Thursday, December 20, 2012

بقول بخاری حضرت فاطمہ عليها السلام پہلی منکر حدیث



بقول بخاری حضرت فاطمہ عليها السلام پہلی منکر حدیث

فاطمہ  نے وفات تک صدیق اکبر  سے گفتگو نہ کی۔

صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بیان کی، حضرت فاطمہ عليها السلام نے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ماننے سے انکار کیا ۔

48 - جہاد اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : (392)
مال غنیمت کے پانچویں حصہ کی فرضیت کا بیان
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثنا إبراهيم بن سعد عن صالح عن ابن شهاب قال أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها أخبرته أن فاطمة عليها السلام ابنة رسول الله صلی الله عليه وسلم سألت أبا بکر الصديق بعد وفاة رسول الله صلی الله عليه وسلم أن يقسم لها ميراثها مما ترک رسول الله صلی الله عليه وسلم مما أفائ الله عليه فقال لها أبو بکر إن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال لا نورث ما ترکنا صدقة فغضبت فاطمة بنت رسول الله صلی الله عليه وسلم فهجرت أبا بکر فلم تزل مهاجرته حتی توفيت وعاشت بعد رسول الله صلی الله عليه وسلم ستة أشهر قالت وکانت فاطمة تسأل أبا بکر نصيبها مما ترک رسول الله صلی الله عليه وسلم من خيبر وفدک وصدقته بالمدينة فأبی أبو بکر عليها ذلک وقال لست تارکا شيئا کان رسول الله صلی الله عليه وسلم يعمل به إلا عملت به فإني أخشی إن ترکت شيئا من أمره أن أزيغ فأما صدقته بالمدينة فدفعها عمر إلی علي وعباس وأما خيبر وفدک فأمسکها عمر وقال هما صدقة رسول الله صلی الله عليه وسلم کانتا لحقوقه التي تعروه ونوائبه وأمرهما إلی من ولي الأمر قال فهما علی ذلک إلی اليوم قال أبو عبد الله اعتراک افتعلت من عروته فأصبته ومنه يعروه واعتراني
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 358      حدیث متواتر حدیث مرفوع        مکررات  21   متفق علیہ 12
 عبدالعزیز بن عبداللہ ابراہیم بن سعد صالح ابن شہاب عروہ بن زبیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استدعا کی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جو اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطور فئے عنایت فرمایا تھا ان کا میراثی حصہ ان کو دیدیں تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماگئے ہیں کہ ہمارے مال میں عمل میراث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے اس پر جناب فاطمہ ناخوش سی ہوئیں اور اپنی وفات تک صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو نہ کی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ چھ ماہ تک زندہ رہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ جناب فاطمہ نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنا حصہ رسول اللہ کے مال متروکہ خیبر و فدک میں سے اور اس مال صدقہ میں سے جو مدینہ منورہ موجود تھا طلب کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے دینے سے انکار کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ اس میں تصرف فرمایا ہے میں اس میں سے آپ کے کسی عمل کو نہیں چھوڑ سکتا میں ڈرتا ہوں اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ عمل سے کچھ بھی چھوڑ دوں گا تو گم کردہ راہ ہو جاؤں گا سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مال موقوفہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی اور حضرت عباس کو دے دیا تھا لیکن خیبر اور فدک اپنی نگرانی میں رکھا تھا اور کہا تھا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا وقف ہے اور آپ نے ان دونوں کو ان مصارف و ضروریات کے لیے رکھا تھا جو درپیش ہوتے رہتے تھے اور ان کے انتظام کا اختیار خلیفہ وقت کو دیا تھا امام بخاری نے کہا ہے کہ یہ دونوں آج کی تاریخ تک اپنی اسی حالت و کیفیت میں بطور واقف موجود ہیں۔
بخاری میں امام بخاری نے خود  کہا  ؟؟؟
Narrated 'Aisha:
(mother of the believers) After the death of Allah 's Apostle Fatima the daughter of Allah's Apostle asked Abu Bakr As-Siddiq to give her, her share of inheritance from what Allah's Apostle had left of the Fai (i.e. booty gained without fighting) which Allah had given him. Abu Bakr said to her, "Allah's Apostle said, 'Our property will not be inherited, whatever we (i.e. prophets) leave is Sadaqa (to be used for charity)." Fatima, the daughter of Allah's Apostle got angry and stopped speaking to Abu Bakr, and continued assuming that attitude till she died. Fatima remained alive for six months after the death of Allah's Apostle.
She used to ask Abu Bakr for her share from the property of Allah's Apostle which he left at Khaibar, and Fadak, and his property at Medina (devoted for charity). Abu Bakr refused to give her that property and said, "I will not leave anything Allah's Apostle used to do, because I am afraid that if I left something from the Prophet's tradition, then I would go astray." (Later on) Umar gave the Prophet's property (of Sadaqa) at Medina to 'Ali and 'Abbas, but he withheld the properties of Khaibar and Fadak in his custody and said, "These two properties are the Sadaqa which Allah's Apostle used to use for his expenditures and urgent needs. Now their management is to be entrusted to the ruler." (Az-Zuhrl said, "They have been managed in this way till today.")

34 - جہاد کا بیان : (182)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے کے بیان میں
و حدثنا ابن نمير حدثنا يعقوب بن إبراهيم حدثنا أبي ح و حدثنا زهير بن حرب والحسن بن علي الحلواني قالا حدثنا يعقوب وهو ابن إبراهيم حدثنا أبي عن صالح عن ابن شهاب أخبرني عروة بن الزبير أن عاشة زوج النبي صلی الله عليه وسلم أخبرته أن فاطمة بنت رسول الله صلی الله عليه وسلم سألت أبا بکر بعد وفاة رسول الله صلی الله عليه وسلم أن يقسم لها ميراثها مما ترک رسول الله صلی الله عليه وسلم مما أفا الله عليه فقال لها أبو بکر إن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال لا نورث ما ترکنا صدقة قال وعاشت بعد رسول الله صلی الله عليه وسلم ستة أشهر وکانت فاطمة تسأل أبا بکر نصيبها مما ترک رسول الله صلی الله عليه وسلم من خيبر وفدک وصدقته بالمدينة فأبی أبو بکر عليها ذلک وقال لست تارکا شيا کان رسول الله صلی الله عليه وسلم يعمل به إلا عملت به إني أخشی إن ترکت شيا من أمره أن أزيغ فأما صدقته بالمدينة فدفعها عمر إلی علي وعباس فغلبه عليها علي وأما خيبر وفدک فأمسکهما عمر وقال هما صدقة رسول الله صلی الله عليه وسلم کانتا لحقوقه التي تعروه ونوابه وأمرهما إلی من ولي الأمر قال فهما علی ذلک إلی اليوم
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 85          حدیث متواتر حدیث مرفوع        مکررات  21   متفق علیہ 12
 ابن نمیر، یعقوب بن ابراہیم، زہیر بن حرب، حسن بن علی حلوانی، یعقوب بن ابراہیم، صالح، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ خبر دیتی ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں سے جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فئی دیا تھا اس میراث کو آپ نے تقسیم کیا تو حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم (نبیوں اور رسولوں) کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے راوی کہتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں اور حضرت فاطمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیر فدک اور مدینہ کے صدقہ میں سے چھوڑا تھا اس میں سے اپنے حصہ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کرتی رہیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو یہ دینے سے انکار کیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں کوئی وہ عمل نہیں چھوڑوں گا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا سوائے اس کے کہ میں اسی پر عمل کروں گا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئے ہوئے کسی عمل کو چھوڑا تو میں گمراہ ہو جاؤں گا اور جو مدینہ کے صدقات ہیں تو انہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو دیے دیئے ہیں اور ان پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا غلبہ ہے اور خبیر اور فدک کے مال کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے پاس رکھا اور فرمایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقات ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حقوق اور ملکی ضروریات میں خرچ کرتے تھے اور یہ اس کی تولیت (یعنی نگرانی) میں رہیں گے کہ جو مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا تو آج تک ان کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔
It has been narrated by 'Urwa b Zubair on the authority of 'A'isha, wife of the Holy Prophet (may peace be upon him), that Fatima, daughter of the Messenger of Allah (may peace be upon him), requested Abu Bakr, after the death of the Messenger of Allah (may peace he upon him), that he should set apart her share from what the Messenger of Allah (may peace be upon him) had left from the properties that God had bestowed upon him. Abu Bakr said to her: The Messenger of Allah (may peace be npon him) said: "We do not have any heirs; what we leave behind is Sadaqa (charity)." The narrator said: She (Fatima) lived six months after the death of the Messenger of Allah (may peace be upon him) and she used to demand from Abu Bakr her share from the legacy of the Messenger of Allah (may peace be upon him) from Khaibar, Fadak and his charitable endowments at Medina. Abu Bakr refused to give her this, and said: I am not going to give up doing anything which the Messenger of Allah (may peace be upon him) used to do. I am afraid that if I go against his instructions in any matter I shall deviate from the right course. So far as the charitable endowments at Medina were concerned, 'Umar handed them over to 'Ali and Abbas, but 'Ali got the better of him (and kept the property under his exclusive possession). And as far as Khaibar and Fadak were concerned 'Umar kept them with him, and said: These are the endowments of the Messenger of Allah (may peace be upon him) to the Umma. Their income was spent on the discharge of the responsibilities that devolved upon him on the emergencies he had to meet. And their management was to be in the hands of one who managed the affairs (of the Islamic State). The narrator said: They have been managed as such up to this day.

51 - غزوات کا بیان : (473)
یہود بنی نضیر کے پاس آنحضرت کا جانا دو آدمیوں کی دیت کے سلسلہ میں اور ان کا رسول اللہ سے دغا کرنا زہری عروہ بن زبیر سے روایت کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ غزوہ بنی نضیر بدر سے چھ ماہ بعد اور احد سے پہلے ہوا اور اللہ تعالیٰ کا سورت حشر میں فرمانا ہوالذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتاب من دیارھم لاول الحشر وہی پروردگار ہے جس نے اہل کتاب کے کافروں کو ان کے گھروں سے نکالا یہ ان کا پہلا نکلنا تھا اور ابن اسحق نے بھی بنی نضیر کے بعد بیرمعونہ اور جنگ احد کا ذکر کیا ہے۔
حدثنا إبراهيم بن موسیٰ أخبرنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة أن فاطمة عليها السلام والعباس أتيا أبا بکر يلتمسان ميراثهما أرضه من فدک وسهمه من خيبر فقال أبو بکر سمعت النبي صلی الله عليه وسلم يقول لا نورث ما ترکنا صدقة إنما يأکل آل محمد في هذا المال والله لقرابة رسول الله صلی الله عليه وسلم أحب إلي أن أصل من قرابتي
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1261               حدیث متواتر حدیث مرفوع        مکررات  21   متفق علیہ 12
 ابراہیم بن موسی، ہشام، معمر، زہری، حضرت عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عباس اور حضرت فاطمہ الزہراء عليها السلام  دونوں حضرت ابوبکر کے پاس آکر اپنا ترکہ زمین فدک اور آمدنی خیبر سے مانگنے لگے، حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہم لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ اپنی گزر کے لیے اس میں سے لے سکتے ہیں، رہا سلوک کرنا تو اللہ کی قسم! میں رسول اکرم کے رشتہ داروں سے سلوک کرنے کو اپنے رشتہ داروں سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔
Narrated 'Aisha:
Fatima and Al'Abbas came to Abu Bakr, claiming their inheritance of the Prophet's land of Fadak and his share from Khaibar. Abu Bakr said, "I heard the Prophet saying, 'Our property is not inherited, and whatever we leave is to be given in charity. But the family of Muhammad can take their sustenance from this property.' By Allah, I would love to do good to the Kith and kin of Allah's Apostle rather than to my own Kith and kin."

38 - فئی تقسیم کر نے سے متعلق : (16)
مسلمان کا خون حرام ہونا
أخبرنا عمرو بن يحيی بن الحارث قال حدثنا محبوب يعني ابن موسی قال أنبأنا أبو إسحق هو الفزاري عن شعيب بن أبي حمزة عن الزهري عن عروة بن الزبير عن عاشة أن فاطمة أرسلت إلی أبي بکر تسأله ميراثها من النبي صلی الله عليه وسلم من صدقته ومما ترک من خمس خيبر قال أبو بکر إن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال لا نورث
سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 445       حدیث متواتر حدیث مرفوع        مکررات  21   متفق علیہ 12
 عمرو بن یحیی بن حارث، محبوب یعنی ابن موسی، ابواسحاق ، فزاری، شعیب بن ابوحمزة، زہری، عروة بن زبیر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ نے حضرت ابوبکر صدیق کی خدمت میں کسی کو بھیجا اپنا ترکہ مانگنے کے واسطے جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ کا اور خیبر کے مال کا پانچواں حصہ چھوڑا تھا۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہمارے ترکہ کا کوئی وارث نہیں ہے بلکہ ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے اور اسی حدیث کے بموجب حضرت ابوبکر نے اپنی لڑکی حضرت عائشہ صدیقہ کا ترکہ بھی نہیں دیا بلکہ جس طریقہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیویوں اور کنبہ کے لوگوں کو دیا کرتے تھے اسی طریقہ سے دیتے رہے۔
It was narrated that Qais bin Muslim said: ‘I asked Al-Hasan bin Muhammad about the saying of Allah, the Mighty and Sublime: ‘And know that whatever of spoils of war that you may gain, verily, one-fifth of it is assigned to Alah.’ He said: ‘This is the key to the Speech of Allah. This world and the Hereafter belong to Allah.’ He said: ‘They differed concerning these two shares after the death of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم the share of the Messenger and the share of the near relatives (of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ). Some said that the share of the near relatives was for the relatives of the Messenger , and some said that the share of the near relatives was for the relatives of the KhalIfah. Then they agreed that these two shares should be spent on horses and equipment in the cause of Allah, and they were allocated for this purpose during the Khilafah of Abu Bakr and ‘Umar.” (Sahih)

38 - فئی تقسیم کر نے سے متعلق : (16)
مسلمان کا خون حرام ہونا
أخبرنا علي بن حجر قال حدثنا إسمعيل يعني ابن إبراهيم عن أيوب عن عکرمة بن خالد عن مالک بن أوس بن الحدثان قال جا العباس وعلي إلی عمر يختصمان فقال العباس اقض بيني وبين هذا فقال الناس افصل بينهما فقال عمر لا أفصل بينهما قد علما أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال لا نورث ما ترکنا صدقة قال فقال الزهري وليها رسول الله صلی الله عليه وسلم فأخذ منها قوت أهله وجعل ساره سبيله سبيل المال ثم وليها أبو بکر بعده ثم وليتها بعد أبي بکر فصنعت فيها الذي کان يصنع ثم أتياني فسألاني أن أدفعها إليهما علی أن يلياها بالذي وليها به رسول الله صلی الله عليه وسلم والذي وليها به أبو بکر والذي وليتها به فدفعتها إليهما وأخذت علی ذلک عهودهما ثم أتياني يقول هذا اقسم لي بنصيبي من ابن أخي ويقول هذا اقسم لي بنصيبي من امرأتي وإن شاا أن أدفعها إليهما علی أن يلياها بالذي وليها به رسول الله صلی الله عليه وسلم والذي وليها به أبو بکر والذي وليتها به دفعتها إليهما وإن أبيا کفيا ذلک ثم قال واعلموا أنما غنمتم من شي فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربی واليتامی والمساکين وابن السبيل هذا لهؤلا إنما الصدقات للفقرا والمساکين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله هذه لهؤلا وما أفا الله علی رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا رکاب قال الزهري هذه لرسول الله صلی الله عليه وسلم خاصة قری عربية فدک کذا وکذا ف ما أفا الله علی رسوله من أهل القری فلله وللرسول ولذي القربی واليتامی والمساکين وابن السبيل و للفقرا المهاجرين الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم والذين تبووا الدار والإيمان من قبلهم والذين جاوا من بعدهم فاستوعبت هذه الآية الناس فلم يبق أحد من المسلمين إلا له في هذا المال حق أو قال حظ إلا بعض من تملکون من أرقاکم ولن عشت إن شا الله ليأتين علی کل مسلم حقه أو قال حظه
سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 452       حدیث متواتر حدیث مرفوع        مکررات  48   متفق علیہ 12
 علی بن حجر، اسماعیل یعنی ابن ابراہیم، ایوب، عکرمة بن خالد، مالک بن اوس بن حدثان سے روایت ہے کہ حضرت عباس اور حضرت علی دونوں حضرات جھگڑا کرتے ہوئے (یعنی اختلاف کرتے ہوئے آئے) اس مال کے سلسلہ میں جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا جیسے کہ فدک اور قبیلہ بنو نضیر اور غزوہ خیبر کا خمس کہ جس کو حضرت عمر نے اپنی خلافت میں اب دونوں حضرات کو سپرد کر دیا تھا۔ حضرت ابن عباس نے کہا کہ میرا اور ان کا فیصلہ فرما دیں۔ حضرت عمر نے فرمایا میں کبھی فیصلہ نہیں کروں گا (یعنی اس مال کو میں تقسیم نہیں کروں گا) اس لیے کہ دونوں کو معلوم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہمارا ترکہ کسی کو نہیں ملتا اور ہم لوگ جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مال کے متولی رہے اور اس میں سے اپنے گھر کے خرچ کے مطابق لے لیتے اور باقی اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر اس کے متولی رہے پھر حضرت ابوبکر کے بعد میں اس کا متولی رہا۔ میں نے بھی اسی طریقہ سے کیا کہ جس طریقہ سے حضرت ابوبکر کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے لوگوں کو خرچہ کے مطابق دے دیا کرتے تھے اور باقی بیت المال میں جمع فرماتے پھر یہ دونوں (یعنی حضرت عباس اور حضرت علی) میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ وہ مال ہمارے حوالے فرما دیں ہم اس میں سے اسی طریقہ سے عمل کریں گے کہ جس طریقہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اور حضرت ابوبکر صدیق) عمل فرماتے تھے اور جس طریقہ سے تم عمل کرتے رہے میں نے وہ مال دونوں کے سپرد کر دیا اور دونوں سے اقرار لے لیا اب یہ دونوں پھر واپس آگئے ہیں ایک کہتا ہے میرا حصہ میرے بھتیجے سے واپس دلا (یعنی حضرت عباس سے کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے) اور دوسرا شخص کہتا ہے کہ میرا حصہ میری اہلیہ کی جانب سے دلا (یعنی حضرت علی کیونکہ وہ شوہر تھے حضرت فاطمہ کے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محترم صاحب زادی تھیں) اگر ان کو منظور ہو تو وہ مال میں ان کے سپرد کرتا ہوں اس شرط پر کہ اس طرح سے عمل فرمائیں کہ جس طریقہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمل فرماتے تھے اور ان کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا ہے اور ان کے بعد میں نے یہ کیا ہے اور جو ان کو منظور نہ ہو تو وہ اپنے گھر بیٹھ جائیں (اور جو مال ہے وہ ہمارے پاس ہی رہے گا) پھر حضرت عمر نے فرمایا قرآن کریم میں دیکھو کہ خداوند قدوس مال غنیمت سے متعلق فرماتا ہے کہ اس میں سے خمس خداوند قدوس اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رشتہ داروں اور یتامی مساکین اور عاملین اور مسافروں کا ہے اور صدقات کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ فقراء اور مساکین اور عاملین اور مؤلفة قلوب اور غلاموں اور قرض داروں اور مجاہدین کے واسطے ہیں اور اس مال کو بھی حضرت نے صدقہ و خیرات فرمایا تو اس میں بھی فقراء و مساکین اور تمام اہل اسلام کا حق ہوگا اور اس میں کچھ مال غنیمت ہے اس میں بھی اس سب کا حق ہے پھر ارشاد الٰہی ہے کہ اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو مال عطاء فرمایا اور (تم نے اس کے حاصل کرنے میں) اپنے گھوڑے اور سواریاں نہیں دوڑائیں (یعنی جنگ اور قتل و قتال کے بغیر جو مال ہاتھ آگیا) راوی زہری نے نقل فرمایا البتہ یہ مال خاص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے اور وہ چند گاؤں عربیہ یا عرینہ کے اور فدک اور فلاں اور فلاں مگر اس مال کے حق میں بھی خداوند قدوس کا ارشاد ہے کہ جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عنائت فرمایا گاؤں والوں سے وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے اور رشتہ داروں کا اور یتامی اور مساکین کا اور مسافروں کا ہے پھر ارشاد فرمایا ہے کہ ان فقراء کا بھی اس میں حق ہے جو کہ اپنے مکان چھوڑ کر آئے اور اپنے مکانات سے نکال دئیے گئے اور اپنے مالوں سے محروم کر دیئے گئے پھر ارشاد فرمایا ہے کہ ان کا بھی حق ہے کہ ان سے پہلے دارالسلام میں آچکے تھے اور ایمان لا چکے تھے پھر ارشاد ہے کہ ان کا بھی حق ہے کہ جو کہ ان لوگوں کے بعد مسلمان ہو کر آئے تو اس آیت کریمہ نے تمام مسلمانوں کو احاطہ کر لیا اب کوئی مسلمان باقی نہیں رہا ہے کہ جس کا حق اس مال میں نہ ہو یا اس کا کچھ حصہ نہ ہوالبتہ تم لوگوں کے بعض اور باندی ہی رہ گئے ان کا حصہ اس مال میں نہیں ہے (وہ محروم ہیں) اور میں زندہ رہوں گا تو البتہ اللہ چاہے تو ہر ایک مسلمان کو اس میں سے کچھ نہ کچھ حق یا حصہ ملے گا۔
It was narrated that ‘Ubadah bin As-Samit said: “We pledged to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, to hear and obey, both in times of hardship and ease.” And he mentioned similarly. (Sahih)

185 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان : (32)
نبی کے ترکہ میں میراث جاری نہی ہوتی
وعن أبي بكر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا نورث ما تركناه صدقة " . متفق عليه
مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 575                            
 اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم (انبیاء علیہم السلام) جو کچھ (زمین جائیداد یا مال ) چھوڑتے ہیں اس میں میراث جاری نہیں ہوتی بلکہ وہ صدقہ ہے ۔" (بخاری ومسلم )

تشریخ :
مطلب یہ ہے کہ انبیاء از قسم مال جائیدادجو کچھ چھوڑجاتے ہیں وہ میراث کے طور پر ان کے پسماندگاں کا حق نہیں ہوتا بلکہ صدقہ کا مال ہوتا ہم جس کا مصرف فقراء ومساکین ہوتے ہیں اور صوفیہ کے نزدیک " فقیر " کی تعریف یہ ہے کہ وہ شخص جو کسی چیز کا مالک نہ ہو۔ پس انبیاء علہیم السلام کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ بظاہر ان کا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں امانت یا وقف اور صدقہ کے طور پر ان کے پاس رہتا ہے اور جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے اسی وجہ سے نہ انبیاء علیہم السلام کی مالی میراث جاری ہوتی ہے اور نہ کوئی شخص ان کا وارث قرار پاتا ہے اور جب ان کی وراثت ہی قائم نہی ہوتی تو ان کے ورثاء اور پسماندگان میں کسی کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ ان کا ترکہ پانے کی تمنا میں ان کی موت سے خوش ہو تفصیلی روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث اس وقت بیان کی تھی جب حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے میراث کا مطالبہ سامنے آیا تھا ، انہوں نے حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ انہی مصارف میں خرچ کرتا ہوں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرمایا کرتے تھے اور اسی اعتبار سے میں تمہاری غم خواری بھی اسی طرح کرتا ہوں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری غم خواری کرتے تھے یہ حدیث میں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے کہ ہم انبیاء علیہم السلام کی (مالی ) وراثت قائم نہیں ہوتی ۔ یہ منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات صرف فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نہیں کہی تھی بلکہ ازواج مطہرات سے بھی کہی تھی جنہوں نے میراث کا مطالبہ کیا تھا ، اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی میراث قائم نہیں ہوگی، تنہا اپنی مرضی سے نہیں دیا تھا بلکہ انہوں نے تمام بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بلا کر مشورہ کیا اور سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ ہم نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ فیصلہ دیا ۔


1 - ا ب ج : (26407)
حضرت صدیق اکبر کی مرویات
حدثنا يعقوب قال حدثنا أبي عن صالح قال ابن شهاب أخبرني عروة بن الزبير أن عاشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته أن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم سألت أبا بكر رضي الله عنه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يقسم لها ميراثها مما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم مما أفا الله عليه فقال لها أبو بكر رضي الله عنه إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا نورث ما تركنا صدقة فغضبت فاطمة عليها السلام فهجرت أبا بكر رضي الله عنه فلم تزل مهاجرته حتى توفيت قال وعاشت بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة أشهر قال وكانت فاطمة رضي الله عنها تسأل أبا بكر نصيبها مما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم من خيبر وفدك وصدقته بالمدينة فأبى أبو بكر عليها ذلك وقال لست تاركا شيا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعمل به إلا عملت به وإني أخشى إن تركت شيا من أمره أن أزيغ فأما صدقته بالمدينة فدفعها عمر إلى علي وعباس فغلبه عليها علي وأما خيبر وفدك فأمسكهما عمر رضي الله عنه وقال هما صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم كانتا لحقوقه التي تعروه ونوابه وأمرهما إلى من ولي الأمر قال فهما على ذلك اليوم
مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 25          حدیث متواتر حدیث مرفوع        مکررات  48   متفق علیہ 12
 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ مال غنیمت میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ترکہ بنتا ہے، اس کی میراث تقسیم کردیں، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا اپنے ذہن میں اس پر کچھ بوجھ محسوس ہوا، چنانچہ انہوں نے اس معاملے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بات کرنا ہی چھوڑ دی اور یہ سلسلہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی وفات تک رہا، یاد رہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چھ ماہ ہی زندہ رہیں ۔ اصل میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ارض خیبر وفدک میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ کا مطالبہ کر رہی تھیں، نیز صدقات مدینہ میں سے بھی اپنا حصہ وصول کرنا چاہتی تھیں، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس مطالبے کو پورا کرنے سے معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح جو کام کرتے تھے، میں اسے چھوڑ نہیں سکتا بلکہ اسی طرح عمل کروں گا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، اس لئے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل اور طریقے کو چھوڑ ا تو میں بہک جاؤں گا۔ بعد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صدقات مدینہ کا انتظام حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیا تھا، جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر غالب آگئے، جبکہ خیبر اور فدک کی زمینیں حضرت عمر فارو ق رضی اللہ عنہ نے خلاف کے زیر انتظام ہی رکھیں اور فرمایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ ہیں، اور اس کا مصرف پیش آمدہ حقوق اور مشکل حالات ہیں اور ان کی ذمہ داری وہی سنبھالے گا جو خلیفہ ہو، یہی وجہ ہے کہ آج تک ان دونوں کی یہی صورت حال ہے۔

 نہیں، اے محمدؐ، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔ [النساء: 65]
 

No comments:

Post a Comment