Wednesday, December 26, 2012

ولدیت ِ حضرت عیسٰی اور حضرت مریم علیہ السلام کی بن بیاہی ماں کے تصور پر قرآنِ کریم خاموش کیوں؟



ولدیت ِ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام کی بن بیاہی ماں کے تصور پر قرآنِ کریم خاموش کیوں؟

   کا جواب۔ ایک تحقیقی مکالہ



باسمِ ربی۔ ہمارے محترم بھائی محمد حنیف صاحب کے بقول """جو سوال کیا علامہ پرویز صاحب سے اُس کا مدلل جواب ملا۔ سوائے دو سوالات کے ۔
سوال نمبر ۱۔۔۔ ایک بار میں نے پوچھا ۔ بابا جی آپ کہتے ہیں اللہ اپنی سنت نہیں بدلتا۔ تو کیا انسانوں سے بات کرنا خدا کی سنت ھے۔ اور اگر نہیں تو کیا یہ سارے انبیاء علیہ السلام انسان نہ تھے۔ اور ان انبیاء علیہ سلام سے براہ راست بات، کیا سنت اللہ میں اپنی منشاء کے ساتھ تبدیلی نہیں؟

جواب
میرے محترم برادر محمد حنیف صاحب ناجانے کس ترنگ میں یہ فرما گئے کہ کیا سنت اللہ میں اپنی منشاء کے ساتھ تبدیلی نہیں؟ حالانکہ قرآنِ کریم کی آیت کریم کس ایمان افروز انداز میں منشاء ربی کی نقاد ھے۔ سورہ الشوریٰ میں فرمایا کہ
 وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ﴿٥١﴾۔
ترجمہ۔۔۔ کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے روبرو بات کرے اُس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اُس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے، وحی کرتا ہے، وہ برتر اور حکیم ہے (51)۔ از مولانا مودودی
اب یہ بات تو بتاتے ھوئے مجھے خود شرم آ رہی ھے کہ میں آپ کو یہ بھی بتاوں کہ وحی کے لئے خدا خود کسی کو منتخت کرتا ھے۔ سورہ البقرہ میں ھے کہ
مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴿١٠٥﴾۔
ترجمہ۔۔۔ یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو، مگر اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے (105)۔
 مزید ریفرنسز کے لئے علامہ پرویز صاحب کی کتاب مفہوم القرآن کے صفحہ ۱۳۸۲ پر ۷ دیگر حوالے آپ کو جواب دینے کے لئے مستعد ہیں۔ یہ ھے سنت اللہ کہ وہ جس کو چاھتا ھے اپنی رحمت سے نوازنے کے لئے چن لیتا ھے۔ آپ کے پہلے سوال پر علامہ صاحب آپ کے قرآنی علم سے اس قدر متاثر ھوئے ھونگے کہ انہوں نے چپ سادھ لینا ہی بہتر جانا ھو گا۔
ویسے منشاءاللہ کے حوالے سے علامہ پرویز صاحب مرحوم کی وضاحت اُن کی ہر کتاب میں مل سکتی ھے۔ آپ کو نہیں ملے تو اس کو بدقسمتی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ھے۔ میرے محترم برادر ذرا غور کریں۔ بڑی واضح صدر آیت ھے۔ جو یہ بتاتی ھے کہ منشاء اللہ کیا ھے۔
،،،ثم تتفکرو۔ ،،،

سوال نمبر ۲۔۔۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ نزول قرآن کے وقت یہ عقیدہ عام تھا کہ عیسٰی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ مریم صادقہ بن بیاہے ان کی ماں بن گئی ہیں۔ ایسے عقیدے کی موجودگی میں آخر کیوں پورے قرآن میں اس واحد نبی کو اپنی ماں کے نام سے پکارا گیا؟
قرآنِ کریم میں بار بار "عیسٰی ابنِ مریم" کے الفاظ اس عقیدے کو مضبوط کرتے ہیں یا رد کرتے ہیں؟
میرےان سوالات کے جواب پرویز علیہ رحمتہ نے خاموشی اختیار کی اور میں تشنہ و ناکام واپس لوٹ آیا۔ اور پھر۱۹۸۵میں ہم اس عظیم انسان سے محروم ھو گئے۔""" یہ ہی دو سوالات میں آج تک ہر انسان سے کرتا ھون جس سے مجھے توقع ھوتی ھے لیکن مجھے اس کا شافی جواب نہیں ملتا۔ اس کے بعد عربی سیکھی۔ قرآنِ کریم کو اپنی فہم سے سمجھنے کی کوشیش کی۔ اپنے اسلاف کے اس لٹریچر کو پڑھا۔ جسے لوگ عجمی سازش، یہودی ایجنٹ اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر پکارتے ہیں۔

جواب
پیارے بھائی محمد حنیف صاحب چلئیے دیکھتے ہیں کہ کیا قرآنِ کریم خاموش ھے یا اُس نے تمام بات کو پایہ ثبات تک پہنچا دیا ھے اور علامہ پرویز صاحب نے آپ کے سوالات کرنے پر چپ کیوں سادھ لی تھی۔  حالانکہ جن علماء دین نے دینِ اسلام پر ایک منفرد اور اچھی تحقیق پیش کی علامہ پرویز صاحب کا نام اُن مین بڑے ادب سے لیا جاتا ھے۔ علامہ پرویز صاحب کی  کتاب شعلہ مستور کا ایک لنک پیش کر رہا ھوں جو یہ بتائے گا کہ علامہ پرویز صاحب  نے آپ کے سوالات پر چپ کیوں سادھ لی تھی۔
۔
جہاں تک میں علامہ پرویز صاحب سے واقف ھوں تو میں یہ جانتا ھوں کہ علامہ پرویز صاحب اپنی بات کہہ دینے کے قائل تھے۔ بار بار تنقید و جبر اُن کو پسند نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بقول آپ برادر محمد حنیف صاحب، جب انہوں نے آپ کو ایک مرتبہ تاکید کر دی کہ آپ اُن کی کتب کا مطالعہ کر لیں۔ تو بغیر مطالعہ کئے ایسے سوالات کرنے سے علامہ پرویز صاحب کو حیرت و صدمے اور تاسف نے آ گھیرا۔ کہ اس قدر اچھی باتیں کرنے والا ایک با شعور و باعلم نوجوان کے اعمال کس قدر غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ اب اور کیا کہتے۔  اُن کے لئے ماسوائے چپ بچا ہی کیا تھا۔ اگر وہ یہ کہتے کہ آپ نے شعلہ مستور پڑھے بغیر ایسے سوالات اُٹھائے ہیں باوجود اس کے کہ آپ کو تاکید کی گئی تھی کہ پہلے تمام کتب کا مطالعہ ضرور کر لیں۔ اس غیر ذمہ دارانہ طرزِ فکر و عمل پر بات کرتے تو یہ ایک فضول بحث ھوتی۔ جو اُن کے شایانِ شان ہرگز نہ ھوتی۔ 
·                     خیر ممکن ھے کہ علامہ پرویز صاحب کی کوئی دوسری وجہ بھی چپ کی ھو۔ مگر یہ بات نہایت واضح ھے کہ علامہ پرویز صاحب نے کم ازکم حضرت عیسٰی۴ اور حضرت مریم علیہ السلام پر لگائے گئے الزامات کو بدلیل واضح کیا ھے۔ اُن کی چپ اُن کی کم علمی پر دلالت نہیں کرتی۔ اب تو محترم برادر محمد حنیف صاحب آپ ہی بتا سکتے ہیں کہ شعلہ مستور کو علامہ پرویز صاحب کی زندگی کے بعد شائع کیا گیا تھا یا وہ کتاب اُس وقت موجود تھی مگر آپ نے اُس کے مطالعہ کو ضروری نہیں جانا۔ اور انتہا یہ کر دی کہ الٹا علامہ مرحوم پر الزام تراشی کا راستہ اپنایا۔ جو آپ کی شایانِ شان ہرگز نہین۔ ثم تتفکرو۔
Shah Baba بہت شکریہ بھٹی صاحب۔۔۔ اور اس قسم کے اور بھی تمام سوالات کے جوابات بہت ھی مدلل و مفصل انداز میں Baseerat E Haq پیش کر چکے ھیں۔۔۔۔ ھم نے وہ جوابات جو کہ سائیں بابا کی پوسٹ پر دئیے گئے تھے، ان کے لکھے گئے ولادت عیسیٰ کے متعلق ایک بچگانہ مضمون پر جا کر پیسٹ کئے تو وہ کمنٹس ڈلیٹ کر دئیے گئے۔۔۔۔۔
Shah Baba شعلہ مستور۔۔۔۔۔۔ پی ڈی ایف فارمٹ۔۔۔۔
http://www.parwez.tv/ebooks/shola-e-mastoor/shola-e-mastoor.html
shola-e-mastoor

2 comments:

  1. ۞
    وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ ٱللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَآئِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًۭا فَيُوحِىَ بِإِذْنِهِۦ مَا يَشَآءُ ۚ إِنَّهُۥ عَلِىٌّ حَكِيمٌۭ
    (42:51)

    کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے روبرو بات کرے اُس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اُس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے، وحی کرتا ہے، وہ برتر اور حکیم ہے
    (42:51)ابوالاعلی مودودی

    اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسٰی علیہ السلام سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لئے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہوگا)، بیشک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے،
    (42:51)طاہر القادری

    ابن کثیر
    قرآن حکیم شفا ہے مقامات و مراتب و کیفیات وحی کا بیان ہو رہا ہے کہ کبھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں وحی ڈال دی جاتی ہے جس کے وحی اللہ ہونے میں آپکو کوئی شک نہیں رہتا جیسے صحیح ابن حبان کی حدیث میں ہے کہ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونکی ہے کہ کوئی شخص بھی جب تک اپنی روزی اور اپنا وقت پورا نہ کر لے ہرگز نہیں مرتا پس اللہ سے ڈرو اور روزی کی طلب میں اچھائی اختیار کرو ۔ یا پردے کی اوٹ سے جیسے حضرت موسیٰ سے کلام ہوا ۔ کیونکہ انہوں نے کلام سن کر جمال دیکھنا چاہا لیکن وہ پردے میں تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالٰی نے کسی سے کلام نہیں کیا مگر پردے کے پیچھے سے لیکن تیرے باپ سے اپنے سامنے کلام کیا یہ جنت احد میں کفار کے ہاتھوں شہید کئے گئے تھے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ کلام عالم برزخ کا ہے اور آیت میں جس کلام کا ذکر ہے اس سے مراد دنیا کا کلام ہے یا اپنے قاصد کو بھیج کر اپنی بات اس تک پہنچائے جیسے حضرت جبرئیل وغیرہ فرشتے انبیاء علیہ السلام کے پاس آتے رہے وہ علو اور بلندی اور بزرگی والا ہے ساتھ ہی حکیم اور حکمت والا ہے روح سے مراد قرآن ہے فرماتا ہے اس قرآن کو بذریعہ وحی کے ہم نے تیری طرف اتارا ہے کتاب اور ایمان کو جس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہم نے اپنی کتاب میں ہے تو اس سے پہلے جانتا بھی نہ تھا لیکن ہم نے اس قرآن کو نور بنایا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم اپنے ایمان دار بندوں کو رارست دکھلائیں جیسے آیت میں ہے (قل ھو اللذین امنوا) کہدے کہ یہ ایمان والوں کے واسطے ہدایت و شفا ہے اور بے ایمانوں کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی ہیں پھر فرمایا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم صریح اور مضبوط حق کی رہنمائی کرر ہے ہو پھر صرط مستقیم کی تشریح کی اور فرمایا اسے شرع مقرر کرنے والا خود اللہ ہے جس کی شان یہ ہے کہ آسمانوں زمینوں کا مالک اور رب وہی ہے ان میں تصرف کرنے والا اور حکم چلانے والا بھی وہی ہے کوئی اس کے کسی حکم کو ٹال نہیں سکتا تمام امور اس کی طرف پھیرے جاتے ہیں وہی سب کاموں کے فیصلے کرتا ہے اور حکم کرتا ہے وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جو اس کی نسبت ظالم اور منکرین کہتے ہیں وہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے۔
    (42:51)

    ReplyDelete
  2. تفسیر عثمانی,مولانا محمود الحسن
    کوئی بشر اپنی عنصری ساخت اور موجودہ قویٰ کے اعتبار سے یہ طاقت نہیں رکھتا کہ خداوند قدوس اس دنیا میں اس کے سامنے ہو کر مشافہۃً کلام فرمائے اور وہ تحمل کر سکے۔ اسی لیے کسی بشر سے اس کے ہمکلام ہونے کی تین صورتیں ہیں (الف) بلاواسطہ پردہ کے پیچھے سے کلام فرمائے، یعنی نبی کی قوتِ سامعہ استماعِ کلام سے لذت اندوز ہو مگر اس حالت میں آنکھیں دولت دیدار سے متمتع نہ ہو سکیں۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃ الاسراء میں پیش آیا۔ (ب) بواسطہ فرشتہ کے حق تعالٰی کلام فرمائے مگر فرشتہ متجسد ہو کر آنکھوں کے سامنے نہ آئے۔ بلکہ براہ راست نبی کے قلب پر نزول کرے اور قلب ہی سے ادراک فرشتہ کا اور صوت کا ہوتا ہو۔ جو اس ظاہرہ کو چنداں دخل نہ رہے۔ میرے خیال میں یہ صورت ہے جس کو عائشہ صدیقہ کی حدیث میں "یاتینی فی مثل صلصلۃ الجرس" سے تعبیر فرمایا ہے اور صحیح بخاری کے ابواب بدء الخلق میں وحی کی اس صورت میں بھی اتیانِ ملک کی تصریح موجود ہے۔ اس کو حدیث میں "وہو اشدہ علی" فرمایا اور شاید وحی قرآنی بکثرت اسی صورت میں آتی ہو جیسا کہ "نزل بہ الروح الامین علی قلبک۔" اور "فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ" میں لفظ "قلبک" سے اشارہ ہوتا ہے۔ اور چونکہ یہ معاملہ بالکل پوشیدہ طور پر اندر ہی اندر ہوتا تھا پیغمبر کے وجود سے باہر کوئی علیحدہ ہستی نظر نہ آتی تھی اور نہ اس طرح کلام ہوتا تھا جیسے ایک آدمی دوسرے سے بات کرتا ہو کہ پاس بیٹھنے والے سامعین بھی سمجھ لیں اس لیے اس قسم کو خصوصیت کے ساتھ آیت ہذا میں لفظ "وحیا" سے تعبیر کیا۔ کیونکہ لغت میں "وحی" کا لفظ اخفاء اور اشارہ سریہ پر دلالت کرتا ہے۔ (ج) تیسری صورت یہ ہے کہ فرشتہ متجسد ہو کر نبی کے سامنے آجائے اور اس طرح خدا کا کلام و پیام پہنچا دے جیسے ایک آدمی دوسرے سے خطاب کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت جبرائیل ایک دو مرتبہ اپنی اصل صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ اور اکثر مرتبہ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں آتے تھے۔ اور کبھی کسی غیر معروف آدمی کی شکل میں بھی تشریف لائے ہیں۔ اس وقت آنکھیں فرشتہ کو دیکھیتں اور کان ان کی آواز سنتے تھے اور پاس بیٹھنے والے بھی بعض اوقات گفتگو سنتے اور سمجھتے تھے۔ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں جو دو قسمیں بیان ہوئی ہیں، ان میں سے یہ دوسری صورت ہے۔ اور میرے خیال اسی کو آیہ ہذا میں "اویرسل رسولًا فیوحی باذنہ مایشآئُ" سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ باقی حجاب والی صورت چونکہ بالکل نادر بلکہ اندر تھی اس لیے عائشہ کی حدیث میں اس سے تعرض نہیں کیا گیا۔ ف ٢ یعنی اس کا علو مانع ہے کہ بے حجابکلام کرے اور حکمت مقتضی ہے کہ بعض صورتیں ہمکلامی کی اختیار کی جائیں۔
    (42:51)

    تفسیر مکی
    ١ اس آیت میں وحی الٰہی کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں پہلی یہ کہ دل میں کسی بات کا ڈال دینا یا خواب میں بتلا دینا اور یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ دوسری، پردے کے پیچھے سے کلام کرنا، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوہ طور پر کیا گیا، تیسری، فرشتے کے ذریعے اپنی وحی بھیجنا، جیسے جبرائیل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر آتے اور پیغمبروں کو سناتے رہے۔
    (42:51)

    ReplyDelete