Tuesday, October 7, 2014

تاریخ میں مسلم امت کے اندر سامراج کے کئی سارے "داعش" مثل


تاریخ میں مسلم امت کے اندر سامراج کے کئی سارے "داعش" مثل

میں اس مضمون میں آجکل عراق میں تیار کردہ فرضی نام سے ابوبکر بغدادی جس کو اسلامی خلافت قائم کرنے کی دعوی سے سامراج نے لایا ہے جسکی مہم سردست دولت اسلامیہ عراق و شام کے نام سے مشہور کی گئی ہے،  ویسے اسکا ہدف حکومت سعودیہ پاکستان بلکہ سارے عالم اسلام میں خلافت قائم کرنا بتایاجا رہا ہے اسکی اسکیموں میں کعبۃ اللہ کو منہدم کرنے کی بات بھی سننے میں آئی ہے ویسے روس کی کسی خبر ایجنسی کے حوالہ سے اخبارات میں اسکا ایک تعارف امریکن سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ اسنوڈن کے حوالہ سے یہ آیا ہے کہ یہ آدمی اسرائیل میں امریکا اور اسرائیل کے مشترکہ منصوبوں کی تکمیل کی خاطر تیار کیا گیا ہے اسکی سرگرمیاں اسکے مخفف نام داعش سے میڈیا پر بڑے  پئمانے پر تیزی سے آرہی ہیں۔ اس آدمی نے اتنے بڑے منصب کی دعویٰ کرنے کے بعد اس کے شایان شان کوئی منشور نہیں دیا  کہ اپنی خلافت کے حوالہ سے وہ دین اسلام کے لئے کیا کیا اصلاحات لائے گا وہ بھی کس علم کی روشنی میں لیکن اس نے تو آتے ہی نیٹو سامراج کے منشور کی خاطر کام شروع کردیا ہے۔ یہ اس لئے بھی خلافت کا عہدہ اسلامی تاریخ کا ایک مقدس نام رہا ہے اس لئے سامراج نے اس عہدہ اور لقب کو تاش کے ایک پتے کے طور پر استعمال کرنے کے لئے یورو اور ڈالر کی جنگ میں استعمال کرنا چاہا ہے۔  میں نے مضمون کے عنوان میں دعوی کی ہے کہ اسلامی تاریخ میں مسلم امت کے اندر سامراج نے قدم قدم پر کئی  "داعش" مثل تحریکوں کے لوگ فٹ کئے ہیں یہ کوئی پہلا داعشی آدمی نہیں ہے، شروع زمانے میں جو "داعش" مثل تحریکی لوگ لائے گئے انکی اکثریت کا انداز یہ تھا کہ یہ لوگ بڑے عالم فاضل  اور دین اسلام کو جاننے اور سمجھنے والے  ہوتےتھے جس علمیت سے وہ قرآن کا رد کرکے روایات کے نام سے متبادل دین بنا سکیں، خود جناب رسول علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں بھی علم حدیث ایجاد کرنے والوں نے ایک کاغذی اور جعلی نام کا  بڑا محدث یہودی شخص مشہور کیا غالبا اسکا نام کعب احبار متعارف کرایاجسکا حقیقی وجود نہیں تھا، جو خود جناب رسول  کو بھی اس سے توریت اور انجیل کے حوالہ جات سے یہود و نصاریٰ کی تعلیم اور مسائل پوچھتے دکھایا ہے گویا کہ حدیث سازوں نے اپنا تیار کردہ یہ یہودی "داعشی" مثل ہمارے رسول کا بھی استاد بنادیا جو جناب رسول کے زمانہ میں بھی یہودی رہتا ہے اس نے ان دنوں اسلام قبول نہیں کیا اور انکے بعد پہلے اور دوسرے خلیفہ کے زمانہ میں بھی یہودی بنا رہتا ہے امت کے یہ بڑے خلفاء  بھی اپنے رسول کی طرح اس سے دینی معلومات حاصل کرتے دکھائے گئے ہیں پھر یہ "داعشی" قسم کا آدمی تیسرے خلیفہ کے زمانہ میں اسلام قبول کرتا ہے اسکی تفاصیل کو ئی بھی آدمی علم حدیث کے اسماء رجال میں پڑھ سکتا ہے۔ اسکےبعد امت مسلمہ کے اندر دوسرا داعشی مثل فرضی جعلی اور کاغذی آدمی یہودی النسل عبداللہ ابن سبا لایا جاتا ہے جو غالبا پہلے خلیفہ کے زمانہ میں ظاہر ہوتا ہے اور اسکی حدیثیں اس قسم کی ہیں کہ علی اللہ ہے علی آسمانوں میں رہتا ہے بادلوں کی گرج چمک علی کی آواز اور مسکراہٹ ہے (وغیرہ) اسکے بارے میں اسماء رجال والے لکھتے ہیں کہ اسکو علی نے اپنی خلافت کے زمانہ میں گرفتار کروا کر بطور سزا آگ میں ڈال کر جلاکر مروادیا تھا۔ میں شاید ان پہلے دوعدد یہودی "داعشی" مثل لوگوں کے بعد والے "داعشی" لوگوں  کا ، ڈرکے مارے نام نہ لکھ سکوں البتہ یہ ضرور بتاتا ہوں کہ کئی سارے "داعشی" مثل لوگ مجوسیوں میں سے اور عیسائیوں میں سے بھی تیار کئے گئے ، بلکہ پہلا داعشی مثل آدمی حدیث سازوں نے تو ایک عیسائی بنام ورقہ بن نوفل کے فرضی نام سے ایک فرضی شخصیت بتائی ہے، جس نے ہمارے رسول کو اطلاع دی تھی کے آپ نبی بن گئے ہیں یعنی ہمارے نبی کو جبرائیل کے بتانے کے باوجود اپنے نبی بننے کا پتہ نہیں تھا،  پھر آگے ایک دور ایسا بھی آیا جو ابھی تک وہ چل بھی رہا ہے جو "داعشی" مثل لوگ سامراج کو خود مسلم امت کے اندر سے بھی ایک ڈونڈھو ہزار ملتے ہیں کے حساب سے مل رہے ہیں، جس طرح، جس طرح، جس طرح ،فلاں،فلاں، فلاں۔
جناب قارئین! میرے لئے خیر اسمیں ہے کہ تاریخ کے "داعشی" لوگوں کے آپس میں رشتے ناطے بھی ظاہر نہ کروں ویسے یہ حقیقت طئے ہے کہ اگر کوئی بھی دین اسلام کے کسی منصب کا دعویدار اپنے خیالات کا ثبوت قرآن سے نہیں دے گا تو وہ یقین کے ساتھ سامراج کا ایجنٹ ہوگا، اللہ کی جانب سے اپنے رسول کو بھی حکم دیکر پابند بنانا کہ:
فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ (45-50)
 یعنی جن لوگوں کو خوف خدا ہو انکو صرف قرآن سے دین سکھاؤ۔
 اور آپ کے لئے  یہ بھی حکم ہے کہ:
وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا(114-20)
 یعنی کسی مسئلہ کے بتانے میں اگر جب تک علم وحی نہیں ملا ہے تو اتنے تک اپنی طرف سے حدیثیں سنانے میں جلدی نہ کر اگر آپکو جلدی ہو تو مجھے درخواست کر کہ اے میرے رب بڑھا میرے علم کو۔
 اسلئے جان لینا چاہیے کہ رسول سے بڑھکر کوئی ایسا آدمی نہیں ہوسکتا جو دین کے لئے قرآن کے علاوہ دوسرے مأخذوں سے دین سمجھائے،  یہ چیز کس سے مخفی ہے کہ امت مسلمہ کے اندر آپس میں جو قتل وغارت اور خونریزیاں ہوئی ہیں ان میں بڑا حصہ اور وافر مقدار مذہبی فرقہ جاتی اختلافات کا ہے اور قرآن کا یہ اعلان کون نہیں جانتا کہ:
أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا (82-4)
 یعنی فرقہ جاتی مسائل اور اختلافی امور اللہ کے قرآن سے باہر کے علوم کی پیداوار ہیں، مطلب کہ اسلام کے نام سے جتنے بھی فرقے مارکیٹ میں موجود ہیں وہ سب کے سب علم حدیث کی پیداوار ہیں کسی بھی فرقہ کی بنیاد قرآن پر نہیں ہے اتنے تک جو مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی اپنی خود ساختہ نبوت کا دلیل  بھی علم حدیث سے ماخوذ کردہ ملا ہے، پر انے دنوں کی بات ہے جو شہر پڈعیدن میں کوئی میرے سامنے حضرت علی کا ذکر قرآن کے حوالہ سے کر رہا تھا میں نے اسے کہا کہ قرآن میں علی سمیت کسی اصحاب رسول کا نام نہیں ہے تو وہ غصہ میں لال پیلا ہوگیا کہ وہ قرآن ہی کیسا جس میں علی کا نام نہ ہو میں نے اسے ادب سے ٹھنڈے دماغ سے سمجھایا کہ ہمارے واعظین مولوی صاحبان جب قرآن پڑھکر آگے کسی کے قصے بتاتے ہیں تو لوگ بعد کے ناموں کیلئے سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ بھی اسکے پڑھے ہوئے قرآن کا ترجمہ ہے۔ صدام کو ہٹانے اور پھانسی پر چڑھانے کے بعد جو شخص ملک عراق کا صدر بنایا گیا ہے یہ یقینا اس طاقت کا منظور نظر ہے جس نے صدام کو ختم کیا تو اب اسکی حکومت میں جو ابوبکر بغدادی داعش کے تعارف سے آیا ہے اسکے خلاف موجودہ عراقی صدر کا کوئی تنازع سننے میں نہیں آرہا  یہ بعینہ اسیطرح ہے جس طرح  انڈو نیشیا کے صدرسوئکارنو کو عالمی سامراج نے ہٹاکر اسکی جگہ داعشی مثل پٹھو صدر سوہارتو کو بٹھایا تھا جسکے دور میں ملکی انتظامات کی باگ ڈور بڑی حد تک عیسائی گرجاؤں کے پادریوں کو دی گئی تھی جسکے نتیجہ میں انڈونیشیا کی آدھی آبادی عیسائی بن گئی پھر اس عیسائی آبادی کیلئے مذہب کے بنیاد پر انڈونیشیا کو دوٹکڑے کرکے ایک حصہ مشرقی ٹیمور کے نام سے جدا عیسائی ملک بنا کر اسے اقوام متحدہ کی ممبرشپ بھی دلائی گئی سو اب جو داعش کے فوجیوں یا طالبانی رضاکاروں کے ہاتھوں میں رائفلیں اور مشین گنیں دکھاکر آگے لاشوں کے ڈھیر دکھائے جاتے ہیں یا زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگ دکھائے جاتے ہیں اور فوٹوز کے نیچے لکھا ہوتا ہے کہ یہ عیسائی اور شیعے لوگ ہیں جن کو خلافت اسلامیہ قائم کرنے کے لئے مارا جارہا ہے تاکہ مسلم دنیا کے عیسائی اور شیعہ دشمنوں کی حمایت لی جاسکے اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ نیچے لکھی ہوئی عبارت درست ہے اگر درست بھی ہو پھر بھی میں یقین کے ساتھ دعویٰ کررہاہوں کہ یہ لوگ عراق کے وہ نیشنلسٹ شہری ہیں جنہوں نے صدام کے دنوں میں نیٹو افواج کے مقابلہ میں جنگ لڑی تھی اب انکو عیسائی اور شیعہ کہکر مارا جارہا ہے جس سے دنیا والوں کو دھوکا دیا جائے کہ نیٹو نامی سامراج کبھی کا چلا گیا ہےاب تو عراق میں اسلامی خلافت قائم کرنے کیلئے یہ جنگ مسلمان لیڈر ابوبکر بغدادی لڑ رہا ہے تاریخ نے ہمیں بتایا ہے کہ مسلم امت کے مرکز مسجد نبوی میں کرنل لارینس عیسائی انگریز فرضی نام سے سات سال پیش امام بنا رہتا ہے تو اس ابوبکر بغدادی کا شجرہ کونسا مقدس تسلیم کیا جائیگا تاریخ کو کھنگالاجائے تو خود سعودی خاندان اور انکا شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب یہ بھی اپنے دور کے عالمی سامراج کے داعش مثل لوگ ہیں میری اس دعویٰ کا ثبوت یہ ہے کہ حکومت سعودیہ کے پبلشنگ ادارہ مجمع  ملک فہد کی سرپرستی میں قرآن حکیم کے اندر لفظی اور حرفی ملاوٹ کے تین عدد نئے ماڈل والے قرآن تیار کئے گئے ہیں جن میں سے البوزی نام سے ملاوٹ والا قرآن میرے پاس  نیٹ میں محفوظ ہے کوئی بھی اپنی نیٹ کی آئی ڈی دیکر طلب کرسکتا ہے  اور محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار لاہوری اہل حدیثوں نے قرآن حکیم میں ملاوٹ حرفی اور لفظی کے سولہ عدد نئے قرآن تیار کئے ہیں جن کے لئے انکا کہنا ہے کہ یہ ہم حکومت سعودیہ کو چھاپنے کے لئے دینگے اسلام کے شروع زمانہ میں قرآنی تعلیم کا غلبہ تھا اور علم حدیث اتنا مستحکم ہو نہیں پایا تھا جو اس علم کی پیداوار فرقوں کے مؤسس کھل کر کام کرسکیں اور خود کو علانیہ آل رسول بھی کہلا سکیں! اسلئے انہوں نے تقیہ کا ہنر ایجاد کیا تھا جو آج تک انکے کتابوں میں موجود ہے یہ بات میں صرف اثنا عشری مارکہ شیعوں کی نہیں کہہ رہا میں نے تو اہل سنت کے چاروں اماموں کے لئے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں پڑھا ہے کہ اہل سنت کے چاروں امام مخلص شیعے تھے اور امام بخاری نے بھی تقیہ کو جائز لکھا ہے آج کل جماعت اسلامی اہل حدیثوں پر بڑی مہربان ہے یہ لوگ کوئی تقیہ شقیہ نہیں کر رہے جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن صاحب نے کھل کر کہا تھا کہ پاکستانی فوجیوں کے مقابلہ میں مرنے والے طالبان کو میں شہید قرار دیتا ہوں مجھے اہل حدیث خاندان کے ایک مہربان نے کہا کہ آج کل ہم اہل حدیث لوگ آئی ایس آئی کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں اب جو اخباروں نے لکھا ہے کہ پشاور میں طالبان کے ذریعے ابوبکر بغدادی "داعش" کے پمفلیٹ پشتو زبان میں تقسیم کئے گئے ہیں اور یہ بھی اخبارات میں آیا ہے کہ مدعی خلافت اسلامیہ ابوبکر داعش نے امریکی صحافی جو انکے پاس قید تھا اسکے آزاد کرنے کے بدلہ میں جماعت اسلامی کی ممبر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تو امریکا نے اسے آزاد نہیں کیا تو "داعش" نے قید امریکی صحافی کو قتل کرڈالا، ابھی تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ مذکورہ انکشافات سے کچھ پہلے میں نے یہاں سندھ کے قوم پرستوں میں لیکچر کے دوران کہا کہ میں آپکو کھل کر کہہ رہا ہوں کہ پہلے میں پاکستان کا ضرور مخالف رہاہوں لیکن اب جو دیکھ رہا ہوں کہ عراق کے بعد افغانستان اور اسکے بعد پاکستان بالخصوص سندھ میں جو کئی صوبے بنانے کی آڑ میں کل والا عالمی سامراج ہمارے سمندر کنارے خود آکر پھر براجمان ہونا چاہتا ہے تو کل ہمارے بڑوں نے ان گوروں سے آزادی کی خاطر کئی ساری جنگیں لڑی تھیں اتنی لڑائیاں ہم تو نہیں لڑ سکیں گے اگر بالفرض سامراج کے آنے کے بعد ہم نے پھر آزادی مانگی بھی تو دنیا ہم سے پوچھے گی کہ تم لوگوں کو جو گذشتہ ستر سال آزادی کے ملے تو تم نے اپنے لئے اس میں کیا کیا سو آج تم جب خود کو نہ بچا سکے اور اپنی آزادی خود بیچ کر پھر کس منہ سے دوبارہ آزادی کا نعرہ لگاتے ہو تو ہم اس دن کیا جواب دیں گے۔ سو پاکستان جیسا بھی ہے پہلے اسے بچائیں پھر ہم اپنے بندوق بردار لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ تم لوگ سیاسی نہ بنو تم لوگوں کے سیاسی بننے کے عرصہ میں ہم نہ لال قلعہ دہلی فتح کرسکے نہ ہی سیاچین کی برف پوش پہاڑیاں اپنا سکے بلکہ بنگال گنواکر نوے ہزار فوجی بھی قید کرا بیٹھے مجھ سے میرے لیکچر کے دوران یہ بھی سوالات ہوئے کہ آپ یہ نئی پالیسی جو اپنے لئے یا ہمارے لئے دے رہے ہیں تو جن حکمرانوں سے ہم کل کو پاکستان بچانے اور پاکستان کے نام سے ملی ہوئی آزادی کو بچانے کی باتیں کریں گے کیا گارنٹی ہے کہ وہ آزاد ملک کے آزاد حکمران ہیں؟ یہ حکمران طالبان کو جنم دینے والے طالبان کے مقابلہ میں فوجی کے مرنے کو شہید نہ ماننے والے منور حسن سے کوئی باز پرس نہ کرسکے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فوجیوں میں اغیار کے ایجنٹ ہیں سو وہ پاکستان بچانے کیلئے ہم سے کیوں بات کریں گے ہم تو داعشی طالبانی پاکستان کو ماننے والے نہیں ہیں اگر پاکستان کی اسٹبلشمنٹ مستقبل میں داعشی منصوبہ کے خلاف ہے جو عالمی سامراج نے جان پوپ پال کے اعلان کہ اکیسویں صدی دنیا میں عیسائیت کے غلبہ کی صدی ہوگی اسکے اس اعلان کے بعد صرف مسلمان انڈونیشیا سوڈان صومالیہ نائیجیریا عراق افغانستان مصر لیبیا میں قتل ہورہے ہیں اور مسلم ریاستیں عیسائی ممالک کے نام سے اقوام متحدہ کی ممبر شپ لے رہی ہیں تو ایسے قیامت خیز معاملوں پر پاکستان اسٹبلشمنٹ نے کونسی اسلام دوستی دکھائی ہے ہمیں تو پاکستان سرکار کی ایسے معاملات پر خاموشی اور سامراج کی مسلم کش اسکیموں پر چپ رہنے سے لگتا ہے کہ یہ سب مل کر  جان پوپ پال بینی ڈکٹ کی پیشگوئی کو کامیاب کر ا رہے ہیں یہ دنیا میں عیسائیت کو غلبہ دلانے کی خاطر ڈبل نوکری کر رہے ہیں ہمیں اگر اعتماد آجائے کہ ہماری وردی پوش اسٹبلشمنٹ گورے سامراج کے خلاف ہے اور ہم کالوں کی وفادار ہے تو ہمیں پاکستان سے کیوں اختلاف ہوگا سو ملکی اسٹبلشمنٹ کی گورے سامراج کے لئے چمچہ گیری کی وجہ سے تو ہمارے بلوچ بھائی کہہ رہے ہیں کہ ہم چمچوں کے چمچے کیوں بنیں اس  سے اچھا ہے کہ براہ راست  ہم بھی انکی طرح دیگ کے چمچے بنیں، پاکستان کے حکمرانوں کو لاہور کے شاعر حبیب جالب نے بہت کہا کہ ہم لڑیں امریکیوں کی جنگ کیوں ۔ لیکن یہ ہیں مثل بیگانہ شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ پاکستان بنایا ہی اسلئے گیا ہے کہ یہ پرائی لڑائیوں میں سامراج کو کندھا دینے کیلئے ہر وقت حاضر رہے اور وہ بھی اسلام کے نام پر، اب جو ملک شام کے محاذ پر یورو اور ڈالر کی جنگ لگنے والی ہے اس میں اسرائیل اور امریکہ کا پروردہ ابوبکر بغدادی خلافت اسلامیہ کے قیام کے نام کے حوالہ سے اس جنگ کو کفر اسلام کی جنگ کا نام دینے کی ابتدا کر چکا ہے۔ کل کو امریکہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مارکسزم کے معاشی نظریہ کو مسلم ممالک کے مفتیان اسلام سے کفر کی فتوائیں دلاکر سرمایہ دارانہ نظام کی فتح کرا چکا ہے اب شام کے خلاف اسکی یہ جنگ ڈالر کو بچانے کے لئے یہ بھی اسلام کے نام پر دوسری جنگ ہوگی اس میں بھی اس جنگ کو مذہب کا لبادہ اوڑھانے کے لئے داعشیوں کی ساتھی جماعت اسلامی اور پاکستانی آرمی کے پروردہ طالبان کاتعاون کہیں در پردہ اور بالواسطہ اور کہیں ظاہر اور بلاواسطہ نظر آرہا ہے۔
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا(6-66)
 یعنی اے امن عالم کے ذمہ دار مؤمنو! خود کو اور اپنے نظریاتی ساتھیوں کو (زر کے استحصال اور ذخیرہ اندوزی کی) آگ سے بچاؤ۔
 قرآن حکیم نے لفظ اہل کی ایک معنی نظریاتی ساتھی بھی بتائی ہے  ۔ (46-11)
 سو ہمارے ملک پاکستان کے ناخدائوں نے اپنے لئے نیٹو کی رجیم کو اپنا نظریاتی سرپرست بنایا ہے پھر نیٹو والے چند ڈالروں کے عوض ان سے مسلسل ملک کی نوجوان نسل ذبح ہونے کے لئے خرید کرتے ہیں۔ ملک کے سربراہوں کو ہمارے مقامی خفیہ حکمران باہر کے دوروں پر بھیجتے ہیں کہ دنیا کے سرمایہ داروں کو منت سماجت کرکے کہیں کہ ہم بکاؤ مال ہیں ہمارے ملک کے سارے اثاثے بکاؤ مال ہیں، جو چاہو ہم اپنی چیزیں آپکے قدموں میں رکھنے کے لئے تیار ہیں، ہماری ہر چیز برائے فروخت ہے، بولو! کیا کیا خریدو گے، جناب یہ ہے ہمارا ملک پاکستان جو دنیا میں مسلم ممالک کا چیمپین ہونے کا مدعی ہے۔
 جناب قارئین! ہمارے اس جیسے ملک کو عالم اسلام کا چئمپین بننے کا چکمہ بھی اسلئے دیا گیا ہے جو انکے ہاں پروردہ طالبان تنظیم اسلام کے نام پر اپنوں کو مارنے کے لئے ہر وقت تیار ہے ان اسلام کے ٹھیکیداروں نے داعشی تحریک کے خلاف تفصیل کے ساتھ کچھ بھی نہیں بولا وہ اسلئے کہ مسلم امت کے اند ر اس قسم کی مذہب کے نام پر بنی ہوئی سیاسی، تبلیغی اور جہادی تنظیمیں سب کی سب اپنوں کو یعنی مسلم امت والوں کو کافر بنا بنا کر مارنے کے لئے تیار کی گئی ہیں، جس کے ساتھ آنجہانی جان پوپ پال بینی ڈکٹ کی دعوی کہ اکیسویں صدی دنیا میں عیسائیت کے غلبہ کی صدی ہوگی کو ایسی اسلامی تنظیموں کے ہاتھوں مسلم لوگوں کو بے دین اور کافر کہہ کہہ کر اتنا تو دیوار سے لگائیں جو وہ مجبور ہوکر عیسائی بن جائیں کیونکہ جب وہ عیسائی بن جائیں گے تو انکو ملک کی کوئی بھی مذہبی تنظیم چھ کلمے پڑھانے کی تبلیغ نہیں کریگی اور نہ ہی انکی عورتوں کو برقعہ نہ پہننے پر سزادیگی۔
 جناب قارئین! میں نے شروع مضمون میں جو عرض کیا کہ عالمی سامراج نے فکر قرآن اور متن قرآن کو دنیا سے مٹانے کے لئے ہر دور میں داعشی مثل لوگ اسلام کے اندر ملت اسلامیہ میں مذہبی برقعوں میں بھیجے تھے انکو ملمع سازیوں اور تقدس کے چوغوں میں اتنا تو چھپایا جو کسی کے لئے لکھا کہ اس امام نے چالیس سالوں کی راتوں میں عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی اور نوافل کی عبادت میں رات کو پورے قرآن کا ختم پڑھا، اور چالیس سالوں کے سارے دنوں کے روزے رکھے اور کسی امام کے نام سے یہ مشق بیس سال کی لکھی ہے کسی امام کے اللہ سے ہمکلام ہونے کی باتیں لکھی گئی ہیں اور کئی اماموں کے پاس ملائکوں کے آنے جانے کے قصے لکھے ہوئے ہیں اب سادہ اور علم و عقل سے پیدل لوگ ایسے داعشی قسم اماموں کے اتنے تو معتقد ہوگئے ہیں جو ماضی کے ایسے برقعہ پوش داعشیوں کے پول کھولنے پر لوگ لڑنے کو آجاتے ہیں۔
ابھی جو سامراج ٹارزن کی واپسی کی طرح پھر سے بوریا بستر لارہا ہے جس کے لئے اس نے ہماری دھرتی کے خزانوں کی لوٹ مار کی کامیابی کے لئے پیشگی ہمارے ملک میں صوفی ازم کو اپنی تاش کے دوسرے پتے کے طور پر پھینک چکا ہے ایک طرف صوفی ازم نظریہ کی یونیورسٹیاں کھولنے کا پروگرام ہے دوسری طرف ان کی سرپرستی طاہرالقادری جیسے صوفی کو دینے کا پروگرام ہے جو اپنے ادارہ منہاج القرآن لاہور میں جناب رسول علیہ السلام کو ہوائی جہاز کے ذریعے لاکر چائے پلاتا ہے "العیاذ بااللہ" اور تصوف کی تعلیم کے سلیبس کا بنیاد اس پر ہوگا کہ غریبی اور امیری اللہ کے ہاتھ میں ہے، دنیا میں جوبھی کچھ ہورہا ہے وہ سب اللہ کی مرضی کے مطابق ہورہا ہے، اس میں کسی کا کوئی دخل نہیں دینا چاہیے۔
امت مسلمہ کی ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ میں جتنے بھی داعشی قسم کے لوگ اور انکی تبلیغی اور سیاسی اور جہادی تنظیمیں گذری ہیں ان کے سامراجی فرستادہ ہونے کا دلیل یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ دین کی تعبیر کے لئے بجائےقرآن کے امامی علوم اور علم روایات کو دین کا اصل قرار دیا ہوا ہے۔ جبکہ خود جناب خاتم الانبیاء جیسی ہستی کو بھی حکم دیا ہوا ہے کہ قرآن کے ملنے سے پہلے اپنی طرف سے حدیثیں بیان نہ کیا کرو (114-20) اور دین صرف قرآن سے پیش کرو (45-50) اگر میرا  یہ رسول اپنی طرف سے قوانین دین  کے لئے اپنے اقوال پیش کرے گا تو ہم اسے طاقت سے پکڑ کر اس کے سانس لینے والی رگ کو کاٹ دیں گے۔ (44-69

انکی اصل جنگ قرآن سے ہے۔

عالمی سامراج نے ماضی کے اندازا ڈیڑھ ہزار سال میں دنیا سے قرآن کو ختم کرنے کی ان گنت سازشیں کیں اور خود مسلم امت کے فرقوں کی معرفت خلاف قرآن کئی مہمیں چلائیں اور ہفوات سے بھر پور بے معنی اور پھس پھسے قسم کے اعتراضات اور شوشے چھوڑے پھر بھی قرآن کامتن اللہ کے اعلان کے مطابق (9-15) میدان علم میں ڈٹا ہوا ہے سو پریشان ہو کر قرآن دشمن نیٹو برادری نے ایک طرف سعودی حکومت مصری حکومت کو یتی حکومت، اور پاکستانی اہل حدیثوں کے ہاتھوں قرآن حکیم میں فن قرائت کے بہانے  قرآن میں ملاوٹ کرکے اصلی محمدی نسخہ قرآن کو دنیا سے ہٹانے اور مٹانے کی کوشش کی ہے ،پھر دوسرے نمبر پر امت مسلمہ میں خفیہ فنڈوں سے تنخواہوں سے اور پرتعیش آسائشوں اور اختیارات سے نیز حکومتی تحفظ سے ایسے ایسے تبلیغی اور جہادی لوگ لائے گئے ہیں جو عام امن پسند لوگوں کو کبھی ناموس رسالت کی ہتک کا الزام لگا کر قتل کردیتے ہیں جس طرح پنجاب کا گورنر سلمان تاثیر مارا گیا اور کئی لوگوں کو اس طرح کے الزامات سے گرفتار کرکے قید کرایا گیا اور ان کو عدالت سے سزائیں دلائی گئیں اور جن ججوں نے ایسے ملزموں کو سزائیں نہیں دی تو ان کا پاکستان میں رہنا محال بنایا گیا اور وہ جج ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے سابق صدر پاکستان آصف زرداری کوکسی نے کہا کہ قرآن حکیم کے دلائل:
 لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (256-2)
 لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (6-109)
 وغیرہ سے یہ بلاسفیمی لا غلط ہے اسے اسمبلی میں ان آیات کریمہ کے حوالہ سے منسوخ کرایا جائے تو جواب میں صدر صاحب نے کہا کہ قرآن کی یہ آیات برحق ہیں انکے حوالہ سے قانون بھی غلط ہے لیکن اسمبلی کے اندر اس قانون کو چئلنج کرنا ملک کی مذہبی پیشوائیت کی رضامندی کے بغیر مشکل ہے یعنی چہ جائیکہ ہاؤس کی اکثریت بھی قرآن کے دلائل کا ساتھ دے گی پھر بھی ہم یہ بل اسمبلی میں ملاؤں کی رضا کے بغیر مووبھی نہیں کرسکتے اس سے ثابت ہوا کہ ملک کی مذہبی پیشوائیت قرآن دشمن عالمی طاقتوں کی لے پالک ہے۔ اور باخبر لوگ جانتے ہیں کہ یہ بل ذوالفقار علی بھٹو سے اس کے اقتدار کو طول دینے کی لالچ دیکر نافذ کرایا گیا تھا جسے بعد میں ضیاء الحق نے بھی توثیق بخشی تھی۔ اب جو ابوبکر بغدادی نے خلافت اسلامیہ قائم کرنے کے اعلان کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ میں کعبۃ اللہ کو منہدم کروں گا تو اس کو یہ ہدف آخر کس نے دیا ہوگا؟ ہمیں تو یاد ہے کہ ہمفرے نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ برطانیہ سرکار کی جانب سے محمد بن عبدالوہاب کو شیخ الاسلام (داعشی مثل) بناتے وقت جو جو قبور اور گنبد مسمار کرنے کی لسٹ دی گئی تھی ان میں روضہء رسول بھی شامل تھا اس نے جب سوا ئے روضہ رسول کے اور سب گرائے تو اس کے نگران خفیہ انگریز جاسوس افسر نے اسے کہا کہ باقی یہ روضہ رسول بھی مٹادو! تو محمد بن عبدالوہاب نے کہا کہ یہ کام کرنے سے پھر ترک حکمران مجھے مار ڈالیں گے۔ اور ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ بارک اوبامہ نے اپنی پہلی صدارتی الیکشن کے کسی جلسہ میں کہا تھا کہ میں اگر امریکہ کا صدر ہوجاؤں گا تو مسلم لوگوں کے شہر مکہ کا مرکز کعبہ مسمار کردوں گا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اوبا مہ کو ان دنوں معلوم ہوا ہوگا کہ انکی سی آئی اے کی طرف سے کعبۃ اللہ کو مسمار کرنے والا ابوبکر بغدادی ابھی اسرائیل میں زیر تربیت ہے تھوڑے ہی عرصہ میں اسے خروج کرایا جائے گا۔
محترم قارئین! عالمی سامراج امت مسلمہ سے 132 ہجری تک قرآن حکیم چھیننے میں کامیاب ہوا، اس کے بعد سے جو مخالف قرآن علوم کی یلغار ہوئی ہے اس کے ذریعے آج تک ہمارے ساتھ سامراج جو حشر کر رہا ہے صدیوں سے ہم اس کے بچہ جمبھورا، آجا، آگیا، کی طرح فرمانبردار بنے ہوئے ہیں۔
ہیں  کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
تقسیم ہند سے پہلے پاکستان بنانے کیلئے سر سید احمد خان کے فرضی حوالہ جات سے اور علامہ اقبال، علامہ پرویز کی معرفت لاف زنیاں کی جاتی رہیں کہ مسلم امت کیلئے جب یہ عظیم الشان مملکت پاکستان معرض وجود میں آئیگی تو ہر طرف قرآن کی تعلیم اور برکات کا دور دورہ ہوگا، سر سید پاکستان کیلئے  علامہ اقبال کا خواب دیکھنے سے کوسوں پہلے مرچکے تھے اور وہ ہندستان کے بٹوارے کے قائل بھی نہیں تھے اور علامہ اقبال بھی خواب دیکھتے ہی چل بسے تھے اور علامہ پرویز نے ملک بننے کے بعد تھوڑے ہی دنوں میں گلبرگ لاہور میں واقع  بزم طلوع اسلام کی چار دیواری کے اندر پس دیوار زندان کی طرح محصور رہنے میں اپنی عافیت سمجھی کہ کہیں قرآن کا نام لینے کے جرم میں اسے قتل نہ کیا جائے اور جو علامہ مودودی صاحب تحریک  آزادی کیلئے انگریزوں کے خلاف ہلچل کے وقت قیام پاکستان کے سخت مخالف تھے قیام مملکت کے فی الفور بعد اسے پاکستان میں اسلام کو قائم کرنے کی تحریک کا چیمپین بنایا گیا پھر جو مالک کے مخفی مقاصد کے انگریزوں کی طرف سے ذمہ دار لوگ تھے انہوں نے 1940ء کی قرار داد مقاصد پاکستان سے انحراف اور غداری کرنے کیلئے مذہبی پیشوائیت کا سہارا لیا اور 1949ء مارچ میں حاجی مولابخش سومرو کے مکان پر کراچی میں ملک کے جملہ مذہبی فرقوں کے مولوی حضرات کو مدعو کیا گیا کہ وہ ملکر متحدہ اسلام کے نام سے مقاصد کی فہرست تیار کریں پھر انکو کاریگروں کی رہنمائی میں ایسی ہدایات دی گئیں جو وہ مقاصد  ون یونٹ سے بھی بدتر ثابت ہوئے پھر انکو قرارداد مقاصد پاکستان کا نام دیا گیا جو آج تک بننے والے جملہ آئینوں کا روح ہے مجھے اس قصہ سے ملک کی مذہبی پیشوائیت کی اصل تصویر اور مصرف پیش کرنا مقصود ہے، جس کو سامراج کے آج کے داعش مثل سمجھا جاسکتا ہے مجھے ان کے سامراج سے باطنی روابط کا قارئین کو علم دینا ہے اس اجتماع میں مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے امیر مرحوم مولانا محمد علی جالندھری صاحب بھی شریک ہوئے تھے میرے اس کے ساتھ قریبی روابط رہے ہیں جن کا تفصیل نہیں لکھ رہا جو وہ بے محل ہوگا اس نے میرے ساتھ بیان کیا کہ اس میٹنگ کے موقعہ پر اصل کارروائی کے سواء کی مجلس میں میں نے مودودی صاحب کو کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ چودھری محمد علی کو پاکستان کی وزارت عظمی کے عہدہ سے ہٹا رہی ہے تو جواب میں مودودی صاحب نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور جب تک امریکہ نے مجھ سے نہیں پوچھا تو وہ اسے کس طرح ہٹا سکتی ہے۔
 اب قارئین لوگ بتائیں کہ کیا داعش مثل ایجنٹوں کو کوئی سینگ تو نہیں ہوتے، میں قارئین کی خدمت میں ہردور کی داعش مثل لوگوں اور تنظیموں کا تعارف طوالت مضمون کی وجہ سے پیش نہیں کرسکوں گا، غالبا 1952ء میں قادیانیوں کے خلاف انہیں اقلیت میں قرار دینے کی ملک بھر میں تحریک چلائی گئی تھی جس میں لاکھوں لوگ گرفتار ہوئے تھے ملک کے سارے جیل اتنے تو بھر گئے تھے جو ان میں مزید قیدیوں کی گنجائش نہیں رہی تھی پھر احتجاج کرنے والوں کو باہر میدانوں میں خاردار تاروں میں قید کیا گیا اور شہر لاہور میں اس تحریک کا ایک بڑا احتجاجی جلوس نکلا جن پر مال روڈ سے گزرتے وقت جنرل اعظم خان نے گولی چلانے کا حکم دیا تو چند گھنٹوں میں دس ہزار سے زائد لوگ قتل ہوگئے پھر قائدین تحریک کو گرفتار کرنے کے بعد انپر جو مقدمہ چلایا گیا جن کے اندر کئی عالموں کے ساتھ مودودی صاحب بھی گرفتار ہوئے تھے عدالت میں عطاء اللہ شاہ بخاری کا بیان تھا کہ یہ جو دس ہزار لوگ قتل ہوئے ہیں یہ سب میری طرف سےتحریک چلانے کی وجہ سے ہوئے ہیں میں ان سب کے قتل ہونے کا ذمہ دار ہوں میں نے یہ کام اپنے نانا محمد الرسول اللہ کی ختم نبوت کو بچانے کے لئے کیا ہے میں اس جرم کا اقرار کرتا ہوں اگر یہ جرم ہے تو مجھے پھانسی دی جائے میری نظر میں میرے نانا کی ختم نبوت دس ہزار لوگوں کے قتل سے زیادہ قیمتی ہے عدالت کے اسی کٹھڑے میں دوسرے ملزم مودودی صاحب کو جب کھڑا کیا گیا تو اس نے کہا کہ مجھے اس تحریک ختم نبوت کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے مجھے مال روڈ کے جلوس اور اموات کے معاملہ میں گرفتار کرنا ایسا ہے جیسے کوئی آدمی روڈ سے پرے ہٹ کر کھڑا ہو اور ڈرائیور گاڑی کا اسٹیرنگ موڑ کر نیچے کھڑے ہوئے اس آدمی پر گاڑی چڑھادے آگے چل کر مولوی لوگوں نے مودودی صاحب کے ایسے موقف پر اس کے اسلامی حیثیت کو چیلنج  کیا اور اس کو مرزائیوں کا ساتھی کہنا شروع کیا جس سے اس کے لئے آگے چل کر اسلامی تحریک کا چیمپین بنا رہنا مشکل ہوگیا سو کچھ دنوں بعد اس نے مسئلہ ختم نبوت کی حمایت میں ایک پمفلٹ لکھا جس کی وجہ سے اسے گرفتار کرکےعدالت نے مسئلہ ختم نبوت کی حمایت میں پمفلٹ لکھنے کے جرم میں پھانسی کی سزا سنادی پھر مودودی صاحب کی جماعت نے پھانسی کے فیصلہ کے خلاف جو تحریک چلائی اس سے مودودی کی گری ہوئی ساکھ  کوسود سمیت سہارا مل گیا ۔لوگوں نے شاید اس طرف کم ہی توجہ کیا ہوکہ جو عطاء اللہ شاہ بخاری دس ہزار لوگوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے لئے جج کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہا تھا اسے تو پھانسی نہ دی گئی لیکن مودودی صاحب کو ایک مضمون لکھنے پر پھانسی سنادی گئی  60-1959ء میں میں مدرسہ دارالہدیٰ ٹھیڑہی میں پڑھتا تھا وہاں کے شیخ الحدیث مولانا غلام قادر میمن نے اپنے پاس رکھا ہوا ایک پرانا رسالہ دکھایا جو لائل پور (فیصل آباد) کے کسی اہل حدیث تنظیم کے عالم کی ادارت میں نکلتا تھا اس میں یہ بات لکھی ہوئی  تھی کہ مودودی صاحب جس دن رسالہ ختم نبوت کے مسئلہ لکھنے پر گرفتار کئے گئے تھے اسی تاریخ کی رات کو وہ ملک کے وزیر اعظم چودھری محمد علی کے ساتھ رات کے دوبجے تک محفل کرتے رہے ہیں اور آنیوالے دن کی صبح کو گرفتار ہوئے ہیں اور پھر کچھ کارروائی کے بعد اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی میں نے ایک ملاقات میں پیر صاحب پگارا مرحوم سے کہا کہ آپ اس پہلی ختم نبوت تحریک پر تبصرہ کریں تو انہوں نے بتایا کہ یہ درپردہ تحریک چودھری محمد علی نے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین بنگالی کو عہدہ سے ہٹانے کے لئے چلائی تھی خواجہ صاحب کو مرزائی نوازی کا الزام دے کر۔۔۔ اس کے سواء اس تحریک کا کوئی بھی اور مقصد نہیں تھا۔آج یہ مضمون بتاریخ 2014-09-26 لکھتے وقت سے اندازا ایک ہفتہ قبل ایک خبر اخبارات میں آئی کہ ابوبکر بغدادی داعش کے سربراہ ایک حملہ میں مارے گئے میں نے خبر پڑھتے ہی وہاں موجود کسی ساتھی سے کہا کہ یہ خبر سراسر جھوٹی ہے اور امریکہ کی داعش سے دشمنی جتوانے کے لئے چلائی گئی ہے اور اس خبر سے وہ داعش کے حامیوں کے اندر بھی اس کی اہمیت بڑھانا چاہتے ہیں۔ تاریخ سامراج کے ایسے داعش مثل لوگوں پر جڑتو اور نوراکشتی والے قاتلانہ حملوں اور پھانسیوں کی خبروں اور واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ امام خمینی جب شاہ ایران کے خلاف اپنے انقلاب کو کامیاب کرکے ملک ایران کا بادشاہ اور بادشاہ گر بنا تھا تو ان دنوں جناب مودودی صاحب کا بیان پاکستان کی ایک اخبار میں چھپا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ خمینی کے آنے کے بعد اپنی مشن کیلئے مجھے اپنے مرجانے کا افسوس نہیں ہوگا۔
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز۔۔۔۔ کبوتر با کبوتر باز با باز
جناب قارئین! اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی مدعی اسلام جو کسی بھی جہادی، تبلیغی، سیاسی حوالہ سے مذہب کے پلیٹ فارم پر کوئی بھی دعویٰ کرنے والا ہو اس کو صرف اور صرف خالص قرآن کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا تو اس کے کھرے اور کھوٹے ہونے کی خبرلگ جائے گی ورنہ رائج الوقت مدعیان تحریکات اسلامیہ کا مدار صرف علم روایات اور امامی علوم پر ہے جو وہ بھی خلاف قرآن علوم ہیں اور ان تحریکوں کے بانیان کا قبلہ استحصالی سامراج کی طرف ہے ان سامراجی داعشین زمانہ سے قرآن کے علاوہ کوئی بھی علم آپکو چھڑا نہیں سکے گا۔

عزیزاللہ بوہیو۔ پتہ۔ P/o خیر محمد بوہیو براستہ نوشہروفیروز سندھ فون:۔
0300-2663651

No comments:

Post a Comment