Monday, March 4, 2013

یہ بت بلند مرغابیاں ہیں اور بیشک ان کی شفاعت امید بخش ہے۔



یہ بت بلند مرغابیاں ہیں اور بیشک ان کی شفاعت امید بخش ہے۔

11 - نماز کا بیان : (527)
سورت نجم کا سجدہ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ سَجَدَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِالنَّجْمِ وَسَجَدَ مَعَہُ الْمُسْلِمُوْنَ وَ الْمُشْرِکُوْنَ وَالْجِنُّ وَالْاِنْسُ۔ (صحیح البخاری)

مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 988
"
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ " سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت نجم میں سجدہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمانوں ، مشرکوں جنوں اور سب آدمیوں نے (بھی) سجدہ کیا۔" (صحیح البخاری )

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورت نجم کی تلاوت کرتے ہوئے آیت سجدہ آیت ( " فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوْا " 53۔ النجم : 62) سجدہ کرو اللہ کا اور عبادت کرو۔" پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی فرمانبرداری کی غرض سے سجدہ کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو تمام مسلمانوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں سجدہ کیا، اسی طرح مشرکین نے بھی جب بتوں یعنی لات و منات اور عزی کے نام سنے تو انہوں نے بھی سجدہ کیا، یا پھر مشرکوں کے سجدہ کرنے کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں مسجد الحرام کے اندر جب سورت نجم کی ان آیتوں۔
آیت (اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى 19 وَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى 20 اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى 21 ) 53۔ النجم : 19)
"
یعنی بھلا تم لوگوں نے لات و عزی کو دیکھا اور تیسرے منات کو (کہ یہ بت کہیں اللہ ہو سکتے ہیں مشرکو!) کیا تمہارے لیے تو بیٹے ہیں اور اللہ کے لیے بیٹیاں۔" کو پڑھنے لگے تو شیطان ملعون نے اپنی آواز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے مشابہ بنا کر یہ پڑھا
تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی۔
" یعنی : یہ بت بلند مرغابیاں ہیں اور بیشک ان کی شفاعت امید بخش ہے۔"
مشرکین یہ سمجھے کہ (نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے بتوں کی تعریف کی ہے اس سے وہ بہت زیادہ خوش ہوئے چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو انہوں نے بھی سجدہ کر ڈالا۔"
بعض مفسرین نے اس موقع پر یہ تفسیر کی ہے کہ یہ الفاظ شیطان نے ادا نہیں کئے تھے بلکہ نعوذ باللہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سہوا نکل گئے تھے۔ یہ قول بالکل غلط اور محض ذہنی اختراع ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ شیطان ملعون نے اپنی آواز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے مشابہ بنا کر یہ الفاظ ادا کر دئیے جس سے مشرکین یہ سمجھ بیٹھے کہ خود محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) یہ الفاظ ادا کر رہے ہیں۔
حدیث میں " مسلمانوں، مشرکوں ، جنوں اور سب آدمیوں" سے مراد وہ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت موجود تھے۔ لفظ " اِنْسٌ " تعمیم بعد تخصیص ہے۔
__________________
بلاگ:http://studyhadithbyquran.blogspot.com
كان شعبة بن الحجاج بن الورد يقول لأصحاب الحديث:"يا قوم! إنكم كلما تقدمتم في الحديث تأخرتم في القرآن"
قرآن کے اثر کو روک دینے کیلئے : ہم پہ راویوں کا لشکر ٹوٹا

No comments:

Post a Comment