہیں کیاورنہ ابوہریرہ سمجھ لیتے کہ یہ محض جھوٹ ہے ۔(بائبل کے بیان کے مطابق شاہ مصرکے ڈرسے سارہ کواپنی بہن بتانے کے وقت حضرت ابراہیم کی عمر
۵۷ سال سے متجاوز اورسارہ کی عمر۵۶ سے زیادہ ہوچکی تھی (مصنف مقالہ ) (۱۴) واضح رہے کہ کذبات ثلاثہ کی اس حدیث کو امام رازیؒ سمیت متعددقدیم وجدیداہلِ علم نے بھی درایت کی بنیادپرمسترد کردیاہے۔مگربخاری پرست لوگ ان پر شدیدنقدکرتے ہیں۔البتہ اس قصہ کو سندکی بنیادپر علامہ میرٹھی ہی نے پہلی بارردکیاہے۔

تحویل قبلہ کی بحث :
 مسلمانوں میں عام پھیلی ہوئی بات یہ ہے کہ بیت المقدس قبلہ اول رہاہے ۔اورتحویل قبلہ کے بعدکعبہ کو مستقل قبلہ بنایا گیا ۔مگرصاحب مفتاح القرآن کے نزدیک تحویل قبلہ والی روایات کمزورہیں اورتحویلِ قبلہ ہواہی نہیں کعبۃ اللہ ہی ہمیشہ قبلہ رہاہے ۔ان کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔تحویل قبلہ کی روایات حضرت براء بن عازب سے مروی ہیں جوسب روایت ودرایت کے اعتبارسے کمزورہیں ۔(واضح رہے کہ تفسیر میں انہوں نے تمام روایات کا ایک ایک کرکے جائزہ لیاہے) ۔
۲۔نبی کریم ؐ نے مکہ یامدینہ دونوں جگہ ہمیشہ بیت اللہ کی طرف رخ کرکے ہی نماز پڑھی ہے ۔بعض انصاری صحابہ نے البتہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازضرورپڑھی ہے۔اوراسی وجہ سے یہ تحویلِ قبلہ والی بات مشہورہوگئی ہے۔
۳۔ بیت المقدس توخودکعبہ رخ ہے ،اسی طرح قدیم مسجدیں،مسجدصخرہ اورمسجدنوح اورمسجدصالح سب قبلہ رخ ہیں پھربیت المقدس کوقبلۂاول کہناکیسے درست ہوسکتاہے ۔
۴۔فلنولینک قبلۃ ترضاھا(البقرہ :۴۴۱ )کا عام ترجمہ کہ ہم تمہارارخ تمہارے پسندیدہ قبلہ کی طرف پھیردیں گے غلط ہے کیونکہ ولی کا معنی والی بنانا ہوتا ہے ،پھیرنے کے معنی میں اس کا استعمال الی کے صلہ کے ساتھ کرتے ہیں۔اس لیے صحیح ترجمہ ہوگاہم تم کو تمہارے پسندیدہ قبلہ کاوالی بنادیں گے ۔اسی طرح قدنری تقلب وجہک فی السماء(البقرہ :۴۴۱ ) کا ترجمہ یہ کرناکہ ’’ہم آپ کا باربارآسمان کی طرح رخ کرنادیکھ رہے ہیں‘‘اس لیے صحیح نہیں کہ یہ تقلب وجہک الی السماء کا ترجمہ ہے ۔اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے ’’ہم آسمان میں آپ کی بے چینی کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔یعنی تقلبِ وجہ کنایہ ہے بے چینی واضطراب سے ۔
۵۔قدیم مفسرین وعلماء میں ابومسلم اصفہانی اورامام ابوالعالیہ ریاحی بھی اسی کے قائل تھے کہ قبلہ ہمیشہ کعبۃ اللہ رہاہے ۔
۶۔تحویل قبلہ ہواہوتاتواس کے بعدمسجدنبوی اورمسجدقبامیں تعمیری تغیرات کیے جاتے جوضرورمنقول ہوتے کیونکہ مسجدنبوی کے تمام تعمیری
تغیرات تواترسے منقول ہوتے آرہے ہیں ۔
تحویلِ قبلہ کی یہ بحث تفسیرمیں تقریبا
۰۲ صفحات میں آئی ہے اوراہل علم کے مطالعہ کے لائق ہے ۔(۲۴)

منفردترجمۂ آیات :
 متعددآیات کے ترجمہ میں بھی مفسرگرامی نے الگ ہی راہ اپنائی ہے ۔مثال کے طورپر(
۱)وہ آیت بسم اللہ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں :
’’اللہ کے نام رحمان ورحیم کے ساتھ آغاز ہے ‘‘۔آگے اس ترجمہ کی وضاحت یوں کی ہے کہ: میں نے جوبسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ کیاہے وہ اس پرمبنی ہے کہ ترکیب نحوی کے لحاظ سے اس میں اسم اللہ مبدل منہ ہے اورالرحمان الرحیم اس کا بدل ہے۔عمومااس میں اللہ کوموصوف اور الرحمان الرحیم کو صفت اول وثانی قراردیکراسم کا مضاف الیۃ قراردیاجاتاہے اوراسی کے مطابق ترجمہ کرتے ہیں‘‘(
۳۴)
(
۲)لکل جعلنامنکم شرعۃ ومنہاجا (المائدہ :48 )کا ترجمہ یوں کیاہے :(اے لوگو)تم میں سے ہرایک کے لیے ہم نے ایک ہی گھاٹ اورایک ہی سڑک کا تقرر کردیاہے۔(مرادہے قرآن وسنت،مصنف مقالہ )دوسرے مفسرین وعلمایہ کہتے ہیں کہ اس میں ہرقوم کے لیے الگ مذہب وطریقہ کا بیان ہے۔جوظاہرہے کہ نصوص شریعت سے متصادم ہے ۔ اسی طرح اوربہت ساری آیات ہیں جن کاترجمہ مصنف علام نے دوسرے مترجمین ومفسرین سے الگ کیاہے۔

قرآن پورامحکم ہے متشابہ گزشتہ کتابیں ہیں :
عام طورپر یہ مشہورہے کہ قرآن میں دوقسم کی آیتیں ہیں محکم ومتشابہ ،پھرمحکم ومتشابہ کی الگ الگ تشریح کی جاتی ہے اوراس بارے میں مبنیٰ سورہ آل عمران کی ساتویں ہوالذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات، ہن ام الکتاب واخر متشابہات(آل عمران:
۷ ) کوبنایاجاتاہے ۔مگرعلامہ میرٹھی اس عمومی رائے سے اتفاق نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ قرآن توپورامحکم ہے جیساکہ خودقرآن ہی میں کئی جگہ فرمایاگیاہے ،مثلاایک جگہ ہے : کتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر( ھود: 1) : الف لام را یک حکمت والی باخبرہستی کے پاس سے آئی ہوئی کتاب جس کی آیتوں کو ٖپختہ کیاگیاہے پھرالگ الگ (سلسلہ بیان میں)ٹانکاگیاہے ۔جب اس کی آیات محکم ہیں توپھرمتشابہ کاسوال کہاں اٹھتاہے ۔اس لیے ان کی رائے یہ ہے کہ قرآن کریم توپورامحکم ہے ،بقیہ صحف سماویہ متشابہ ہیں۔چنانچہ مذکورہ بالا آیت ہوالذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات ہن ام الکتاب ،واخرمتشابہات کا ترجمہ وہ یوں کرتے ہیں: وہی ہے جس نے (اے نبی ) تجھ پر اپنی طرف سے کتاب نازل فرمائی ہے ،وہ محکم آیتیں ہیں جو خدائی کتابوں کی جامع ومرکزہیں اوردیگرکتابیں یعنی بائبل کے صحیفے حق وباطل آمیز ہیں ۔اس تفسیرکے مطابق ھن ام الکتاب پر وقف کرناچاہیے اورواخرمتشابہات کو الگ فقرہ کی طرح پڑھاجاناچاہیے۔(۴۴ )
تورات وانجیل تاریخی طورپر معتبرنہیں:۔سورہ آل عمران میں واخرمتشابہات کی تفسیرمیں تورات وانجیل دونوں کی استنادی حیثیت پر طویل گفتگوخودبائبل اورانسائکلوپیڈیابریٹانیکاکے حوالہ سے کی ہے ۔(
۵۴)

ہذاربی ہٰذااکبرکی صحیح تفسیر:
سورہ انعام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکرمیں اس سلسلۂ آیات میں کئی جگہ ھٰذاربی آیاہے جس کو عام طورپر مفسرین ابراہیم کا قول مان لیتے ہیں اوراس پر ہونے والے اعتراض کہ ایسا شرکیہ جملہ کسی نبی سے کیسے صادرہوسکتاہے ،کی دورازکارتاویلیں کرتے ہیں ،مولانامودودی نے اس با ت کو ابراہیم کا اس وقت کا قول بتادیا ہے جب وہ تلاشِ حق کے دورسے گزررہے تھے مگرسوال یہ ہے کہ کیاانبیاء اس دورسے گزراکرتے ہیں ؟ ان کو تو زندگی کے ہردورمیں حق تعالی کی نگرانی ومعیت حاصل رہتی ہے گرچہ خودان کو اس کا شعورنہ ہوتاہو۔علامہ میرٹھی نے اس کی تفسیریوں کی ہے : فلماجن علیہ اللیل رأ کوکباقال ہٰذاربی ہٰذااکبر،فلماافل قال لا احب الآفلین فلمارأ القمربازغاقال ہٰذاربی ،فلماافل قال لئن لم یہدنی ربی لاکونن من القوم الضالین،فلمارأ الشمس بازغۃ قال ہٰذاربی ہٰذااکبر،فلماافلت قال یاٰقوم انی بریئی مماتشرکون (الانعام:
۶۷تا۸۷ ): پس جب اس پر رات چھاگئی تواس نے یعنی آذر نے آسمان پر ایک ستارہ دیکھابولایہ میرارب ہے پس جب وہ چھپ گیاتوابراہیم نے کہا،میں چھپ جانے والے کو پسندنہیں کرتا۔پس جب آذر نے چاندکو روشن دیکھاتوبولایہ میرارب ہے میں اس کی عبادت کرتاہوں، جب وہ چھپ گیاتوابراہیم نے کہامیں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگرمیرارب مجھے راہ راست نہ دکھائے تویقینامیں گمراہ لوگوں میں سے ہوجاؤں گا‘‘ اس کے بعدجب آذر نے سورج کو چمکتا دمکتا دیکھابولایہ میرارب ہے یہ (میراسب سے) بڑامعبودہے ۔پس جب وہ چھپ گیاتوابراہیم نے کہااے میری قوم بے شک میں تمہارے شرک سے بیزارہوں(ان چیزوں سے بیزارہوں جنہیں تم شریک کررہے ہو‘‘۔
اس کے بعدلکھتے ہیں: ’’ان آیات میں فعل رأ کا فاعل اورہذاربی کا قائل حضرت ابراہیم کا باپ آذرہے جیساکہ میں نے ترجمہ میں واضح کردیا ہے ،کیونکہ ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اورآذرکا مکالمہ نقل کیاگیاہے ۔اوربادنی تامل ہرقول اپنے قائل کی طرف راجع ہوجاتا ہے ‘‘۔اس کے بعدانہوں نے اس کے نظائرقرآن سے نقل کیے ہیں۔اوریہ بھی واضح کیاہے کہ باپ بیٹے کے درمیان یہ بلیغ مکالمہ اور ڈائلاگ مختلف اوقات میں اورمختلف جگہوں پر ہواہوگا،قیاس کہتاہے کہ یہ گفتگوزہرہ دیوی ،چندرماں دیوتااورسورج دیوتاکے مندروں میں ہوئی ہوگی جن کو ابراہیم کی قوم پوجتی تھی ۔(
۶۴)

واقعہ افک :
واقعہ افک کے سلسلہ میں مصنفؒ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ پر الزام کاشوشہ روافض کا چھوڑاہواہے ۔جتنی روایات اس سلسلہ میں آئی ہیں (بشمول بخاری کی روایات کے )کوئی بھی علتِ قادحہ سے خالی نہیں ۔بخاری کی روایات میں متعددباتیں زہری کی مرسلات میں سے ہیں جن کی اہلِ علم کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ان کا کہناہے مرسلات الزہری کا الریح وغیرہ ،پھرتاریخی طورپر بھی ان روایات میں سقم پایاجاتاہے ۔(
۷۴)

صحف سماوی کا مطالعہ :
مفسرگرامی نے دیگرصحف سماویہ بائبل وتوریت کا بھی گہرامطالعہ کیاتھا،اوراپنی تفسیرمیں جابجاان کے حوالے بھی دیے ہیں ،سلیمان وداؤد علیہماالسلام کے قرآنی قصہ کا تقابل بائبل کے بیانات سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:حضرت داؤد وسلیمان علیہ السلام اللہ کے نیک ومقبول بندے اورنبی تھے اورساتھ ہی بڑی شان وشوکت والے بادشاہ بھی ۔اوران کی بادشاہی تمام حکمرانوں کے لیے اعلی نمونہ ہے ،اللہ کی دی ہوئی قوت کو انہوں نے دین حق کی ترویج وتبلیغ میں ہی صرف کیاتھا۔مگرداؤدوسلیمان کا ذکراسرائیلی کتابوں میں پڑھیے توان میں اوردنیاکے دیگرجباروں میں کوئی فرق نظرنہ آئے گاملکہ سباکا حضرت سلیمان سے ملاقات کے لیے آنااسرائیلی کتابوں میں بھی مذکورہے مگراس میں غلط اور گندی باتوں کی آمیزش ہے ۔بائبل کے صحیفہ سلاطین میں یہ قصہ جس طرح لکھاہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ سلیمان کی شہرت سن کر مشکل سوالوں سے اسے آزمانے کے لیے آئی ۔سب سوالوں کا جواب باصواب پاکراورسلیمان کی شان وشوکت ان کے خدام کی تہذیب اورسج دھج دیکھ کردنگ رہ گئی اوراعتراف کیاکہ میں نے آپ کو جیساسناتھا اس سے کہیں بڑھ کرپایا،نیز اس نے سلیمان کو ایک سوبیس قنطار سونا ، اورالائچی وغیرہ بہت بڑی مقدارمیں نذرکیا۔سلیمان نے بھی جوابااسے بہت کچھ تحائف سے نوازا۔پھروہ اپنے ملازمین سمیت اپنی مملکت کو واپس ہوگئی (سلاطین باب
۰۱) اس میں نہ ہدہدکا ذکرہے نہ ملکہ کی آفتاب پرستی کا نہ حضرت سلیمان کے خط کانہ ملکہ کے تخت کا ۔اورصحیفہ ربیون میں یہ سب باتیں توہیں لیکن اس میں توحیدوخداپرستی وشکرِحق کی کوئی بات مذکورنہیں۔یہ ضرور ہے کہ سلیمان نے معاذ اللہ ملکہ بلقیس سے زناکیااسے حمل رہ گیا۔اس ناجائز حمل کی نسل سے بابل کا بادشاہ بخت نصرپیداہواتھا(جیوش انسائلوپیڈیا ج ۱۱ صفحہ ۳۴۴) اسی کتاب کے صفحہ ۹۳۴ وص ۱۴۴ میں حضرت سلیما ن پر احکام تورات کی خلاف ورزی ،غرورحکومت ،غرورعقل ،زن مریدی ،عیاشی اورشرک وبت پرستی کے الزامات مذکورہیں اوربائبل کی کتاب سلاطین میں لکھاہے کہ سلیمان مشرک عورتوں کے عشق میں گم ہوگیا،اس کا دل خداسے پھر گیا تھا اوروہ خداکے سوادوسرے معبودوں کی طرف مائل ہوگیا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ حضرت داؤدوحضرت سلیمان علیہماالسلام کی پاکیزہ سیرت منظرعام پررکھ دی ہے اورتمام دھبوں کو دھوڈالاہے جودروغ باف یہودیوں نے ان بزرگوں کی سیرت پر لگائے تھے‘‘۔(۸۴)اس کے علاوہ بھی مفسرگرامی نے اپنی تفسیرمیں بائبل اورقرآن کے بیانات کا جگہ جگہ تقابل کیاہے ۔مثال کے طورپر قصہ نوح کا بائبل کے بیانات سے تقابلی مطالعہ ملاحظہ ہو:
’’مناسب معلوم ہوتاہے کہ بائبل عہدنامۂ قدیم کے سفرتکوین یعنی کتاب پیدائش میں یہ قصہ جس طرح آیاہے ناظرین اسے بھی دیکھ لیں، میں اس کا خلاصہ نقل کررہاہوں:روئے زمین پر آدمیوں کی کثرت ہوئی اوران سے بیٹیاں پیداہوئیں،خداکے بیٹوں نے انہیں دیکھاتوان پر فریفتہ ہوکرانہیں اپنی جوروبنالیاان سے بیٹے پیداہوئے ۔یہ بڑے جباروناموراشخاص ہوئے ،ان میں بدی بہت پھیل گئی تب خداوند زمین پر انسان کے پیداکرنے سے پچھتایااورنہایت دلگیرہوااوراسے مٹانے پختہ ارادہ کرلیابجزنوح کے ،وہ خداکو پسندتھا‘‘۔اس پر ان کا نوٹ ہے : ’’دیکھاآپ نے اس بیان کے مطابق قوم نوح کے لوگ انسان نہ تھے ،خداکے بیٹوں اورانسانوں کی بیٹیوں سے پیداہوئے تھے ۔(
۹۴)الخ یہ تقابلی نوٹ کافی طویل ہے اورچارصفحات تک چلاگیاہے ۔

قصۂ یونس :
یونس علیہ السلام کے قصہ میں عام طورپر مشہورہے کہ وہ مدتوں اپنی قوم کودعوتِ حق دیتے رہے اورقوم کی سرکشی اورایمان نہ لانے سے ناراض ہوکران کو عذاب کی دھمکی دے کراوربغیراذن خداوندی کے ا ن کے ہاں سے نکل گئے اوران کے غائبانہ میں قوم پر عذاب آیا جسے دیکھ کر قوم تائب ہوگئی ۔ادھرحضرت یونس جس کشتی میں سوارہوئے وہ نہ چلی اورڈبکیاں کھانے لگی ،لوگوں نے کہاکہ کوئی غلام اس پر اپنے آقاسے بھاگ کرآگیاہے اس لیے یہ نہیں چل رہی ہے۔آخریونس کوکشتی والوں نے دریامیں ڈال دیااورحکم حق سے مچھلی آپ کونگل گئی ۔ آخرصحت یاب ہوکروطن واپس آئے اورقوم نے محبت وعقیدت سے استقبال کیا وغیرہ۔علامہ میرٹھی اس قصہ کوغلط سمجھتے ہیں ،ان کا کہناہے کہ حضرت یونس کے نبی بنائے جانے سے پہلے کا یہ قصہ ہے کہ وہ کسی بات پرناراض ہوکراپناوطن چھوڑکرنکل گئے ہوں گے ۔اورکشتی میں بیٹھے ہوں گے جوزیادہ بوجھ ہوجانے کی وجہ سے ڈبکیاں کھانے لگی ہوگی اورحضرت یونس کا پیرپھسلاہوگااوروہ دریامیں جاگرے ہوں گے ۔جہاں ان کو مچھلی نے اللہ کے حکم سے نگل لیا۔اوراس کے بعدجب مچھلی نے ان کوکنارے پرڈالا،جہاں وہ کچھ دنوں بعدصحت مندہوئے ہوں گے تب ان کو نبی بناکرقوم کے پاس بھیجاگیاہے کیونکہ اسی سیاق میں قرآن نے کہاہے وارسلناہ الی مأۃ الف اویزیدون ( الصافات:127 )۔مشہورِعام قصہ پرنقدکرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’لیکن حضرت یونس کا قصہ اس انداز میں نہ قرآن میں مذکورہے نہ کسی صحیح حدیث میں نہ بائبل میں ۔اورمیں اسے بچندوجوہ غلط سمجھتا ہوں ، اس لیے کہ : (الف) کسی نبی کے متعلق یہ تصورنہیں کیاجاسکتاکہ اس نے اللہ کے حکم کے بغیرقوم کو کوئی بات بتائی ہو
(ب)ہررسول نے اسی وقت ہجرت کی ہے جب اللہ نے اسے ہجرت کرنے کا حکم دیا،یہ جاننے کے باوجودحضرت یونس اللہ کے اذن کے بغیرہجرت کیسے کرسکتے تھے۔؟
(ج)قرآن کریم میں دوجگہ قوم یونس کے ایمان لے آنے کا ذکرہے سورہ یونس میں اورسورۂ صافات میں اورکہیں بھی یہ مذکورنہیں کہ قوم یونس نے اولاکفروتکذیب کی روش اختیارکی تھی جیساکہ اس داستان میں مذکورہے ،نہ قرآن میں نہ حدیث صحیح میں نہ بائبل میں ۔
(د) مالک کے پاس سے بھاگاہواغلام کشتی میں بیٹھ جائے اوروہ نہ چلے یہ نامعقول بات کیسے مان لی جائے ؟(
۰۵)

تفردات :
کتاب وسنت کے مسلسل تحقیقی مطالعہ نے مفسرگرامی کے اندر اجتہادی بصیرت پیداکی انھوں نے متعدد مسائل میں جمہور سے کھلا ہوااختلاف کیا۔ان کی تحقیق میں اہل البیت یاآل البیت سے مرادازواج مطہرات ہیں نہ کہ سیدہ فاطمہؓ و سیدناعلیؓ اوران کی اولاد سیدنا حضرت حسنؓ یاسیدناحسینؓ وغیرہ ،اس بارے میں جتنی روایات آئی ہیں سب کا انہوں نے سورۂ آل عمران اورسورہ احزاب میں جائزہ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ واقعہ ایلاء ،آیت تخییرآیت مباہلہ،سیدہ زینبؓ سے حضوراکرم ﷺ کا نکاح ،ان سب کے بارے میں غلط روایات کی تحقیق کرکے اصل صورتِ واقعہ کو پیش کیاہے ۔مزیدبرآں قرأت سبعہ کا مسئلہ، اجماع کا ثبوت، نسخ کا مسئلہ، تحویل قبلہ، واقعہ افک، خبر واحد کی قطعیت کا مسئلہ وغیرہ کے علاوہ سیکڑوں احادیث اور آیات کی تشریح و توضیح میں وہ جمہورسے بالکل الگ رائے رکھتے ہیں اوران کا جرأت کے ساتھ اظہار بھی کیاہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ متاخرین میں ان کے تفردات سب سے زیادہ ہیں تو غالباً بے جانہ ہوگا نہ اس میں کوئی مبالغہ ہوگا، یہ تفردات یا اجتہادی رائیں دراصل ان کی دراکی ، وسعت مطالعہ، تخلیقی ذہن، فکری شادابی، حاضر دماغی ،علوم کے استحضار اور اعتماد ذاتی کی پیداوار ہیں۔مسائل کے سلسلہ میں ان کی نظر جزئیات سے زیادہ کلیات پر رہتی تھی۔ فقہی نقطہ نظر میں وسعت تھی ہر حال میں کسی ایک مسلک کی تقلید و تنقید کو ضروری خیال نہیں کرتے تھے۔ علمی اختلاف و تحقیق ان کی نظر میں علماء کی متوارث چیز تھی۔ چنانچہ انھوں نے محدثین کی رایوں اور فقہاء کے اجتہاد ات سے خوب خوب اختلاف کیا ہے۔

صرفی ونحوی مباحث :
 تفسیرمفتاح القرآن کی ایک خصوصیت جس نے اس تفسیرکو ثقیل اورعام تعلیم یافتوں
یاغیرعربی داں لوگوں کے لیے مشکل بنادیاہے وہ صرفی ونحوی مباحث ہیں ،جن کا مصنف نے بڑی باریک بینی اورجزرسی کے ساتھ اہتمام کیاہے ۔اس کا خیال ان کوتھا اوراسی لیے اپنی تفسیرکے مقدمہ میں رقم طراز ہیں :’’البتہ کہیں کہیں ضرورۃً اس میں کوئی فنی بات بھی آگئی ہے جیسے ترکیب یالغوی وصرفی تحقیق ۔ظاہرہے کہ وہ عربی داں حضرات ہی کے سمجھنے کی چیز ہے ،غیرعربی داں حضرات مطالعہ میں اِس سے صرف نظرکرجائیں یاکسی عربی داں سے پوچھ کرسمجھ لیں ‘‘۔ (۱۵) اصل میں متقدمین کی تفاسیرمیں یہ چیز بالکل عام ہے اورسلف میں کم وبیش ہرمفسراس کا اہتمام کرتارہاہے ۔خاص طورابوحیان اندلسی نے اور زمخشری نے اس کا بہت اہتمام کیاہے ۔سلف کی متابعت میں علامہ میرٹھی نے بھی پوری تفسیرمیں اِس کا بہت زیادہ اہتمام کیاہے ۔اصل میں ان کے سامنے علماء وطالبا ن علوم عربیت رہے ہیں ۔اوران کے خیال میں قرآنی آیات کی صرفی تحقیق اورنحوی ترکیب صحیح فہم کے لیے نہایت ضروری ہیں ۔کتنے ہی مقامات ہیں جہاں صحیح ترکیب سمجھ میں نہ آنے سے لوگوں نے معنی کچھ کے کچھ بنادیے ہیں ۔اس بارے میں علامہ کو زیادہ شکوہ صاحبِ تفہیم سے تھا،جو ان کے نزدیک عربیت کے اورصرف ونحوکے اغلاط سے بھری پڑی ہے۔تاہم راقم کے خیال میں مولانامودودی کا مخاطب طبقہ عصری طبقہ اورعوام تھے ،جن کو ان دقیق مباحث سے کوئی سروکارنہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ تفہیم القرآن عام فہم ہے اورمفتاح القرآن اپنی ساری خوبیوں کے باوجودعصری طبقہ کے لیے مشکل بن گئی ہے ،تاہم طالبانِ قرآن اورعلماء ومحققین کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیرہے ۔
ہم نے تفسیرمفتاح القرآن سے ہم نے یہ کچھ مثالیں اورنمونے پیش کیے ہیں جوخاصے ہیں اورہمیں احساس ہے کہ قارئیں بوجھل ہوجائیں گے ،اسی وجہ سے انہی مثالوں پر اکتفاکررہے ہیں ورنہ مصنف کے اجتہادات،تفسیری روایات کی تحقیقات اورنئے نئے معانی مفاہیم کا ایک بڑاذخیرہ ہے جس سے یہ تفسیرمالامال ہے ۔یہ چندمثالیں تومشتے نمونہ ازخروارے کی حیثیت سے نقل کردی ہیں ورنہ اس تفسیرمیں ایسے صدہا مقامات ہیں جہاں مفسرگرامی نے متقدمین ومتاخرین کی تفسیرکو قبول نہیں کیااوراپنی الگ ہی تشریح پیش کی ہے ۔اس سلسلہ میں انہوں نے نقل صحیح ،نقد حدیث ،درایت ، عربیت کے اسلوب ،نظم کلام اورقلب سلیم سے کام لیاہے ۔،تفسیرمفتاح القرآن کے اس سرسری سے مطالعہ سے صاحبِ تفسیرکی یہ بات مبرہن ہوکرسامنے آتی ہے کہ ’’لیکن متقدمین ومتاخرین کی اِتمام قابل قدرومسحق احترام مساعی کے باوجودیہ خیال کرلینامناسب نہ ہوگاکہ قرآن کریم کے متعلق ترجمہ وتفسیرکا اردویاعربی یاکسی بھی زبان میں اتناکام ہوچکاہے کہ اب ایک نیاترجمہ یاایک نئی تفسیرشائع کردیناوقت اورمحنت کا صحیح مصرف نہیں ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ جوکچھ ہواہے و ہ بہت کم اورناکافی ہے ۔اس بارے میں مسلسل محنت کرنے اورکوشش کرنے اورکرتے رہنے کی ضرورت ہے ‘‘۔(
۲۵)
راقم خاکسارکے نزدیک اس تفسیرکی ایک اورخوبی یہ ہے کہ وہ صرف قرآن کو محوربناتی ہے۔صحیح حدیث کو اس کی تشریح سمجھتی ہے ،باقی چیزوں اور دوسرے علوم کو اس میں زبردستی نہیں گھسیڑاگیاہے۔اس میں نہ بہت زیادہ فقہی مباحث ہیں نہ ہی وہ کلامی مباحث سے بوجھل ہے اورنہ اس میں بے جا صوفیانہ وعارفانہ نکتہ طرازی کی گئی ہے۔نہ اس میں فلسفہ ومنطق یاجدیدسائنس کی معلومات بھردی گئی ہیں بلکہ مصنف نے قرآن سے جوسمجھاہے اسی کو لکھ دیاہے ۔البتہ جولکھاہے وہ خوب چھان پھٹک کراورتحقیق وتفتیش کے بعد۔نیز اس کی زبان بڑی دل آویز ،رواں ،سادہ اوردل کش ہے ۔اردومیں کم ہی تفسیریں ہوں گی جن کی اردواتنی صاف ،روا ں اورشستہ ہو۔
اس سرسری سے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہے کہ تفسیرمفتاح القرآن ایک جلیل القدرعلمی تفسیرہے ،بلاشبہ اس میں ظاہرکی گئی بہت سی رایوں سے اختلاف کیاجاسکتاہے اوراختلاف کرنااہلِ علم کا حق ہے۔مگریہ ضرورہے کہ یہ تفسیرکتاب الٰہی کے بہت سے معانی سے پردہ اٹھاتی،بہت سے نئے مباحث اٹھاتی اورنئے نکات سجھاتی ہے۔قرآن کے طالبوں کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیرہے ۔اوربلاشبہ اس تفسیرمیں مصنف نے وہی سمجھانے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے جو آیات قرآن کا مطلب ومعنی ہے ۔اورجو بات بھی لکھی ہے نہایت تحقیق اورشرح صدرکے ساتھ لکھی ہے۔فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز نئی دہلی کوشش کررہاہے کہ کتاب عزیز کی اس جلیل القدرتفسیرکو جلدازجلدمنظرعام پر لائے تاکہ قرآنی مطالعات وتحقیقات کاایک نیاباب روشن ہواورطالبانِ قرآن ایک نئی روشنی میں اپناسفرطے کریں۔
حواشی ومراجع
(
۱) امام راغب اصفہانیؒ نے لکھاہے : الفسراظہارالمعنی المعقول ومنہ قیل لماینبئی عنہ البول تفسرۃ وسمی بہا قارورۃ الماء والتفسیرقد یقال فیمایختص بمفردات الالفاظ وغریبہاصفحہ ۰۸۳ دارالمعرفہ بیروت لبنان
(
۲)کشف الظنون میں علم تفسیرکی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ تفسیروہ علم ہے جس میں بشری طاقت کی حدتک عربی زبان کے قواعدکے مطابق نظم قرآن کے معنی سے بحث کی جائے اورعلم تفسیرکے موقوف علیہ علوم یہ ہیں(۱) علوم عربیہ (۲)اصول کلام (۳) اصول فقہ (۴) خلافیات اوران کے علاوہ بعض دوسرے علوم ملاحظہ تاریخ افکاروعلوم اسلامی راغب الطباخ ترجمہ افتخاراحمدبلخی جلداول صفحہ ۵۲۲ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزنئی دہلی جنوری ۲۰۰۲ء
(
۳) دیکھیں حاشیہ نمبر۲
(
۴) فاماتفسیرالقرآن بمجرد الرأی فحرام ،ابن تیمیہ ؒ ،مقدمہ فی اصول التفسیرصفحہ ۲۰۱
(
۵)کیایہ قرآن پر غوروفکرنہیں کرتے ،کیاان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں؟(محمد: 24)
(
۶) تفسیربالرائے اورتفسیربالماثورکی تعریف اورمتعلقہ مباحث کے لیے دیکھیں : راغب طباخ، تاریخ افکاروعلوم اسلامی ترجمہ افتخاراحمد بلخی جلداول صفحہ ۵۲۲ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزنئی دہلی جنوری ۲۰۰۲ء اورعلوم القرآن مولانامفتی تقی عثمانی ،اورالاتقان فی علوم القرآن )
(
۷) علامہ میرٹھی ؒ کے تفصیلی تعارف کے لیے دیکھیں: غطریف شہباز ندوی ،ماہنامہ الشریعہ ،الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ ،نومبر 2011اور الشریعہ ڈاٹ نیٹ،غلام نبی کشافی ،افکارملی نئی دہلی کا شخصیات نمبرجولائی ۵۰۰۲ء 632/9ذاکرنگرنئی دہلی صفحہ 126-127 )
(
۸) شیخین یعنی امام بخاری ومسلم دونوں کی جلالتِ قدرکے پورے اعتراف کے باوجودمصنف ؒ کی تحقیق یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں میں بھی ضعیف بلکہ بعض موضوع روایتیں بھی جگہ پاگئی ہیں۔اپنی اس تحقیق کو انہوں نے جابجاتفسیرمفتاح القرآن میں بھی بیان کیاہے اور بخاری کا مطالعہ کے نام سے تین اجزاء میں اختصارکے ساتھ اپناحاصل مطالعہ پیش کیاہے ۔پہلے حصہ میں وہ حدیثیں ذکرکی ہیں جو ان کی تحقیق میں روایت ودرایت کے اعتبارسے درست نہیں ۔دوسرے حصہ میں وہ حدیثیں زیربحث آئی ہیں جوفی نفسہ صحیح ہیں مگران کے بعض اجزاء صحیح وثابت نہیں اورتیسرے جزء میں امام بخاری کی بعض فقہی وتفسیری رائیں اوراجتہادات زیرنقدلائے گئے ہیں۔اس سیریز کے دو حصے یعنی دوسرا اورتیسراحصہ ابھی شائع نہیں ہوسکے ہیں ۔پہلافاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز C-303/3شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی سے شائع ہواہے اورپاکستان میں دارالتذکیرلاہورسے بھی شائع ہواہے۔
(
۹) ملاحظہ ہومقدمہ فی اصول التفسیرلابن تیمیہ ؒ صفحہ ۰۷
۰۱۔حروف مقطعات کے بارے میں اس مقالہ میں بھی تھوڑی سی تفصیل دی گئی ہے مگرمکمل بحث ملاحظہ ہو تفسیرمفتاح القرآن حصہ اول صفحہ ۹۳ تا۷۴ مکتبہ ازہریہ رائدہنہ ضلع میرٹھ)
(
۱۱)علامہ میرٹھی ؒ ،مفتاح القرآن سورہ یونس مسودہ صفحہ نمبر200 )
(
۲۱)علامہ میرٹھی، مسودہ تفسیرسورہ یونس صفحہ ۰۱۲۔۱۱۲
(
۳۱)ملاحظہ ہوعلامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن سورہ آل عمران مکتبہ ازہریہ میرٹھ صفحہ ۱۶۲)
(
۴۱)علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن پہلاحصہ البقرہ ص134) اور ڈاکٹرسیدشاہدعلی،اردوتفسیروں کامطالعہ بیسویں صدی میں،کتابی دنیا دہلی ۱۰۰۲ء صفحہ 110 )
(
۵۱) علامہ میرٹھی ،اردومترجمین ومفسرین کے بارے میں انہوں نے یہ رائیں اپنے ایک غیرمطبوعہ مختصرسے مضمون ’’اردومیں لکھی گئی تفاسیر قرآن ‘‘میں ظاہرکی ہیں،یہ مضمون اپنی اصل صورت میں راقم کے پاس محفوظ ہے۔
(
۶۱) علامہ میرٹھی لکھتے ہیں :مولاناعبدالماجددریابادی نے عربی نہ جاننے کے باوجودقرآن کریم کی خدمت احتیاط سے کی ہے ۔ترجمہ و تفسیرمیں ان علماء کرام کی باتیں نقل کی ہیں جوان کے نزدیک علم وتقوی میں معتمدعلیہ تھے ۔
(
۷۱)حوالۂ بالا،
(
۸۱)انہوں نے لکھاہے : ’’مودودی صاحب دراصل اردوکے اچھے ادیب وصحافی تھے ،عصرحاضرکے سیاسی افکارونظریات پر بڑی بصیرت ودیدہ وری کے حامل تھے ،نیشنل ازم ،کمیونزم وسیکولرازم پر ان کی تنقیدات بڑی جانداروباوزن ہیں ،تجددپسندلوگوں پربھی ان کی گرفت وتنقید بڑی عمدہ رہی ہے۔لیکن اسلامی علوم ،فقہ ،حدیث ،تفسیرمیں انہیں اچھی دستگاہ حاصل نہ تھی ‘‘۔
(
۹۱)ڈاکٹرسیدشاہدعلی،اردوتفسیروں کامطالعہ صفحہ 111 )
(
۰۲) علامہ میرٹھی ،مفتاح القرآن تفسیرسورہ آل عمران صفحہ ۵ مکتبہ ازہریہ رائے دھنہ ضلع میرٹھ
(
۱۲)علامہ میرٹھی ،مفتاح القرآن ،آل عمران صفحہ ۴ مکتبہ ازہریہ رائدھنہ میرٹھ)
(
۲۲)مولاناامرتسری لکھتے ہیں: ’’ان حروف کے معنی بتلانے میں بہت ہی اختلاف ہوا۔۔۔ میرے نزدیک زیادہ صحیح معنی وہ جوابن عباسؓ سے مروی ہیں کہ ہرحرف اللہ کے نام اورصفت کا مظہرہے ۔اس لیے میں نے، یہ ترجمہ جسے آپ دیکھ رہے ہیں کیاہے ۔یہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے‘‘۔مثال کے طورپربعض حروف مقطعات کاترجمہ یوں کیاہے الٰم: میں ہوں اللہ سب سے بڑاعلم والا،الٰرا: میں ہوں اللہ سب کچھ دیکھتا اورسنتا تفسیرثنائی ،ثناء اللہ امرتسری اکیڈمی دہلی 1979صفحہ 46 اورصفحہ 3
(
۳۲)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہومفتاح القرآن حصہ اول صفحہ ۹۲)
(
۴۲)( ایضاصفحہ ۶۴)
(
۵۲)علامہ میرٹھی ،صفحہ ۰۴۲ مسودۂ تفسیرمفتاح القرآن سورہ ہود)
(
۶۲) ملاحظہ ہوعلامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن ،سورہ الانعام ۵۵تا۵۷،شائع کردہ مکتبہ ازہریہ )
(
۷۲)ڈاکٹرسیدشاہدعلی،اردوتفسیروں کامطالعہ بیسویں صدی میں صفحہ 110 )
(
۸۲)مزیدتفصیل کے لیے نیزاس فلسفہ کی تنقید کے لیے دیکھے تفسیر مفتاح القرآن علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی ؒ حصہ اول صفحہ ۷۰۱تا۵۲۱ مکتبہ ازہریہ میرٹھ ،الطاف احمداعظمی احیاء امت اورتین دینی جماعتیں،پروفسیر محمد صبیح الدین انصاری ،کیاانسان اللہ کا خلیفہ ہے،مکتبہ الفوزان ،ڈاکٹرغطریف شہباز ندوی ،کیاانسان اللہ کا خلیفہ ہے؟ ایک علمی بحث،ماہنامہ التبیان دہلی نومبر۷۰۰۲ء۔ مولاناوحیدالدین خان تذکیرالقرآن طبع ثانی مکتبہ الرسالہ ۷۰۰۲ء صفحہ۵۲)
(
۹۲)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہو: تفسیرآل عمران ،صفحہ ۱۴۲)
(
۰۳)علامہ میرٹھی، مفتاح القرآن حصہ دوم تفسیرالبقرۃ صفحہ ۶۴۴)
(
۱۳)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہوتفسیرمفتاح القرآن سورہ البقرہ حصہ دوم صفحہ ۳۴۴۔۴۴۴ مکتبہ ازہریہ رائدھنہ ضلع میرٹھ)
(
۲۳) علامہ میرٹھی، ایضا
(
۳۳)علامہ میرٹھی، مسودہ تفسیرسورہ ہود صفحہ 276 )
(
۴۳)علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن بنی اسرائیل صفحہ ۷۷)
(
۵۳) علامہ میرٹھی، تفصیل ملاحظہ ہومفتاح القرآن حصہ اول ،صفحہ ۳۱ تا۹۲،مکتبہ ازہریہ میرٹھ )
(
۶۳)(علامہ میرٹھی ،صفحہ 279مفتاح القرآن حصہ دوم تفسیرسورۃ البقرۃ )
(
۷۳)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہومسودہ تفسیرسورہ انفال صفحہ ۴۲ مفتاح القرآن
(
۸۳)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہومسودہ تفسیرسورہ انفال صفحہ ۴۲ مفتاح القرآن
(
۹۳)(علامہ میرٹھی ،ایضا صفحہ ۵۲۔۷۲)نیز دیکھیں ایضا،ملاحظہ ہوتفسیرآل عمران صفحہ۰۵۲۔۱۵۲ )
(
۰۴)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہوسورۂحجرات تفسیرمفتاح القرآن مسودہ صفحہ 553-561 )
(
۱۴)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہوتفسیرمفتاح القرآن ،سورہ صافات ،مسودہ )
(
۲۴)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہومفتاح القرآن حصہ اول صفحہ 373-378 )
(
۳۴)علامہ میرٹھی ،مفتاح القرآن حصہ اول ص۶۔۷)
(
۴۴)(علامہ میرٹھی ،اس کی پوری تفسیرملاحظہ ہو،تفسیرمفتاح القرآن ،آل عمران صفحہ۵۱،۶۱مکتبہ ازہریہ )
(
۵۴)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہوتفسیرمفتاح القرآن ،آل عمران صفحہ ۲۱،۳۱،۴۱مکتبہ ازہریہ )
(
۶۴)علامہ میرٹھی ،پوری بحث ملاحظہ ہو تفسیرمفتاح القرآن سورہ الانعام صفحہ ۱۷تا۳۷شائع کردہ مکتبہ ازہریہ میرٹھ)
(
۷۴)علامہ میرٹھی، واقعہ افک کی پوری تحقیق کے لیے ملاحظہ ہوسورۃ نورتفسیرمفتاح القرآن شائع کردہ مکتبہ ازہریہ میرٹھ) اس مسئلہ پر پاکستان کے حکیم نیاز احمدنے علامہ کی تحقیق سے استفادہ کرکے ایک ضخیم کتاب لکھی تھی گرچہ اپنے مآخذکا حوالہ انہوں نے نہیں دیا)
(
۸۴)علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن سورہ نمل صفحہ ۹۹۴ مسوہ )
(
۹۴)علامہ میرٹھی ،مسودہ تفسیرسورہ ہودصفحہ۵۴۲تا۹۴۲)
(
۰۵)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہومسودہ سورہ انبیاء صفحہ ۴۴۲ مفتاح القرآن )
(
۱۵)علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن مقدمہ صفحہ۵)
(
۲۵)علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن مقدمہ صفحہ ۴،۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment