Sunday, December 23, 2012

قرآن ایک ہے،سات، دس، سولہ اور بیس نہیں



اَعُوۡذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيۡطانِ الرَّجِيۡمِ – بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوۡا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (26-41)
(خلاصہ) وہ لوگ کافر ہیں جنہوں نے کہا کہ قرآن کے اصلی اور صحیح نسخہ کو سننے کے بجائے اسے مغلوب بنانے کیلئے اس میں لغویات شامل کرو۔

قرآن ایک ہے،سات، دس، سولہ  اور بیس نہیں

از قلم : عزیز اللہ بوہیو

سندھ ساگر اکیڈمی
P.O خیر محمد بوہیو براستہ نوشہرو فیروز سندھ
 

ہمیں اپنی تاریخ کے دھبے صاف کرنے ہیں یا بڑھانے ہیں؟
میری سیاسی سوچ اور تعلیم قرآن میں، میرے استاد پنجابی ہیں، اسلئے میں پنجابی بھائیوں کو ادب کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ رنجیت سنگھ کے زمانہ سے آپ لوگوں نے غلام ہندستان کے عرصہ میں اپنے نوجوان، انگریزوں کی حاکمیت کو مضبوط کرنے کے لئے انکی فوج میں بھرتی کرائے اور جناب خاتم الانبیاء علیہ السلام کی ختم نبوت پر ڈآکہ مارتے ہوئے مشرقی پنجاب کے شہر قادیان سے آپنے انگریزوں کو ایک نبی بھی تیار کرکے دیا، اور اب آپکے شہر لاہور کے رسالہ رشدوالے اہل حدیثوں نے اللہ کے قرآن سے بغاوت کرتے ہوئے میڈ ان لاہور حرفی ملاوٹوں والے سولہ قرآن تیار کئے ہیں جسکو شائع کرنے کیلئے یہ لوگ سعودیوں کے حوالے کریں گے (حوالہ ماہوار رسالہ رشد لاہور شمارہ نمبر 4 – ماہ جون 2009ع)۔

یہ خواب اپنی تعبیر آپ ہے
درس قرآن کی محفل میں ایک محترم میرے قریب آکر بیٹھا اور پوچھا کہ آپ خوابوں کی تعبیر کا علم جانتے ہیں؟ میں نے کہاکہ خواب بیان کریں، تو اسنے کہاکہ نیند میں دیکھ رہا تھا کہ میں مکۃ المکرمہ میں ہوں اور باب عبدالعزیز سے اندر کعبۃ اللہ میں داخل ہونے کے لئے وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں شہزادہ سعود الفیصل (وزیر خارجہ) چیخ چیخ کرپکار رہا ہے کہ لوگو! خبردار قرآن میں ملاوٹ کی گئی ہے اٹھو ان ملاوٹ کرنے والوں سے جنگ کرو! میں اسکی اس صدا کو سنتے ہوئے اندر داخل ہوا تو فرش کعبہ پر دیکھتاہوں کہ اسپر ایسی مورتیاں چھاپی گئی ہیں جیسی کہ مندروں میں ہوتی ہیں، اتنے میں ایک جانب سے کسی نے آواز دیکر مجھے پکارا اور میری طرف کلاشنکوف پھینک کر کہاکہ جاؤ! قرآن میں ملاوٹ کرنے والوں سے جنگ کرو! اتنے میں، میں جاگ پڑتا ہوں، یہ میرا  خواب اتنا ہے لیکن بہت پریشان ہوں کہ اسکا مطلب کیا ہے؟ میں نے اس شخص کو جواب میں بتایا کہ خواب کی تعبیر میں کوئی ابہام نہیں ہے یہ تو اپنی تعبیر آپ ہے۔
 

میں سلام کرتاہوں
ہندو مذہب کے گورکھوں کو جنہیں پہلی مہابھاری لڑائی کے موقعہ پر کعبۃ اللہ پر گولی چلانے کا حکم دیا گیا تو کعبۃ اللہ کے تقدس کا لحاظ رکھتے ہوئے گولی چلانے سے انہوں نے انکار کردیا ۔

اورمیں سلام کرتا ہوں
 مذہب سکھ کے انگریزی فوج کے صوبیدار  رتن سنگھ کو جسے اسی جنگ کے موقعہ پر شہر مکۃ المکرمہ میں کعبۃ اللہ پر گولی چلانے کا حکم دیا گیا تو جواب میں اسنے کہا کہ ہم سکھ لوگ جسطرح اپنے گوردھوارے کی عزت کرتے ہیں، تویہ کعبہ بھی میری نظر میں مسلمانوں کا ہمارے گردھوارہ کی طرح کا محترم ہے، سو ہم پر اسکی عزت کرنا بھی واجب ہے، اسلئے میں اسپر گولی نہیں چلائوں گا۔
پھر جب مسلمان فوجی کو کعبہ پر گولی چلانے کا حکم دیا گیا تو اسنے گولی چلادی!!! آج اس کعبہ پر گولی چلانے والے مسلمان کی طرح شہر لاہور کے رشد نام سے رسالہ جاری کرنے والے  اہل حدیثوں نے اللہ کے نازل کردہ ایک قرآن کے مقابلہ میں حرفی ملاوٹوں والے سولہ قرآن تیار کر ڈالے ہیں، یادرکھا جائے کہ قرآن میں ملاوٹ کے حروف شامل کرنا قرآن کو گولیاں مارنے کے ہم معنیٰ ہے۔ اور کعبہ  کی دیوراروں کو گولیاں مارنے سے بڑھکر قرآن میں ملاوٹوں کی گولیاں ملانابڑا  کفر اور پاپ ہے۔


اس کتاب بنام "قرآن ایک ہے" لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ سعودی حکومت اور لاہور کے رشدی اہل حدیثوں نے اس قرآن کے علاوہ حرفی ملاوٹوں والے مزید انیس قرآن تیار کئے ہیں۔





قدیم زمانہ سے یہ ریت چلی آرہی ہے کہ ہر رسول اور نبی کے لائے ہوئے علمی پیکیج میں اسکے جانے کے بعد شیطان قسم کے لوگ اس کے لائے ہوئے علم وحی میں اپنی خرافات شامل کرتے آئے ہیں۔ اسکے بعد اللہ انکی ملاوٹوں کو ناکام قرار دیکر اپنی آیات کو محکم طور سے دنیا والوں کے سامنے ثابت کرتا رہا ہے۔ (52-22) قرآن میں حرفی ملاوٹیں کرنے سے ختم نبوت کا انکار ثابت ہوجاتا ہے، جبکہ ماہوار رسالہ رشد لاہور کے حوالہ سے رشدی اہل حدیثوں نے اب تک ایسے اعرابوں اور حرفی ملاوٹوں والے سولہ قرآن تیار کر ڈالے ہیں، اس سے تو یہ لوگ مرزائی قادیانیوں سے بھی بڑھکر منکر ختم نبوت ہوگئے، کیونکہ انکی طرف سے قرآن کے موجودہ محمدی نسخہ سے زائد کسی اور قرآن کی بات نہیں سنی گئی۔ اب امت مسلمہ پر واجب ہوتا ہے کہ وہ قرآن میں تحریف اور تبدیل کرنے والے سعودی کویتی مصری حاکموں اور رشدی اہل حدیثوں کو خود ہی غیر مسلم اقلیت قرار دیدیں۔

میری یہ کتاب فریاد ہے
میری یہ تحریر ایف آئی آر ہے
ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے ایک قرآن میں ملاوٹیں کر کرکے اسے ایک سے بیس بناڈالا ہے۔
کتاب قرآن حکیم جناب رسالت مآب علیہ السلام کی رسالت کا پیکیج ہے۔ اسکی آیات اور متن میں تحریف اور تبدیل سے اسے ایک سے بیس بنادیا  گیا ہے، اسلئے میری یہ فریاد توہین رسالت کے ایکٹ کے حوالہ سے ہے، ناموس رسالت کی ہتک کے حوالہ سے ہے۔
اللہ نےقرآن حکیم کو انسان ذات کی ہدایت کیلئے نازل کیا ہے(185-2) اسلئے میری یہ فریاد پہلےجمیع انسانوں کی خدمت میں ہے، اسکی بعد امت مسلمہ کی عدالت عامہ کی خدمت میں ہے، میری اس فریاد کے جوابدار کنگ فہدکامپلیکس کی مالک حکومت سعودیہ ہے،جس نے ابتک ملاوٹوں والے تین عدد قرآن شائع کئے ہیں۔
دوسرے نمبر پر جوابدار شہر لاہور کے رشد نامی ماہوار رسالہ والے اہل حدیث لوگ ہیں، جنہوں نے اب تک سعودیوں کے تیار کردہ تین  قرآنوں کے علاوہ حرفی ملاوٹوں والے سولہ عدد مزید قرآن تیار کئے ہیں، یہ دونوں جوابدار عالمی سامراج کے ایماء پر اس لئے یہ کام کر رہے ہیں جس سے دنیا کے اندر جاگیرداریت اور سرمایہ داریت کو بے لغام رائج رکھنا چاہتے ہیں، جبکہ کتاب قرآن حکیم اپنے نظریہ معیشت کے حوالہ سے انکے راستے میں رکاوٹ ہے، رشدی اہل حدیثوں کی تحریر کے مطابق مصر اور کویت بھی انکے ساتھی ہیں، اسلئےجوابداروں کی قطار میں میں انہیں بھی مجرم قرار دیتا ہوں، ناموس رسالت پر مرمٹنے والے مسلم بھائیو! آج اللہ کا قرآن آپکی دہلیز پر آپکو ان دشمنوں سے نمٹنے کیلئے پکار رہا ہے!!! فریاد کر رہا ہےٗٗ اس کتاب قرآن نے مجبور انسانوں کو جب وہ قیصر و کسریٰ کی جاگیرداریت والی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ میں پس رہے تھے تو انہیں آزاد کرکے حکمران بنایا تھا،آج اسی قیصریت اور کسرویت کے ایجنٹ ہماری صفوں میں ہمارے ہم لباس بنکر قرآن سے بدلہ لینے کیلئے اسے تتر بتر کر رہے ہیں۔
بہروپیوں نے قید کیاہے قرآن کو مجوسی روایات میں
اب کالے فرنگ کڑک پڑے ہیں تحریف کرنے قرآن میں
یہ جبہ پوش جغادری کینسر ہیں امت کے وجود میں
فرقہ اہل حدیث کا ماہوار رسالہ رشد پاکستان کے شہر لاہور سے جاری ہوتا ہے اسکے شمارہ (4) ماہ جون 2009ء کے اسپیشل نمبر (قرائات) میں ایک اطلاع ہے کہ حکومت سعودی عرب نے اپنے مطبع مجمع ملک فہد سے چار عدد متداولہ (گردش والی رولو روایات) پر مبنی قرآن شائع کئے ہیں (حوالہ رسالہ کا صفحہ 677) پھر اسکے آگے اسی رسالہ میں صفحہ 678 پر ہے کہ انکے (یعنی ان لاہوری اہل حدیثوں کے مدرسہ بنام کلیۃ القرآن لاہور کے فضلاء میں سے تقریبا بارہ محقق اساتذہ نے تین سال کے عرصہ میں وہ تمام غیر متداولہ قرائات میں یعنی جن قرائتوں کا مسلم معاشروں میں رواج کے طور پر چلنا پھر نا بھی نہیں ہے ان میں سے انہوں نے سولہ قرآن تیار کئے ہیں۔ یعنی گردش والی رولاک روایات سے سعودی حکمرانوں نے تین عدد قرآن تیار کرائے اور لاہوری اہل حدیثوں نے جن قراءات کو کوئی جانتا بھی نہیں ہے یعنی جو گردش میں بھی نہیں ہیں ان سے سولہ قرآن تیار کرائے ہیں، یہ ہوئے حرفی ملاوٹوں والے انیس عدد قرآن پندرہویں صدی ہجری ماڈل کے۔

محترم قارئین!
 اللہ عزوجل نے پورے قرآن میں "ھذا" اسم اشارہ واحد مذکر محسوس مبصر سے چودہ بار قرآن حکیم کیلئے فرمایا ہے کہ قرآن ایک ہے، ایک ہے، ایک ہے (اس سے زائد نہیں ہیں) حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں (19-6) (37-10) (3-12) (9-17) (41-17) (88-17) (89-17) (54-18) (30-25) (76-27) (58-30) (31-43) (27-39) (26-41) (45-50) (21-59)۔

میں سلام کرتاہوں
گجرات کے اہل حدیث عالم دین علامہ عبدالکریم اثری کو جنہوں نے کتاب "قرآن کریم اور سبعہ احرف" لکھ کر لاہور کے رشدی  اہل حدیثوں  کو اپنی کتاب میں انکے تیار کردہ سولہ قرآنوں سے دستبردار ہونے اور انکی طباعت کرانے سے روکا ہے ۔
علامہ اثری صاحب نے اپنی کتاب میں بعض دوسری شخصیات کے نام بھی لکھے ہیں کہ انہوں نے بھی رسالہ رشد والوں کو انکے تیار کردہ سولہ قرآن کی طباعت سے روکا ہے ۔
اسلئے  میں سلام کرتا ہوں
مذکور کتاب میں دئے گئے ان شخصیتوں کو جنکے اسماء گرامی یہ ہیں ذاکر حسین، مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی طاہر مکی اور جناب عبدالمنان نورپوری ۔
حیدرآباد شہر سے جناب ڈاکٹر انور عالمانی صاحب نے میرے ساتھ ذکر کیا کہ اندازا تین سال  پہلے کی بات ہے کہ میں جس اہل حدیثوں کی مسجد واقع صدر حیدرآباد میں جمعہ کی نماز پڑھتا ہوں تو وہاں خطیب مسجد نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ مسلمانو! آئندہ سے سعودی حکومت کے شائع کردہ قرآن نہ پڑھا کریں اسلئے کہ انہوں نے قرآن کی طباعت میں حرفی ملاوٹیں کی ہیں۔

 اسلئےمیں سلام کرتاہوں
اس خطیب مسجد اہل حدیث صدر حیدرآباد سندھ کو بھی اور انکی طرح کے جملہ اہل حدیثوں کو بھی جو قرآن کو پندرھویں صدی  ماڈل کے حرفی ملاوٹوں سے پاک وحدہ لاشریک کتاب تسلیم کرتے ہوں اور علامہ عبدالکریم اثری کی کتاب سے یہ بھی خبر ملی ہے کہ ناظم آباد کراچی کے جناب ذاکر حسین صاحب نے گورنر پنجاب (سلمان تاثیر) کو خط لکھا تھا کہ وہ لاہوری رشد رسالہ والے اہل حدیثوں کو انکے تیار کردہ سولہ قرآنوں کی طباعت سے روکے۔ پھر گورنر کی آفیس کے عملہ نے وزیر مذہبی امور صوبہ پنجاب کو لکھا کہ جناب ذاکر حسین کے خط کی بنیاد پر رشد رسالہ والوں سے آپکی وزارت اوقاف مؤاخذہ کرے، پھر وزارت اوقاف نے ایڈیٹر رسالہ رشد کو ایسا شوکاز نوٹیس جاری کیا۔

اسلئے میں سلام پیش کرتا ہوں
جناب ذاکر حسین کے خط لکھنے پر جو انہوں نے گورنر پنجاب کو لکھا۔

 اور میں سلام کرتا ہوں
گورنر پنجاب اور اسکے آفیس اسٹاف کو جنہوں نے وزارت اوقاف پنجاب کو مؤاخذہ کا حکم دیا۔

 اور میں سلام کرتا ہوں
پنجاب کی وزارت اوقاف کو جنہوں نے رسالہ رشد والوں کو جواب طلبی کا شوکاز نوٹس دیا۔

جناب قارئین!
 اسلام میں، فلسفہ قرآن کو رد کرنے اور مسلم امت میں فرقہ بازی ڈالنے والا علم، قیصری اور کسروی سامراج کی جانب سے تیار کرایا ہوا علم الحدیث ہے، جناب رسول علیہ السلام کی جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اور انکے متبعین سب کے سب دین کو براہ راست قرآن سے سیکھتے تھے انکے اندر کوئی اختلاف نہیں تھا۔ جسکی شاہدی قرآن حکیم نے کھول کھول کر دی ہے کہ وہ رحماء بینھم تھے۔ (29-48) انکے اندر اختلافات کے جھوٹے قصے یہ سارے علم الحدیث بنانے والوں کے گھڑے ہوئے ہیں، جو بھی کوئی شخص یا گروہ خود کو اہل سنت کہلائے، دیوبندی کہلائے، بریلوی کہلائے، اہل حدیث کہلائے، احمدی کہلائے یا کسی اور نام سے خود کو متعارف کرائے تو ایسے سب متفرق فرقے بحکم قرآن:
 إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ (159-6)
 یہ سب شیعے ہیں انکے ساتھ جناب رسول خاتم الانبیاء کے قرآنی دین کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان جملہ فرقوں کی اپنی اپنی جدا حدیثیں ہیں، جو یہ لوگ ایک دوسرے کی احادیث کو تسلیم بھی نہیں کرتے۔

میں عزیز اللہ دین کے سیکھنے سمجھنے کیلئے بحکم قرآن:
فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ (45-50)
 کی دلیل کی وجہ سے قرآن سے خارج، قرآن کے علاوہ کسی بھی اور علم کو بطور مأخذ اور استدلال کے قبول نہیں کرتا اسکے باوجود اثنا عشری شیعوں کی کتاب "اصول کافی" کو
سلام پیش کرتا ہوں۔
جس نے قرآن کے متعلق یہ حدیث لائی ہے کہ "انزل من واحد علی حرف واحد" یعنی قرآن، اللہ واحد کی جانب سے ایک ہی قرائت پر نازل کیا گیا ہے۔ بحوالہ کتاب"اعجاز القرآن واختلاف قراء ات" مصنفہ علامہ تمنا عمادی ، صفحہ نمبر 723۔

قرائت کے نام سے عوام کو دھوکہ
قرآن دشمن مافیا والوں نے قرآن میں معنوی تحریف تو صدیوں سے رائج کی ہوئی ہے لیکن حرفی ملاوٹ  یعنی حروف کی کمتی اور اضافوں کیلئے رشدی اہل حدیثوں نے یہ جھوٹ مشہور کیا ہوا ہے کہ اس عمل سے معنی پر کوئی تبدیلی کا اثر نہیں ہوتا۔ انکا ایسے کہنا اسے تو نہایت ہی  کوئی اجڈ، جاہل غبی آدمی بھی اس بات کو قبول نہیں کریگا۔ اور یہ بات صرف عربی زبان کی ہی نہیں ہے یہ ہر زبان میں الفاظ میں حروف کی کمتی بڑھتی  کے فرق سے معنی میں یقینی طور پر تبدیلی آجاتی ہے، ویسے ان حدیث پرست دھوکہ بازوں نے جو ورش نامی ملاوٹی قرآن مدینۃ الرسول کے کنگ فہدکامپلیکس کی طرف سے جاری کیا ہے اسکے بارہ (12)  حروف اور اعرابوں کی تبدیلیوں سے معنائوں کے بدل جانے کی مثالیں میں اپنی کتاب  "قرآن پر حملہ" میں لکھ چکا ہوں۔ اب اس کتاب  "قرآن ایک ہے" میں ایسی مزید  مثالیں لانے کی چنداں ضرورت نہیں سمجھ رہا۔ اسلئے کہ اگر لفظ "سر" کے حرف سین کو زیر دے کر حرف "را" کو شد اور پیش کے ساتھ پڑھا جائیگا تو اسکی معنی ہوگی راز کی بات مخفی بات۔ اگر حرف سین کو پیش اور حرف "را" کو جزم دیکر اس میں قرائت کی اتنی سی تبدیلی سے پڑھا جائے گا تو اسکی معنی ہوگی سیر سفر کرو اور چلتے بنو۔ دیکھا جناب کہ حروف بھی نہیں بدلے صرف اعرابیں بدلیں تو معنی کہاں سے کہاں کی ہوگئی، سو اگر حروف ہی لاہوری رشدی اہل حدیثوں اور سعودیوں کی طرح بدلائے گئے تو معانی کا کیا حشر ہوگا!!؟۔

جامع قرآن عثمان نہیں، اللہ ہے
جناب قارئين!
 علم حدیث بنانے والوں نے قرآن حکیم میں کئی شکوک و شبہات مشہور کئے ہوئے ہیں، جن میں سے بحوالہ کتاب بخاری ایک مغالطہ یہ بھی ہے کہ جناب رسول قرآن حکیم کو وفات سے پہلے منتشر حالتوں میں کوئی ٹکڑا کہاں کوئی کہاں تتر بتر حالت میں چھوڑ کر گئے تھے (باب جمع القرآن بخاری) سو انکا ایک دھوکہ یہ بھی ہے کہ جمع قرآن کا کارنامہ پہلے تین خلفاء کرام کا ہے،پھر یہ کریڈٹ انہوں نے تیسرے خلیفہ کے نام سے رسم الخط اور جمع کے حوالہ سے منسوب کیا ہوا  ہے، نیز قریش کی قراءت میں بھی، جبکہ علم حدیث بنانے والوں کی طرف سے یہ کھلا دھوکہ اور فراڈ ہے، اولا اس وجہ سے کہ انہوں نے تیسرے خلیفہ کا نام حدیثوں میں عثمان متعارف کیا ہوا ہے، جبکہ یہ نام تیسرے خلیفہ کے لئے حدیث بنانے والوں نے اصل نام گم کرکے اس نام کو نفرت اور تعصب کی بنیاد پر بطور تبراکے مشہورکیا ہوا ہے۔ کیوں  کہ  عثمان کی معنی ہے سانپ کا بچہ سنپولہ، اور ممکن ہی نہیں کہ انکے بقول جناب رسول نے سانپ کے بچے کو اپنی دو بیٹییں بیاہی ہوں اور ویسے جناب رسول ایسے نام کو کیسے قبول کرسکتے تھے جو انہیں حکم دیا ہوا تھا کہ:
 بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ (11-49)
 یعنی ایمان لانے کے بعد برے نام نہیں چلیں گے۔ مطلب عرض کرنے کا کہ جامع قرآن عثمان نہیں ہے خود اللہ ہے جس نے اپنے حکم سے اپنے رسول کو ترتیب اور جمع قرآن کی رہنمائی فرمائی، نہ صرف جامع قرآن اللہ ہے بلکہ اسکی قراءت اور ادائگی  اور تفسیر کی تعلیم بھی خود اللہ نے متعین فرماکر دی ہوئی ہے (17-75) اور (18-75) (19-75) (1-55) (6-87)۔

قرآن کا پہلا رسم الخط محمدی ہے عثمانی نہیں
قرآن حکیم کا پہلا کاتب الوحی جناب محمد علیہ السلام خود آپ ہیں، اسکے بعد جماعت اصحاب کی ٹیم- علم حدیث گھڑنے والوں نے جناب رسول علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ انہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا، حدیث سازوں نے اس  واسطے کئی جھوٹی حدیثیں مشہور کی ہوئی ہیں جن جملہ حدیثوں کو قرآن نے  بیک قلم رد کیا ہے، اس بات کا قرآن سے پہلا دلیل کہ:
 وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (48-29)
فرمایا کہ آپ نبوت ملنے سے پہلے پڑھنا اور لکھنا دائیں ہاتھ سے اسلئے نہیں جانتے تھے جو قرآن جیساعظیم کتاب، نبوت ملنے کے بعد پیش کرنے سے اہل باطل لوگ یہ کہتے کہ یہ تو پہلے نبیوں کی کتابیں پڑھکر انکی تعلیمات کو نقل کرتے ہوئے لکھ کر انہیں قرآن کے نام سے پیش کررہا ہے۔ مطلب کہ اس آیت کریمہ نے بتادیا کہ آپ علیہ السلام نبوت ملنے کے بعد لکھنا پڑھنا سیکھ گئے تھے اتنی حد تک جو خود دشمن لوگ بھی کہتے تھے کہ:
 وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا  (5-25)
 کہتے تھے مخالفین کہ یہ شخص پہلے خود لکھتا ہے اسکے بعد اپنی ذمہ داری سے صبح و شام (اپنی لکھی ہوئی ماسٹر کاپی سے) کتابت وحی کی کلاسیں قائم کرتا ہے۔ ان آیات نے کتابت وحی سے متعلق جملہ من گھڑت حدیثوں کی قلعی کھول دی۔

قراءت قرآن ایک ہے، جسکا معلم اول اللہ ہے
جناب رسول نے اللہ سے ایک قراءت پڑھی پھر وہ ایک قراءت امت کو پڑھائی، موجود مروج قرائت کی نسبت سواء جناب رسول کے کسی اور امام اور قاری کی طرف جھوٹی ہے۔
اس دعوی کا پہلا ثبوت :
سَنُقْرِؤُكَ فَلَا تَنسَى (6-87) اور (2-1-55)
 یعنی اے نبی! ہم آپ کو ایسا تو پڑھائینگے جو آپ کبھی بھی نہ بھولیں گے۔

مسئلہ قراءت
آیت کریمہ میں ہے کہ:  
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ  فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ (17-18-75)
 یعنی ترتیب کے ساتھ جامع قرآن بھی ہم ہیں اور اسے پڑھانے والے بھی ہم ہیں پھر جب ہم اسے پڑھیں تو آپ ہماری پڑھت کی اتباع کرنا۔

جناب قارئین!
 قرآن سے متعلق ان دو آیات میں چار عدد ضمیر واحد مذکر غائب کے استعمال ہوئے ہیں اگر بخاری میں واقع اسکے پسندیدہ پیشوا یہودیوں کی گھڑی ہوئی حدیثوں (41-5) کی طرح کہ قرآن سات قرائتوں میں نازل کیا گیا ہے، یہ حدیث سچی ہوتی تو ان آیات میں چاروں جگہ استعمال کردہ ضمائر بجاء واحد مذکر کے جمع مؤنث کے استعمال ہوتے جو کہ وہ جمعھن-قرانھن –قرئناھن ہوتےاسلئے کہ قراءت کا لفظ مؤنث ہے۔ اگر کوئی کہے کہ حدیث میں لفظ احرف کا استعمال ہوا ہے قرائت کا نہیں تو بھی جواب میں عرض ہے کہ چلو جمع مؤنث نہ سہی تو ان آیات میں ضمیر جمع مذکر کا۔ ھم۔ استعمال ہونا چاہیے تھا جو کہ نہیں ہوا، وہ کیوں؟ بہرحال ان آیات سے یہ تو لازمی طور پر ثابت ہوا کہ قرآن حکیم کی قراءت کا معلم اول اللہ ہے، پھر اس سے جناب رسول اس پڑھائی ہوئی ایک قراءت کے استاد اور معلم ہوئے اپنی امت کے حاضرین لوگوں کیلئے۔ اگر قرآن حکیم کی قراءات سات ہوتیں تو پورے قرآن میں انکا ذکر کہیں تو ہوتا بالخصوص آیات مذکورہ میں جن کے چار بار استعمال کردہ ضمائر واحد مذکر غائب سے سات قرائتوں اور سات حرفوں کی نفی ہوتی ہے۔ کیوں کہ سبعۃ احرف کا عدد جمع کے زمرہ میں آتا ہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ
بالخصوص رواں دور میں سعودیوں کی جانب سے قرآن میں حرفی ملاوٹ کے نسخے شائع کرنے اور لاہور کے رشدی اہل حدیثوں کی جانب سے سعودیوں کی طرح سولہ عدد قرآن قرائات کے ناموں سے حرفی ملاوٹ والے قرآنی نسخے تیار کرنے پر جب ہم لوگوں کے ساتھ انکی شکایت کرتے ہیں تو بے سمجھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہوا ہے، اسلئے اللہ خود ان سے نمٹ لے گا۔

سو جناب قارئین!
 حفاظت قرآن کی آیت :
 إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (9-15)
 کے اندر رب تعالی نے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے جسکی معنی بنتی ہے کہ جب اللہ اپنے کام اپنے بندوں سے لیتا ہے تو قرآن کی حفاظت کرنے میں بھی ہم بندوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
جیسے کہ قرآن کا موضوع فلاح انسانیت ہے تو ہم انسانوں پر بھی فرض ہوتا ہے کہ ہم اپنی اصلاح اور فلاح کی کتاب کی حفاظت کریں، اسلئے کہ رب تعالیٰ نے ہم سے مخاطب ہوکر فرمایا ہے کہ:
 لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (10-21)
 یعنی ہمنے جو کتاب آپکی طرف نازل کی ہے اسکے (قوانین کے) اندر تمہارا شرف اور قدرو منزلت ہے، اس حقیقت کو تم لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے۔ اب جب ہم قرآن کی حفاظت کرینگے تو گویا ہم اپنی عزت اور شرافت کی حفاظت کر رہے ہونگے اور قرآن میں تحریف سے مراد انسانی شرف اور عزت کی تحقیر وتذلیل ہوگی، اسلئے انسانی اقدار عالیہ کو بچانے کیلئے ملاوٹی قرآن بنانے والے سعودی حکمرانوں اور ان کے لاہوری رشدی ہمنوائوں کے ساتھ جملہ انسانوں کو جنگ کرنی ہوگی۔

معزز قارئین!
 زمانہ شروع اسلام میں منافقین لوگ جناب رسول علیہ السلام کی مجلس میں شریک ہوکر اپنے ایمان لانے کی دعوی تو کرتے تھے لیکن اپنی دلوں میں وہ مؤمن نہیں ہوتے تھے، تو رب تعالی نے جناب رسول کو آگاہ فرمایا کہ اے میرے رسول! آپ  ان لوگوں کیلئے جو کفر کی باتوں میں تیزی کرنے والے ہیں انکے صحیح طور پر ایمان لے آنے اور مؤمن بننے کیلئے غمگین نہ ہوں، ان لوگوں نے ظاہری طور سے ایمان لے آنے کی بات کی ہے :
 وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ (41-5)
 اپنی دلوں میں انہوں نے ایمان نہیں لایا۔
 وَمِنَ الَّذِينَ هِادُواْ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ يُحَرِّفُون َ الْكَلِمَ (41-5)
 اور جو لوگ یہودی (آپکی مجلس میں آتے ہیں) یہ اپنی طرف سے جھوٹی حدیثیں بنانے کیلئے آپکے پاس آتے ہیں ان لوگوں کیلئے جو آپکے پاس نہیں آرہے یہ انکی خاطر جاسوسی اور مخبری کرنے آتے ہیں ساتھ میں آپکی حدیثوں کے الفاظ و کلمات کو اپنی سوچ کے تابع بدل کرواپسی کے وقت جاکر انہیں سناتے ہیں، ساتھ میں انہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کبھی تم لوگوں کا رسول کے پاس بھی جانا ہو تو خیال کرنا کہ اگر وہ ہماری طرف سے آپکو اسکی سنائی ہوئی حدیث بتائےتو اسے قبول کریں نہیں تو قبول نہ کریں۔

تحریف کیا ہے؟
حرف کی معنی ہے تبدیل کرنا اور کنارہ (حوالہ) (75-2) (16-8) (11-22) الفاظ اور کلمات میں تبدیلی کیلئے سارے لفظ یا کلمہ کی تبدیلی ضروری نہیں ہے کسی بھی لفظ اور کلمہ کا صرف ایک حرف بھی بدل دینے سے وہ پورا کا پورا لفظ بدل جاتا ہے اس کیلئے میں صرف ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں وہ یہ کہ لفظ زید، یہ ایک نام ہے جسکی مصدری حوالہ  سے معنی ہے بڑھوتری، اب اگر اس میں حرف زا کی جگہ حرف ہمزہ الف رکھا جائے تو اید کی معنی ہوگی "کئی ہاتھ" اور اگر صرف حرف زا کو نکالاجائے گا تو ید، کی معنی ہوگی ایک ہاتھ، مطلب عرض کرنے کاہوا کہ کسی بھی لفظ اور کلمہ کا ایک حرف بھی آگے پیچھے کرنے ہٹانے سےپورا لفظ ہی تبدیل ہوجاتا ہے، یہ بات تو ہوئی حرف کی تبدیلی کی لیکن صرف اعراب بدلنے سے بھی لفظ یا کلمہ تبدیل ہوجاتا ہے مثال کے طور پر لفظ ربی کی معنی ہے اے میرا رب، یہاں اگر حرف "را"کو زبر کی جگہ زیر دی جائیگی تو معنی ہوگی یہودیوں کا مولوی۔

جناب قارئین!
 میں نے اوپر بات کی جناب رسول سے انکے روبرو سنی ہوئی احادیث کو مسخ کرنے کی جو قیامت تک آنیوالوں کو قرآن نے بتائی، اگر جو کوئی حجیت حدیث کا پرستار یہ فرمائے کہ یہ  بات قرآن حکیم نے تو صاف صاف طرح سے زمانہ رسالت کے یہودیوں کے بارے میں یہ بات کہی ہے، تو میں ایسے سوال کرنے والے کی خدمت میں ادب سے سوال کرونگا کہ امام بخاری نے اپنی کتاب بنام الصحیح البخاری کے اندر جو حدیث نمبر 238 لائی ہے اور وہ اسکے کتاب الطلاق کی چوتھی حدیث بنتی ہے کہ جونیہ نامی ایک عورت کو شہر کے کنارے ویران دیوراروں میں لایا گیا تھا، راوی اسید بیان کرتا ہے کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ نکلے ان دیواروں تک تو ہمیں جناب نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ یہیں بیٹھے رہیں اور خود گھر میں داخل ہوئے جس جگہ جونیہ عورت کو امیمہ بنت النعمان بن شراحیل کے گھر میں لایا گیا تھا اور اسکے ساتھ اس عورت جونیہ کی محافظ دائی بھی تھی تو نبی علیہ السلام نے داخل ہوتے ہی جونیہ کو کہا کہ آپ خود کو میرے لئے حوالے کریں (تیار کریں) تو اس عورت نے کہاکہ کیا کوئی ملکہ، رانی خود کو کسی بازاری شخص کے حوالے کرسکتی ہے؟ (معاذ اللہ) پھر رسول نے خیال کیا کہ اسپر ہاتھ پھیروں تو شاید اس سے اسے سکون آئے، اسپر جونیہ نے کہاکہ میں اللہ سے پناہ مانگتی ہوں آپکے حوالے میں آنے سے، پھر رسول نے فرمایا کہ آپنے پناہ کے ٹھکانے سے (یعنی اللہ سے) پناہ مانگی ہے۔ یہ کہکر رسول ہماری طرف باہر نکل آئے اور فرمایا کہ اے ابو اسید یہ دو جوڑے رازقی کپڑوں کے اسے پہننے کیلئے دے دو اور اسے اسکے گھر والوں تک پہنچا کر آؤ۔ اب کوئی بتائے کہ امام بخاری کی یہ لائی ہوئی حدیث کسی مسلم شخص کی بنائی ہوئی ہوسکتی ہے؟ یا یہ بھی کوئی شخص بتائے کہ  ایسی حدیث کوئی مومن مسلم بندہ اپنی کتاب میں اسے درست قرار دیتے ہوئے لکھ سکتا ہے؟؟؟ یا اگر اس حدیث پر کوئی امریکن عیسائی آدمی فلم بنائے تو کیا سے کیا ہوجائے!!! لیکن مسلم لوگ کتاب بخاری کو قرآن کے مثل قرار دئے ہوئیں ہیں، بڑی شرم کی بات ہے۔

لیکن شرم والوں کیلئے سات قرائتوں والی حدیث
امام بخاری نے اپنی کتاب بنام الصحیح البخاری میں حدیث لائی ہے جو اسکی کتاب فضائل القرآن میں واقع ہے جسکا نمبر 2100 سؤ ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا کہ جناب رسول کی حیاتی میں میں نے ہشام بن حکیم کو فرقان پڑھتے ہوئے سنا وہ ایسے حروف سے پڑھ رہا تھا جو مجھے رسول اللہ نے اسطرح نہیں پڑھایا تھا پھر قریب تھا کہ میں اسپر نماز کے اندر حملہ کردیتا لیکن میں نے صبر کیا پھر جب اسنے سلام پھیرا تو میں نے اسکی گردن کو اسکی چادر سے لپیٹا اور کہا کہ تجھے یہ سورت کسنے پڑھائی ہے؟ اسنے کہا کہ، جناب رسول اللہ نے پڑھائی ہے، میں نے اسکو کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو مجھے تو رسول اللہ نے دوسری طرح سکھائی ہے پھر میں اسے گھسیٹتا ہوا رسول کی خدمت میں لے آیا، اور عرض کیا کہ میں نے اسے فرقان اسطرح پڑھتے ہوئے سنا ہے آپنے تومجھے اس طرح نہیں پڑھایا، تو رسول اللہ نے پہلے ہشام بن حکیم کو چھڑایا پھر اسے فرمایا کہ اے ہشام پڑھو، تو اسنے اسی طرح پڑھکر سنایا تو رسول اللہ نے فرمایا کہ بلکل نازل بھی اسطرح ہوا ہے، پھر عمر کو فرمایا کہ تم بھی پڑھکر سناؤ، تو اسنے بھی جناب رسول کے سکھانے کی مطابق پڑھکر سنایا تو اسے بھی رسول اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہواہے، بیشک یہ قرآن سات حرفوں میں نازل ہوا ہے اسلئے جسے ان ساتوں حروف میں سے  کوئی  حرف آسان لگے تو وہ اسے ایسے ہی پڑھے۔

محترم قارئین!
 سات قرائتوں کی جواز سے قرآن میں تحریف اور ردو بدل کا دروازہ کھولنے والی اس من گھڑت حدیث کے بعد آئیں کہ قرآن سے پوچھیں کہ اس بارے میں اسکا کیا فرمان ہے، اللہ کا اعلان ہے کہ :  
مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ (29-50)
 یعنی میرا قول اور فیصلے بدلا نہیں کرتے، میرے اقوال محکم اور اٹل ہوتے ہیں اگر ان میں کوئی سی بھی تبدیلی آجائے تو یہ لوگوں پر بڑا ظلم ہوجائیگا، دنیا والو! سن لو! میں اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتا۔

محترم قارئین !
 پہلے تو ان قرآن دشمن حدیث پرستوں نے سات قرائتوں کو سات لہجوں میں مشہور کیا، پھر جب دیکھا کہ مسلم امت والے لوگ اپنے قرآن سے غافل ہوچکے ہیں، تو انہوں نے سبعۃ احرف والی ایک مجوسی کی تیار کی ہوئی بوگس جڑتو حدیث کا ترجمہ حرف بمعنی لہجہ سے بڑھا کر پھر حروف کی ملاوٹ اور قطع و برید تک اسے لے آئے۔
لہجہ کا مفہوم تو صرف آواز کی ادائگی اور ڈھنگ تک محدود ہے، لہجوں میں اگر حروف کو مزید طور پر لایا جائے گا تو وہ مستقل جدا زبان اور بولی کہی جائیگی، لیکن جو لہجے آواز کی ادائگی تک محدود ہیں انکے لئے بھی اللہ فرماتا ہے کہ جدا جدا آوازوں میں بات کرنے سے بھی بات کرنے والوں کے رویے پہچانے جاتے ہیں، جیساکہ :
 وَلَوْ نَشَاء لَأَرَيْنَاكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَاهُمْ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ (30-47)
 یعنی اگر ہم چاہیں تو آپکو یہ منافق لوگ دکھائیں پھر آپ انکو انکی پیشانیوں سے پہچان جائینگے اور انکو گفتگو کے آواز سے بھی پہچان جائینگے اور اللہ تم سبکے اعمال کو جانتا ہے۔ سو آواز کی سرتار جس میں حروف کی تبدیلی بھی نہ ہو اگر صرف اعرابیں اور آواز ہی بدل جائے تو اسکی ادائگیوں اور ڈھنگ میں بھی مفاہیم بدل جاتے ہیں، پھر اگر حروف بدلے جائینگے تو یقینا کلام کے مفہوم بھی یقینی طور پر بدل جائینگے۔

شروع اسلام کے قرآن دشمنوں اور بعد والوں کا موازنہ
جناب قارئین!
 آپ نے شروعاتی دور کے قرآن دشمنوں کی قرآن میں ملاوٹ اور نبی کے نام سے مختلف قرائات کے حوالہ سے جعلی حدیثیں بنانے کی بات قرآن حکیم کی آیت کریمہ (41-5) کے حوالہ سے سمجھی، اب ذرا بعد میں پئدا ہونے والے دشمنان قرآن کی بات پربھی غور کریں!

 جناب قارئین!
 فرقہ اہل حدیث کے شائع ہونے والے ماہوار مجلہ "رشد" لاہور شمارہ 4جون 2009ع کے صفحہ نمبر 676 کے اخیر میں مضمون نگار نے حکومت سعودییہ کے پبلیشنگ ادارہ مجمع الملک فہد کو چار جدا جدا ملاوٹوں والی قرائتوں میں قرآن شائع کرنے پر خراج تحسین پیش کیا ہے بعد میں صفحہ نمبر 678 پر لکھا ہے کہ کلیۃ القرآن الکریم جامعہ لاہور کے فضلاء میں سے تقریبا بارہ محقق اساتذہ نے محنت شافہ فرماکر تین سال کے عرصہ میں وہ تمام غیر متداولہ قرائات میں سولہ مصاحف تیار کرلیے ہیں۔ اب غور کیا جائے کہ مسلم امت کی قرآن سے غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان دشمنوں نے ہماری پیٹھ پر کیسے تو خنجر گھونپے ہیں۔ جو زمانہ نبوت کے قریب والے دشمن یہودیوں نے بہرو بیا بنکر قرآن کو سات حرفوں میں نازل ہونے کی حدیثیں بنائیں تو آج کے زمانہ والے رشدی اہل حدیث دشمنان قران نے سات کو بڑھا کر اس کی جگہ سولہ قرآن وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہر لاہور میں بیٹھ کر بنا ڈالے۔

قرآن میں ملاوٹوں کے مقاصد
پہلے پہلے تو قرآن سے عالمی سامراج کی جنگ اسلئے ہے کہ اس کتاب کی تعلیمات سرمایہ داری اور جاگیرداری کا قلعہ قمع کرتی ہیں،جسکی تفاصیل قرآن کو قرآنی رہنمائی تصریف آیات سے پڑھنے پر سمجھ میں آئینگی، امت مسلمہ کی درسگاہوں میں عباسی دور خلافت میں مسلم امت کے نصاب تعلیم سے قرآنی مبادیات اور مأخذات کا دوازہ بند کردیا گیا تھا، اسکی جگہ یہود مجوس و نصاری کے اتحاد ثلاثہ کی نگرانی میں تیار کردہ روایات اور فقہوں کو قرآن سے چھینا ہوا منصب قضا اور مسند قیادت،حوالہ کردی گئی، جن کی روایات نے ہمارے رسول خاتم الانبیاء علیہ السلام اور اسکے اصحاب سے نفرت کی وجہ سے انکا معا شرتی تعارف اپنی خود ساختہ حدیثوں میں اسطرح کرایا ہے اور وہ بھی سفر جہاد پر باہر جانے کے وقت کی حدیث بنائی گئی ہے کہ منع کی ہے رسول نے رات کو دیری سے گھروالیوں کے پاس آنے سے (اس وجہ سے کہ) کوئی انکے ساتھ خیانت نہ کر رہا ہو یا انکی پردہ والیوں کی کھوج میں نہ ہو (حوالہ کتاب صحیح مسلم جلد ثانی، کتاب الجہاد والسیر باب کراھیۃ الطروق، مطبع قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی) قرآن حکیم میں دشمنان ملت نے اب جو قرائت کے نام سے ملاوٹوں کے تین اور سولہ جداجداایڈیشن تیار کئے ہیں جو کل انیس ہوئے ان میں سے ورش نامی قرآن میں جناب خاتم الانبیاء کی شان و مرتبت پر بھی حملے کئے گئے ہیں۔

 جناب قارئین!
 سورت المائدہ کی آیت نمبر 41 میں رب تعالیٰ نے اپنے رسول کو فرمایا ہے کہ :
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ (41-5)
 اسکی صحیح اور اصل عبارت میں لفظ یحزنک کے حرف یا کو زبر کی اعراب ہے، اب دشمنان قرآن نے ورش نام کی قرائت سے جو وحشت دکھائی ہے اس میں حرف یا کو پیش دی گئی ہے، اسکا معنوی فرق یہ بنتا ہے کہ یا کی زبر سے حزن کا فعل لازمی ہوتا ہے جسکی معنی ہے کہ اے رسول آپ دکھی نہ بنیں لوگوں کی کفر میں جلدی جانے سے، لیکن اگر اسکی جگہ محرفین قرآن والوں کی دی ہوئی اعراب حرف یا کو پیش دیکر اسے متعدی بناکر پڑھینگے تو اسکی معنی ہوگی کہ (آپ کوئی  اپنے احساسات اور جذبات برائے حفاظت دین کی وجہ سے دکھی نہیں ہوتے)، ہاں البتہ لوگوں کا کفر میں جلدی جانا آپ کو دکھی بناتا ہے، یہاں معنی کے لحاظ سے بہت باریک فرق ہے جو بگاڑی ہوئی اعراب سے جناب رسول کی اس سے تحقیر ہوتی ہے کہ آپ خود اپنی طرف سے تو حفاظت دین کا احساس اور جذبہ نہیں رکھتے، جبتک کہ کوئی خارجی محرک نہ آکر آپکو برانگیختہ کرے۔ اس فرق کو فعل لازمی اور متعدی کے حوالہ سے سمجھا جائے، جاننا چاہیے کہ جناب نبی علیہ السلام کی تحقیر سے آدمی کافر بنجاتا ہے باب افعال کی خاصیت ہے کہ اس میں فاعل کی وجہ سے مفعول میں مصدری معنی آتی ہے۔

کعبہ پر آج بتوں کا قبضہ ہے
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے۔
میں نے گذارش شروع کی تھی کہ قرآن میں دشمنوں کی طرف سے تحریف کے مقاصد کیا ہیں سے۔

جناب قارئین!
 انکے یہ مقاصد وہی ہیں جن سے انہوں نے اگلے ابنیاء کرام کو ملی ہوئی وحی کا بھی ستیاناس کیا تھا (52-22) جنہوں نے اپنے بائیبل عہد نامہ عتیق وجدید (انجیل) کا کباڑہ کیا ہواہے، اب وہ مسلم امت میں سعودیوں اور رشدی اہل حدیثوں کی طرح کی کالی بھیڑیں داخل کرکے انکے ذریعہ اللہ سے جنگ کررہے ہیں کیونکہ اللہ نے صرف اپنے آخری رسول کی کتاب قرآن کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہوا ہے (9-15) قرآن جملہ انبیاء کی تعلیمات کا امین اور محافظ ہے حقیقت میں علم وحی جناب نوح علیہ السلام سے لیکر جناب خاتم الانبیاء علیہ السلام تک جملہ انبیاء کو جو دی گئی ہے وہ اپنی جوہر میں ایک ہی ہے اور جمیع علم وحی کا موضوع انسان کو صالح بنانا ہے، یہ حقیقت قرآن کو تصریف آیات کی روشنی میں سمجھنے کی نیت سے پڑھکر دیکھیں آیت ایک تا تیرہ سورۃ 55۔ سوجو بھی کوئی شخص مکہ مدینہ میں بیٹھکر یا مصر اور کویت میں بیٹھکر یا کلیۃ القرآن الکریم جامعہ لاہور پاکستان میں بیٹھکر قرآن حکیم میں قرائات کے بہانوں سے ملاوٹ کرکے اسے ایک سے بڑھا کر سولہ قرآن بنائیگا تو وہ انسانیت کا دشمن ہے، جناب رسول اللہ کا دشمن ہے، اللہ کا دشمن ہے۔

 جناب قارئین !
میرے اس شورو شیون پر کوئی خفانہ ہو یہ قرآن میں ملاوٹ کرکے اسے ایک سے سولہ پھر بیس قرآن بنانے والے حدیث پرست لوگ جناب رسول علیہ السلام کی قدرومنزلت جاہ ومرتبت کے بھی کھلے دشمن ہیں، انکے بڑے امام اور محدث اور شیخ الحدیث امام بخاری نے اپنی کتاب بنام الصحیح البخاری میں حدیث گھڑ کر لکھی ہے کہ ایک انصاری عورت نبی علیہ السلام کے پاس آئی پھر آپنے اسکے ساتھ خلوت کی، اسکے بعد اسے کہا کہ قسم اللہ کی کہ تم (انصاری) عورتیں سب لوگوں میں سے مجھے زیادہ محبوب ہو۔ (حدیث 218 کتاب النکاح) محترم لوگو! سوچو! غور کرو! جن حدیثیں بنانےوالے لوگوں نے جناب رسول کی مرتبت کے ساتھ، عزت کے ساتھ اپنی احادیث میں یہ حشر کیا ہے، تو انہوں نے قرآن حکیم کے اندر ملاوٹی حروف اور اعرابوں کے  ذریعے اور بہت کچھ کیا کیا نہ کیا ہوگا، اور اسکی ہلکی جھلک ابھی ابھی آپنے آیت (41-5) کے حوالہ سے دیکھی بھی سہی۔ پھر کیا ایسے گستاخان رسول اور محرفین قرآن کو مسلم مانا جاسکے گا؟

دیکھو کہ اللہ عزوجل قرآن میں ملاوٹ کرنے والے اہل حدیث سعودیوں کا پول کیسے کھولتا ہے۔
پورے قرآن حکیم میں ساری جماعت اصحاب رسول کی طرف سے مسائل قرآن سمجھنے کے لئے بطور وضاحت طلبی کے اندازاً  کل سولہ سوال موجود ہیں جن  سب کا ذکر قرآن نے متعلقہ موقعوں پر کیا ہے، جن کے تفاصیل اور حوالہ جات ہر شخص الفاظ قرآن کے کئٹلاگ سے معلوم کرسکتا ہے۔ جن جملہ سوالوں میں کسی ایک بھی صحابی، ساتھی، طالب علم قرآن کا ایسا سوال نہیں ہےکہ میں عرب کے فلاں قبیلہ  سے تعلق رکھتاہوں ہمارا لہجہ سُرتار مکی مدنی نہیں ہےہم یہ بعض بعض مکی مدنی حروف نہیں سمجھ سکتے اسلئے ہمارے  قبیلہ کے حروف میں بھی قرآن نازل ہو نا چاہیے؟۔
علماء لسانیات اپنے مشاہداتی تجربوں سے بتاتے ہیں کہ کسی بھی یک زبانی قومی خطہ کے اندر ڈیڑھ ڈیڑھ سو کلو میٹر کے فاصلہ پر اسی ایک ہی قومی زبان کے الفاظ میں کچھ کچھ متفرق حروف اور الفاظ بدل جاتے ہیں پھر ایسی قوم کے کامیاب ادیبوں اور لکھاریوں کی کامیاب تصنیفات مقالے اور مضامین وہ قرار دیئے جاتے ہیں جنکی تحریروں کو سکیڑوں میلوں میں رہنے والی دور دور رہنے والی ساری قوم بھی آسانی سے سمجھ جائے۔ تو قرآن حکیم کی عربی زبان کیلئے اللہ پاک نے جو انداز سولہ بار فرمایا ہے کہ میں اس کتاب قرآن کی آیات کو عربی مبین والی بولی میں نازل کررہاہوں۔
فارس کے قرآن دشمن حدیث سازوں اور آج انکی روحانی نظریاتی نسل جو  اہل حدیث سعودی حکمران مصری کویتی اور مدرسہ کلیۃ القرآن الکریم جامعہ لاہور والوں نے مل ملاکر جو ایک قرآن کی جگہ انیس عدد مزید اور قرآن جدا جدا حروف کی ملاوٹ والے تیار کررکھے ہیں انکی خدمت میں عرض ہے کہ بنی اسرائیل کے نبی جناب موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ نے حکم دیا کہ :
اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (24-20)
 جاؤ فرعون کی طرف وہ حد سے نکل گیا ہے تو جواب میں جناب موسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا کہ میرے سینہ کو کھول دے، میری اس مہم کو میرے لئے آسان بنا اور میری زبان میں گفتگو کیلئے روانی پیدا کر، جس سے لوگ میری بات کو سمجھ سکیں، اور میرے اہل سے میرا بوجھ اٹھانے میں کسے مقرر فرما میرا بھائی ہارون (بہت مناسب ہوگا) جس سے میری طاقت کو بڑھاوا ملے گا، اسے میرا شریک کار بنا۔ لگاتار موسیٰ علیہ السلام کئی سوال کرتا گیا، پھر آگے سے رب پاک نے جواب میں فرمایا کہ:
 قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى (36-20)
 (بس بس) موسیٰ (مت گھبرا) تیرے سارے سوال منظور کئے جاتے ہیں۔ اب بتاؤ! موسیٰ کے سوالوں، مطالبوں کا ذکر پھر جواب ملنے کا ذکر، تو قرآن نے بتادیا لیکن صاحب قرآن محمد علیہ السلام کے سات حرفوں میں قرآن اتارنے والے سوال کو تو اللہ نے لایا ہی نہیں، کچھ تو شرم کرو سعودیو! شرم کرو۔ سبعۃ احرف والی جھوٹی سے حدیث قرآن میں تحریف کا دروازہ کھولنے والے حدیث پرستو! میں یہاں ایک قرآن کو بیس قرآن بنانے والے حدیث پرستوں کو  بتادیتا ہوں کہ تمہاری سات حرفوں والی حدیث پہلی صدی یا دوسری صدی ہجری کے فارسی مجوسی اماموں نے بنائی تھی، پھر اسپر زائد نو اور تیرہ حرف بڑھا کر سولہ اور بیس قرآن بنانے کی حدیث، روایت یا فنکاری لاہور میں بنی ؟ یا انگلینڈ کی جھنگل والی حویلی سے وہاں کے تیار کردہ اماموں نے یہ بناکر تمہارے حوالے کی ہے؟

ایک تیر سے کئی شکار
ملک پاکستان میں ایک قانون بنام ناموس رسالت اور بلاسفیمی لا کے نام سے بنا ہوا موجود ہے، جنکے کچھ تفاصیل میں نے سندھی زبان میں قانون کی ایک کتاب میں پڑھے ہیں، اس میں عنوان دیا گیا ہے "مذہب سے متعلق جرائم" اس قانون کی تشریح تین عدد شقوں C-B-A کے حروف سے کی گئی ہے جنکی سزا بالترتیب دوسال سزاء قید۔ دس سال سزاء قید۔ اور عمر قید یا سزاء موت مقرر کی گئی ہے۔ میں نے اس قانون کے رد میں اللہ کے قرآن کے حوالوں سے حکمرانوں کو لکھ بھیجا کہ اللہ کو گالییں دینے والے کیلئے اللہ فرماتا ہے کہ دنیا کے حاکمو! ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے انہیں میرے پاس آنے دو میں خود ان سے نمٹوں گا (108-6) اور قرآن کی مذاق اڑانے والوں کے لئے اللہ نے تعلیم دی ہے کہ آپ ایسی مجلس سے واک آؤٹ کرکے نکل جائیں، ان مذاق اڑانے والے منافقوں کو جہنم میں کفار کے ساتھ رکھ کر انکا احتساب کیا جائے گا (140-4) اور منکر رسالت کیلئے جناب رسول کو تعلیم دی گئی ہے کہ آپ اسے یہ کہیں کہ آپ کے نہ ماننےسے کوئی فرق نہیں پڑتا میرے اور آپکے درمیان اللہ اور اہل علم کی شاہدی کا فی ہے (43-13) یعنی دشمنوں کی گستاخی اور بدزبانی پر اللہ نے اپنے رسول کو یہ فرمایا کہ:
وصبر علی مایقولون
 یعنی دشمنوں کی ایذا رسانی والی گفتگو پر آپ اپنے نظریہ اور نصب العین پر جمے رہیں۔
، وھجر ھم ھجرا جمیلا
آپ ان سے نہایت صفائی اور ستھرائی کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی میں ان سے الگ ہوجائیں۔
وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا (11-73)
 یعنی آپکے انقلاب کے خلاف کئپیٹل بلاک والوں نے الزام تراشیوں اور جھوٹوں کی مہم چلائی ہوئی ہے  (جیسی آپنے ابھی بخاری اور مسلم کی حدیثوں کے حوالوں سے معلوم کی! (اے محمد علیک السلام ذرنی والمکذبین آپ مجھے اور ان جھٹلانے والے سرمایہ داروں کو چھوڑ دیں، میں جانوں اور یہ جانیں، میری ان کے ساتھ جنگ کی رزلٹ کیلئے کچھ مہلت درکار ہے۔ مطلب کہ قرآن حکیم کے ایسے قوانین کے رد میں علم حدیث سے مرتد کی سزا قتل اور ناموس رسالت کی ہتک کے مرتکب کو پاکستانی عدالتوں میں سزائے قید اور پھانسی یہ ایسے خلاف قرآن قوانین ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کے دنوں میں بناکر کورٹوں کے حوالے کئے گئے تھے ایسے قوانین لانے والی پشت سے جو نادیدہ قوت ہے جن سبکو میں شاید ڈرکے مارے ظاہر نہ کر سکوں انکی دین اسلام سے کوئی عقیدت یا محبت نہ تھی نہ ہے، ان سب کا صرف اور صرف یہ مقصد تھا اور ہے کہ ہم لوگوں کو مذہب سے متعلق جرائم میں پھنساکر سزائیں دلائیں تا کہ وہ ایسے مذہب سے بھاگ کر مجبورا عیسائیت کی گود  میں جاکر پناہ لیں وہ اس وجہ سے کہ ہند و مذہب نسلی ہے یہودی مذہب بھی نسلی ہے وہ کسی غیر نسلی شخص کو قبول نہیں کرتے، سو عیسائیت کی گود کے سواء ایسے پھنسائے ہوئے مسلم لوگوں کیلئے اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا۔پھر اس طرح سے کیتھولک فرقہ کے پیشوا جان پوپ پال کی دعوی کہ یہ اکیسویں صدی دنیا میں عیسائیوں کے غلبہ کی صدی ہوگی۔ اسے سچا کر کے دکھانے کی آبیاری بھی ایسے خلاف قرآن قوانین بناکر رائج کرنے سے ہو جائے گی، نیز اسلام کے نفاذ کے نام سے قائم لٹھ بردار مذہبی شیدائی تنظیوں سے بھی ہوگی جو عورتوں کو اسکولوں کالجوں میں پڑھنے اور کھلے منہ گھر سے باہر نکلنے پر اسلام کے نام سے جبری بندش لگانے والی ہونگی ،جبکہ قرآن حکیم نے خود حکم دیا ہے کہ عورتیں جب گھر سے باہر نکلیں تو چادر کو اسطرح اوڑھیں جو انکا چہرہ کھلاہوا ہو جو اسے پہچاننے کی وجہ سے کوئی لچالفنگا انہیں آوارہ سمجھ کر ذہنی اخلاقی ایذاء نہ پہنچائے (59-33) دنیا کے اندر مسلم ملکوں میں اسطرح کی جو تنظیمیں اسلام کے نام سے جتنی بھی تشدد سے لوگوں کو عمل کراتی ہیں، انکا عملی مظاہرہ فی الحال سوات سے شروع کیا گیا ہے ایسی جملہ تنظیمیں اور انکے خلاف قرآن قوانین، یہ سب دشمن اسلام عالمی سامراج اور جان پوپ پال کی عیسائی امت اور فری میسن کی طرف سے قائم کردہ ہوتی ہیں، عالمی سامراج کی اس ہنر مندی کو ایسے سمجھیں کہ مسلم عوام ایسی تنطیموں کو اگر غیر قرآنی قرار بھی دیں پھر بھی انکی پشت پر پوپ پال کے ٹارگیٹ کو حاصل کرنے کی فلاسفی پر انکی نظر نہ پڑسکے، سو اس ہنر سے عالمی سامراج مشرق بعید کے جزائر مشرقی ٹیمور کوانڈونیشیا جیسے مسلم ملک سے کاٹ کر دوقومی نظریہ کے اصول پر جدا مذہب کے نام سے عیسائی ملک بنا چکا ہے اور افریقا کے مسلم ممالک میں بھی تشدد پسند اسلامی تنظمیں بناکر انکی خلق آزاری سے کافی مسلم عوام کو انکے ایذائوں سے بچنے کیلئے عیسائیت میں بھیج کر جاء پناہ دلائی گئی ہے۔ اسطرح سے بعد میں جب وہاں ریفرینڈم کرایا گیا تو عیسائی آبادی بھی مسلم آبادی کے تعداد کو پہنچ گئی، پھر جھٹ سے انکو بھی مذہب کے بنیاد پر پاکستان کی طرح جدا مملکت کا حق دلاکر اقوام متحدہ کا ممبر بھی بنادیا۔ جس ادارہ اقوام متحدہ کا وجود بھی فرمی میسن کا مرہون منت ہے۔ اس فری میسن کے ہاتھ اب پاکستان کے گلے میں ہیں، یہاں کی مذہبیت بھی قرآن کے نظریات کے سراسر خلاف ہے اور مذہب کے نام پر تشدد کرنے والی تنظیموں کا کیا تعارف کرائیں، میرے پاس ہیرالڈ رسالے کے ایک مضمون کی فوٹو اسٹیٹ کاپی موجود ہے جو کسی فوجی کیپٹن کا لکھا ہوا ہے، وہ لکھتا ہے کہ شروع پاکستان کے وقت ملکی افواج کی چھاونیوں میں ملک کی جملہ تنظیموں کے داخلے، پر چار اور ممبرشپ پر بندش تھی سواء تبلیغی جماعت کے، کچھ عرصہ بعد فوجی قیادت نے سوچا کہ کیوں نہ اس جماعت کے اساسی پس منظر سے لیکر اب تک، انکو سمجھاجائے پھر یہ ڈیوٹی ملٹری انٹیلیجنس کے ذمے لگائی گئی، جنکی انویسٹیگیشن رپورٹ تیار ہوکر ملی تو انہوں نے شبہ ظاہر کیا کہ انکے بنیاد میں کہیں فری میسن کی کار فرمائی نہ ہو۔جسکے سارے کام سینہ بسینہ باطنی رازوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔  پهراس رپورٹ کے بعد چھاونیوں میں تبلیغی جماعت کے داخلہ پر بندش لگائی گئی لیکن کیا کریں ہمارے افسران رائیونڈ کی حاضری لگاتےرہتے ہیں۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر مرحوم کا کہنا تھا کہ اگر سمندر کے تہہ میں دومچھلیاں لڑینگی تو مجھے شبہ ہوگا کہ کہیں انکی جنگ میں بھی عالمی استعمار کی کارفرمائی نہ ہو۔

"لوگوں کو عیسائی بنانےکا نیافارمولا"
انیسویں صدی کے اخیر میں اکیسویں صدی کے استقبال کے وقت عالمی سامراج نے  دیکھا کہ مسلم امت کے اندر انکے کابرین یہود مجوس و نصاری کے اتحاد ثلاثہ کی تیار کرائی ہوئی  احادیث کو انکے نصاب کو تعلیم میں شامل کرنے کا اب وقت ہے، جن کو عباسی مدعیان آل رسول نے نبوامیہ کو شکست دیکر قرآن کو درس گاہوں اور عدالتوں سے بے دخل کرکے انہیں ذریعہ تعلیم بنایا اور عدالتوں پر حکمران بنایا تھا آجکل بیسویں صدی میں انکے بنائے ہوئے علم حدیث کا اندرونی تبرائی روپ ظاہر ہورہا ہے، سویہ اب زیادہ عرصہ مسلم معاشروں کی درسگاہوں میں نہیں پڑھایا جاسکے گا، جیسے کہ امام بخاری کی کتاب الصحیح کے اندر کتاب النکاح کی حدیث نمبر 114 میں زمانہ جاہلیت یعنی قبل از نبوت نکاح کے چار اقسام بتاکر اصحاب رسول کی ایک بڑی جماعت کو اس حدیث میں اولاد زنا قرار دیا گیا ہے العیاذ باللہ۔ اسلئے عالمی سامراج اور انکی طرف سے مسلم امت میں داخل کردہ بہروپیوں نے طے کیا ہے کہ کیوں نہ علم حدیث کو بھی بچائیں اور اس علم کی روایات کے نام سے مسلم امت کی کتاب قرآن میں قرآئات کے ناموں سے ایک قرآن کی جگہ سولہ اور بیس یا مزید بھی کئی سارے قرآن بنادیں پھر کتاب قرآن میں سولہ اور بیس بار تحریفی حروف و حرکات سے اسکے انقلابی اور اصلاحی مفاہیم کا رخ ہی پھیر دیں- یعنی ان احادیث کے مفاہیم کو سولہ اور بیس قرائتوں کی ہیرا پھیریوں سے قرآن کے اندر لے آئیں، جس سے آگے انکا والا خالص نسخہ کا ایک قرآن بقیہ پندرہ یا انیس ملاوٹی قرآنوں کی کثرت اشاعت سے جو کویت اور سعودی حکومت کی لامحدود دولت سے اتنے تو کروڑوں کی تعداد میں شائع کریں جو جناب محمد علیہ السلام والا اصلی نسخہ ڈونڈھے سے بھی نہ ملے اور جب یہ جدید قرائتوں کے ناموں سے ملاوٹ کردہ قرآن لوگوں کو دیں یا سمجھائیں پھر اگر وہ اسے قبول کرنے اور ماننے سے انکار کریں تو انکو "بلاسفیمی لا" کے ذریعہ سے سامراج کی پٹھوں مسلم ملکوں کی عدالتوں میں منکر قرآن قرار دیکر عمر قید اور پھانسی کی سزائیں دلائیں!!

 محترم قارئین!
 میری یہ عرضداشت کوئی میری کھوپری کی اختراع نہیں ہے، بلکہ یہ انکی ہی بات ہے جو خود انکے قلم سے لکھی ہوئی ہے جسے حوالہ کے ساتھ میں آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔ فرقہ اہل حدیث کا آرگن مجلہ ماہوار رشد جو لاہور سے شائع ہوتا ہے اسکے بڑے ضخیم تین عدد شمارے قراءات نمبر کے طور پر 2009ع شائع ہوچکے ہیں جسکے پہلے شمارہ میں مضمون نگار انکی احادیث میں قرائات کے ثبوت میں جو احکام ہیں انکے لئے جمع کتابی کےعنوان سےتحت لکھتا ہے کہ۔ چوتھا فائدہ: جمع کتابی کا ایک انتھائی اہم فائدہ یہ ہے کہ فتنہ انکار حدیث کی سرکوبی ہوگی، کیونکہ انکار حدیث کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ احادیث سے قرائات کا ثبوت ہوتا ہے، جو کہ منکرین قرائات کے مطابق قرآن کی قطعیت کے منافی ہے۔ لہٰذا وہ احادیث جن میں قرائات کا ذکر ہے غیر مستند ہیں اور جن راویوں سے وہ روایات منقول ہیں وہ غیر ثقہ ہیں۔ جب قراءت مصاحف کی شکل میں موجود ہونگی تو جسطرح قرائات کا انکار ناممکن ہوگا اس طرح انکار حدیث جو قرائات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ختم ہوجائیگا اور اس سے انکار حدیث کی باقی بنیادوں پر بھی زد پڑے گی۔ (اقتباس ختم ازماہوار رشد صفحہ نمبر 677-678) امید ہے کہ قارئین سمجھ گئے ہونگے۔

 اگر انکی مستقبل کی اسکیموں کی طرف آپ میری طرف سے پیش کردہ اندیشہ کو نہ سمجھ سکے ہوں تو اقتباس کے جملہ سرکوبی پر غور کریں یہ ہی کافی ہے۔ یعنی یہ لوگ مار مار کر لوگوں کو حدیثوں والی قرائات میں جو قرآن کے اندر حروف کی ملاوٹ کی گئی جنکی وجہ سے قرآن کے مفاہیم بھی بدل جاتے ہیں جب انکو کوئی نہیں مانے گا تو ایسے آدمی کو منکر قرآن کی چارجز لگا کر یہ لوگ سامراج کی پٹھو مسلم ملکوں جیسی کٹھ پتلی حکومتوں کے ہاتھوں ملاوٹ شدہ قرآنوں کو نہ ماننے والوں کو عمر قید اور پھانسیں دلائینگے۔ میں نے جو اس ملک کی عوامی جمہوری حکومت کو بھی کٹھ پتلی قرار دیا ہے اسکا ثبوت یہ ہے کہ میری اطلاع کے مطابق موجودہ صدر زرداری صاحب کے پاس اسکا ایک دوست میرا لکھا ہوا مضمون بصورت پمفلیٹ بنام۔ غیرت ایمانی کے اظہار کا وہ طریقہ جو قرآن نے سکھایا۔ لے گیا اور کہا کہ ملک کا قانون جو بلاسفیمی لاہے وہ خلاف قرآن ہے اور غلط ہے جسکے قرآن سے دلائل اس مضمون میں اسطرح تو دئے گئے ہیں جو ان کا کوئی جواب نہیں ہے، تو جواب میں صدر صاحب نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، اس قانون کو میں بھی صحیح نہیں سمجھتا اور بات قرآنی دلائل کی بھی نہیں ہے، اصل میں اس ملک کی مذہبی پیشوائیت کی مرضی اور منظوری کے بغیر اس بل کو ہم  ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے ۔
سامراج کی طرف سے انکی نمائندہ مذہبی پیشوائیت کے اصل حکمران ہونے کے ناطے ایک اور بات بھی عرض کروں۔ ملک کے اہل مطالعہ لوگوں کو علم ہوگا کہ بھٹو کے دور میں جب 1973ع کا آئین تیار کیا گیا تھا اب رسمی طور پر پارلیمانی اجلاس بلاکر اس میں صرف اعلان کرنا تھا، تو اس دن اجلاس کے شروع میں اسپیشل ہوائی جہاز میں وزیر قانون حفیظ پیرزادہ صاحب اسلام آباد سے لاہور جاکر مودودی صاحب سے منظوری لینے گئے کہ آپ اجازت دیں تو آئین کا اعلان کریں، کیا جوڑ ہے، کیا تُک ہے، اسکی معنی تو یہ ہوئی کہ اسمبلی کی حیثیت تو ربڑاسٹمپ سے بھی گئی گذری ہوئی۔

صدر زرداری اور شاہ سعود کے جواب کی مماثلت
مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے اپنی کتاب فلسفہ الثورہ میں لکھا ہے کہ میں ایک سال حج کرنے گیا وہاں حج کے نام سے رسومات اور ارکان حج کو دیکھ کر پریشان ہوا کہ انکا تو قرآن سے جوڑ ہی نہیں لگتا، پھر میں نے بادشاہ شاہ سعود کو کہا کہ تم لوگوں نے یہ رسومات حج کہاں سے لاگو کی ہوئی ہیں؟ تو جواب میں اسنے کہا کہ اس مسئلہ میں آپ چپ رہیں یہ کام مذہبی پیشوائیت کے حوالہ سے ہے ہم اگر انکے کاموں میں دخل دینگے تو ہماری بادشاہی کی خیر نہیں ہوگی۔ اہل مطالعہ تو جانتے ہیں کہ سعودیوں کی مذہبی پیشوائیت برطانوی سی آئی ڈی آفسر کرنل لارینس آف عربیہ کی تیار کردہ تھی۔ پڑھ کر دیکھیں کتاب "ہمفرے کے اعترافات"۔
خمینی انقلاب سے پہلے مسلم ممالک کا عالمی سامراج کی طرف سے ہیڈ کانسٹیبل شاہ ایران تھا، خمینی صاحب کے اوپر چونکہ متنازعہ مذہبی چھاپ تھی اسلئے شاہ والا عہدہ سعودی بادشاہوں کو دیا گیا اور انکے اس پروموشن سے مقصد مسلم طالبانائیزیشن قائم کرکے ان کے ہاتھوں سوویت یونین کو بھی ختم کرنا تھا، ان سب کاموں سے عالمی سامراج نے فرصت پاکر اپنے نیو ورلڈ آرڈر میں رکاوٹ کتاب قرآن کو قرار دیا ہوا ہے، اسلئے سعودی حکومت سے سوویت یونین کے سقوط کے بعد اب انکا ایک قرآن میں ملاوٹیں ڈال ڈال کر اسکا چہرہ بگاڑنا مقصود ہے، اہل مطالعہ کو یاد ہوگا کہ ایک امریکی صدر نے سوویت یونین کے صدر غالبا برزنیف کو خط لکھا تھا کہ ہمیں آپکے کمیونزم سے اتنا خطرہ نہیں ہے، جتنا کتاب قرآن (کے معاشی نظام) سے خطرہ ہے۔ اسکے لئے پاکستان کے شہر لاہور کے اہل حدیثوں کے  کلیہ نامی مدرسہ کے قاری لوگوں نے اپنی تنخواہیں حلال کرکے کھانے کیلئے ایک قرآن سے سولہ  قرآن جدا جدا قرائات جدا جدا حروف اور اعرابوں کی ردوبدل سے تیار کرکے رکھے ہیں اس بات کا اعلان انہوں نے اپنے ماہوار رسالہ الرشد شمارہ 4 ماہ جون 2009ع میں کیا ہواہے ایسے محرفین قرآن کا شجرہ نسب سمجھنے کے لئے تاریخ کے اس واقعہ سے ان لوگوں کا تعارف حاصل مرعں کہ، امام انقلاب عبیداللہ سندھی جب جلاوطن ہوکر آزادی کی ہلچل کیلئے کابل میں جاکر رہے تھے، ان دنوں انگریزوں نے اپنی جنگل کی حویلی کے فاضل شخص انگریز عیسائی کو جامع مسجد کابل کا پیش امام بنوایا تھا، تاکہ وہ وہاں سے سندھی صاحب کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ۔

عالمی سامراج کی، جڑتو اسلامی نصاب تعلیم سے ہمدردی
 میں سال 1983ع میں جب حج پر گیا تھا تو مجھے بتایا گیا کہ مکۃ المکرمہ کی جامعہ ام القریٰ یونیورسٹی کا وائیس چانسلر اور مدینۃ المنورہ یونیورسٹی کا وائیس چانسلر ان دونوں نے تفسیر اور علم حدیث میں انگلینڈ کی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے۔ جہاں اسلامیات کے استاد پروفیسر سارے یہودی اور نصاریٰ ہیں۔
قرآن میں حرفی ملاوٹ کے انکشاف کو عرصہ ہوگیا جس سے اصل میں ناموس رسالت کی بھی توہیں ہوئی ہے پھر بھی ناموس رسول اور قرآن کی ہتک آمیزی پر مذہبی پیشوائیت نے  آج تک کوئی احتجاج نہیں کیا، کیوں؟
مسلم امت کے عامۃ الناس لوگوں کے متعلق ہمارا  یقین ہے کہ انکی دلوں میں جتنی محبت اور عقیدت جناب رسول علیہ السلام سے متعلق ہے بعینہ انکی وہی محبت اور عقیدت اللہ کی کتاب قرآن حکیم سے بھی ہے۔ یہاں سوال ہے مذہبی قیادت اور نام چڑھے پیشوائوں کے متعلق کہ تاریخ اسلام کے اتنے بڑے سانحہ پر انکے کانوں پر جوں تک بھی نہیں رینگی وہ کیوں؟ اصل بات یہ ہے ک مسلم امت کو کعبۃ اللہ کے مصلے سے لیکر ملکہا ملکوں میں عالمی سامراج نے مذہبی قیادت آرٹیفیشل اور جڑتو دی ہوئی ہے، جسکی باگ ڈور بھی انکے ان داتا سامراج کے ہاتھوں میں ہے، سامراج کے ماہرین سیاست اپنے پروردہ قائدین مذہب کی ساکھ قائم کرنے کیلئے ان سے گو امریکہ گو اور اسرائیل مردہ باد قسم کے نعرے لگواکر انکی سامراج دشمنی اور اسلام دوستی کی پت بڑھاتے رہتے ہیں یعنی خود کو گالیاں دینے کا بھی انہیں مالی معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ بڑا زمانہ گذر چکا ہے جو اس مذہبی قیادت نے امت مسلمہ کو یہ باور کرایا ہوا ہے کہ زندگی کے مسائل حیات علم حدیث اور امامی فقہوں سے سیکھنے ہیں اور کتاب قرآن صرف مرے ہوئے لوگوں کو ایصال ثواب کی خاطر پڑھنا ہے اور بس۔ سو یورپ اور امریکہ میں رہنے والے مسلم اسکالروں نے ہمیں بتایا ہے کہ وہاں کے لوگ جو جناب رسول علیہ السلام کی حیات اقدس کے خلاف  گستاخانہ خاکوں پر مشتمل فلمیں بناتے رہتے ہیں وہ جزوی طور اسلامی کتابوں کے علم حدیث سے ایسی گستاخی والی باتیں اخذ کرتے ہیں، پھر ایسی فلموں کو یوٹیوب میں ڈالکر دنیا والوں کے سامنے ہمارے رسول کی کردار کشی کرتے ہیں، پھر عالمی طاقتوں کے اسلام دشمن خفیہ ادارے آرٹیفیشل مذہبی قیادت سے انکے ایسے عمل کے خلاف احتجاج بھی خود کراتے ہیں، تاکہ دنیا کے اہل علم لوگ احتجاجوں کی وجہ سے مسلم امت کے علم حدیث میں جناب رسول کی وہ فلمی گستاخیوں کے مأخذات خود پڑھ کر حدیثوں والی سیرت رسول کو دیکھیں! یہ اسلام دشمن قوتیں اگر اپنے جاری کردہ گستاخانہ فلموں کے خلاف خود احتجاج نہ کرائینگی تو ہر کوئی شخص ان کی اس قسم کی حرکتوں کو مذہبی رقابت قرار دیکر مسلم امت کے دین اسلام اور سیرت رسول سے متعلق علم حدیث کو پڑھنے اور  فلمی خاکوں کی جانچ پڑتال کرنے کو اہمیت نہیں دیگا، یہ پسمنظر جو یورپ میں رہنے والے اسکالروں نے ہمیں بتایا ہے میں راقم عزیزاللہ بھی انکی اس بات کو غلط قرار دے دیتا، لیکن میں اس شش ہ پنج میں ہوں کہ کعبہ کے متولی سعودی حاکموں اور انکے ہمنوا اہل حدیثوں نے سالوں سے جب ایک قرآن سے بڑھاکر حرفی ملاوٹوں والے مزید اب تک انیس قرآن تیار کر ڈالے ہیں تو انکے خلاف ہمارے ملک کی مذہبی قیادت کیوں نہیں بھڑک اٹھی؟ اور عام مسلم امت والوں کو اس سانحہ سے کیوں بے خبر رکھا؟؟؟ سو لگتا ہے کہ دال میں کوئی کالی چیز ہے یا پوری دال ہی کالی ہے۔ اس دال میں جو کا لک ہے وہ یہ ہے کہ اگر سامراج والے مسلم مذہبی قیادت کو ناموس قرآن کی ہتک کے خلاف احتجاجوں کی اجازت دیگی تو اس سے پھر دنیا کے علمی جستجو والے سنجیدہ لوگ کتاب قرآن کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوجائینگے ،جسکو وہ لوگ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، اسلئے کہ تعلیم قرآن سے ان انقلابوں کا دروازہ کھل جائیگا جن سے استحصالی جاگیرداروں اور سرمایہ دروں کے تاج اچھالے جائینگے اور تخت گرائے جائیں گے۔

ازاول تاہنوز قرآن کے نسخہ محمدی کو صفحہ ہستی سے ہٹانے کی اسکیم!!
جناب رسول علیہ السلام کےمبارک دائیں ہاتھ سے لکھے ہوئے قرآن حکیم کی ماسٹر کاپی سے آپ جناب کی نگرانی میں روزانہ صبح و شام قرآن لکھوانے کی کلاسیں قائم کرکے جماعت اصحاب کرام کی بڑی ٹیم کو اسکے کئی نسخے لکھوا کر حیات طیبہ میں ہی اطراف مملکت میں پہنچائے جاتے تھے (5-25) اور یہی سلسلہ دور نبوی کے بعدبھی سرکاری طور پر جاری رہا، پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ کام پرائیویٹ طور پر بھی تاہنوز جاری ہے۔
موجودہ نسخہ قرآن اور اسکی قرائت محمدی ہے (18-17-75) علم حدیث ساز، قرآن کے دشمنوں نے جمع قرآن، قراءت قرآن، اور کتابت قرآن، ان تینوں کارناموں سے جناب رسول کو الگ تھلگ دکھاکر انہیں پہلے تین خلفا کے کھاتے میں گنوایا ہے، یہ صرف اس  مقصد کی خاطر کہ عرب سے باہر کے ملک اور اقوام جو انکے دور خلافت میں مفتوح ہوئے تھے، سو قرآن کو انکے فاتحین کا مجموعہ قرار دیتے ہوئے شکست کے صدمہ اور غصہ کے انتقام میں، فاتحین کے ناموں سے فطری طور پر  پیدا ہونے والی نفرت کو بڑھاکر مفتوحین فارس روم اور افریقن اقوام کو قرآن سے نفرت دلائی جائے۔

زمانہ نبوت میں جن لوگوں نے جناب رسول سے مطالبہ کیا تھا کہ :
 وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَـذَا أَوْ بَدِّلْهُ (15-10)
 یعنی اسکے سواء کوئی اور قرآن دویا اسمیں تبدیلی لاؤ تو انکے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے آج کی پندرھویں صدی میں سعودی حکمرانوں اور لاہور شہر کے رشدی اہل حدیثوں نے ملکر ایک سے بڑھاکر فی الحال انیس قرآن بناڈالے ہیں یہ سب اس فلسفہ اور حکمت کے تحت بھی ہے جو زمانہ نبوت میں منکرین قرآن نے کہا تھا کہ  :
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (26-41)
 یعنی اس محمدی نسخہ قرآن کو نہ سنو! اور اس میں اتنی تو لغویات داخل کرو جن کے زور سے تم غالب ہوجائو، سو ان سامراج کے پروردوں کی یہ اسکیم دیکھنے میں آرہی ہے کہ یہ لوگ اپنی ملاوٹوں والے انیس عدد قرآن مدینۃ الرسول کے مقدس نام کے تقدس سے ملاوٹی انیس  ایڈیشن لا تعداد حساب سے چھاپ چھاپ کردنیا میں مفت تقسیم کرینگے  اور قرآن حکیم کے موجودہ اصلی محمد ی نسخہ جسکو انہوں نے حفص کی قرائت والا مشہور کیا ہوا ہے اسکی چھپائی اور تیاری کو گم کرتے جائینگے اس اسکیم سے یہ لوگ اصلی محمدی نسخہ قرآن پر غالب آجانا چاہتے ہیں۔
سعودی حکومت نے جو حرفی ملاوٹ والا ورش نامی قرآن انٹرنیٹ پر لایا ہے اسکی آئی ڈی یہ ہے (www.islamweb.net) پہلے تو مسلسل انکا والا قرآن اسپر موجود ہوتا تھا اب کبھی ہوتا ہے کبھی ہٹا دیتے ہیں۔ ہم نے اپنے سیٹ میں سیو کر لیاہے۔





No comments:

Post a Comment