Thursday, December 13, 2012

تیر ے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب



تیر ے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب !

 

از قلم : فاروق سرور خان طالب علم قرآن

 

ہمارے ایک عزیز و محترم دوست پوچھتے ہیں‌کہ درج ذیل شعر علامہ اقبال نے کس وجہ سے کہا تھا۔ اور اس کا کیا مطلب ہے۔

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صا حب کشاف

-------------------------
اس شعر کی تفصیل میں درج ذیل واقعہ پیش کیا جاتا ہے:

علامہ اقبال نے اپنی آخری عمر میں تمام سوالات کے جوابات ، صرف اور صرف قرآن حکیم سے دیتے تھے۔ جب علامہ اقبال سے‌پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے ؟

تو علامہ اقبال نے بتایا کہ جب وہ چھوٹے لڑکے تھے تو ان کے والد صاحب ، شیخ نور محمد، نے حکم دیا کہ روزانہ صبح‌ قرآن مجید پڑھا کیجئے۔۔۔۔

چند دن بعد ۔۔۔ جب اقبال قرآن مجید پڑھ کر فارغ ہوئے تو والد صاحب نے پوچھا کہ ۔۔۔
اقبال قرآن مجید سمجھ میں آرہا ہے؟
اقبال نے جواب دیا ۔۔۔ کچھ کچھ۔۔
چند روز بعد ان کے والد صاحب نے یہی سوال دہرایا۔۔۔ جس کا جواب اقبال نے یہ دیا کہ میں جناب حافظ الرازی اور حضرت علی ہجویری (داتا گنج بخش ) کی تصانیف سے قرآن سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود بھی سمجھ میں‌نہیں‌آتا۔

شیخ نور محمد صاحب نے اقبال کو بتایا کہ قرآن مجید اللہ تعالی نے رسول اللہ کے قلب پر نازل کیا جو حضور اکرم نے سب تک پہنچادیا،۔۔ یہ اس وقت تک سمجھ میں نہیں ‌آئے گا جب یہ تمہارے اپنے ضمیر پر نہ اتر جائے۔

والسلام

 

اقتباس:
اصل مراسلہ منجانب :
فیصل ناصر
 
فاروق بھائی
کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کے قرآن پڑھنے اور سمجھنے کے لئے کسی تفسیر یا تفہیم کے بجائے صرف اپنے ذہن و قلب کو استعمال کیا جائے ؟؟

فیصل بھائی۔۔۔

ایسا نہیں کہہ رہا ۔۔۔۔

بنیادی خیال یہ ہے کہ اپنے دل و دماغ پر مکمل کتاب اتار لیجئے۔۔۔اور پہلے خود اپنی عقل و فہم سے سمجھئے کہ اللہ تعالی کیا فرما رہے ہیں۔ اس کے بعد دیکھئے کہ دوسرے کیا فرما رہے ہیں۔ تاکہ بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کے خیالات سے پہلے متاثر ہوں، پہلے اللہ تعالی کے پیش کردہ نظریات سے متاثر ہوں۔

اس کے برعکس ایک شارٹ‌کٹ‌یہ ہے کہ یہ جلدی میں دیکھ لیا جائے کہ کسی دوسرے نے کیا سمجھا ہے اور صرف اس حد تک سمجھ لیا جائے۔

والسلام

No comments:

Post a Comment