Wednesday, November 21, 2012

بقول بخاری- ایک نبی علیہ السلام کا چیونٹیوں کے خلاف جہاد



بقول بخاری- ایک نبی علیہ السلام کا چیونٹیوں کے خلاف جہاد

بخاری صاحب فرماتے ہیں کہ ---

باب : جہاد اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
 حدثنا یحی بن بکیر ثنا اللیث عن یونس عن ابن شھاب عن سعید بن المسیب و ابی سلمۃ ان اباھریرۃ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول قرصت نملۃ نبیا من الانبیاء فامر بقریۃ النمل فاحرقت فاوحی اللہ الیہ ان قرصتک نملۃ احرقت امۃ من الامم تسبح اللہ---
 بخاری جلد اول ص 424---
ابو ھریرہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم سے کہ میں نے آپ ص سے سنا کہ وہ فرما رہے تھے کہ اللہ کے انبیاء میں سے ایک نبی اللہ کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو اللہ کے اس نبی نے حکم دیا کہ چیونٹوں کے گائوں کو جلادیا جائے اور اس چیونٹیوں کے گائوں کو جلادیا گیا پھر اللہ نے اپنے اس نبی کو وحی کی کہ تمھیں تو ایک چیونٹی نے کاٹا تھا اور تونے امتوں میں سے ایک امت کو جلادیا جو اللہ کی تسبیح کرتی تھی---
کیا کسی اللہ کے نبی سے یہ بات ممکن ہے؟
 ایک عام آدمی سے بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ صرف ایک چیونٹی کے کاٹنے پر اس قسم کا رد عمل کا اظہار کرے---
 تو کیا اللہ کے نبیوں کی اس قسم کی ظیعیت اور تربیت الاہی ہوتی تھی؟
 کیا اللہ کے نبی اتنے فارغ تھے کی اس قسم کے فضول اور لغو کاموں میں اپنے آپ کو کھپائیں؟
 کیا اللہ کے نبی اس قسم کے کاموں میں اپنے صحابہ کو استعمال کرتے تھے؟
 یہ تو باقاعدہ چڑھائی اور حملہ ہوگیا ایک اللہ کے بنی اور اس کی جماعت صحابہ کی طرف سے چیونٹیوں پر تو کیا اللہ کے نبی اس قسم کا جہاد فرماتے تھے؟
کیا مذاق ہے اللہ کے نبیوں کے ساتھ---
پھر کہا جا رہا ہے کہ قریۃ النمل ---
چیونتیوں کا گائوں---
کیا چیونٹیوں کے گائوں بھی ہوتے ہیں---
 پتہ نہیں اس گائوں کا نام بخاری صاحب نے نہیں بتایا---
 حشرات الارض کے گائوں---
 پھر کہا جا رہا ہے کہ ان کے گائوں کو جلایا گیا ---
پتہ نہیں بلوں کو اس زمانہ میں کیسے جلایا گیا ---
 بلوں کے اوپر تو آگ جلائی جا سکتی ہے لیکن خود بلوں کو کس طرح جلایا گیا اور روایت کے الفاظ ہیں کہ چیونٹیوں کے گاءوں کو جلایا گیا شاید اس زمانہ میں چیونٹیاں زمین کے اوپر انسانوں کی طرح گھر بناکر گائوں اور قصبے بناکر رہتی تھیں---
 پھر پتہ نہیں اس کاٹنے والی چیونٹی کو اللہ کے نبی نے کیسے پہچانا اور کیسے اس کے مخصوص گائوں کو پہچانا شاید سارا دن اس کے پیچھے گھومتے رہے ہوں سارے کام چھوڑ کر تاکہ اس کا اتہ پتہ معلوم ہو تا کہ اس پورے گائوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا جائے---
 پھر وہ چیونٹیاں ایک امت تھی پتہ نہیں کس نبی کی امت تھی ؟
 اس نبی کی تو نہیں ہوسکتی جس نے انھیں جلوایا کیوں کہ کوئی نبی اپنی امت کو نہیں جلوا سکتا یا پھر ہوسکتا کہ اس نبی نے یہ کام کیا ہو ---
 اور یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ امت صرف وہ گائوں ہی کیوں امت تو ساری دنیا کی چیونٹیاں ہوسکتی ہیں اس روایت کے مطابق تو کیا اللہ کے نبی نے ساری دنیا کی چیونٹیاں جلادیں تھیں ؟
کیوں کہ روایت میں لفظ ہیں کہ آللہ کے نبی نے امتوں میں سے ایک امت جلادی---
 یا چیونٹیوں میں بھی مختلف قبائل اور قومیں ہیں اور ان کے بھی مختلف نبی ہیں چیونٹیوں میں سے ہی کیوں کہ نبی تو جنس میں سے آتا ہے---
لیکن بخاری صاحب نے یہ بات بھی بیان نہیں کی ---
 پتہ نہیں کہ اس وقت ان چیونٹیوں میں کوئی شاید زندہ نبی موجود نہیں تھا ورنہ وہ کم از کم اس انسان نبی کے غلط حملہ میں دفاعی جہاد کا اعلان کرتا---
 بھرحال ان سوالات کے جوابات تو علماء اھل حدیث اپنے علم لدنی سے ہی دیں گے---
پھر اللہ کو بھی اس بے چاری پر رحم آیا بھی تو بعد از خرابی بسیار کہ پوری امت کو ایک اللہ کا نبی جلواکر ختم کر دیتا ہے اور وہ بھی ایک امت مسلمہ کو اور وہ بھی بے گناہ مگر اللہ خاموش ہے اور جب سب کچھ جل کر خاکستر ہوجاتا ہے تو پھر اللہ اپنے نبی کو وحی کرکے میار دے رہے ہیں کہ اے میرے نبی یہ تو نے کیا کردیا---
تو نے ایک اللہ کی تسبیح کرنے والی امت مسلمہ کو جلا دیا ---
 کیا اللہ اپنے نبی کو پہلے نہیں روک سکتے تھے؟
 اور پھر پتہ نہیں نبی نے وحی خفی کے سورس کی موجودگی میں یہ غلط فیصلہ کیسے کردیا کیا وحی خفی غلط ہوگئی یا وحی خفی نہیں مل سکی ؟

 ویسے وحی خفی کے خلاف ثبوت ہے یہ بخاری کی روایت---

 بھرحال یہ ہیں اللہ کے نبیوں کے کام بقول بخاری---

Baseerat E Haq

135 - شکار کا بیان : (92)
چیونٹی کو مارنے کا مسئلہ

وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " قرصت نملة نبيا من الأنبياء فأمر بقربة النمل فأحرقت فأوحى الله تعالى إليه : أن قرصتك نملة أحرقت أمة من الأمم تسبح ؟ "

مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 60                        
 " حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ( اللہ کے جو ) ابنیاء ( پہلے گزر چکے ہیں ان میں سے کسی نبی ( کا واقعہ ہے کہ ایک دن ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا ، انہوں نے چیونٹیوں کے بل کے بارے میں حکم دیا کہ اس کو جلا دیا جائے ، چنانچہ بل کو جلا دیا گیا ۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ وحی نازل کی کہ تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تھا اور تم نے جماعتوں میں سے ایک جماعت کو جلا ڈالا جو تسبیح ( یعنی اللہ کی پاکی بیان کرنے ) میں مشغول رہتی تھی ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح
 " چنانچہ بل کو جلا دیا گیا " کے بارے میں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی نے اس درخت کو جلانے کا حکم دیا تھا جس میں چیونٹیوں کا بل تھا ، چنانچہ اس درخت کو جلا ڈالا گیا ۔ اس واقعہ کا پس منظر یہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ ان نبی علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا تھا کہ ( پروردگار ! تو کسی آبادی کو اس کے باشندوں کے گناہوں کے سبب عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور وہ پوری آبادی تہس نہس ہو جاتی ہے ، درآنحالیکہ اس آبادی میں مطیع و فرمانبردار لوگوں کی بھی کچھ تعداد ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا کہ ان کی عبرت کے لئے کوئی مثال پیش ہونی چأہئے ۔ چنانچہ ان نبی علیہ السلام پر سخت ترین گرمی مسلط کر دی گئی ، یہاں تک کہ وہ اس گرمی سے نجات پانے کے لئے ایک سایہ دار درخت کے نیچے چلے گئے ، وہاں ان پر نیند کا غلبہ ہو گیا اور وہ سو رہے تھے تو ایک چیونٹی نے ان کو کاٹ لیا ، انہوں نے حکم دیا کہ ساری چیونٹیوں کو جلا دیا جائے ، کیونکہ ان کے لئے یہ آسان نہیں تھا کہ وہ اس خاص چیونٹی کو پہچان کر جلواتے جس نے ان کو کاٹا تھا یا یہ کہ ان کے نزدیک ساری چیونٹیاں موذی تھیں اور موذی کی پوری جنس کو مار ڈالنا جائز ہے ۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ " قریۃ نمل " سے چیونٹیوں کا بل مراد ہے ۔
" اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی الخ " یہ گویا ان نبی پر حق تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ اس بات پر محمول ہے کہ نبی علیہ السلام کی شریعت میں چیونٹیوں کو مار ڈالنا یا جلا ڈالنا جائز تھا ، اور عتاب اس سبب سے ہوا کہ انہوں نے ایک چیونٹی سے زیادہ کو جلایا ۔ لیکن واضح رہے کہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی بھی حیوان و جانور کو جلانا جائز نہیں ہے اگرچہ جوئیں اور کھٹمل وغیرہ ہی کیوں نہ ہوں ، نیز موذی جانوروں کے علاوہ دوسرے جانوروں کو مار ڈالنا بھی جائز نہیں ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی جاندار کو مار ڈالنے سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ وہ ایذاء پہنچانے والا ہو ۔
مطالب المؤمنین میں محمد بن مسلم سے چیونٹی کا مار ڈالنے کے بارے میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ اگر چیونٹی نے تمہیں ایذاء پہنچائی ہے تو اس کو مار ڈالو ، اور اگر اس نے کوئی ایذاء نہیں پہنچائی ہے تو مت مارو ، چنانچہ فقہاء نے کہا ہے کہ ہم اسی قول پر فتویٰ دیتے ہیں ۔
اسی طرح چیونٹی کو پانی میں ڈالنا بھی مکروہ ہے ۔ نیز کسی ایک چیونٹی کو ( جس نے ایذاء پہنچائی ہو ) مار ڈالنے کے لئے ساری چیونٹیوں کے بل کو نہ جلایا جائے اور نہ تباہ کیا جائے ۔

110 - مرتدوں اور فساد برپا کرنے والوں کو قتل کردینے کا بیان : (23)
جانوروں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ رحمت

وعن عبد الرحمن بن عبد الله عن أبيه قال : كنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم في سفر فانطلق لحاجته فرأينا حمرة معها فرخان فأخذنا فرخيها فجاءت الحمرة فجعلت تفرش فجاء النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " من فجع هذه بولدها ؟ ردوا ولدها إليها " . ورأى قرية نمل قد حرقناها قال : " من حرق هذه ؟ " فقلنا : نحن قال : " إنه لا ينبغي أن يعذب بالنار إلا رب النار " . رواه أبو داود

مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 700                        
 اور حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر میں تھے جب ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک حمرہ کو دیکھا جس کے ساتھ دو بچے تھے ہم نے ان دونوں بچوں کو پکڑ لیا ، اس کے بعد حمرہ آئی اور اپنے بچوں کی گرفتاری پر احتجاج شروع کیا جبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حمرہ کو اس طرح بیتاب دیکھا تو فرمایا کہ کس نے اس کے بچوں کو پکڑ کر اس کو مضطرب کر رکھا ہے ؟ اس کے بچے اس کو واپس کر دو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیونٹیوں کے رہنے کی جگہ کو دیکھا جس کو ہم نے جلا دیا تھا اور فرمایا کہ ان چیونٹیوں کو کس نے جلایا ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم نے جلایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پروردگار کے علاوہ کہ جو آگ کا بھی مالک ہے اور کسی کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کو آگ کے عذاب میں مبتلا کرے ۔" (ابو داؤد)

تشریح :
 " حمرہ "ح پر پیش اور میم پر تشدید و زبر ایک پرندے کا نام سے جو سرخ رنگ کا اور چڑیا کی مانند چھوٹا ہوتا ہے ، حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ آگ کے ذریعہ کسی کو عذاب دینا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے شایاں ہے اور چونکہ یہ سب سے بڑا عذاب ہے اس لئے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو آگ میں جلائے ۔
چیونٹیوں کے بارے میں مسئلہ یہ ہے اگر چیونٹیاں تکلیف پہنچانے میں ابتداء کریں یعنی از خود کسی کو کاٹنے لگیں تو ان کو مار ڈالنا چاہئے ورنہ ان کو مارنا مناسب نہیں ہے ، اسی طرح چیونٹیوں کے بلوں کو آگ سے جلانا بھی ممنوع ہے ، نیز چیونٹیوں کو پانی میں ڈالنا مکروہ ہے اگر ایک چیونٹی کاٹے تو صرف اسی کو مارا جائے اس کے ساتھ اور چیونٹیوں کو مار ڈالنے کی ممانعت ہے ۔

41 - جہاد اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : (383)
اس باب میں کوئی عنوان نہیں ہے۔

حدثنا يحيی بن بکير حدثنا الليث عن يونس عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب وأبي سلمة أن أبا هريرة رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول قرصت نملة نبيا من الأنبيائ فأمر بقرية النمل فأحرقت فأوحی الله إليه أن قرصتک نملة أحرقت أمة من الأمم تسبح

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 276            حدیث مرفوع              مکررات 11 متفق علیہ 5 
 یحیی بن بکیر لیث یونس ابن شہاب سعید بن مسیب اور ابوسلمہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک چیونٹی نے کسی نبی کو کاٹ لیا تھا تو انہوں نے حکم دے کر چیونٹیوں کا چھتہ جلوا دیا اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ تم کو ایک چیونٹی نے کاٹا تھا اور تم نے سب چیونٹیوں کا چھتہ جلوا دیا جو اللہ کی تسبیح کرتی تھیں۔

42 - مخلوقات کی ابتداء کا بیان : (129)
پانچ فاسق (موذی) جانوروں کو حرم میں مارنے کی اجازت کا بیان

حدثنا إسماعيل بن أبي أويس قال حدثني مالک عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال نزل نبي من الأنبيائ تحت شجرة فلدغته نملة فأمر بجهازه فأخرج من تحتها ثم أمر ببيتها فأحرق بالنار فأوحی الله إليه فهلا نملة واحدة

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 556            حدیث مرفوع              مکررات 11 متفق علیہ 5 
 اسمعیل بن ابی اویس مالک ابوالزناد اعرج حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا زمانہ ماضی میں ایک نبی ایک درخت کے نیچے سے گزرے انکو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو انہوں نے اسکے چھتے کے متعلق حکم دیا تو وہ درخت کے نیچے سے نکالا گیا پھر اسکے گھر کی بابت حکم دیا تو اسے آگ میں جلا دیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی بھیجی کہ تم نے ایک ہی چیونٹی کو سزا کیوں نہیں دی۔

Narrated Abu Huraira:
Allah's Apostle said, "Once while a prophet amongst the prophets was taking a rest underneath a tree, an ant bit him. He, therefore, ordered that his luggage be taken away from underneath that tree and then ordered that the dwelling place of the ants should be set on fire. Allah sent him a revelation:-- "Wouldn't it have been sufficient to burn a single ant? (that bit you): (See Page 162, chapter No. 153).

No comments:

Post a Comment