Tuesday, January 1, 2013

غلامی ، سعودی عرب اور اسلام



غلامی ، سعودی عرب  اور  اسلام
غلام رسول دہلوی

سعودیوں کی اسلام بیزار حرکتیں اب پردۂ خفا میں نہیں رہ گئیں بلکہ میڈیا کی کوریج پا کر دھیرے دھیرےمنظرعام پر آرہی ہیں۔پچھلے دنوں جب تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے  ایک شادی شدہ جوان پیریا سامی کی سعودی عرب میں ۲۰ سالہ غلامی اور قید و بند کی صعوبتیں خبر بن کر  الیکٹرانک میڈیامیں آئیں، تو  ہر سچے مسلمان کا کلیجہ کانپ اٹھا اور سر شرم سے نیچے جھک گیا۔    پیریا سامی کی عمر ۲۸ سال کی تھی جب اس نے اپنی با عزت زندگی اور نئی نویلی دلہن کو الوداع  کہہ کر ایک بہتر جاب پانے کے وعدہ پر سعودی عرب کا رخت سفر باندھا تھا۔مگر یہ وعدہ اس کے لئے ایک انتہائی مہنگا سودا ثابت ہوا،جس کے نتیجہ میں اس کے اور اس کی بیوی کے اگلے ۲۰ سال ذہنی ، جسمانی، نفسیاتی ،معاشی اور سماجی طور پر انتہائی المناک دور سے گزرے۔
یہ دردناک کہانی ایسے بہت سے ہندوستانی غریبوں کی حالت زار کو بیان کرتی ہے ،جنہیں اچھی تنخواہوں کے بہانے خلیجی ممالک میں ہائر کرکے ان سے اونٹ اور بکریاں چرانے کو کہا جاتا ہے۔پیریا سامی کی داستان یہی ہے۔تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ بہ آسانی اس چنگل میں پھنس گیا اور پھر اس کے ساتھ ۲۰ سالوں تک مسلسل غلام کی طرح  ناروا سلوک کیا گیا،اس کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا، رات دن جانور کی طرح کام لینے  کے باوجود صرف ایک ہی وقت کا  کھانا دیا جاتا اور  محنتانہ تنخواہ سے بھی محروم رکھا جاتا۔اسے اتنی سخت ذہنی و جسما نی اذیتیں پہنچائی گئی تھیں کہ جب ہندوستانی قونصل کے دباؤ پر سعودی حکومت نے اسے واپس بھیجنے کا انتظام کیا تو وہ دماغی توازن کھو جانے کی وجہ سے اپنے گاؤں کا پتہ بھی نہ بتا سکا ۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کی بیوی ایک لمبی مدت تک انتظار کرنے کے بعد اس سے مایوس ہو کر دوسری شادی کر چکی ہے تو گھر لوٹنے کی خوشی میں چہرے پر جو تھوڑی  رمق پیدا ہوئی تھی،وہ بھی غائب ہو گئی۔ (انڈین ایکسپریس ڈاٹ کام)  

غلامی اور سعود ی عرب:
سعودی عر ب میں اگر چہ ۱۹۶۲ء میں غلامی پر قانونی پابندی عائد کر دی گئی تھی ، مگر عملی طور پر یہ غیر انسانی رسم ابھی تک برقرار ہے۔اس پر ستم یہ ہے کہ اعلی سطح کے سعودی علماء اور مذہبی شیوخ اپنے فتوؤں اس کی تائید کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۳ ء میں ایک معروف سعودی مفتی شیخ صالح الفوزان نے اندھادھند یہ فتوی صادر کیا کہ ‘‘ غلامی اسلام کا حصہ ہے ، اور جو کوئی بھی اس کے خاتمہ کی بات کرتا ہے وہ کافر ہے’’۔( ورلڈنیٹ ڈیلی،10نومبر، 2003)
پیغمبر اسلام کی جائے پیدا ئش اور مہبط وحی ہونے کی حیثیت سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سعودی عرب سے غلامی کے خاتمہ کے لئے عالم گیر مہم چلائی جاتی ، کیوں کہ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیرینہ خواہش تھی۔مگر اس کے با لکل برعکس آج سعودی عرب کی شبیہ ایسے ملک کی ہو گئی ہے ،جہاں آئے دن مرد و خوا تین دونوں ہی بڑی تعداد میں غلام بنا ئے جارہے ہیں ، ان سے جبری طور پر گھریلو خدمات لی جا رہی ہیں یہاں تک کہ ان کا جنسی استحصال بھی کیا جا رہا ہے ۔بالخصوص ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستا ن، سری لنکا، نیپال، فلپائن، انڈونیشیا ، سوڈان  اور اتھیوپیا  سے  سعودی عرب میں ایک بڑی تعداد میں  بچے اور جوان مرد و خواتین ہائر کئے جاتے ہیں اور انہیں موٹی  تنخواہوں کا فریب دے کران سےگھر کے چھوٹے چھوٹے کام کروائے جاتے ہیں ۔ان میں سے اکثر کے ساتھ انتہائی ظالمانہ اور دلسوز برتاؤ   روا  رکھا جاتا ہے ، ان کے پاسپورٹ ضبط کر لئے جاتے ہیں، انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں ، جنسی و جسما نی اذیتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے اور ان کی تنخواہیں بھی  ہڑپ لی جا تی ہیں۔
 ایک رپورٹ کے مطابق  ایشیاء و افریقہ کے مختلف ممالک سے ہر سال سعودی عرب میں بڑی تعداد میں خواتین کی اسمگلنگ ہوتی ہے  اور تجارتی انداز میں ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔نتیجۃ ً         یہ عورتیں مجبور ہو کر قحبہ گری  کے پیشہ سے جڑ جاتی ہیں۔علاوہ ازیں سعودی عرب میں نائجیریا، یمن، پاکستان،  افغانستا ن اور سوڈان سے بے شمار بچے امپورٹ کئے جاتے ہیں اور ان سے جبراً  گھریلو کام لینے  کے ساتھ ساتھ انہیں بھیک مانگنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔کچھ سعودی باشندے ایسے بھی ہیں جو مصر، یمن، افغانستان، پاکستان ، ہندوستان   اور بنگلہ دیش کا سفر کر تے ہیں او ر وہاں جاکر تجارتی انداز میں جنسی استحصال کے کاروبار میں ملوث پائے جاتے ہیں۔  یہاں تک کہ کچھ سعودی حضرات غیر ممالک میں ایک متعینہ مدت تک کے لئے شادی رچا لیتے ہیں (مثلا نکاح متعہ و نکا ح مسیار وغیرہ) اور   اس مدت تک محض جنسی خواہشات پوری کرنے کے بعد منکوحہ کو طلاق دے کر واپس اپنے ملک لوٹ آتے ہیں ۔ ایسے بھی متعدد رسواکن واقعات سرخیوں میں آچکے ہیں کہ نہایت کم سن لڑکیوں  کےساتھ شا دی کرکے انہیں  عیش وعشرت اور  شاہانہ زندگی گزارنے کا سبز با غ دکھا کر سعودی عرب لے جایا گیا ، لیکن وہاں پہنچ کر انہیں اچانک یہ پتہ چلا کہ ان کی حیثیت اپنے شوہر کے لئے سامان لذت سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ اس طرح بالآخر وہ لڑکیاں یا تو گھر کی نوکرانی بن کر رہ گئیں یا پھر باہر جا کر قحبہ گری کےدلدل میں پھنس گئیں۔

غلامی اور سعودی حکومت:
یو ایس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی تحقیقات کے مطابق  : ‘‘  سعودی حکومت اپنے ملک سے انسانی اسمگلنگ کو ختم کرنے کے لئے  سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے اور نہ ہی اب تک اس نے اس کے لئے  کوئی مخلصانہ کوشش کی ہے۔اس بارے میں کوئی پختہ ثبوت فراہم نہیں ہو سکا کہ حکومت نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دی ہے۔مزید برآں، تجارتی انداز میں لڑکیوں اور بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے اسمگلرس کے خلاف   بھی   حکومت نےعملی طور پر کوئی سخت قانون نافذ نہیں کیا اور نہ ہی جنسی استحصال کے متاثرین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی سمت کوئی پائیدار قدم اٹھایا۔سعودی حکومت کی اتھارٹی آج تک ان متاثرین کی شناخت کا کوئی رسمی طریقئہ کار وضع نہیں کر سکی ہے جس کے نتیجہ میں  عام طور پر خود متاثرین ہی کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔اسی طرح جبری گھریلو خدمت involuntary servitude) ) کو ختم کرنے کے لئے بھی مملکت نے کوئی سنجیدہ قانونی کوشش نہیں کی ہے۔اگرچہ وہاں کا امیگریشن قانون اور ویزا  انٹری کے لوازمات سخت سے سخت تر کر دئے گئے ہیں، مگر پھربھی بچوں  اورعورتوں کی اسمگلنگ اور جنسی استحصال کی روک تھام کے لئے  کوئی مؤثر  اقدام  نہیں کیا گیاہے’’۔

غلامی اور سلفی علماء:
سعودی حکومت کی شرمناک بے حسی کا منظرنامہ دیکھنے کے بعد اب آئیے  موجودہ غلامی کے تعلق سےسعودی سلفی علماء و شیوخ کا  موقف ملاحظہ کیجئے !
سعودی عرب کے متشدد سلفی علماء نے  غلامی کے شرعی جواز کے حق میں بے بنیاد فتاوی صادر کر کے وہاں اس کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ، جبکہ دنیا بھر کے جمہور علماء کا واضح موقف یہ ہے کہ موجودہ  غلامی سر تا سر غیر اسلامی ہے اور یہ قرآن کریم کے اصول و ہدایات سے بالکل متصادم ہے۔
سعود ی علماء کا یہ موقف میڈیا میں اس وقت سامنے آیا جب  2003ء میں اعلی سطح کے سعودی مفتی شیخ صالح الفوزان نے یہ فتوی جاری کیا کہ ‘‘ غلامی مذہب اسلام کا حصہ ہے۔یہ جہاد کا بھی جزو ہے ، اور جہاد اس وقت تک باقی رہے گا جب تک کہ اسلام زندہ ہے۔ جو علماء غلامی کو  اسلام سے خارج کر  رہے ہیں، وہ علماء نہیں بلکہ جہلاء ہیں۔ اورہر وہ شخص جو اس طرح کی بات کرتا ہے ’  کافر ہے’’۔  یہ فتوی شیخ الفوزان نے اس وقت صادر کیا جب وہ سعودی حکومت کے سینئر علماء کونسل کے رکن ،کاؤنسل آف ریلیجیس ایڈکٹس اینڈ ریسرچ کے ممبر،  پرنس میتائیب مسجد،ریاض کے خطیب و امام  اورسعودی  وہابی علماء کے سب سے بڑے مرکز امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔(ورلڈ نیٹ ڈیلی ، 10 نومبر،2003 

غلامی اور اسلام:
یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اسلام نے ہمیشہ انسانی غلامی کی بیخ کنی کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ عہد اسلام کے عرب میں بھی غلامی کی رسم کا وجود ملتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اسلام نے اس کی تائید کی ہے بلکہ اس نے غلام بنالئے گئے انسانوں کو پہلی بار سب سے بڑی تعداد میں  آزاد کرکے اس کے خاتمہ کی ہر ممکنہ کوشش کی ہے۔اس لئے سعودی علماء کا یہ قول کہ  عہد اسلام میں غلامی کا وجود اس کے جواز پر دلیل ہے ، محض ان کی فقہی ناسمجھی کی مثال ہے ۔در اصل عرب کے اس معاشرہ میں جہاں غلامی صدیوں سے چلی آرہی تھی ، اچانک یکبارگی میں اس کا خاتمہ ایک مشکل امر تھا۔اس کے باوجود اسلام نے سب سے پہلے وہاں غلامی کے خلاف آواز بلند کی اور اپنے معتدل مزاج کے مطابق بتدریج اس کا صفایا  کرنے کی کوشش کی۔

غلامی سے متعلق اسلام کا بنیادی نظریہ:
‘‘اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے ۔ بے شک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے’’۔ (۱۴:۴۹)
مذکورہ قرانی آیت کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بنیادی طور پر اسلام میں غلامی کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔لیکن چوں کہ ظہور اسلام کے وقت جنگوں میں گرفتار کئے گئے قیدیو ں کو غلام بنانا عربوں میں ایک عام رواج تھا، جس کے نتیجہ میں عرب میں غلاموں کی تعداد بہت زیادہ ہوچکی تھی۔اس لئے اسلام نے غلامی کے خاتمہ کی طرف توجہ نہ دے کر پہلے سے موجود غلاموں کے تحفظ اور ان کے سلب ہوتے ہوئے حقوق کی بازیابی کو اپنا  اولین مطح نظر بنایا۔غلاموں کے ساتھ حسن سلوک اور نرم رویہ کی تلقین کرکے اسلام نے اوّلاً ان کی آزادی کے مسدود راستے وا  کئے۔ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بڑی تعداد میں غلام مردوں اور عورتوں کو آزاد کرکے انسانی آزادی کے تحفظ کی شاندار مثال قائم فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  اپنے ان صحابہ کی خوب حوصلہ افزائی فرمائی جنہوں نے اس سلسلے میں آپ کی پیروی کی۔وہ لوگ جو جو اپنے آپ کو ’’اہل حدیث‘‘ کہتے ہیں ، انہیں اس حدیث سے سبق حاصل کر نا چاہئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سنت مبارکہ پر عمل کرنا چاہئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے ساتھ بد سلوکی کرنے والوں کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ‘‘ وہ شخص جنت میں ہر گز نہیں جائے گا جو اپنے غلاموں کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے۔صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ و سلم) کیا آپ نے ہمیں نہیں فرما یا تھا کہ آپ کے عقیدتمندوں میں بہت سے غلام اور یتیم ہوں گے؟ آپ نے فرمایا : ہاں! تو تم لوگ ان کے ساتھ اپنے بچوں کی طرح مہربا نی کرو، اور انہیں کھانے میں وہ چیز دو جو تم خود کھاتے ہو’’۔
اسی طرح کی ایک دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا:
’’تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، لہذا تم میں سے جس کسی کا بھائی اس پر منحصر ہو،اسے چاہئے کہ وہ اسے اسی طرح کھلائے پلائے اور اسے کپڑے پہنائے جس طرح کہ وہ اپنے آپ کو کھلاتا پلاتا اور کپڑے پہنا تا ہے۔اور اس کے اوپر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے، اگر تم ان سے کام لیتے ہو تو تم پر ضروری ہے کہ تم ان کی مدد کرو‘‘ ( روایت : حضرت عبداللہ ابن عمر ، مسلم شریف)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو غلاموں کو آ زاد کرنے کی خوب تلقین فرمائی ، اگر چہ آزاد کرنے کے لئے کسی کو غلام خریدنا ہی کیوں نہ پڑے ، یہ اللہ کے یہاں بہت پسندیدہ عمل ہے۔تاریخ اسلامی میں ایسے بہت سے مواقع آئے جب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آ پ کے صحابہ نے آپ کی ترغیب پر غلاموں کو بڑی تعداد میں آزاد کیا۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶۳ غلاموں کو آزاد کیا ،اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ۶۷ غلاموں کو آزاد کیا۔مجموعی اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور صحابہء کرام نے 39,237 غلاموں کو آزاد کیا( ہیومن رائٹس ان اسلام ، مطبوعہ اسلامک فاؤ نڈیشن 1976، انگلینڈ ، صفحہ453 ( ان میں سے سب سے زیادہ مشہور غلام حضرت صفیہ بنت حییہ تھی جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرنے کے بعد اپنی زوجیت کے شرف سے نوازا۔دوسرے زید ابن حارثہ رضی اللہ عنہ ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا متبنی(منہ بولا بیٹا )بنا لیا۔ (کتاب الطبقات الکبری ،ابن سعد)
مذکورہ حقائق و واقعات اور احادیث کی روشنی میں غلاموں کے تعلق سے صحیح اسلامی نظریہ اور مزاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بخوبی ادراک کیا جا سکتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں سب سے پسندیدہ عمل یہ تھا کہ غلاموں کو آزاد کر دیا جائے، اگر چہ آزاد کرنے کے لئے انہیں خریدنا ہی کیوں نہ پڑ جائے۔دوسری طرف وہ لوگ جو ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں ،انہیں برا بھلا کہتے ہیں یا انہیں مارتے پیٹتے ہیں، وہ لوگ جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے اور سخت غضب الہی کے مستحق ہوں گے۔
غلامی کے خاتمہ کے لئے اسلام کی پرزور کوشش کے باوجود سعودی عرب میں آج بھی غلامی کی جاہلانہ رسم برقرار دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔پیریا سامی کی ۲۰ سالہ غلامی اور قید و بند کی زندگی کی تازہ ترین خبر تمام امت مسلمہ کے لئے ایک لمحہء فکریہ ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ تمام مسلمانان عالم سعودی حکومت سے اس بات کا پرزور مطالبہ کریں کہ وہ مسلمانوں کے دینی مرکز میں اسلام کی شبیہ نہ بگڑنے دے اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین رحمت کو ظلم وزیادتی اور سنگدلی کا دین بنا کر پیش کرنے والوں پر فورا قدغن لگائے۔

غلام رسول دہلوی ، RZ-D 33    سیتا پوری پارٹ( 1 ) ،جنک پوری  ،  نئی دہلی۔
Mob: 9313269575

2 comments:

  1. Thank you Mr. Rana Mazhar for using my article, but you should mention the source of the article as per the journalistic norm goes on.

    ReplyDelete