Wednesday, November 14, 2012

وحی کی ایک قسم احادیث کے درجات، یعنی کلام اللہ کے درجات ؟؟؟



وحی   کی  ایک  قسم  احادیث کے  درجات،  یعنی   کلام  اللہ  کے  درجات ؟؟؟

درج ذیل موضوع  کا ٹائیٹل شاید درج بالا بنتا ہے،  نعوذ باللہ من ذالک !!!

منکر حدیث حضرات کیلئے چند پوائنٹس


کچھ عرصہ پہلے پاک نیٹ پر ایک مقامی منکر حدیث سے مذاکرات کے حوالے سے کچھ پوائنٹس شیئرکئے تھے ۔ اس کے بعد ان سے چند ملاقاتیں ہوئیں تو ان کے ساتھ ہونے والی بحث کو ضابطہ تحریر میں لایاگیا۔ اس کا ایک مقصد تو انہیں اپنی فکر سے منضبط طور پر آگاہ کرنا اور دوسرا مقصد اپنی فکری لائبریری میں اضافہ تھا۔
مزید کچھ تحریرات بھی ان کی خدمت میں پیش کی ہیں۔ میں پاک نیٹ کے ساتھیوں کو اپنی کاوش میں شریک کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ جہا ں اس بحث میں میں نے کچھ علماء کی تحریرات سے مدد لی ہے وہاں پاک نیٹ کے ساتھیوں کے مراسلات سے مدد لی ہے۔
اس میں بنیادی طور پر میں نے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم آخر انہیں منکر حدیث کیوں کہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ کسی طرح بھی منکر حدیث نہیں ہیں اور یہ ان پر الزام ہے بلکہ وہ تو رسول اللہ صلیٰ اللہ و علیہ وسلم کی احادیث کو وہی مقام دیتے ہیں جو حضور صلیٰ اللہ و علیہ وسلم چاہتے تھے کہ دیا جائے۔
آپ کی مزید آراء کا منتظر رہوں گا کیونکہ بحث جاری ہے۔

منکر حدیث حضرات کیلئے چند پوائنٹس

اگر چہ اپنے مو قف کے حق میں میں قرآن سے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں حوالہ جات فراہم کر سکتا ہوں۔ مگر ابتدائی طور پر میں صرف دو حوالے دوں گا۔ باقی حوالہ جات بھی وقتاً فوقتاً فراہم کرتا رہوں گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ العزیز

" (
جس طرح منجملہ اور نعمتوں کے) ہم نے تم میں تمہیں میں سے ایک رسول بھیجے ہیں۔ جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کےسناتے اور تمھیں پاک بناتے اور کتاب (قرآن)اور دانائی سکھاتے ہیں اور ایسی باتیں بتاتے ہیں پہلے جو تم نہیں جانتے تھے۔ "
البقرة 2 ۔ سیقول 2 ۔ آیت 151 ۔ صفحہ 29

"
کہ تمھارے رفیق (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نہ راستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں۔ "
النجم 53۔ قال فما خطبکم 27 ۔ آیات 2۔3 ۔ صفحہ677

اس پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس آیت کی روشنی میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کم از کم مندرجہ ذیل پانچ ذمہ داریاں لگائی تھیں جنہیں وہ بحسن و خوبی پورا کر رہے تھے۔

1-
قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کر تمہیں (ہمیں )سنانا۔
2-
تمہیں (ہمیں) پاک بنانا۔
3-
تمہیں (ہمیں) کتاب یعنی قرآن سکھانا۔
4-
تمہیں (ہمیں)دانائی سکھانا۔
5-
تمہیں (ہمیں) ایسی باتیں بتانا جو تم (ہم) پہلے نہ جانتے ہوں۔

سوال یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان خدمات کی ضرورت نہیں تھی اور وہ صرف قرآن پڑھکر دین حق کا پیغام اچھی طرح (مطلوبہ معیارپر) سمجھ سکتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری میں یہ سب کام کیوں شامل کئے اور اگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زائد از قرآن رہنمائی کی ضرورت تھی جوکہ تھی تو آج ہمیں پندرہ سو سال بعد کیوں ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ ہم اہل زبان بھی نہیں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول اللہ کی زائد از قرآن رہنمائی کی سہولت فراہم نہیں کی تو کیوں قیامت والے دن ہمارا امتحان ایک ہی قطار میں کھڑے کر کے لیا جائے گا۔ چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زائد از قرآن رہنمائی کی ضرورت نہ صرف اسی طرح ہے جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو تھی بلکہ اس سے بہت بہت زیادہ ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے اسے نہ صرف ہمارے لئے محفوظ رکھاہے بلکہ اسے ہماری دسترس میں رکھا ہے کہ ہم اسے بآسانی حاصل کر سکیں اور اگر ہم اپنے عجیب و غریب فلسفوں کے تحت اس سے انکار کرتے ہیں تو یہ صرف اور صرف ہماری خامی ہے اور کچھ نہیں اور قیامت والے دن ہمیں اپنے اس فلسفے پر افسوس ہوگا مگر اس وقت ہمارے ہاتھ میں کچھ نہ ہو گا۔
نمبر ۱ پر قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کر تمہیں (ہمیں )سناناہے جس کو ہم بھی ایسے ہی مانتے ہیں جیسا کہ منکرین حدیث مگر منکرین حدیث کہتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر اورکسی قسم کی وحی نازل ہی نہیں ہوئی۔مگر اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے علاوہ ہمیں قرآن سکھانا ۔ پاک بنانا ۔ دانائی سکھانا ۱ور ہمیں ایسی باتیں بتانا جوہم پہلے نہ جانتے ہوں بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ذمہ داری کو اللہ کی رہنمائی کے بغیر خود اپنی ایسی سوچ سے پورا کرتے تھے جس کی پیروی کرنا ہمارے لئے ضروری نہیں تو آخر اس کا بیان اتنی وضاحت سے قرآن میں کیوں ہے اور اگرآپ یہ کام اللہ کی رہنمائی سے کرتے تھے تو آخر ہم آپ پر زائد از قرآن وحی کا انکار کیوں کرتے ہیں حالانکہ اگر اس پردوسری آیت کی روشنی میں غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ جو دانائی سکھاتے تھے اور ایسی باتیں بتاتے تھے جو باقی لوگ پہلے نہیں جانتے تھے۔وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی طرح وحی شدہ تھیں جس طرح کہ قرآن۔

جو شخص قرآن کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی قسم کی بھی وحی کے نزول کا منکر ہو، وہ منکر حدیث ہے۔

ہر وہ شخص جو کسی حدیث کا انکار محض اس بنا پر کر دے کہ یہ اس کی عقل میں نہیں آتی۔ یا کسی دوسرے اصول کو لاگو کئے بغیر محض اس بنا پر کسی صحیح و ثابت شدہ حدیث کو رد کر دے کہ یہ اس کے نزدیک قرآن کے خلاف ہے۔ (چاہے وہ حقیقتًا خلاف قرآن ہو یا نہ ہو)۔ وہ منکر حدیث ہے۔

ہر وہ شخص جو کہ حدیث رسول و سنت رسول کی آئینی حثیت کا انکاری ہو۔ یعنی کہ عقائد ' عبادات اور معاملات زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کیلئے اس کی نظر میں حدیث رسول کوئی اتھارٹی نہ رکھتی ہو۔ تو ایک حدیث کا انکار بھی منکر حدیث بنا سکتا ہے۔ بلکہ اگر اس نظریہ کے ساتھ ساتھ وہ سب حدیثوں کو بھی تسلیم کر لے پھر بھی وہ منکر حدیث ھے۔
اگر وہ نظریاتی اور عملی طور پر حدیث رسول کی آئینی حثیت کا منکر نہ ہو۔ مگر صرف راویان حدیث' علمائے حدیث' محققین حدیث' آئمہ کرام اور مختلف کتابوں کے مصنفین یا مولفین مثلا امام بخاری یا امام مسلم و دیگر سے علمی و تحقیقی اختلاف کرتے ہوئے کچھ یا زیادہ یا پوری کی پوری کتاب یا کتابوں کا انکارکر دے (یاد رہے کہ پوری کی پوری کتاب یا کتابوں کا انکار صرف نظریاتی طور پر ہی ممکن ہے عملی طور پر ممکن نہیں) تو بھی منکر حدیث نہیں بنتا۔

صحیح احادیث کا عقل و خلاف قرآن کے فلسفہ کے تحت انکار کرنا ، یہ ایسے ہی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے کھڑے ہوں اور ہمیں کچھ حکم ارشاد فرمائیں۔ اور ہم ان کے سامنے کہہ ڈالیں کہ جی آپ کی بات تو میری عقل میں نہیں سماتی، یا قرآن کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا میں آپ کی بات ماننے سے انکار کرتا ہوں۔

جب کوئی حدیث ثابت ہی نہ ہو تو اس کا انکار کرنا ، انکار حدیث نہیں کہلاتا۔ مثلاً میرے نزدیک کوئی روایت ضعیف ہے اور دوسرے کے نزدیک صحیح ہے۔ تو میں اس روایت کا انکار فقط اس بنا پر کر رہا ہوں کہ اس کا ثبوت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محل نظر ہے اور اہم بات یہ ہے کہ اس ثبوت کا انکار دلیل کی بنا پر ہے نا کہ محض خلاف عقل یا خلاف قرآن کہہ کر کسی بھی حدیث کو غیر ثابت ماننے کی بنیاد پر۔ لہٰذا میں اس ضعیف حدیث کا انکار کر کے منکر حدیث نہیں کہلا سکتا۔ اور جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ چاہے یہ بات کتنی ہی اعلیٰ سند سے اور کتنی ہی صحت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کیوں نہ ہو، میں اس کی اطاعت کا مکلف نہیں تو پھر ایسے شخص کو احادیث کا منکر ہی کہا جانا حقیقت کی درست نشاندہی ہے۔

کیا اپنی سوچ سمجھ اور حالات کا جائزہ لے کر حدیث کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ میرے علم کے مطابق تو بالکل نہیں۔ اگر کوئی صرف ایک حدیث کا بھی انکار کر دے تو یقینامنکر حدیث ھو جاتا ہے۔ مگر کسی عالم یا امام کی تحقیق سے اختلاف کرنے کا حق ہر مسلمان کو ہے۔ بشرطیکہ وہ اختلاف کسی دلیل ' تحقیق یا علم پر منحصر ہو۔ نہ کہ آج کل کے سیاست دانوں کی طرح بے سوچا سمجھا بیان ہو۔

جوشخص احادیث پاک کوقبول و رد کرنے کا معیار اپنی عقل کو بنالے۔۔یعنی جو حدیث اس کی عقل میں اتر جائے وہ درست ہے اور جو حدیث اس کی عقل میں نہ اتر سکے وہ رد ہے چاہے دوسری طرف اس کا رد کردہ موقف اجماع امت ہی خلاف کیوں نہ ہوحالانکہ یہ حضرات عقلی طور پر اتنی معمولی بات نہیں سمجھتے کہ دنیا میں ہر شخص کی عقل کا معیار ایک جیسا نہیں ہوتا۔۔ یعنی کچھ لوگ اگر تیز عقل والے ہوتے ہیں تو بہت سے لوگ نسبتاً کمزور عقل والے بھی ہوتے ہیں۔ اور اگر”عقل سے قبول یا رد کرنے کا فلسفہ“ درست مان لیا جائے اور اس فلسفہ کو ہر خاص و عام لوگوں کے لئے بھی سمجھ لیا جائے تو کتنے ہی ایسے کمزور عقل والے لوگ (اپنی کمزورعقل کے سبب) ان روایات کو بھی رد کردیں گے جن کو یہ نسبتاً بہتر عقل والے عقل میںاتر جانے کی وجہ سے قبول کرلیتے ہیں تو پھرعقل کی بنیاد پر احادیث پاک کو قبول و رد کا فارمولہ تو غلط ثابت ہوگیا ؟؟؟

جو بندہ صرف قرآن کے الفاظ لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی دینی اور قانونی حیثیت سے انکار کرتا ہے، وہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور معلم رد کررہا ہے۔ اس کو عام اصطلاح میں منکر حدیث کہا جاتا ہے۔ اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے معلم نہیں ہوسکتے تو باقی لوگ اس خوش فہمی میں کیونکر مبتلا ہوگئے ہیں کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر مسلمان ان کی بے تکی باتوں پر یقین کرلیں گے۔ اور جو لوگ ایسا کریں گے ان کو سوچنا چاہیئے کہ ایسا کرنے کے بعد ان کے مسلمان رہنے کی کیا دلیل ہے؟

اگر قرآن کریم کی تفسیر و تشریح کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احادیث کی ضرورت نہیں تو کسی اور کی طرف سے ترجمہ اور تشریح کو کیونکر صحیح مان لیا جائے؟ ہمارے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کی رہنمائی زیادہ قابل اعتماد ہے، چہ جائیکہ ہم کسی ایسے شخص یا گروہ کی خود ساختہ تشریح کو مان لیں جو چند کتابیں پڑھ کر پوری امت اور امت کے علماء دین کے فہم کو چیلنج کرنے لگ جائیں۔

قرآن کو ماننے والا احادیث کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔ قرآن میں جا بجا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا ذکر ہے۔ اور یہ بات بچوں کو بھی معلوم ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف قرآن کے الفاظ لوگوں تک نہیں پہنچائے بلکہ اس کی تفسیر و تشریح کرکے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی عملی تربیت کی ۔

قرآن پاک کے نام پر آنحضور صلیٰ اللہ علیہ و سلم کی احادیث کا انکار کرنے والے لوگ ان کے پیرو کاروں کے نزدیک اہل قرآن کہلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول صلیٰ اللہ علیہ و سلم کو اس لئے بھیجا تا کہ لوگوں کی رہنمائی کرے اور قرآن کے الہامی فہم کو عام کرے نا کہ اس لئے کہ امت مسلمہ یہ کہ کر ان کے فرامین اور ارشادات کو پس پشت ڈال دے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلیٰ اللہ علیہ و سلم کو اس امت کی رہنمائی کیلئے ذمہ دار ہی نہیں بنایا بلکہ ان کی ذمہ داری صرف اور صرف قرآن کے الفاظ امت تک پہچانے ہی کی تھی۔

موافق قرآن احادیث اور مخالف قرآن احادیث کے فلسفہ کا سہارا لینے والے یہ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ ایک قرآن پاک ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے حضور انور صلیٰ اللہ علیہ و سلم کے قلب اطہر پر نازل کیااور حضور انور صلیٰ اللہ علیہ و سلم سے صحابہ۔ صحابہ سے تابعین۔ تابعین سے تبع تابعین اور اسی طرح کڑی در کڑی آخر کار آج ہمارے ہاتھوں میں پہنچا ہے۔۔ اور ایک مفہوم قرآن ہے جو کہ ہر قرآن پڑھنے والا (چاہے وہ اہل زبان ہی کیوں نہ ہواور عربی زبان کو کتنا ہی بہتر طور پر سمجھنے والا ہی کیوں نہ ہو) سمجھتا ہے۔ اور یقیناً یہ مفہوم قرآن کبھی بھی قرآن نہیں ہوتا۔ اس لئے قرآن کا جو ترجمہ اور تشریح ایک عالم کرتا ہے وہ کبھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ یہ ترجمہ یا تشریح وہی ہے۔جو کہ اللہ نے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ و سلم کے قلب اطہر پر نازل کیا تھا۔ چیانچہ اپنے ترجمے کو یہ مقام دینے والا
شخص اصل میں خدائی کا دعوی کر رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ ترازو کے ایک پلڑے میں قرآن اور دوسرے پلڑے میں اپنا ترجمہ رکھ کر دعویٰ کرتا ہے کہ دونوں پلڑے برابر ہیں۔ یعنی اس کا کلام اور اللہ کا کلام عقل میں۔ نقل میں اور مرتبہ و مقام میں برابر ہے۔ اور یہ یقیناً دعویٰ خدائی ہے۔ یا کم از کم اس دعوے میں یہ بات تو پائی ہی جاتی ہے کہ دعوی کرنے والا عقل۔ معرفت۔ علم۔بصیرت اور وجدان میں رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ و سلم کے برابر ہے بلکہ ان سے بھی بڑھ کر ہے۔ کیونکہ رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ و سلم نے جو چیز جبرائیل علیہ السلام کی رہنمائی میں سمجھی بالکل وہی رہنمائی یہ شخص ڈائریکٹ قرآن پڑھ کر سمجھ گیا۔ حالانکہ قرآن خود اس بات کی تائید نہیں کرتا۔ اسی طرح موافق قرآن احادیث اور مخالف قرآن احادیث کے فلسفہ کا سہارا لینے والے یہ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے ان کے علاوہ ایک قسم زائد از قرآن احادیث کی بھی ہے۔اورزائد از قرآن احادیث کسی بھی دلیل سے مخالف قرآن احادیث ثابت نہیں ہوتی تو آخر ان احادیث کو رد کرنے کی ان کے پاس کیا دلیل ہے۔

منکرین حدیث قرآن کے مفسربننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انھیں احادیث کے درجات ، روایت حدیث کی اقسام اور محدثین کی اصطلاحات کا قطعی کوئی علم نہیں ہوتا یعنی یہ لوگ محض اپنی عقل کو احادیث کے قبول و رد کا معیار بناتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ محدثین نے بھی اسی طرح محض اپنی عقل کی بنیاد پر احادیث کو صحیح اور ضعیف قرار دیا ہے۔ حالانکہ محدثین کرام احادیث کو قبول یا رد کرنے کے لئے بہت سے علوم کا سہارا لیتے تھے۔
یہ لوگ احادیث کے ذخیروں اور تاریخ کی کتابوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتے بلکہ اکثر اوقات اگر اپنے مطلب کی کوئی بات تاریخ کی کسی کتاب میں مل جائے جوکسی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو یہ حضرات صحیح حدیث کوچھوڑ کر بے سند تاریخی روایت کو اختیار کر لینے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج نہیں سمجھتے۔
یہ لوگ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی ایک قسم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور حصول علم کا ایک یقینی ذریعہ تسلیم کرنے کے بجائے احادیث کی کتابوں کو محض ظن اور گمان پر مشتمل مواد تصور کرتے ہیں
یہ لوگ دین کے معاملات میں عقل کو استعمال کرنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔ اورعلمائے دین کوعقل نہ استعمال کرنے کا طعنہ دیتے ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ علماءدین چونکہ عقل استعمال نہیں کرتے اس لئے اہل علم میں شمار کرنے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ حالانکہ علمائے دین کی ہر شعبہ زندگی پر لکھی ہوئیں لاکھوں کتابیں انکے علم و عقل کی ناقابل تردید دلیل ہیں۔

یہ لوگ محدثین کرام ۔تابعین اور تبع تابعین پر عجمی سازشی ہونے کاالزام لگاتے ہیں اورکہتے کہ ان لوگوں نے باقاعدہ سازش کے تحت احادیث کی چھان پھٹک کی اور احادیث کو عام لوگوں کی زندگی میں داخل کیا تا کہ احادیث کا سہارا لے کر قرآن کو عام مسلمانوں کی زندگی سے نکالا جائے حالانکہ صحابہ کرام کی نظر میں احادیث کی کوئی حثیت نہ تھی اور وہ اپنی نجی ۔ اجتماعی اور قومی زندگی میں کوئی کام یا فیصلہ کرنے کے لئے ا ٓنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اقوال کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ (نعوذ باللہ من ذالک)
حالانکہ اس دعویٰ کی تائید میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے سوائے علم غیب رکھنے کے دعویٰ کے۔ کسی ایسے شخص کی نیت جاننے کیلئے یقینا علم غیب چاہیئے جو کہ آپ سے کم و بیش ہزار سال پہلے اس دنیا فانی سے رخصت ہو چکا ہو۔ حالانکہ ان کے اعمال انکے لئے ہیں اور ہمارے ہمارے لئے۔ اور نہ انکے اعمال میں ہمیں پوچھا جائے گا اور نہ ہمارے اعمال میں ان کو پوچھا جائے گا۔

از قلم: ابو احمد

No comments:

Post a Comment