Tuesday, April 23, 2013

رسول اللّٰہ پر مکھیوں کا جوس پلانے کا الزام

رسول اللّٰہ پر مکھیوں کا جوس پلانے کا الزام

کتاب بخاری کے اندر کتاب بدألخلق کے نام سے ایک باب ہے جس کا نام ہے :
 اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغسمہ فان فی احدیٰ جناحیہ داء وفی الاخری شفاء
یعنی جب آپ کے کسی مشروب میں( پانی دودھ شربت چائے وغیرہ ) کوئی مکھی گر جائے تو اسے اس مشروب میں غوطہ دے دو کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور ایک میں شفاء۔
جناب قارئین!
 اس باب کا نمبر 300ہے اور اس کے ذیل میں امام بخاری جو حدیث لایا ہے اس کا نمبر547 ہے ۔جس کی روایت ابو ہریرہ سے کرائی گئی ہے۔ اس میں وہی باب والی بات رسول اللہ کے نام سے لکھی گئی ہے کہ آپ کے کسی مشروب میں اگر مکھی پڑجائے تو اسے اس مشروب میں ڈبو دینا چاہیئے اورڈبونے کے بعد نکال کر پھینکی جائے ۔کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے دوسرے میں شفاء ۔
تنقید وتبصرہ : جناب قارئین !
 یہ حقیقت سب لوگ جانتے ہیں کہ مکھیاں پیدا ہی غلاظت سے ہوتی ہیں۔ اگر کسی کو یہ بات سمجھ میں نہ آتی ہو تو وہ بیالوجی والوں سے معلوم کرے اگر بیالوجی کا علم ہمارے مذہبی مدارس کے نصاب میں نہیں ہو تو سارے شیوخ الحدیث اور حدیث کا علم پڑھنے والے اپنے پاخانہ پر غور سے دیکھیں کہ اس پر جب مکھیاں بیٹھتی ہیں تو اس دوران پاخانہ کے اوپر انڈے یا بچے دیتی ہیں یا نہیں اور وہیں تو الد تناسل کا عمل کرتی ہیں ۔مجھے معلوم نہیں کہ آج کل ڈبلیوسی اور کموڈ کا دور ہے وہاں فنائل اور معطر اسپرے بھی شاید ہوں ۔اس وجہ سے علم حدیث کے اساتذہ اور طالب علم اس بیالوجی کے مسئلہ کا مشاہدہ کر سکیں یا نہیں۔ البتہ میں اس چیز کا مشاہدہ کر چکا ہوں کہ مکھیاں غلاظت پر بیٹھنے کے دوران سلسلہ نسل بڑھاتی رہتی ہیں ۔
جناب قارئین !
 قرآن حکیم غلاظت کیلئے فرماتا ہے کہ پہلے تو فی الفور اسے پانی سے صاف کرو ، دھوڈالو۔
فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا
 اگر پانی میسر نہ ہو تو کسی صاف قسم کے مٹی کے ڈھیلے سے صاف کرو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (5:6)
مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تم منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا
ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (4:43)
مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کرکے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں پر مسح (کرکے تیمم) کرلو بےشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔
 آج کے دور میں مٹی کے ڈھیلے والی جاذبیت ٹشو پیپر میں بھی اتم درجہ پر ہے۔ اس لئے اس سے بھی صفائی کا مقصد پورا ہو سکتا ہے۔
 یہ قرآن حکیم کی ہدایت سورۃ نساء کی آیت نمبر 43 میں ہے۔ اور سورۃ مائدہ کی آیت نمبر6میں بھی ہے۔
 اب کوئی بتائے  کہ قرآن حکیم تو پاخانہ جیسی گندگی کو فی الفور دھوکر صاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور یہ بخاراکا حدیث باز امام پاخانہ جیسی غلا ظتوں میں پیدا ہونے والی مکھی کیلئے محمد رسول اللہ کے نام پر حدیث پیش کرتا ہے  کہ یہ مکھی اگر تمہارے مشروب میں پڑجائے تو ڈبو کر اس کا عرق اور ست مشروب میں ملا کر پھر باہر نکالا جائے ۔
اگر ہم امام بخاری کی اس حدیث کو درست قرار دیں تو پھر یہ مکھی جن غلاظتوں کی رہنے والی ہے ،کیا یہ حدیث ساز امام لوگ اپنے مشروب میں وہ شامل فرمائیں گے ؟
جناب قارئین!
 اس حدیث سازی میں جو ذہنیت کار فرما ہے میں اس کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اہل فارس کی عربوں پر آنکھ ہی نہیں پڑتی تھی۔ عرب تو ان کے یمنی گورنر کے ماتحت ذیلی محکوم قوم تھی۔ لڑائیوں میں عربوں نے فارس کو کبھی شکست نہیں دی تھی۔ لیکن جب خاتم الرسل کا انتخاب ،اللہ تعالیٰ نے عربوں میں سے کرکے ان کے ہاتھوں کائناتی منشور قرآن بھیجا تو اہل فارس کو اچھی طرح سوجھی کہ ان کو عربوں نے قادسیہ کی جنگ میں شکست نہیں دی یہ شکست انہیں قرآن کے نظریاتی  پیکج نے دی ہے۔ جس قرآن کو اللہ نے متعارف کراتے ہوئے فرمایا  کہ :
 وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ
ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا (17:82)
اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے۔
ہم جو قرآن میں سے مومنین کے لئے نازل کررہے ہیں وہ شفاء اور رحمت ہے ۔
تو اہل فارس کے شکست خوردہ امام مافیا قسم کے لوگوں نے قرآن سے نفرت کی بنیاد پر غلاظت کی مکھی کے ایک پر میں شفاء ڈال کر حدیث رسول کے نام سے چائے میں دودھ میں ملا کر ڈبو کر کہا کہ تمہاری شفاء تمہار ے رسول نے اسی میں دی ہے۔
 رج رج کے پیو۔
رسول اللہ ﷺ کی شان میں قرآن نے جو فرمایا ہے کہ یہ اپنے دادا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا مظہر ہیں وہ دعا یہ ہے کہ ;
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ
ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (2:129)
اے پروردگار، ان (لوگوں) میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان (کے دلوں) کو پاک صاف کیا کرے۔ بےشک تو غالب اور صاحبِ حکمت ہے۔
یعنی اے ہمارے پالنے والے اس کعبے اور بیت کے انقلابی ہیڈ کوارٹر کو بسانے کیلئے ان میں سے کوئی ایسا رسول بھیج جو ان پر تیری وحی متلو والی آیات تلاوت کرے اور تیری کتاب وحی کی حکمت کی تعلیم ان کوسکھائے اور مکہ اور اہل حجاز کا تزکیہ کرے۔ تحقیق تو ہی غالب اور حکمت والا ہے۔
تو جناب قارئین کرام !
 کیا رسول اللہ کا تزکیہ امت والوں کیلئے غلاظت بھری مکھیوں کا عرق پلانے سے ہو گا۔
 قرآن نے رسول علیہ السلام کی شان میں فرمایا ہے کہ :
 وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ
یعنی محمد رسول اللہ اپنی اصلاحی تعلیم کے ذریعے ان پر خبیث اور پلید غلاظت بھری چیزوں کو حرام قرار دیگا ۔
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ
ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (7:157)
وہ جو (محمدﷺ) رسول (الله) کی جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔ تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی۔ اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی۔ وہی مراد پانے والے ہیں۔
تو ایسی حدیث بنانے اور اسے درست سمجھ کر پڑھنے پڑھانے والوں کو قرآن کا کچھ تو حیاء کرنا چاہیئے ۔
 جوو ہ صریح قرآن دشمن روایات کے ذریعے دین اسلام کو مسخ کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔
 ان روایتوں سے خود رسول اللہ کی خفت ہوتی ہے۔
 رسول جیسی ہستی دنیا والوں کے سامنے باعث تضحیک و تمسخر بن جاتی ہے۔
 لیکن کیا کریں کہ اس امامی مافیا کا بھی مقصد ہی ان حدیثوں سے یہی ثابت ہوتا ہے ۔

 عزیز اللہ بوہیو 

No comments:

Post a Comment