Monday, December 3, 2012

اصحاب رسولؓ اور ازواج مطہرات ؓ كا لکھوایا مبينہ قرآن اور آج كا قرآن۔۔۔؟



اصحاب رسولؓ اور ازواج مطہرات ؓ  كا لکھوایا مبينہ قرآن اور آج كا قرآن۔۔۔؟


اہل روایت کے مطابق اصحاب رسولؓ اور ازواج مطہرات ؓ  كا لکھوایا مبينہ قرآن اور آج كا قرآن۔۔۔؟


اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شمشاد احمد
ارے نہيں حيدر بھائي۔۔۔‌توسي مائي باپ ہو۔۔‌ معذرت كس بات كي۔۔۔۔ ہم كس كھيت كي مولي ہيں۔۔۔
اصلاعا عرض ہے كہ يہ دھاگہ حضرت علي كے مبينہ قرآن كے‌نظريے كو سمجھنے يا سمجھانے كے‌ليے ہي بنايا گيا ہے۔۔ رانا صاحب تو جملہ معترضہ ہيں۔۔
اسي نظريے سے‌متعلق مختلف جہتوں سے ايك سنجيدہ بحث جاري ہے۔۔۔ اس ميں كسي كي ہار جيت كا سوال نہيں ايك سنجيدہ اور اہم موضوع پر گفتگو چل رہي ہے۔۔ اگر آپ شامل ہونا چاہيں تو جم جم جيو جي۔۔۔اور اگر بار خاطر پر گراں گزر رہي ہے تو اس كے بھي كئي حل ہيں جو پسند آئے اختيار كر ليجئے۔۔۔۔ ہماري كيا مجال چوں چراں‌كرنے كي۔

رانا صاحب تو جملہ معترضہ ہيں۔۔

9 -
کتاب صلوة الجماعة : ( 33 )
نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان
عن مالک أنه بلغه أن عروة بن الزبير وسعيد بن المسيب کانا يصليان النافلة وهما محتبيان
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 285 حدیث مرفوع
ابو یونس سے روایت ہے کہ حکم کیا مجھ کو ام المومنین حضرت عائشہ نے کلام کے لکھنے کا اور کہا کہ جب تم اس آیت پر پہنچو (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى) 2۔ البقرۃ : 238 ) تو مجھ کو خبر کر دینا پس جب پہنچا میں اس آیت کو تو خبر دے دی میں نے ان کو، کہا انہوں نے یوں لکھو حافظو علی الصلوت والصلوة الوسطی والصلوة العصر یعنی محافظت کرو نمازوں پر اور وسطی نماز پر اور عصر کی نماز پر کہا عائشہ سے کہ میں نے سنا اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔
Yahya related to me from Malik that he had heard that Urwa ibn az-Zubayr and Said ibn al-Musayyab used to pray voluntary prayers sitting.

9 - کتاب صلوة الجماعة : (33)
نماز وسطی کا بیان
عن أبي يونس مولی عاشة أم المؤمنين أنه قال أمرتني عاشة أن أکتب لها مصحفا ثم قالت إذا بلغت هذه الآية فآذني حافظوا علی الصلوات والصلاة الوسطی وقوموا لله قانتين فلما بلغتها آذنتها فأملت علي حافظوا علی الصلوات والصلاة الوسطی وصلاة العصر وقوموا لله قانتين قالت عاشة سمعتها من رسول الله صلی الله عليه وسلم
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 286 حدیث موقوف
عمرو بن رافع سے روایت ہے کہ کلام اللہ لکھتا تھا حضرت ام المومنین حفصہ کے واسطے تو کہا انہوں نے جب تم اس آیت پر پہنچو (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی) 2۔ البقرۃ : 238 ) تو مجھے اطلاع کرنا پس جب پہنچا اس آیت پر خبر کی میں نے ان کو تو لکھوایا انہوں نے اس طرح حافظوا علی الصلوات والصلوة الوسطی وصلوة العصر وقومو اللہ قانتین یعنی محافظت کرو نمازوں پر اور بیچ والی نماز پر اور عصر کی نماز پر اور کھڑے رہو اللہ کے سامنے چپ اور خاموش ۔
Yahya related to me from Malik from Zayd ibn Aslam from al-Qaqa ibn Hakim that Abu Yunus, the mawla of A'isha, umm al-muminin said, ''A'isha ordered me to write out a Qur'an for her. She said, 'When you reach this ayat, let me know, "Guard the prayers carefully and the middle prayer and stand obedient to Allah." ' When I reached it I told her, and she dictated to me, 'Guard the prayers carefully and the middle prayer and the asr prayer and stand obedient to Allah.' A'isha said, 'I heard it from the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace.' "

30 - کتاب رضاع کے بیان میں : ( 18 )
رضاعت کی مختلف حدیثوں کا بیان
عن عاشة زوج النبي صلی الله عليه وسلم أنها قالت کان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرمن ثم نسخن بخمس معلومات فتوفي رسول الله صلی الله عليه وسلم وهو فيما يقرأ من القرآنبسم الله الرحمن الرحيم کتاب البيوع
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1149 حدیث مرفوع
حضرت عائشہ نے فرمایا پہلے قرآن شریف میں یہ اترا تھا کہ دس بارہ دودھ پلائے تو حرمت ثابت ہوتی ہے پھر منسوخ ہو گیا اور پانچ بار پلانا ٹھہرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور لوگ اس کو قرآن میں پڑھتے تھے ۔
Yahya related to me from Malik from Abdullah ibn Abi Bakr ibn Hazm from Amra bint Abd ar-Rahman that A'isha, the wife of the Prophet, may Allah bless him and grant him peace, said, "Amongst what was sent down of the Qur'an was 'ten known sucklings make haram' - then it was abrogated by 'five known sucklings'. When the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, died, it was what is now recited of the Qur'an."
Yahya said that Malik said, "One does not act on this."

12 - رضاعت کا بیان : (31)
ایک یا دو گھونٹ دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی
حدثنا محمد بن عبد الأعلی الصنعاني قال حدثنا المعتمر بن سليمان قال سمعت أيوب يحدث عن عبد الله بن أبي مليکة عن عبد الله بن الزبير عن عاشة عن النبي صلی الله عليه وسلم قال لا تحرم المصة ولا المصتان قال وفي الباب عن أم الفضل وأبي هريرة والزبير بن العوام وابن الزبير وروی غير واحد هذا الحديث عن هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن النبي صلی الله عليه وسلم قال لا تحرم المصة ولا المصتان وروی محمد بن دينار عن هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن الزبير عن النبي صلی الله عليه وسلم وزاد فيه محمد بن دينار البصري عن الزبير عن النبي صلی الله عليه وسلم وهو غير محفوظ والصحيح عند أهل الحديث حديث ابن أبي مليکة عن عبد الله بن الزبير عن عاشة عن النبي صلی الله عليه وسلم قال أبو عيسی حديث عاشة حديث حسن صحيح وسألت محمدا عن هذا فقال الصحيح عن ابن الزبير عن عاشة وحديث محمد بن دينار وزاد فيه عن الزبير وإنما هو هشام بن عروة عن أبيه عن الزبير والعمل علی هذا عند بعض أهل العلم من أصحاب النبي صلی الله عليه وسلم وغيرهم وقالت عاشة أنزل في القرآن عشر رضعات معلومات فنسخ من ذلک خمس وصار إلی خمس رضعات معلومات فتوفي رسول الله صلی الله عليه وسلم والأمر علی ذلک
جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1156 حدیث مرفوع مکررات 15
محمد بن علی، معتمر بن سلیمان، ایوب، عبداللہ بن ابی ملیکہ، عبداللہ بن زبیر، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک یا دوگھونٹ دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ اس باب میں ام فضل، ابوہریرہ، زبیر، ابن زبیر سے بھی روایت ہے ابن زبیر، حضرت عائشہ، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ ایک یا دو گھونٹ دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی، محمد بن دینار، ہشام بن عروہ سے وہ اپنے والد سے وہ عبداللہ بن زبیر سے وہ زبیر سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے یہ الفاظ زیادہ بیان کرتے ہیں کہ زبیر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے محدثین کے نزدیک صحیح حدیث ابن ابی ملیکہ ہے ابن ابی ملیکہ عبداللہ بن زبیر سے وہ عائشہ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتی ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس پر بعض علماء صحابہ کا عمل ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ قرآن میں دس مرتبہ دودھ چوسنے پر رضاعت کے حکم کے متعلق آیت نازل ہوئی جو واضح ہے پھر پانچ کا حکم منسوخ ہوگیا اور پانچ دفعہ کا باقی رہ گیا جو معلوم ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی اور یہ حکم برقرار رہا کہ پانچ مرتبہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہیں۔
Sayyidah Ayshah (RA) said on the authority of the Prophet (SAW) that one or two sucks do not establish forbidden relationship (of fosterage).

[Ahmed 3307, Muslim 1450, Abu Dawud 2063, Nisai 3310, Ibn e Majah 1642]

11 - نکاح کا بیان : (172)
بڑی عمر والے کا دودھ پینا
حدثنا أبو سلمة يحيی بن خلف حدثنا عبد الأعلی عن محمد بن إسحق عن عبد الله بن أبي بکر عن عمرة عن عاشة و عن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه عن عاشة قالت لقد نزلت آية الرجم ورضاعة الکبير عشرا ولقد کان في صحيفة تحت سريري فلما مات رسول الله صلی الله عليه وسلم وتشاغلنا بموته دخل داجن فأکلها
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 101 حدیث موقوف مکررات 15
ابوسلمہ ، یحییٰ بن خلف، عبدالاعلی، محمد بن اسحاق ، عبداللہ بن ابی بکر، عمرہ، عائشہ، عبدالرحمن بن قاسم، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رجم کی آیت اور بڑی عمر کے آدمی کو دس بار دودھ پلانے کی آیت نازل ہوئی اور وہ میرے تخت تلے تھی۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا اور ہم آپ کی وفات کی وجہ سے مشغول ہوئے تو ایک بکری اندر آئی اور وہ کاغذ کھاگئی۔
It was narrated that 'Aishah said: "The Verse of stoning and of breastfeeding an adult ten times was revealed, and the paper was with me under my pillow. When the Messenger of Allah P.B.U.H died, we were preoccupied with his death, and a tame sheep came in and ate it" (Hasan)

1 - ا ب ج : (26407)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مرویات
حدثنا يعقوب قال حدثنا أبي عن ابن إسحاق قال حدثني عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم عن عمرة بنت عبد الرحمن عن عاشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت لقد أنزلت آية الرجم ورضعات الكبير عشرا فكانت في ورقة تحت سرير في بيتي فلما اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم تشاغلنا بأمره ودخلت دويبة لنا فأكلتها
مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 6226 حدیث مرفوع
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آیت رجم نازل ہوئی تھی اور بڑی عمر کے آدمی کو دس گھونٹ دودھ پلانے سے رضاعت کے ثبوت کی آیت نازل ہوئی تھی، جو میرے گھر میں چار پائی کے نیچے ایک کاغذ میں لکھی پڑی ہوئی تھی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور ہم ان کی طرف مشغول ہوگئے تو ایک بکری آئی اور اسے کھا گئی۔

19 -
رضاعت کا بیان : (83)
پانچ دفعہ دودھ پینے سے حرمت کے بیان میں
حدثنا يحيی بن يحيی قال قرأت علی مالک عن عبد الله بن أبي بکر عن عمرة عن عاشة أنها قالت کان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرمن ثم نسخن بخمس معلومات فتوفي رسول الله صلی الله عليه وسلم وهن فيما يقرأ من القرآن
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1105 حدیث موقوف مکررات 15 متفق علیہ 4
یحیی بن یحیی، مالک، عبداللہ بن ابی بکر، عمرہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ اس بارے میں جو قرآن میں نازل کیا گیا وہ دس مقرر شدہ گھونٹ تھے جو حرام کر دیتے تھے پھر ان کو پانچ مقرر گھونٹوں سے منسوخ کردیا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وفات دے دی گئی اور یہ اسی طرح قرآن میں پڑھا جاتا ہے۔
'A'isha (Allah be pleased with her) reported that it had been revealed in the Holy Qur'an that ten clear sucklings make the marriage unlawful, then it was abrogated (and substituted) by five sucklings and Allah's Apostle (may peace be upon him) died and it was before that time (found) in the Holy Qur'an (and recited by the Muslims).

19 - رضاعت کا بیان : (83)
پانچ دفعہ دودھ پینے سے حرمت کے بیان میں
حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي حدثنا سليمان بن بلال عن يحيی وهو ابن سعيد عن عمرة أنها سمعت عاشة تقول وهي تذکر الذي يحرم من الرضاعة قالت عمرة فقالت عاشة نزل في القرآن عشر رضعات معلومات ثم نزل أيضا خمس معلومات
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1106 حدیث موقوف مکررات 15 متفق علیہ 4
عبداللہ بن مسلمہ قعنبی، سلیمان بن بلال، یحیی، ابن سعید، عمرہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ان باتوں کا ذکر کر رہی تھیں جو رضاعت کی وجہ سے حرمت کا ذریعہ ہیں عمرہ نے کہا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا قرآن میں دس مقررہ گھونٹ نازل ہوئے پھر پانچ مقرر شدہ بھی نازل ہوئے۔
'Amra reported that she heard 'A'isha (Allah he pleased with her) discussing fosterage which (makes marriage) unlawful; and she ('A'isha) said: There was revealed in the Holy Qur'an ten clear sucklings, and then five clear (sucklings).

7 - نکاح کا بیان : (130)
پانچ مرتبہ سے کم دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی
حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي عن مالک عن عبد الله بن أبي بکر بن محمد بن عمرو بن حزم عن عمرة بنت عبد الرحمن عن عاشة أنها قالت کان فيما أنزل الله عز وجل من القرآن عشر رضعات يحرمن ثم نسخن بخمس معلومات يحرمن فتوفي النبي صلی الله عليه وسلم وهن مما يقرأ من القرآن
سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 297 حدیث مرفوع مکررات 15
عبداللہ بن مسلمہ، مالک، عبداللہ بن ابی بکر، بن محمد بن عمرو بن حزم، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ پہلے قرآن پاک میں یہ حکم نازل ہوا تھا کہ دس مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوگی مگر بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا اور پانچ مرتبہ دودھ پینا حرمت کے لیے ضروری ٹھہرا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی اور یہ آیت قرآن میں پڑھی جاتی تھی

25 -
نکاح سے متعلقہ احادیث : (193)
کتنا دودھ پی لینے سے حرمت ہوتی ہے؟
أخبرني هارون بن عبد الله قال حدثنا معن قال حدثنا مالک والحارث بن مسکين قراة عليه وأنا أسمع عن ابن القاسم قال حدثني مالک عن عبد الله بن أبي بکر عن عمرة عن عاشة قالت کان فيما أنزل الله عز وجل وقال الحارث فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرمن ثم نسخن بخمس معلومات فتوفي رسول الله صلی الله عليه وسلم وهي مما يقرأ من القرآن
سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 1220 حدیث موقوف مکررات 15
ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبداللہ بن ابوبکر، عمرہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خداوند قدوس کی جانب سے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی گئی تھی اور حارث نامی ایک شخص کی روایت میں ہے اس طرح سے آیت کریمہ نازل کی گئی یعنی دس قطرات معلوم اور ان کا حکم یہ ہے کہ حرام کرتے ہیں نکاح کو پھر پہلی آیت کریمہ اس آیت کریمہ سے منسوخ ہوگئی یعنی اس کے معنی ہیں پانچ قطرات معلوم۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی اور وہ آیت قرآن کریم میں تلاوت کی جاتی رہی۔
It was narrated from Umm Fadl that the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم was asked about breast-feeding and said: “Suckling (Al-Imlajah) once or twice does not make (marriage) prohibited.” And (one of the narrators) Qatadah said (in his narration): “Suckling (Al-Ma ssah) once or twice does not make (marriage) prohibited.” (Sahih)

39 - شرطوں کا بیان : (24)
لوگوں سے زبانی شرطیں طے کرنے کا بیان۔
حدثنا إبراهيم بن موسیٰ أخبرنا هشام أن ابن جريج أخبره قال أخبرني يعلی بن مسلم وعمرو بن دينار عن سعيد بن جبير يزيد أحدهما علی صاحبه وغيرهما قد سمعته يحدثه عن سعيد بن جبير قال إنا لعند ابن عباس رضي الله عنهما قال حدثني أبي بن کعب قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم موسیٰ رسول الله فذکر الحديث قال ألم أقل إنک لن تستطيع معي صبرا کانت الأولی نسيانا والوسطی شرطا والثالثة عمدا قال لا تؤاخذني بما نسيت ولا ترهقني من أمري عسرا لقيا غلاما فقتله فانطلقا فوجدا جدارا يريد أن ينقض فأقامه قرأها ابن عباس أمامهم ملک
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1 حدیث مرفوع مکررات 7 متفق علیہ 7
ابراہیم بن موسی، ہشام بن جریج، یعلی بن مسلم، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کے قصہ کی پوری حدیث اور خضر کا موسیٰ سے یہ کہنا کہ کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے اس تمام واقعہ کو بیان کرکے ارشاد فرمایا کہ پہلی بار تو بھولے سے اعتراض ہوا، دوسری مرتبہ بطور شرط کے، اور تیسری بار انہوں نے قصدا خلاف معاہدہ کیا، حضرت موسیٰ نے کہا تھا وہ میں بھول گیا تھا، اس کا مواخذہ مجھ سے نہ کرو، اور مجھ پر تنگی نہ ڈالوں پھر دونوں ایک لڑکے سے ملے جس کو حضرت خضر نے قتل کردیا، اور دونوں آگے چلے پھر انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی حضرت خضر نے اسے درست کردیا , ابن عباس اس سورت یعنی سورت کہف میں وراہم ملک کی بجائے أَمَامَهُمْ مَلِکٌ پڑھتے تھے ۔
Narrated Ubai bin Kab:
Allah's Apostle said, "Moses the Apostle of Allah," and then he narrated the whole story about him. Al-Khadir said to Moses, "Did not I tell you that you can have no patience with me." (18.72). Moses then violated the agreement for the first time because of forgetfulness, then Moses promised that if he asked Al-Khadir about anything, the latter would have the right to desert him. Moses abided by that condition and on the third occasion he intentionally asked Al-Khadir and caused that condition to be applied. The three occasions referred to above are referred to by the following Verses:
"Call me not to account for forgetting And be not hard upon me." (18.73)
"Then they met a boy and Khadir killed him." (18.74)
"Then they proceeded and found a wall which was on the verge of falling and Khadir set it up straight." (18.77)

6 - مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کا بیان : ( 408 )
فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کو جلد پڑھنے کے استحباب کے بیان میں
حدثني حرملة بن يحيی التجيبي أخبرنا ابن وهب أخبرني يونس عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة أن رسول الله صلی الله عليه وسلم حين قفل من غزوة خيبر سار ليله حتی إذا أدرکه الکری عرس وقال لبلال اکلأ لنا الليل فصلی بلال ما قدر له ونام رسول الله صلی الله عليه وسلم وأصحابه فلما تقارب الفجر استند بلال إلی راحلته مواجه الفجر فغلبت بلالا عيناه وهو مستند إلی راحلته فلم يستيقظ رسول الله صلی الله عليه وسلم ولا بلال ولا أحد من أصحابه حتی ضربتهم الشمس فکان رسول الله صلی الله عليه وسلم أولهم استيقاظا ففزع رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال أي بلال فقال بلال أخذ بنفسي الذي أخذ بأبي أنت وأمي يا رسول الله بنفسک قال اقتادوا فاقتادوا رواحلهم شيا ثم توضأ رسول الله صلی الله عليه وسلم وأمر بلالا فأقام الصلاة فصلی بهم الصبح فلما قضی الصلاة قال من نسي الصلاة فليصلها إذا ذکرها فإن الله قال أقم الصلاة لذکري قال يونس وکان ابن شهاب يقرؤها للذکری
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1554 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 2 بدون مکرر
حرملہ بن یحیی تجیبی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو ایک رات چلتے رہے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نیند کا غلبہ ہوا تو رات کے آخری حصہ میں اترے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم آج رات پہرہ دو تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھنی شروع کر دی جتنی نماز اس سے پڑھی جا سکی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سو گئے پھر جب فجر کا وقت قریب ہوا تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صبح طلوع ہونے والی جگہ کی طرف اپنا رخ کر کے اپنی اونٹنی سے ٹیک لگائی تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بھی نیند کا غلبہ ہوگیا پھر نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے اور نہ ہی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کوئی بیدار ہوا یہاں تک کہ دھوپ ان پر آگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے سب سے پہلے بیدار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دھوپ دیکھی تو گھبرا گئے اور فرمایا اے بلال! تو حضرت بلال نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان میرے نفس کو بھی اسی نے روک لیا جس نے آپ کے نفس مبارک کو روک لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہاں سے کوچ کرو پھر کچھ دور چلے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور حضرت بلال کو حکم فرمایا پھر انہوں نے نماز کی اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو صبح کی نماز پڑھائی جب نماز پوری ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے تو جب اسے یاد آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا أَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِکْرِي میری یاد کے لئے نماز قائم کر پس راوی کہتے ہیں کہ ابن شہاب اس لفظ کو لِلذِّکْرَی پڑھا کرتے تھے یعنی یاد کے لئے۔
Abu Huraira reported that when the Messenger of Allah (may peace be upon him) returned from the expedition to Khaibar, he traveled one night, and stopped for rest when he became sleepy. He told Bilal to remain on guard during the night and he (Bilal) prayed as much as he could, while the Messenger of Allah (may peace be upon him) and his Companions slept. When the time for dawn approached Bilal leaned against his camel facing the direction from which the dawn would appear but he was overcome by sleep while he was leaning against his camel, and neither the Messenger of Allah (may peace be upon him) nor Bilal, nor anyone else among his Companions got up, till the sun shone on them. Allah's Messenger (may peace be upon him) was the first of them to awake and, being startled, he called to Bilal who said: Messenger of Allah I may my father and mother be offered as ransom for thee, the same thing overpowered me which overpowered you. He (the Holy Prophet, then) said: Lead the beasts on: so they led their camels to some distance. The Messenger of Allah (may peace be upon him) then performed ablution and gave orders to Bilal who pronounced the Iqama and then led them in the morning prayer. When he finished the prayer he said: When anyone forgets the prayer, he should observe it when he remembers it, for Allah has said: "And observe the prayer for remembrance of Me" (Qur'an. xx. 14). Yunus said: Ibn Shilab used to recite it like this :"(And observe the prayer) for remembrance."

2 - نماز کا بیان : (1086)
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
حدثنا أحمد بن صالح حدثنا ابن وهب أخبرني يونس عن ابن شهاب عن ابن المسيب عن أبي هريرة أن رسول الله صلی الله عليه وسلم حين قفل من غزوة خيبر فسار ليلة حتی إذا أدرکنا الکری عرس وقال لبلال اکلأ لنا الليل قال فغلبت بلالا عيناه وهو مستند إلی راحلته فلم يستيقظ النبي صلی الله عليه وسلم ولا بلال ولا أحد من أصحابه حتی إذا ضربتهم الشمس فکان رسول الله صلی الله عليه وسلم أولهم استيقاظا ففزع رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال يا بلال فقال أخذ بنفسي الذي أخذ بنفسک بأبي أنت وأمي يا رسول الله فاقتادوا رواحلهم شيا ثم توضأ النبي صلی الله عليه وسلم وأمر بلالا فأقام لهم الصلاة وصلی بهم الصبح فلما قضی الصلاة قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها فإن الله تعالی قال أقم الصلاة للذکری قال يونس وکان ابن شهاب يقرؤها کذلک قال أحمد قال عنبسة يعني عن يونس في هذا الحديث لذکري قال أحمد الکری النعاس
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 432 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 12
احمد بن صالح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابن مسیب، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو رات میں سفر کیا یہاں تک کہ ھم کو نیند آنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخر شب میں آرام کے لیے ایک جگہ اتر گئے اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہا ہماری حفاظت کرنا آج رات (جا گتے رہنا) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ کی بھی آنکھ لگ گئی اس حالت میں کہ وہ اپنے اونٹ سے سہارا لگا کر بیٹھ گئے تھے پس نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے، نہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ جاگے اور نہ ہی صحابہ میں سے کسی کی آنکھ کھلی یہاں تک کہ ان پر دھوپ آ گئی۔ تو سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھبرا کر بیدار ہوئے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو (غصہ سے) آواز دی۔ انھوں نے (معذرت کرتے ہوئے) جواب دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں مجھ پر بھی نیند غالب آگئی تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غالب آگئی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے تھوڑے فاصلہ تک اونٹوں کو لے گئے پھر اتر کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا انھوں نے تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آئے اس کو پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے نماز قائم کرو میری یاد کے لیے۔ یونس کہتے ہیں کہ ابن شہاب اس حدیث میں یہ آیت اسی طرح پڑھتے تھے اور احمد کہتے ہیں کہ عنبہ نے بسند یونس اس حدیث میں لذکری کے بجائے) کہا ہے احمد کہتے ہیں کہ الکری کا مطلب نیند ہے۔

4 -
نماز کا بیان : (39)
نیند کی وجہ سے یا بھو لے سے جس کی نماز رہ گئی ؟۔
حدثنا حرملة بن يحيی حدثنا عبد الله بن وهب حدثنا يونس عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة أن رسول الله صلی الله عليه وسلم حين قفل من غزوة خيبر فسار ليله حتی إذا أدرکه الکری عرس وقال لبلال اکلأ لنا الليل فصلی بلال ما قدر له ونام رسول الله صلی الله عليه وسلم وأصحابه فلما تقارب الفجر استند بلال إلی راحلته مواجه الفجر فغلبت بلالا عيناه وهو مستند إلی راحلته فلم يستيقظ بلال ولا أحد من أصحابه حتی ضربتهم الشمس فکان رسول الله صلی الله عليه وسلم أولهم استيقاظا ففزع رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال أي بلال فقال بلال أخذ بنفسي الذي أخذ بنفسک بأبي أنت وأمي يا رسول الله قال اقتادوا فاقتادوا رواحلهم شيا ثم توضأ رسول الله صلی الله عليه وسلم وأمر بلالا فأقام الصلاة فصلی بهم الصبح فلما قضی النبي صلی الله عليه وسلم الصلاة قال من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها فإن الله عز وجل قال وأقم الصلاة لذکري قال وکان ابن شهاب يقرؤها للذکری
سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 697 حدیث مرفوع مکررات 12
حرملہ بن یحیی، عبداللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر چلتے رہے ، جب آپ کو اونگھ آنے لگی تو اتر پڑے اور بلال سے کہا ہمارے لئے تم رات کا خیال رکھو۔ بلال نے جتنا مقدر میں تھا ، نفل ادا کئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ساتھی سو گئے ، جب فجر قریب ہوئی تو بلال نے اپنی اونٹنی کے ساتھ ٹیک لگا دی فجر (مشرق) کی طرف منہ کر کے ، پس بلال پر اسی اونٹنی پر ٹیک کی حالت میں نیند غالب آگئی نہ ان کی آنکھ کھلی نہ کسی اور صحابی کی ، یہاں تک کہ ان کو دھوپ محسوس ہوئی تو سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاگے اور گھبرا کر فرمایا ارے بلال ! (یہ کیا ہوا ؟) بلال نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان اے اللہ کے رسول! میری جان کو اسی نے روکے رکھا جس نے آپ کی جان کو روکے رکھا ، آپ نے فرمایا اونٹوں کو چلاؤ لوگوں نے تھوڑی دور تک اپنے اونٹوں کو چلایا (آپ اس جگہ سے چلے گئے کیونکہ وہاں شیطان تھا جیسے دوسری روایت میں ہے) پھر آپ نے وضو کیا اور صبح کی نماز پڑھائی جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا جو شخص نماز کو بھول جائے تو جب اس کو یاد آئے پڑھ لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قائم کر نماز کو میری یاد کی خاطر اور ابن شہاب اس آیت کو یوں پڑھتے ۔( وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ 14 ) 20۔طہ : 14)۔
It was narrated from Abu Hurairah that when the Messenger of Allah p.b.u.h was coming back from the battle of Khaibar, night came and he felt sleepy, so he made camp and said to Bilál: “Keep watch for us tonight.” Bilâl prayed as much as Allah decreed for him, and the Messenger of Allah p.b.u.h and his Companions went to sleep. When dawn was approaching, Bilál went to his mount, facing towards the east, watching for the dawn. Then Bilâl’s eyes grew heavy while he was leaning on his mount (and he slept). Neither Bilâl nor any of his Companions woke until they felt the heat of the sun. The Messenger of Allah was the first one to wake up. The Messenger of Allah P.B.U.H was startled and said: “0 Bilâl’ Bilâl said: “The same thing happened to me as happened to you. May my father and mother be ransomed for you, 0 Messenger of Allah!” He said: “Bring your mounts forward a little.” So they brought their mounts forward a little (away from that place). Then the Messenger of Allah performed ablution and told BilâI to call the Iqdmah for prayer, and he led them in the prayer. When the Prophet finished praying, he said: “Whoever forgets a StrltTh, Jet him pray it when he remembers, for Allah says: And perform the prayer for My remembrance.” He (one of the narrators) said: “lbn Shihdb used to recite this Verse as meaning, ‘when you remember.”

6 - نمازوں کے اوقات کا بیان : (133)
جو نماز نیند کی حالت میں قضاہو جائے تو اس کو اگلے دن وقت پر پڑھ لے
أخبرنا سويد بن نصر قال حدثنا عبد الله عن معمر عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من نسي صلاة فليصلها إذا ذکرها فإن الله تعالی يقول أقم الصلاة للذکری قلت للزهري هکذا قرأها رسول الله صلی الله عليه وسلم قال نعمکيف يقضی الفات من الصلاة
سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 624 حدیث مرفوع مکررات 12
سوید بن نصر، عبد اللہ، معمر، زہری، سعید بن مسیب، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی وقت کی نماز پڑھنا بھول جائے تو اس کو چاہیے کہ جس وقت یاد آئے تو اسی وقت اس وقت کی نماز پڑھ لے کیونکہ ارشاد باری ہے تم لوگ نماز قائم کرو جس وقت کہ تم کو یاد آجائے۔ حضرت معمر نے فرمایا کہ میں نے حضرت زہری سے دریافت کیا کہ جو کہ اس حدیث شریف کی روایت کرنے والے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کریمہ کو اسی طریقہ سے تلاوت فرمایا ہے یعنی اس لفظ کو (لِذِکرِی) پڑھا ہے۔ انہوں نے فرمایا جی ہاں اور مشہور قرات (لِذِکرِی) ہے۔
It was narrated from Buraid bin Abi Mariam that his father said: “We were with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم on a journey, and we kept going one night, then when it was nearly morning the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم dismounted and slept, and the people slept too. We did not wake up until the sun had risen. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم asked the Mu‘adhdhin to call the Adhan, then he prayed the two Rak’ahs before Fajr, then he asked him to say the Iqamah, then he led the people in prayer. Then he told us about everything that will happen until the Hour begins.” (Hasan)

40 - ترکے کی تقسیم کے بیان میں : (24)
اخیافی بھائی یا بہنوں کی میراث کا بیان
قال مالک الأمر المجتمع عليه عندنا أن الإخوة للأم لا يرثون مع الولد ولا مع ولد الأبنا ذکرانا کانوا أو إناثا شيا ولا يرثون مع الأب ولا مع الجد أبي الأب شيا وأنهم يرثون فيما سوی ذلک يفرض للواحد منهم السدس ذکرا کان أو أنثی فإن کانا اثنين فلکل واحد منهما السدس فإن کانوا أکثر من ذلک فهم شرکا في الثلث يقتسمونه بينهم بالسوا للذکر مثل حظ الأنثيين وذلک أن الله تبارک وتعالی يقول في کتابه وإن کان رجل يورث کلالة أو امرأة وله أخ أو أخت فلکل واحد منهما السدس فإن کانوا أکثر من ذلک فهم شرکا في الثلث فکان الذکر والأنثی في هذا بمنزلة واحدة
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1390
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اخیافی بھائی اور اخیافی بہنیں جب کہ میت کی اولاد ہو یا اس کے بیٹے کی اولاد ہو یعنی پوتے یا پوتیاں یا میت کا باپ یا دادا موجود ہو تو ترکے سے محروم رہیں گے البتہ اگر یہ لوگ نہ ہوں تو ترکہ پائیں گے اگر ایک بھائی اخیافی یا ایک بہن اخیافی ہو تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اگر دو ہوں تو ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اگر دو سے زیادہ ہوں تو ثلث (تہائی) مال میں سب شریک ہوں گے برابر برابر بانٹ لیں گے بہن بھی بھائی کے برابر لے گی کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص مرجائے جو کلالہ ہو یا کوئی عورت مرجائے کلالہ ہو کر اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن (اخیافی جیسے سعد بن ابی وقاص کی قرائت میں ہے) ہو تو ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اگر اس سے زیادہ ہوں (یعنی ایک بھائی اور ایک بہن یا دو بہنیں دو بھائی یا اس سے زیادہ ہوں) تو وہ سب ثلث (تہائی) میں شریک ہوں گے (یعنی مرد اور عورت سب برابرپائیں گے۔
Malik said, "The generally agreed on way of doing things among us about which there is no dispute and what I have seen the people of knowledge in our city doing is that when a father inherits from a son or a daughter and the deceased leaves children, or grandchildren through a son, the father has a fixed share of one sixth. If the deceased does leave any children or male grandchildren through a son, the apportioning begins with those with whom the father shares in the fixed shares. They are given their fixed shares. If a sixth or more is left over, the sixth and what is above it is given to the father, and if there is less than a sixth left, the father is given his sixth as a fixed share, (i.e. the other shares are adjusted.)
"The inheritance of a mother from her child, if her son or daughter dies and leaves children or male or female grandchildren through a son, or leaves two or more full or half siblings is a sixth. If the deceased does not leave any children or grandchildren through a son, or two or more siblings, the mother has a whole third except in two cases. One of them is if a man dies and leaves a wife and both parents. The wife has a fourth, the mother a third of what remains, (which is a fourth of the capital). The other is if a wife dies and leaves a husband and both parents. The husband gets half, and the mother a third of what remains, (which is a sixth of the capital). That is because Allah, the Blessed, the Exalted, says in His Book, 'His two parents each have a sixth of what he leaves if he has children. If he does not have children, and his parents inherit from him, his mother has a third. If he has siblings, the mother has a sixth.' (Sura 4 ayat 11). The sunna is that the siblings be two or more."

38 - زہد کا بیان : (243)
جنت کا بیان ۔
حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول الله عز وجل أعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رأت ولا أذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر قال أبو هريرة ومن بله ما قد أطلعکم الله عليه اقروا إن شتم فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزا بما کانوا يعملون قال وکان أبو هريرة يقرؤها من قرات أعين
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1209 حدیث قدسی مکررات 10
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ ، اعمش، ابی صالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کیلئے وہ سامان اور لذتیں تیار کی ہیں جنکو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آدمی کے دل پر وہ گزرا۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ان لذتوں کو تو چھوڑ دو جن کو اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیا ان کے سوا کتنی بے شمار لذتیں ہوں گی اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَا ءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ) 32۔ السجدہ : 17) تک۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں قراۃ العین پڑھتے تھے جمع کیساتھ اور مشہور قرائت قرة اعین ہے بہ صیغہ واحد یعنی کوئی نفس نہیں جانتا جو مومنین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈکیں چھپا کر رکھی گئی ہیں یہ بدلہ ہے ان کے نیک اعمال کا ۔
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah P.B.U.H said: "Allah says. 'I have prepared for My righteous slaves that which no eye has seen. no ear has heard, and it has never crossed the mind of man."'(Sahih) Abu Hurairah said. "And there is more than what Allah has told you. Recite, if you wish: 'No person knows what is kept hidden for them of joy as a reward for what they used to do. He (the narrator) said: Abu Hurairah used to recite it as: Qurrati A'yunin, i.e., joys.

45 - تفاسیر کا بیان : (502)
اللہ تعالیٰ کا قول کہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کے لئے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی ہے۔
حدثنا علي بن عبد الله حدثنا سفيان عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال قال الله تبارک وتعالی أعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رأت ولا أذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر قال أبو هريرة اقرئوا إن شئتم فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين و حدثنا علي قال حدثنا سفيان حدثنا أبو الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة قال الله مثله قيل لسفيان رواية قال فأي شيئ قال أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح قرأ أبو هريرة قرات أعين
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1922 حدیث قدسی مکررات 10 متفق علیہ 8
علی بن عبد اللہ، سفیان، ابی الزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرا رب ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے اپنے بندوں کے لئے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوں گی اور نہ کسی کان نے سنی ہوں گی اور نہ وہ کسی کے وہم و خیال میں رہیں گی اس کے راوی نے کہا تم چاہو تو اس آیت کو پڑھو (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ الخ) 32۔ السجدہ : 17) کیونکہ اس میں اسی کا بیان ہے۔
علی، سفیان، ابوالزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے پھر وہی بیان کیا جو اوپر گزرا سفیان سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے نہیں تو اور کیا ابومعاویہ نے اعمش سے بواسطہ صالح نقل کیا کہ حضرت ابوہریرہ نے "قرات" پڑھا۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Allah said, 'I have prepared for my pious worshipers such things as no eye has ever seen, no ear has ever heard of, and nobody has ever thought of." Abu Huraira added: If you wish you can read:-- 'No soul

45 - تفاسیر کا بیان : (502)
اللہ کا قول کہ روز محشر وہ تم کو اس طرح نظر آئیں گے جیسے مدہوش اور نشہ میں بد مست ہیں ۔
حدثنا عمر بن حفص حدثنا أبي حدثنا الأعمش حدثنا أبو صالح عن أبي سعيد الخدري قال قال النبي صلی الله عليه وسلم يقول الله عز وجل يوم القيامة يا آدم يقول لبيک ربنا وسعديک فينادی بصوت إن الله يأمرک أن تخرج من ذريتک بعثا إلی النار قال يا رب وما بعث النار قال من کل ألف أراه قال تسع مائة وتسعة وتسعين فحينئذ تضع الحامل حملها ويشيب الوليد وتری الناس سکاری وما هم بسکاری ولکن عذاب الله شديد فشق ذلک علی الناس حتی تغيرت وجوههم فقال النبي صلی الله عليه وسلم من يأجوج ومأجوج تسع مائة وتسعة وتسعين ومنکم واحد ثم أنتم في الناس کالشعرة السودائ في جنب الثور الأبيض أو کالشعرة البيضائ في جنب الثور الأسود وإني لأرجو أن تکونوا ربع أهل الجنة فکبرنا ثم قال ثلث أهل الجنة فکبرنا ثم قال شطر أهل الجنة فکبرنا قال أبو أسامة عن الأعمش تری الناس سکاری وما هم بسکاری وقال من کل ألف تسع مائة وتسعة وتسعين وقال جرير وعيسی بن يونس وأبو معاوية سکری وما هم بسکری
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1885 حدیث قدسی حدیث متواتر مکررات 7 متفق علیہ 7
عمر بن حفص، حفص، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حضرت آدم کو بلائے گا وہ لبیک ربنا وسعدیک کہتے ہوئے آئیں گے خدا کے حکم سے فرشتہ پکارے گا کہ اے آدم! اپنی اولاد میں سے دوزخ کے لئے لاؤ حضرت آدم کہیں گے کتنے آدمی لاؤں؟ فرشتہ کہے گا ہزار میں سے نوسو ننانوے لاؤ یہ وقت ہوگا کہ حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے، جوان بوڑھے ہو جائیں گے، اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ( وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي ۔ الخ) 22۔ الحج : 2) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات سن کر صحابہ کے چہرے خوف سے زرد ہو گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تسکین کرتے ہوئے فرمایا کہ تم کیوں اس قدر ڈرتے ہو یہ مقدار تو یاجوج ماجوج کے آدمیوں کی ہوگی اور ہزار میں سے ایک تم میں سے ہوگا جیسے سفید بیل کے پہلو میں ایک سیاہ بال ہوتا ہے یا سیاہ بیل میں ایک سفید بال ہوتا ہے اور مجھ کو امید ہے کہ تم سارے بہشتیوں میں چوتھائی حصہ ہو گے اور باقی تین حصوں میں دوسری تمام امتیں ہونگی یہ سن کر ہم نے اللہ اکبر کہا آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم تہائی حصہ ہونگے ہم نے پھر تکبیر بلند کی آپ نے فرمایا نہیں تم نصف ہوں گے ہم نے پھر تکبیر کہی ابواسامہ اعمش سے اس طرح روایت کرتے ہیں کہ یہ مشہور روایت ہے کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے نکال لو تو یہ حفص کی روایت کے مطابق ہو جاتی ہے ابومعاویہ کی روایت میں سکری مفرد آیا ہے اور قرآن میں "بسکاری" ہے اور یہی حمزہ اور کسائی کی قرات ہے۔
Narrated Abu Said Al-Khudri:
The Prophet said, "On the day of Resurrection Allah will say, 'O Adam!' Adam will reply, 'Labbaik our Lord, and Sa'daik ' Then there will be a loud call (saying), Allah orders you to take from among your offspring a mission for the (Hell) Fire.' Adam will say, 'O Lord! Who are the mission for the (Hell) Fire?' Allah will say, 'Out of each thousand, take out 999.' At that time every pregnant female shall drop her load (have a miscarriage) and a child will have grey hair. And you shall see mankind as in a drunken state, yet not drunk, but severe will be the torment of Allah." (22.2) (When the Prophet mentioned this), the people were so distressed (and afraid) that their faces got changed (in color) whereupon the Prophet said, "From Gog and Magog nine-hundred ninety-nine will be taken out and one from you. You Muslims (compared to the large number of other people) will be like a black hair on the side of a white ox, or a white hair on the side of a black ox, and I hope that you will be one-fourth of the people of Paradise." On that, we said, "Allahu-Akbar!" Then he said, "I hope that you will be) one-third of the people of Paradise." We again said, "Allahu-Akbar!" Then he said, "(I hope that you will be) one-half of the people of Paradise." So we said, Allahu Akbar."

سورة الحَجّ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ (22:1)
لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو۔ کہ قیامت کا زلزلہ ایک حادثہٴ عظیم ہوگا ۔
O mankind! fear your Lord! for the convulsion of the Hour (of Judgment) will be a thing terrible!

يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ (22:2)
(
اے مخاطب) جس دن تو اس کو دیکھے گا (اُس دن یہ حال ہوگا کہ) تمام دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی۔ اور تمام حمل والیوں کے حمل گر پڑیں گے۔ اور لوگ تجھ کو متوالے نظر آئیں گے مگر وہ متوالے نہیں ہوں گے بلکہ (عذاب دیکھ کر) مدہوش ہو رہے ہوں گے۔ بےشک خدا کا عذاب بڑا سخت ہے ۔
The Day ye shall see it, every mother giving suck shall forget her suckling-babe, and every pregnant female shall drop her load (unformed): thou shalt see mankind as in a drunken riot, yet not drunk: but dreadful will be the Wrath of Allah.

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : حیدر
مراسلہ منجانب : ریحان حیدر :
مداخلت پر معذرت خؤاہ ہوں۔
عجیب منفی طرز عمل ہے۔ جو بات ریحان حیدر نے شروع کے ہی چند مراسلہ جات میں کہہ دی تھی ، تب تو اس کو تحقیق کے نام پر رگیدا جاتا رہا۔ لیکن رانا عمار صاحب نے محض ایک جملہ کہہ دیا تو اُس پر ایمان لے آئے۔
ہو سکتا ہے اس طرز عمل سے" سُنیت" جیت ہی جائے اور "شیعت" ہار جائے۔جاری رکھیے۔

" سُنیت" جیت ہی جائے اور "شیعت" ہار جائے۔

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : حیدر
موضؤع ہے "حضرت علي رضي اللہ تعالي عنہ كا جمع كردہ مبينہ قرآن اور آج كا قرآن۔۔۔؟" یعنی اہلسنت میں مروج قرآن اور حضرت علی سے منسوب قرآن۔ اس میں تحریف قرآن المعروف قراتوں کا فرق والا ایشو ڈسکس نہیں کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے الگ سے تھریڈز چل رہے ہیں۔


سورت احزاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پڑھی تو سورت بقرہ کے برابر یا اس سے بھی زیادہ تھی ؟؟؟

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : حیدر Rehan
قران پاک میں آیات و الفاظ کی کمی بیشی کہ نظریہ کو اہل تشیع قبول نہی کرتے۔
کسی بھی مذہب کے عقائد کو اس مذہب کے بڑے حصے سے ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔
پہلے بھی لکھا تھا اب بھی میرا عقیدہ یہی ہے
کہ
قران پاک میں آیات و الفاظ کی کمی بیشی کہ نظریہ کو اہل تشیع قبول نہی کرتے۔
یعنی اس نظریہ کے تحت قرآن میں تحریف کا قائل کافر ہے۔

1 -
ا ب ج : (26407)
وہ روایات جوزربن حبیش رضی اللہ عنہ نے ان سے نقل کی ہیں ۔

حدثنا عبد الله حدثني وهب بن بقية أخبرنا خالد بن عبد الله الطحان عن يزيد بن أبي زياد عن زر بن حبيش عن أبي بن كعب قال كم تقرون سورة الأحزاب قال بضعا وسبعين آية قال لقد قرأتها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل البقرة أو أكثر منها وإن فيها آية الرجم

مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 1334 حدیث مرفوع
زر سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم لوگ سورت احزاب کی کتنی آیتیں پڑھتے ہو؟ زر نے جواب دیا کہ ستر سے کچھ زائد آیتیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سورت جب پڑھی تھی تو یہ سورت بقرہ کے برابر یا اس سے بھی زیادہ تھی اور اس میں آیت رجم بھی تھی (کہ اگر کوئی شادی شدہ مرد و عورت بدکاری کا ارتکاب کریں تو انہیں لازماً رجم کردو یہ سزا ہے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے)


نظريہ قرآن

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : شمشاد احمد
ريحان صاحب!
رانا عمار صاحب اس دھاگے ميں جملہ معترضہ ہيں۔ ان كي شديد خواہش پر ان كي ہي ايك دھاگے ميں ان سے ان كے نظريہ قرآن پر بات شروع كي تھي ليكن وہ كيا ہے‌كہ ان كو كاپي پيسٹ‌كرنے اور دو سطروں سے زيادہ كچھ كہنے كي توفيق نہيں ہوتي۔۔۔ لہذا معاملہ وہاں كھٹائي ميں ہي رہ گيا۔۔


انہوں نے حجاج کو برا بھلا کہا، یہ کیا بات ہے، یہ کیا بات ہے ؟؟؟ قرآن کے جمع میں کیا گڑبڑ ہے ؟؟؟

23 -
میقاتوں سے متعلق احادیث : ( 435 )
جمرئہ عقبی ٰکی رمی کس جگہ سے کرنا چاہیے؟
أخبرنا يعقوب بن إبراهيم قال أنبأنا ابن أبي زادة قال حدثنا الأعمش سمعت الحجاج يقول لا تقولوا سورة البقرة قولوا السورة التي يذکر فيها البقرة فذکرت ذلک لإبراهيم فقال أخبرني عبد الرحمن بن يزيد أنه کان مع عبد الله حين رمی جمرة العقبة فاستبطن الوادي واستعرضها يعني الجمرة فرماها بسبع حصيات وکبر مع کل حصاة فقلت إن أناسا يصعدون الجبل فقال ها هنا والذي لا إله غيره رأيت الذي أنزلت عليه سورة البقرة رمی
سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 985 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 18
یعقوب بن ابراہیم، ابن ابوزائدة، اعمش، حجاج سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ سورت بقرہ نہ کہا کرو بلکہ تم اس طریقہ سے کہا کرو کہ وہ سورت کہ جس میں بقرہ (یعنی گائے) کا تذکرہ ہے۔ اعمش نقل فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات ابراہیم سے نقل کی تو فرمایا کہ عبدالرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا کہ انہوں نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو وادی کے درمیان کرتے اور جمرے کے سامنے کھڑے ہو کر سات کنکری ماری۔ ہر ایک مرتبہ کنکری مارتے وقت اللہ اکبر فرماتے۔ میں نے عرض کیا پہاڑ پر چڑھ کر رمی کرتے ہیں۔ فرمایا اس ذات کی قسم کے جس کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں ہے۔ میں نے اس شخص (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس جگہ سے کنکری مارتے ہوئے دیکھا ہے جس پر سورت بقرہ نازل ہوئی۔
Al-A’mash said: “I head Al Hajjaj say: ‘Do not say Surat Al Baqarah, say: ‘The Sarah in which the cow (Al-Baqarah) is mentioned.” I mentioned that to Ibrahim, and he said: “Abdur-Rahman bin Yazid told me, that he was with ‘Abdullah when he stoned Jamratul ‘Aqabah. He went down the middle of the valley, stood opposite it — meaning the Jamrah — and threw seven pebbles at it, saying the Takbir with each pebble. I said: “Some people climbed the mountain.” He said: “Here — by the One beside Whom there is no other God — is the place where the one to whom Slirat Al-Ba qarah was revealed stoned.” (Sahih)

17 - حج کا بیان : ( 608 )
وادی بطن سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے اور ہر ایک کنکری مارنے کے ساتھ تکبیر کہنے کے بیان میں
و حدثنا منجاب بن الحارث التميمي أخبرنا ابن مسهر عن الأعمش قال سمعت الحجاج بن يوسف يقول وهو يخطب علی المنبر ألفوا القرآن کما ألفه جبريل السورة التي يذکر فيها البقرة والسورة التي يذکر فيها النسا والسورة التي يذکر فيها آل عمران قال فلقيت إبراهيم فأخبرته بقوله فسبه وقال حدثني عبد الرحمن بن يزيد أنه کان مع عبد الله بن مسعود فأتی جمرة العقبة فاستبطن الوادي فاستعرضها فرماها من بطن الوادي بسبع حصيات يکبر مع کل حصاة قال فقلت يا أبا عبد الرحمن إن الناس يرمونها من فوقها فقال هذا والذي لا إله غيره مقام الذي أنزلت عليه سورة البقرة
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 639 حدیث مرفوع مکررات 18 متفق علیہ 10
منجاب بن حارث، تمیمی، ابن مسہر، حضرت اعمش سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حجاج بن یوسف سے سنا وہ منبر پر خطبہ دتیے ہوئے کہہ رہا تھا کہ تم قرآن کو ایسے جمع کرو جیسا قرآن کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جمع کیا ہے وہ سورت کہ جس میں بقرہ کا ذکر کیا گیا اور وہ سورت کہ جس میں النساء کا ذکر کیا گیا اور وہ سورت کہ جس میں اٰل عمران کا ذکر کیا گیا ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر میں ابراہیم سے ملا تو میں نے ان کو حجاج کے اس قول کی خبر دی تو انہوں نے حجاج کو برا بھلا کہا اور کہنے لگے کہ عبدالرحمن بن یزید نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے تو وہ جمرہ عقبہ پر آئے اور اس کے سامنے وادی بطن سے جمرہ عقبہ پر سات کنکریاں ماریں اور وہ ہر کنکری کے ساتھ اَللَّهُ أَکْبَرُ کہتے تھے راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے ابوعبدالرحمن! لوگ تو اس کے اوپر سے کنکریاں مارتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم ہے کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں یہی وہ مقام ہے (کنکریاں مارنے کی جگہ) جس پر سورت البقرہ نازل کی گئی۔
A'mash reported: I heard Hajjaj b. Yusuf saying as he was delivering sermon on the pulpit: Observe the order of the (Holy) Qur'an which has been observed by Gabriel. (Thus state the surahs in this manner) "one in which mention has been made of al-Baqara,", "one in which mention has been made of women (Surah al-Nisa')" and then the surah in which mention has been made of the Family of 'Imran. He (the (narrator) said: I met Ibrahim and informed him about these words of his (the statement of Hajjaj b. Yusuf). He cursed him and said: Abd al-Rahman b. Yazid has narrated to me that when he was in the company of 'Abdullah b. Mas'udd (Allah be pleased with them) he came to Jamrat al-'Aqaba and then entered the heart of the valley and faced towards it (the Jamra) and then flung seven pebbles at it from the heart of the valley pronouncing Takbir with every pebble. I said: Abu 'Abd al-Rahman, people fling pebbles at it (Jamra) from the upper side, whereupon he said: By Him besides Whom there is no God, that is the place (of flinging pebbles of one) upon whom Surah al-Baqara was revealed;


حجاج نے قرآن مجید کے حروف میں تغیر تبدل کیاہے اور کم از کم دس کلمات ایسے ہیں جو کہ بدلے ہوۓ ہیں ۔

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب : rana ammar mazhar
انہوں نے حجاج کو برا بھلا کہا، یہ کیا بات ہے، یہ کیا بات ہے ؟؟؟ قرآن کے جمع میں کیا گڑبڑ ہے ؟؟؟

قرآن اوراسکے علوم

قرآن کریم کی تحریف کا دعوی

میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے اس اہم سوال کا جواب ضرور دیں ، میں انٹرنیٹ میں اسلام کے مخالف ایک صفحہ پڑھ رہا تھا جس میں ایک عیسائ یہ کہتا ہے کہ شیخ سجستانی نے اپنی کتاب " المصاحف " میں یہ کہا ہے کہ :حجاج نے قرآن مجید کے حروف میں تغیر تبدل کیاہے اور کم از کم دس کلمات ایسے ہیں جو کہ بدلے ہوۓ ہیں ۔
اور وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ سجستانی نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام " ماغیرہ الحجاج فی مصحف عثمان " ( حجاج نے مصحف عثمان میں جو تبدیلی کی ) رکھاہے ۔
اور اس نصرانی نے یہ دعوی کیا ہے کہ اس نے ان دس کلمات کوجن میں تبدیلی کی گئ ہے وہ عربی میں ہیں انہیں جمع کیا ہے ۔
میں نے اس کتاب کا نسخہ تلاش کرنے کی کوشش کی لکین کامیاب نہیں ہوسکا تو میں آپ سے اس کی وضاحت چاہتا ہوں ، میں یہ خیال بھی نہیں کرسکتا کہ سب علماء کرام اور حفاظ کرام کسی شخص کو اس بات کی اجازت دیں کہ وہ قرآن مجید میں تبدیلی کرتا پھرے اور اسے وہ کچھ بھی نہ کہیں حتی کہ اگر سجستانی نے بھی اگر یہ روایت کی ہو ؟
یہ معاملہ تو کبھی بھی عقل میں بھی نہیں آسکتا اس لۓ کہ ہم یھودی اور عیسائیوں کی طرح نہیں کہ ہم اپنی کتاب کی حفاظت نہ کریں اور اسے صرف علماۓ دین کے حوالے کردیں ، مسلمانوں میں سے تو بہت سارے اس قرآن کو حفظ کۓ ہوۓ ہیں اورسب ہی اسے پڑھتے ہیں تو یہ کبھی ہوہی نہیں سکتا کہ کسی کو یہ فرق اور اختلاف نظر نہ آۓ ؟۔

الحمد للہ

اول :

کسی بھی مسلمان کوقرآن مجید کے صحیح ہونے میں شک پیدا نہیں ہوسکتا ، اس لۓ کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیتے ہوۓ کچھ اس طرح فرمایاہے :

{
بیشک ہم نے ہی قرآن مجید کونازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفا ظت کرنے والے ہیں } الحجر ( 9 ) ۔

خلیفہ اول ابوبکر الصدیق رضي اللہ تعالی عنہ کے دورتک قرآن مجید حفاظ صحابہ کرام کے سینوں میں اور درختوں کی چھال اورباریک پتھروں پر محفوظ تھا ۔

جب مرتدین سے جنگيں شروع ہوئیں اور ان لڑائيوں میں بہت زيادہ قرآن مجید کے حفاظ صحابہ کرام جام شھادت نوش کرنے لگے تو ابوبکر رضی اللہ تعالی کویہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں قرآن کریم ان صحابہ کے سینوں میں ہی دفن ہو کر ضائع نہ ہوجاۓ ، لھذا انہوں نے قرآن مجید کو ایک جگہ پرجمع کرنے کے لیے کبار صحابہ کرام سے مشورہ کیا تاکہ اسے ضائع ہونے سے محفوظ کیا جاسکے ، اور اس کام کی ذمہ داری حفظ کے عظیم پہاڑ زید بن ثابت رضي اللہ تعالی عنہ وغیرہ کے کندھوں پر ڈالی گئ ۔

امام بخاری رحمہ الباری نے اس کو بیان کرتے ہوۓ اپنی صحیح میں حدیث ( 4986 ) کا ذکرکچھ یوں کیا ہے :

زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ یمامہ کے بعد میری طرف پیغام بھیجا ( میں جب آیا تو ) عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے پاس دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ عمررضی اللہ تعالی میرے پاس آ کر کہنےلگے کہ جنگ یمامہ میں قرآء کرام کا قتل ( شہادتیں ) بہت بڑھ گیا ہے ، اور مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں دوسرے ملکوں میں بھی قرآء کرام کی شہادتیں نہ بڑھ جائيں جس بنا پر بہت سا قرآن ان کے سینوں میں ان کے ساتھ ہی دفن ہوجائے گا ، اور میری راۓ تو یہ ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا حکم جاری کردیں ۔

تومیں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کہا کہ تم وہ کام کیسے کرو گے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟

تو عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم یہ ایک خیر اور بھلائ ہے ، تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ بار بارمیرے ساتھ یہ بات کرتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے اس بارہ میں میرا شرح صدرکردیا ، اور اب میری راۓ بھی وہی ہے جو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے ۔

زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ تم ایک نوجوان اور عقل مند شخص ہو ہم آپ پر کوئ کسی قسم کی تہمت بھی نہیں لگاتے ، اور پھرتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہے ہو ، تو تم قرآن کو تلاش کرکے جمع کرو ۔

زید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کی قسم اگر وہ مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ کوئ پہاڑ منتقل کرنے کا مکلف کرتے تو مجھ پر وہ اتنا بھاری نہ ہوتا جتنا کہ قرآن کریم جمع کرنے کا کام بھاری اور مشکل تھا ، میں کہنے لگا تم وہ کام کیسے کروگے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟ وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ خیر اوربھلائ ہے ، تو ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ بار بار مجھ سے یہ کہتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے میرا بھی شرح صدر کردیا جس طرح ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا شرح صدر ہوا تھا ، تو میں قرآن کریم کو لوگوں کے سینوں اور چھال اور باریک پتھروں سے جمع کرنا شروع کردیا حتی کہ سورۃ التوبۃ کی آخری آیات ابو خزیمۃ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ کسی اور کس پاس نہ پائ { لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم ۔۔۔ } ( تمہارے پاس ایسا رسول تشریف لایا ہے جو تم میں سے ہے جسے تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں کزرتی ہے ۔۔ ) ۔

تو یہ مصحف ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کی وفات تک ان کے پاس رہے پھر ان کے بعد تاحیات عمر رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس اور ان کے بعد حفصہ بنت عمررضی اللہ تعالی عنہما کے پاس رہے ۔

دوم :

حجاج نے خود تو قرآن مجید کو نہیں لکھا بلکہ اس نے کچھ ماہر اور ذھین علماء کو اس کا حکم ضرور دیا تھا ، ذیل میں اس کا مکمل واقع درج کیا جاتاہے۔

زرقانی کا قول ہے کہ :

یہ معروف ہے کہ مصحف عثمانی نقطوں کے بغیر تھا ۔۔۔۔ چاہے جو بات بھی ہو مشہور یہی ہے کہ قرآن مجید کے نقطوں کا آغاز عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں ہوا ہے اس لیے کہ جب اس نے یہ دیکھا کہ اسلام کی حدیں پھیل چکی اورعرب وعجم آپس میں گھل مل گۓ اور عجمیت عربی زبان کی سلامتی کے لۓ خطرہ بن رہی اور لوگوں کی اکثریت قرآن مجید کو پڑھنےمیں التباس اور اشکالات کا شکارہورہی ہے ، حتی کہ ان کی اکثریت قرآن مجید کے بغیر نقطوں والےحروف و کلمات کی پہچان میں مشکل کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں ۔

تو اس وقت اس نے اپنی باریک بینی اوردوراندیشی سے کام لیتے ہوۓ اس مشکل اور اشکا لات کو ختم کرنے کا عزم کرتے ہوۓ حجاج بن یوسف کو یہ معاملہ سونپا کہ اس کوحل کرے ، حجاج بن یوسف نے امیر المومنین کی اطاعت کرتے ہوۓ اس مشکل کو حل کرنے کے لۓ دوآدمیوں کوچنا اور یہ ذمہ داری نصربن عاصم اللیثی اور یحیی بن یعمر العدوائ جو عالم بامل اور زھدورع اور عربی زبان کے اصول وقواعدمیں ید طولی رکھنے کی بنا پر اس اہم کام کی اہلیت رکھتے تھے ، اوروہ دونوں قرآت میں اچھا خاصہ تجربہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ابوالاسود الدولی کے شاگرد بھی تھے ۔

اللہ تعالی ان دونوں علم کے عظیم سپوتوں پر اپنی رحمت برساۓ یہ دونوں اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوۓ اور قرآن مجید کے حروف کلمات پرنقطے لگاۓ اوراس میں اس کا خاص طور پر خیال رکھا گیا کہ کسی حرف پر بھی تین سے زیاد نقطے نہ ہوں ۔

بعد میں لوگوں میں یہ چیز عام ہوئ جس کا قرآن مجید کے پڑھنے میں پیدا شدہ اشکالات اور التباس کے ازالہ میں اثر عظيم پایا جاتا ہے ۔

اور یہ بھی کہا جاتا ہےکہ مصحف پرنقطے لگانے والا سب سے پہلا شخص ابوالاسود الدؤلی ہے ، اور ابن سیرین کے پاس وہ مصحف موجود تھا جس پر یحیی بن یعمر نے نقطے لگاۓ تھے ۔

تو ان اقوال کے درمیان تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ انفرادی طور پر تو ابوالاسود الدؤلی نے ہی نقطے لگاۓ لیکن عمومی اور رسمی طور پر نقطے لگانے والا شخص عبدالملک بن مروان ہے اور یہی وہ مصحف ہے جو کہ لوگوں کے درمیان عام مشہور ہوا اور تاکہ قرآن مجید میں التباس اوراشکالات کا خاتمہ ہوسکے ۔ مناھل القرآن ( 1 / 280-281 )

سوم :

اورسوال میں جو یہ ذکر کیا گياہے کہ ابوداود السجستانی نے اپنی کتاب " المصاحف " میں ایک روایت نقل کی ہے ذیل میں ہم اس روایت اور اس پر حکم کومکمل طورپر ذکر کرتے ہیں :

عن عباد بن صھیب عن عوف بن ابی جمیلۃ ان الحجاج بن یوسف غیر فی مصحف عثمان احد عشر حرفا ۔۔۔ الخ

عباد بن صھیب عوف بن ابی جمیلہ سے بیان کرتے ہیں حجاج بن یوسف نے مصحف عثمانی میں گیارہ حرف تبدیل کيے :

سورۃ البقرۃ میں آيت نمبر ( 259 ) { لم یتسن وانظر } ھا کے بغیر تھی تو اسے بدل کر لم یتسنہ کردیا ۔

سورۃ المائدۃ میں آيت نمبر ( 48 ) { شریعۃ ومنھاجا } تھی تو اسے بدل کر{ شرعۃ ومنھاجا } کردیا ۔

سورۃ یونس میں آيت نمبر ( 22 ) { ھوالذی ینشرکم } تھی تو اسے بدل کر{ یسیرکم } کردیا ۔

سورۃ یوسف میں آيت نمبر ( 45 ) { انا آتیکم بتاویلہ } تھی تو اسے بدل کر{ انا انبئکم بتاویلہ } کردیا ۔

سورۃ الزخرف میں آيت نمبر ( 32 ) { نحن قسمنا بینھم معایشھم } تھی تو اسے بدل کر{ معیشتھم } کردیا ۔

سورۃ التکویر میں آيت نمبر ( 24 ) { وماھو علی الغیب بظنین } تھی تو اسے بدل کر{ بضنین ۔۔ } کردیا ۔ الخ ۔۔۔۔ کتاب " المصاحف " ( ص 49 ) ۔

تو یہ روایت عباد بن صھیب کے متروک الحدیث ہونے کی بنا پربہت ہی کمزوراور ضعیف یا پھر موضوع ہے ۔

علی بن مدینی رحمہ اللہ تعالی نے اس کے متعلق " ذھب حدیثہ " کہا ہے اور امام بخاری اور امام نسائ رحمہما اللہ تعالی نے اسے متروک قرار دیا ہے اور ابن حبان رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ یہ قدری عقیدہ کا داعی تھا لیکن اس کے باوجود ایسی روایات بیان کرتا ہے جسے مبتدی شخص بھی سن لےتو وہ یہی کہےگا کہ یہ موضوع ہے اور امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کا بیان ہے یہ متروکین میں سے ہے ۔

دیکھیں میزان الاعتدال للذھبی ( 4 / 28 ) ۔

اس روایت کا متن منکر اور باطل ہے اس لۓ کہ یہ بات تو عقل بھی ماننے سے قاصرہے کہ پوری دنیا میں قرآن مجید کے سب نسخوں میں اس طرح کا تغیروتبدل ہوجاۓ ، بلکہ بعض غیرمسلم لوگوں جیسا کہ رافضی شیعۃ وغیرہ تو اس کے متن کا انکار کرتے ہوۓ اس پر تنقید کرتےہیں کہ قرآن مجید ناقص ہے مکمل نہیں :

خوئ جو کہ رافضی ہے کا کہنا ہے کہ : یہ دعوی تو بہکے ہوۓ اورمجنون لوگوں اور بچوں کی خرافات وبہکی ہوئ باتوں کے مشابہ ہے ، حجاج تو بنوامیہ کا ایک گورنروکارندہ تھا ، اس میں تو اتنی ھمت نہیں تھی کہ وہ قرآن کریم میں کچھ کرسکتا ، بلکہ وہ تو اس سے بھی عاجزتھاکہ فروعات اسلامیہ میں کوئ‏ تغیروتبدل کرسکے تو یہ کیسے ہو سکتا کہ وہ اساس دین اور ستون شریعت میں تبدیلی کرسکے ؟

اور پھر اس کو سب اسلامی ممالک میں تو سلطہ و غلبہ حاصل نہیں تھا حالانکہ قرآن مجید ان سب ممالک میں پھیلا ہواتھا کہ وہ یہ کام کرسکے ؟

اور پھر اس چیزکے اتنی اھمیت کی حامل ہونے کےباوجود خطیب عظیم نے اپنی تاریخ میں کیوں نہیں ذکر کیا ، اور نہ ہی کسی ناقد نے اس پر تنقیدوجرح کی ہے ، اور پھر اس وقت کسی بھی مسلمان نے اس کی مخالفت کیوں نقل نہیں کی ؟ اور پھر حجاج کا دور اور طاقت ختم ہونے کےبعد مسلمانوں نے اس سے کس طرح چشم پوشی کیے رکھی ؟

اور بالفرض یہ مان بھی لیا جاۓ کہ حجاج نے پووی دنیا میں دور دراز تک پھیلے ہوۓ مصحف کے تمام نسخوں میں یہ کام کردیا اور کوئ ایک بھی نہ بچا توکیا یہ ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں اور حافظوں کے سینوں سے بھی زائل کر دیا ہو جن کی تعداد اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے علم میں نہیں ۔

البیان فی تفسیر القرآن ( ص 219 )

اور سائل کا یہ کہنا کہ " ماغیرہ الحجاج فی مصحف عثمان " کے نام سے امام ابوداود السجستانی نے ایک کتاب لکھی یہ بات قطعی طورپر صحیح نہیں بلکہ یہ واضح طور پر کذب بیانی ہے ، امام سجستانی نے تو صرف مندرجہ بالا حجاج کے عمل والی روایت کا یہ کہ کر باب باندھا ہے ( باب ماکتب الحجاج بن یوسف فی المصحف ) حجاج بن یوسف نے مصحف میں جو کچھ لکھا اس کے متعلق بیان ۔

تو اس بنا پر یہ روایت کسی بھی حالت میں قابل اعتماد نہیں ، اس کے پایہ ثبوت تک نہ پہنچنے اور جھوٹا ہونے میں صرف اتنی بات ہی کافی ہے کہ ابھی تک کوئ شخص اس میں ایک حرف کا بھی ردوبدل کرنے میں کا میابی حاصل نہیں کرسکا ۔

اور اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو اس میں تکرار ہوتا اور پھر خاص کر ان ادوار میں جب کہ مسلمان بہت ہی کمزور تھے اور دشمنان اسلام کی سازشیں عروج پرتھیں ، بلکہ اس طرح کہ شبھات تو اس دعووں کی باطل ہونے کی دلیل ہیں اور یہ کہ دشمنان اسلام قرآن مجید کے چیلنج اور اس کے دلائل کا جواب دینے سے عاجز آگۓ تو انہوں نے اس میں طعن کرنا شروع کردیا ۔

واللہ تعالی اعلم .

الاسلام سوال وجواب :


اللہ کے نازل کردہ قرآن مجید کے پڑھنے میں التباسات اور اشکالات تھے۔

حجاج بن یوسف نے اصحاب رسولؓ اور ازواج مطہرات ؓ کے لکھوائے قرآن مجید کے پڑھنے میں التباسات اور اشکالات کا خاتمہ کیا !!!

اللہ کے نازل کردہ قرآن مجید کے پڑھنے میں التباسات اور اشکالات تھے۔

زرقانی کا قول ہے کہ معروف ہے کہ مصحف عثمانی نقطوں کے بغیر تھا۔ (چاہے جو بات بھی ہو) مشہور یہی ہے کہ قرآن مجید کے نقطوں کا آغاز عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں ہو ا ہے اس لیے کہ جب اس نے یہ دیکھا کہ اسلام کی حدیں پھیل چکی ہیں اورعرب وعجم آپس میں گھل مل گئے ہیں اورعجمیت عربی زبان کی سلامتی کے لیے خطرہ بن رہی ہے اور لوگوں کی اکثریت قرآن مجید کو پڑھنے میں التباس اور اشکالات کا شکارہو رہی ہے ،حتی کہ ان کی اکثریت قرآن مجید کے بغیر نقطوں والے حروف و کلمات کی پہچان میں مشکل کا شکار ہوتے نظر آتی ہے تو اس وقت اس نے اپنی باریک بینی اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے اس مشکل کو ختم کرنے کا عزم کرتے ہوئے حجاج بن یوسف کو یہ معاملہ سونپا کہ اس کو حل کرے۔ حجاج بن یوسف نے اس مشکل کو حل کرنے کے لیے دو آدمیوں کو چنا اور یہ ذمہ داری نصر بن عاصم اللیثی اور یحییٰ بن یعمر العدوی کو سونپی جو عالم باعمل اورعربی زبان کے اصول وقواعد میں ید طولیٰ رکھنے کی بنا پر اس اہم کام کی اہلیت رکھتے تھے، اور وہ دونوں قرأت میں اچھا خاصہ تجربہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ابو الا سود الدولی کے شاگرد بھی تھے۔

یہ دونوں اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوئے اورقرآن مجید کے حروف و کلمات پر نقطے لگائے اوراس میں اس کا خاص طور پر خیال رکھا گیا کہ کسی حرف پر بھی تین سے زیادہ نقطے نہ ہوں۔ بعد میں لوگوں میں یہ چیز عام ہوئی) جس کا قرآن مجید کے پڑھنے میں پیدا شدہ اشکالات اورالتباسات کے ازالہ میں اثر پایا جاتا ہے۔

اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ مصحف پر نقطے لگانے والا سب سے پہلا شخص ابو الاسود الدولی ہے اور ابن سیرین کے پاس وہ مصحف موجود تھا جس پر یحییٰ بن یعمر نے نقطے لگائے تھے۔ ان اقوال کے درمیان تطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے کہ انفرادی طورپر تو ابو الاسود الدولی نے ہی نقطے لگائے لیکن عمومی اور رسمی طور پر نقطے لگانے والا شخص عبدالملک بن مروان ہے اور یہی مصحف ہے جو کہ لوگوں کے درمیان عام مشہور ہوا تاکہ قرآن مجید (کے پڑھنے ) میں التباسات اور اشکالات کا خاتمہ ہو سکے۔

No comments:

Post a Comment