Thursday, November 15, 2012

احادیث کی کتب میں آل سعود کی تحریف اور تدلیس




احادیث  کی  کتب  میں آل سعود کی تحریف  اور  تدلیس

 

آل سعود کا نیا منصوبہ – تاریخ اسلام اور کلچر کو یکسر مٹانے کا آغاز -عامر حسینی


سعودی حکومت آج کل مسجد نبوی کو وسعت دینے کا ایک نیا پروجیکٹ شروع کر رہی ہے-اس کا آغاز نومبر میں ہونے والا ہے-اس منصوبے کے تحت نئے کمرے اور نئے ہال بنائے جانا ہیں-اور اس منصوبے کی زد مں مدینہ کی سب سے قدیم ترین مساجد،روضۂ رسول کا گنبد اور ریاض الجنہ بھی آرہے ہیں-اس منصوبے کی تکمیل ہونے سے روضۂ رسول کی مرکزی حثیت ختم ہوکر رہ جائے گی
-
آل سعود مکہ اور مدینہ کو پھیلانے اور اس کی ترقی کے نام پر مسلسل ابتدائی اسلام کی تاریخ کے آثار کو مٹانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے-اور وہ تعمیراتی کاموں کے دوران کلچر اور تاریخ کی حفاظت کا کوئی خیال نہیں رکھتی ہے-وہ کلچر اور تاریخ کے آثار کو باقی رکھے جانے کے عمل کو اسلام کے خلاف بتاتی ہے-یہی وجہ ہے کہ اس سے قبل جہاں رسول پاک کی پیدایش ہوئی اس جگہ کو پبلک کتب گھر میں بدل دیا گیا-سب سے زیادہ ستم یہ کیا گیا کہ آپ کی پہلی محبوب بیوی کا جو گھر تھا اس کو پبلک لیٹرین میں بدل دیا گیا-امام حسین کے نام سے منسوب مسجد کو ڈائنامائٹ سے اڑا دیا گیا اور اس پر سعودی عرب کی مذہبی پولیس کے لوگ ایک ویڈیو میں جشن مناتے ہوئے دکھائی دے-غزوہ خندق کی یاد گار کو مٹا دیا گیا۔
اس سے قبل سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز یہ فتویٰ دے چکے کہ گنبد روضہ رسول کو گرا دینا چاہئے اور رسول پاک ،ابو بکر و عمر کی قبور کو زمیں سے لگا دینا چاہئے-سودی حکومت مدینہ اور مکہ کے قبرستانوں میں یہ عمل کرچکی ہے اور وہاں پر اصحاب رسول ،احل بیت اور امہات المومین کے مقابر کو گرا دیا گیا اور قبروں کو زقمیں کے برابر کر دیا گیا-اور اکثر قبور پر کو کوئی نشانی بھی نہیں چھوڑی گئی-مکہ اور مدینہ میں مسلم تاریخ اور کلچر کے اثر کو مٹائے جانے کا عمل آل سعود کے حجاز پر قبضے سے شروع ہوا تھا جو ابھی تک جاری ہے-سعودی حکومت اور سعودی علماء آثار اسلام اور تمدنی نشانیوں کو باقی رکھنے کے عمل کو بدعات سے تعبیر کرتے ہیں-اور اس کی ایک شعوری وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ آل سعود اور ان کے علما خود کو علامہ ابن تیمیہ کی تعلیمات کا پیرو خیال کرتے ہیں۔
علامہ ابن تیمیہ مسلم تاریخ کا وہ پہلا عالم ہے جس نے سب سے پہلے مسلم کلچر اور تمدنی آثار کو شرک اور بدعات سے تعبیر کیا-اس نے سب سے پہلے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے یہ سوال اٹھایا کہ جب کوئی حاجی یا زائر حجاز کا رخ کرے تو اس کو کیا روضہ رسول کی زیارت کا قصد اور نیٹ کرنی چاہئے کہ نہیں؟اس سوال کے جواب میں اس کی لکھی گئی کتاب پہلے ورق سے آخرتک اس بات پر زور دیتی ہے کہ قبر رسول کی زیارت کا قصد کرنا گناہ،بدعت ہے قصد مسجد نبی کی زیارت کا کرنا چاہئے-مدینہ میں ابن تیمیہ کی تعلیم سے متاثر نہ ہونے والے اور غیر سلفی اسلام پر عمل پیرا ہاشمی قبیلے سے تعلق رکھنے والے اور خود کو علوی کہلانے والے عالموں کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت مسجد نبی کی وسعت کے نام پر قبر رسول اور روزہ رسول کی زیارت کو غیر اہم کرنا چاہتی ہے اور اس طرح سے وہ ابن تیمیہ کے فتوے کو عملی روپ میں لانے کی کوشش کر رہی ہے-آل سعود آثار اسلامی کو مٹانے کی کوشش اس لئے بھی کرتے ہیں کہ اس عمل سے مسلک اہل بیت اور جمہور اصحاب رسول کے رجحان کتریخ کو ختم کیا جاسکتا ہے-کیونکہ ابن تیمیہ میں اپنی کتاب منہاج السنہ میں امام علی کی خلافت کو غیر متفق لکھا تھا اور منہاج السنہ میں بنو امیہ کے نکتہ نظر کو سپورٹ دی تھی-زمینی طور پر آل سعود ہر اس نشانی کو مٹا دینا چاہتی ہے جو ابن تیمیہ کی فکر کی نفی کرتی ہو۔
ایک سنی عالم دیں مولانا علوی ملکی جو کہ مدینہ میں رہائش پذیر ہیں اور انھوں نے کافی کتابیں سلفی مسلک کے خلاف لکھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ آل سعود نے صرف کلچر اور آثار کو مٹانے کا سلسلہ شروع نہیں کیا ہوا بلکہ قرون وسطیٰ کے ان سنی علماء کی تاریخ،تفسیر اور احادیث کی کتب میں بھی تحریف اور تدلیس کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو اپنی تحریروں میں ان سب اعمال کو سلف صالحین سے منسوب کرتے ہیں جن کو وہابی اسلام بدعت اور شرک سے تعبیر کرتا ہے-اس بات کی تصدیق سنی جن کو پاکستان میں بریلوی کہا جاتا ہے کہ ایک بہت جید عالم علامہ غلام رسول سعیدی اور علامہ شوکت الی سیالوی نے راقم کے سامنے کی-ان ہر دو عالموں نے مجھے دار علم قاہرہ اور بیروت کے کتب خانوں سے چھپی ہوئی سید محمود آلوسی قاضی بغداد کی تفسیر قران “روح المعانی “دکھائی اور پھر سعودی عرب کے کتب خانے سے چھپنے والی کتاب دکھائی تو اس میں بت فرق تھا اور سعودی عرب سے چھپنے والی کتاب میں ایک ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب کے نظریات سے موافق آیات کی تفسیر ڈال دی گئی تھی-اسی طرح سے تفسسر ابن کثیر کو سعودی عرب سے شایع کر کے اس میں جو باتیں سلفی اسلام کے وارے میں نہیں تھیں ان کو نکل دیا گیا-اسی طرح کا کام امام بخاری کی ایک اور کتاب کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔
ویسے یہ کام خود پاک و ہند میں بھی ہوا-شاہ والی الله سے منسوب کر کے کی کتابیں مارکیٹ میں لائن گئیں اور ان کو وہابی عالم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی-یہ پول اس وقت کھلا جب پٹنہ کے قدیم کتاب گھر سے شاہ والی الله کے ایک عزیز کی شاہ والی الله سے پوچھ کر لکھی گئی سوانح عمری کا نسخہ دریافت ہوا اور وہ چھپ کر مارکیٹ میں آگیا- آل سعود نے بھی سعودی عرب سے ملا علی قاری حنفی اور شاہ ولی الله سے منسوب کر کے ابن تیمیہ کے حق میں کلمات کتابوں میں داجخل کے-مقصد یہ تھا کہ سلفی نظریات کے اجنبی پن کو ختم کیا جائے اور غیر سلفی مسلک کے ماننے والوں کو دھوکہ دیا جائے-آل سعود کی طرف سے حجاز کے اندر اسلامی تریخ اور کلچر کو بلڈوز کرنے کی کوشش کو وہاں کے غیر سلفی سنی اور شیعہ مکاتب فکر کے علماء اسلام کو بلڈوز کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں-اسلامک ہیرٹیج سوسائٹی مدینہ کے سربراہ ڈاکٹر عرفان علوی کا کہنا ہے کہ روزہ رسول اور قبور ابی بکر و عمر کو وسعت مسجد نبوی کی نذر کرنا گستاخانہ فلم سے بھی زیادہ خطرناک اور شرم ناک حرکت ہے–وہ پریشان ہیں کہ حجاز میں اسلامی کلچر اور تمدن کو جس برہمی سے نشانہ بنیا جارہا ہے اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو حجاز میں ایک دن وہ آئے گا کہ غیر سلفی مسالک کو اپنے نکتہ نظر کے حق میں ایک بھی ثقافتی و تمدنی اثر نہیں میل گا سعودی عرب کے حاکموں کی طرف سے شعائر اسلام اور اثر تاریخ اسلام کو حجاز میں مٹائے جانے کا جو پروسس ہے وہ صرف حجاز تک نہیں رکا ہے بلکہ جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں اور ان کا وہاں جو ثقافتی،تمدنی ورثہ ہے اس کو سلفی اسلام کے ماننے والے مسمار کرنے اور تباہ کرنے کے درپے ہیں-افریقہ میں سلفی گروپ الشباب ،اور عراق ،شام،اردن مصر میں سلفی شدت پسند گروپس اور افغانستان اور پاکستان میں تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی جیسے گروپس مزارات کو اپنی ہت لسٹ میں رکھے ہوئے ہیں۔
آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو پاکستان کے شہر نوشہرہ میں دربار کاکا صاحب کو نشانہ بنایا گیا ہے-اس سے قبل خیبر پختون خوا ،فاٹا اور افغانستان میں درجنوں مزارات کو نشانہ بنایا جاچکا ہے-عراق میں موسیٰ کاظم ،امام حسین کے مزارات کو نشانہ بنایا گیا ہے-حضرت زینب کے شام میں مزار کو تباہ کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں- افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ سعودی امداد اور سپانسر شپ کی وجہ سے کلچر و تمدن دشمنی کے ان مظاہروں پر خاموشی اختیار کی جارہی ہے-اور کوئی آدمی اسلام ،.مسلم کلچر اور تمدن کو درپیش تباہی کے خطرات پر بولنے کو تیار نہیں ہے۔
مشرق وسطیٰ کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ مڈل ایسٹ میں سعودی عرب کی قیادت میں سنی اسلام کا ایک ایسا برانڈ تیار کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو امریکی سامراج اور سلفی مسلک کو صوت کرتا ہو-یہی وجہ ہے کہ امریکی اور اسرائیلی حلقوں میں سعودی عرب اور ترکی کے علاقائی سیاست میں کردار کو تحسین کی نظر سے دیکھا جارہا ہے-اسرائیلی سیکورٹی ایجنسی شین بیت کے سابق سربراہ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور ترکی کی قیادت میں سنی اسلام ان کے بہت کام آسکتا ہے-اور سعودی عرب کے حکام سے بیک دور رابطوں کی تصدیق بھی سننے کو مل رہی ہے-مطلب یہ ہوا کہ مسلم ورلڈ میں سامراجی اور نوآبادیاتی ایجنڈے کو ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر سلفی اسلام کے جھنڈے تلے آگے لیجانے کے منصوبہ پر کام ہورہا ہےلیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ جس طرح سامراج اور سعودی حکومت میں مل کر سامراجی ایجنڈے کو آگے پہنچانے کا کام ہورہا ہے اور اس چکر میں مسلم تاریخ کو بھی بلڈوز کیا جارہا ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر جگہ یہی فارمولہ استعمال کیا جائے-مڈل ایسٹ ہی میں امریکی سامراج عراق کے اندر نام نہاد شیعہ بلاک کے رہنماؤں کو استعمال کر رہا ہے-اور وہ ایران میں اصلاح پسندوں کو استعمال کرنے کی خواہش رکھتا ہے-اس کو کہیں کہیں لبرل ٹچ بھی وار کھاتا ہے۔
پاکستان میں سعودیہ عرب اور آل سعود پر میں سٹریم میڈیا میں کوئی کوئی رپورٹ لکھنا یا مضمون دینا مشکل ہے-اور آپ اس کوشایع کروانے کا سوچ بھی نہیں سکتے-اب ویب نیوز پپرز اور سوشل میڈیا سائٹ پر کسی حد تک یہ ممکن ہوا ہے کہ ایسا موڈ وہاں پر شایع کروا سکیں۔

http://pak.net/%D8%A7%D9%BE%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D9%84%D9%85/%D8%A2%D9%84-%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF-%DA%A9%D8%A7-%D9%86%DB%8C%D8%A7-%D9%85%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%A8%DB%81-%E2%80%93-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D9%84%DA%86%D8%B1-%DA%A9%D9%88-%DB%8C%DA%A9%D8%B3%D8%B1-%D9%85%D9%B9%D8%A7%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%A2%D8%BA%D8%A7%D8%B2-70456/ 

No comments:

Post a Comment