Monday, March 11, 2013

علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی ؒ کی خدمات حدیث کا مطالعہ و جائزہ




علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی ؒ  کی خدمات حدیث کا مطالعہ و جائزہ

ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی *

برصغیرہندمیں علوم اسلامیہ اورخاص کرعلوم سہ گانہ تفسیر،حدیث وفقہ کا ہمیشہ بول بالارہاہے۔ بالخصوص علم حدیث کے باب میں یہاں کے علماء عالم عرب پر بھی فوقیت لے گئے ہیں۔جس کا اعتراف بڑے بڑے عرب علماء ومحدثین نے بھی کیاہے ۔چنانچہ جب علامہ رشیدرضامصری )متوفی 1935)نے 1912 میں ہندکادورہ کیاتویہاں کے بارے میں لکھا:ولولاعنایۃ اخوانناعلماء الہندبعلوم الحدیث فی ہٰذاالعصر،لقضی علیہابالزوال من امصارالشرق فقد ضعفت فی مصروالشام والعراق والحجاز منذ القرن العاشرللھجرۃ ،حتی بلغت منتہی الضعف فی اوائل ہذالقرن الرابع عشر(۱)اگرہمارے دینی بھائی ہندوستانی علماء علوم الحدیث کی خدمت واشاعت کی طرف متوجہ نہ ہوتے تویہ علم مشرق سے رخصت ہوگیاہوتا،کیونکہ اس علم کے جواصل مراکزتھے یعنی مصر،شام ،عراق اورحجازوہاں یہ علم دسویں صدی کے بعدسے کمزورپڑگیایہاں تک کہ اس چودھویں صدی کے اوائل تک ضعف کے آخری درجہ تک پہنچ گیاتھا‘‘۔
اورقدیم میں اگرہم کوصاحب بحارالانوارعلامہ محمد طاہرپٹنیؒ ،علامہ محمدحیات السندیؒ اورکنزالعمال کے مصنف شیخ تقی حسام الدین الہندی ؒ (۲)جیسے نام ملتے ہیں تومتاخرین میں مسندالہندشاہ ولی اللہ الدہلویؒ اوران کا خانوادہ خاص کرشاہ عبدالعزیزدہلویؒ ،صاحب آثارالسنن علامہ محمدشوق نیموی ؒ ،علماء دیوبندکا سلسلۂ ذہبیہ یعنی علامہ کشمیری ؒ ،احمدالسہارنپوری ؒ ،صاحب بذل المجہودخلیل احمدسہارنپوریؒ ،ریحانۃالہندمحمدزکریاکاند ہلویؒ ،شبیراحمدعثمانی ؒ ،یوسف بنوری ؒ ،حبیب الرحمن کاندھلویؒ ،شیخ الحدیث سرفراز صفدرؓ اورتھانوی سلسلہ کے ظفراحمدعثمانی ؒ ،اہل حدیث میں عبدالرحمن مبارکپوریؒ ،عبیداللہ رحمانیؒ ،حنیف بھوجیانیؒ ہیں توحدیث کے قلمی ذخیرہ پر گہری نظررکھنے والے محقق کبیرعلامہ حبیب الرحمان محدث اعظمیؒ ،مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ اورخاتم المحدثین علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ؒ ہیں۔ان سطورمیں انہیں موخرالذکرکی خدماتِ حدیث کا اس مضمون میں جائزہ لیاجائے گا۔
علامہ ازہرمیرٹھیؒ کا مختصرتعارف :علامہ (پیدائش1923 وفات 2005ء )(3)علامہ کے پرداداامیربخش خاں گاؤں کے بڑے زمین دارتھے جوان پڑھ ہونے اورہندوستان میں زمین دارہ ختم ہونے کے باعث مختلف مقدمات میں اپنی ساری اراضی گنوابیٹھے تھے ۔ان کے بیٹے اور علامہ کے داداملاجی عبد اللطیف ایک نیک منش اورسیدھے سادے انسان تھے ۔جن کوبڑی خواہش تھی کہ ان کی اولادمیں علم دین آئے ،وہ خو دتومعمولی پڑھے لکھے تھے مگراپنے بیٹے بشیراحمدخاں کوانہوں نے حفظ قرآن اورعلم دین کی راہ پرڈال دیا۔بشیراحمداس علاقہ کے نہایت جید حافظ وقاری تھے جن کی قرأت اورحفظ کی دوردورتک شہرت تھی ۔انہیں کے گھرغازی آبادکے توڑی گاؤں میں علامہ پیداہوئے بعدمیں میرٹھ کواپناوطن بنالیا۔اورمیرٹھی ہی اپنے نام کے لاحقہ کے طورپرلکھتے رہے اوراسی نام سے معروف ہوئے ۔
والدکے پاس حفظ کرنے اورابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعدمیرٹھ شہرمیں انہوں نے دینی علوم حاصل کیے ۔جن میں مولانامشیت اللہ دیوبندیؒ اورشاہ اختررضاخاں امروہویؒ سے خصوصی استفادہ کیا۔مولاناامروہوی شیخ الہندمولانامحمودالحسن دیوبندیؒ کے شاگردتھے ۔ مؤخرالذکرنے ان کوقرآن پاک کا ترجمہ شروع سے اخیرتک اورنحوی وصرفی ترکیب کے ساتھ پڑھایا۔موقوف علیہ تک میرٹھ میں پڑھنے کے بعدانہوں نے دارالعلوم دیوبندمیں داخلہ لیاجہاں سے 1353ھ میں فراغت ہوئی ۔وہاں خصوصیت سے شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنیؒ ،مولانااعزازعلی امروہویؒ اورمولانافخرالدین مرادابادیؒ وغیرہم سے مستفیض ہوئے ۔(4) تحصیل علم سے فارغ ہونے کے بعدہی سے قرآن وحدیث اورعلوم عربیہ اسلامیہ کی تدریس کومشغلہ زندگی بنالیا۔خاص طورپر قرآن پر تدبراورحدیث کی تحقیق یہی دونوں زندگی بھراوڑھنابچھونابنے رہے ۔
تدریس حدیث: علامہ میرٹھیؒ نے کوئی 60سال دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ،جامعۃ الرشاداعظم گڑھ،مدرسۃ الاصلاح سرائمیر،ندوۃالسنہ کیرالا، ریاض العلوم دہلی ،جامعہ سیدنذیرحسین دہلی اورمدرسہ امدادالعلوم مرادآبادسمیت متعددمدارس میں بخاری ،مسلم اورحدیث کی دوسری کتابوں کا درس دیااورسینکڑوں تشنگان علم اورطالبان علوم نبوت کوسیراب کیا۔آپ کا درسِ حدیث بہت ٹھیراؤوالا،تحقیقی اورto the point ہوا کرتاتھاساری ترکیز اصل موضوع پر رہتی ، ادھرادھرکی باتیں بالکل نہیں کرتے تھے ۔راقم کویہ سعادت ملی ہے کہ اس نے علامہ سے نحو و صرف،فقہ میں قدروی ،ادب عربی ،ترجمۂ قرآن اورجلالین ، مفتاح القرآن کے بعض اجزاء کے علاوہ حدیث میں دارمی پڑھی ہے ۔
علامہ کے بارے میں علماء کی رائے : علامہ میرٹھی ایک قلندرصفت آدمی تھے انہوں نے علمی مراکزیاعلماسے بہت زیادہ خلاملانہیں رکھا۔نہ وہ جلسوں ا ور کانفرنسوں میں شریک ہوتے تھے ۔غالبااس کی بڑی وجہ توان کی افتادطبع تھی اوردوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے تفسیرِقرآن اورشرحِ وتحقیقِ حدیث کے جس بڑے کام کے لیے اپنے آپ کووقف کرکھاتھا اس کے لیے عمرِنوح درکارہے اگروہ اپناوقت بے فائدہ ملی جلسوں جلوسوں میں لگاتے توشایداتنابڑاکام نہ کرپاتے جوکرگئے ۔تاہم ملک کے باخبر،باذوق اورعلم دوست لوگ سب ان سے واقف تھے اوران کی عظیم صلاحیتوں کے معترف چنانچہ میرے استادمولاناسعیدالاعظمی الندوی جوخودایک محدث کے بیٹے اوربرصغیرمیں عربی زبان وادب کے استادالاساتذہ اورمایۂ ناز ادیب ہیں وہ علامہ میرٹھی کی وفات پر ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں:
لقدکان الراحل الکریم من کبارعلماء ھذہ البلاد،عرف بغزارۃ علمہ وتعمق نظرتہ فی علوم الکتاب والسنۃ ،فکان ذانظرۃ فاحصۃ فی العلوم الاسلامیۃ ،وذامکانۃ عالیۃ فی اوساط العلماء الراسخین ۔( 5) (راہئ عدم ہونے حضرت مولانا اس ملک کے بڑے علماء میں سے تھے ۔ اوراپنے وسیع علم اورکتاب وسنت میں عمیق نظرکے لیے معروف تھے ،اس کے علاوہ سارے علوم اسلامیہ میں تحقیقی نظررکھتے تھے ،علماء راسخین کے مابین ایک بلندوبالامقام کے حامل تھے )شبلیات کے معروف محقق جناب الیاس اعظمی صاحب نے یوں خراج عقیدت پیش کیا: علوم دینیہ قرآن وحدیث ،تفسیر،فقہ ،فلسفہ ،منطق،اورادب پر ان کی گہری نظرتھی ۔خاص طورسے قرآن وحدیث میں ان کوبڑاتبحرحاصل تھا،قرآن پاک سے توگویاان کوعشق تھازندگی کا ایک بڑاحصہ انہوں نے قرآن پاک پر غوروفکرمیں صرف کیااور۔۔۔تفسیرمفتاح القرآن لکھی جس نے اہل علم کی توجہ اپنی طرف مرکوز کی ۔۔۔۔قرآن پاک کی طرح حدیث پر بھی ان کی گہری نظرتھی ،بلکہ وہ ایک بلندپایہ محدث تھے ،اوربقول مولانامجیب اللہ ندوی مدظلہ (اب مرحوم )حدیث پر ان کی اس قدرگہری نظری تھی کہ شایدہی ہندوستان میں اس کی کوئی نظیرہو۔( 6)اسی طرح جب علامہ کی کتاب شرح مسندکاپہلاحصہ نہایۃالتحقیق چھپاتواس پر مشہورعالم اورمایۂ نازفقیہ مولانامجیب اللہ ندوی ؒ مؤسس جامعۃ الرشاداعظم گڑھ نے ایک مبسوط مقدمہ تحریرفرمایا۔جوپوراقابل مطالعہ ہے ۔اس مقدمہ میں انہوں نے لکھاہے : راقم کوہندوستان وپاکستان کے سبھی ممتاز علماء کی خدمت میں حاضری کا موقع ملاہے ،مگریہ کہناشایدمبالغہ نہ ہوگاکہ ہندوستان وپاکستان کے دوچارعلماء کوچھوڑکرفن حدیث اوراسماء الرجال پر مولاناکی جتنی گہری نگاہ اوراستحضارہے وہ کم ہی دیکھنے میں آیاہے ۔یہ خداکاخصوصی فضل ہے کہ اس زمانہ قحط الرجال میں اس نے انہیں عطاکیاہے ۔(7)
قلمی آثار: (۱) اقوم المسالک الی مؤطا الامام مالک :یہ علامہ میرٹھی کا سب سے پہلاحدیثی کارنامہ ہے جس کے انہوں نے چھ حصے لکھے تھے۔یہ ناتمام ہے ۔ اور اس کے اکثرحصے ضائع ہوگئے ہیں ۔میرے پاس اس کے کچھ اجزاء ہیں جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک عالمانہ شرح ہے ۔اس کا انداز یہ ہے کہ پہلے حدیث ذکرکرتے ہیں،اس کا ترجمہ کرتے ہیں،حدیث کے مختلف طرق کا تذکرہ کرتے ،پھرتراجم رواۃاورتحقیق حدیث ۔اس کے بعدفقہ حدیث ا ورحدیث سے نکلنے والے مسئلہ کی توضیح نیز اس سلسلہ میں مختلف فقہی اختلافات کا کا ذکراورمحاکمہ اورراجح قول کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اسلوب بیان نہایت آسان اورششتہ اورسہل ہے اوراجتہادی ذوق اس میں بھی عیاں ہے ۔(8)راقم نے اقوم المسالک کے یہ مسودات حرفاحرفاپڑھے ہیں اوران کوپڑھنے کے بعدہی یہ رائے دی ہے
(
۲) مسنداحمدبن حنبل :مسنداحمدحدیث کا نادرانسائکلوپیڈیاہے جس میں تقریبا40ہزارحدیثیں راوی صحابی کی ترتیب سے ذکرکی گئی ہیں۔موجودہ زمانہ میں شیخ حسن البناء کے والدشیخ احمد ساعاتی ؒ نے پہلے مسند احمد کی تبویب فقہی مباحث کے لحاظ سے کی جس کا نام الفتح الربانی فی ترتیب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشیبانی رکھا، پھر اس کی شرح بلوغ الامانی کے نام سے لکھنی شروع کی۔ جس کی ۵ جلدیں شائع ہوگئی ہیں۔ یہ کتاب الصلاۃ تک ہے۔ پھر اس کو شیخ احمد شاکر مصری نے بھی ایڈٹ کیا لیکن ان کا کام بھی ناتمام ہے۔ علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ نے اردو میں مسند احمد کی مفصل شرح و تحقیق کا کام کیا جو مسند سعد بن ابی وقاصؓ تک پہنچ گیا۔ یہ جلیل القدر علمی کا م جو19 جلدوں تک پہنچابھی ناتمام رہ گیا۔ان کا خیال تھاکہ پوری مسندکی شرح 200 جلدوں میں آئے گی ۔صرف پہلا حصہ ہی منظر عام پر آسکا جس کا نام نہایۃ التحقیق شرح مسند ابو بکر الصدیق ہے۔ بقیہ مسودات کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: منتھی الآراب شرح مسند عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ۳ جلد۔ مواہب المنان شرح مسند عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ۳جلد، إرشاد الطالب شرح مسند علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ ۵ جلد، نیل المراد شرح مسند طلحۃ الجوادرضی اللہ عنہ ، نیل المرام شرح مسند الزبیر بن العوام رضی اللہ عنہایک جلد۔ درر الغواص شرح مسند سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ۔ یہ سب مسودات ابھی غیر مطبوعہ ہیں اور الماریوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔اورافسوس یہ ہے کہ ان میں کئی توبالکل ضائع ہوگئے اورکئی کومرورزمانہ نے سخت نقصان پہنچادیاہے۔ کاش کوئی صاحبِ خیر متوجہ ہو اور یہ منظر عام پر آسکیں۔
علامہ میرٹھی نے مسنداحمد کی شرح وتوضیح بڑے محققانہ انداز میں لکھی ہے اوراپنی بہترین تصنیفی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیاہے ۔راقم کے پاس ان میں سے کئی سارے مسودات موجودہیں۔اس میں انداز مؤطاکی شرح سے تھوڑابدلاہے کہ پہلے حدیث ذکرکرکے اس کا ترجمہ لکھتے ہیں اورترجمہ کے بعدتراجم رواۃ ،اوراس کے بعدحدیث کے جملہ طرق مختلف کتب حدیث سے نقل کرتے ہیں اورتحقیق کرکے حدیث کا پایہ متعین کرتے ہیں۔اس کے بعداس کے معنی کی مفصل شرح وتفصیل کرتے ہیں۔زیربحث حدیث کے جملہ طرق نقل کرنے سے واقعہ کی اصل تصویرسامنے آجاتی ہے اورفقہِ حدیث کے نئے پہلے ابھرتے ہیں۔البتہ کتاب کی ضخامت روایت کے جملہ طرق نقل کرنے سے بہت بڑھ گئی ہے ۔(9)شرح مسندکے شروع میں جومقدمہ لکھاہے اس میں ان سب مسودات کا اجمالی تذکرہ ہے ۔
(
۳)تحفۃ القاری شرح صحیح البخاری 16جلدعربی :(10)یہ بخاری کی مکمل شرح ہے اورعلم حدیث کا جامع انسائکلوپیڈیا۔شرح بخاری کی ابتداء ندوۃ العلماء میں بخاری کے درس کے دوران ہوئی تھی ۔جس کے لیے مہمیز کا کام علامہ کے ایک شامی شاگردسعیدالحلبی نے کیاتھا۔جواس وقت دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کررہے تھے ۔افسوس کے اب ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ۔یہ عظیم کام پایۂ تکمیل کوپہنچاہے اور16جلدوں میں مکمل ہوا ہے ۔ اس شرح کی پہلی جلدمیں مصنف نے خوداس کے اہم مزایااورامتیازی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیاہے۔جس کوہم مختصرایہاں نقل کرتے ہیں:
’’
۱۔امام بخاری ؒ نے ایک ہی حدیث کواپنی کتاب میں مختلف جگہوں پر متکرربیان کیاہے ،کہیں پوری حدیث اورکہیں اس کا ایک فقرہ بھی لکھاہے ۔کہیں ایک سندسے نقل کیاہے اورکہیں دوسری سندسے ۔اس تکرارکے علم حدیث میں بڑے فائدے ہیں۔مثلاکسی حدیث کے معنی میں راوی سے کوئی کلمہ یاایک سے زائدکلمے چھوٹ گئے ہوں دوسرے راوی نے ان کا ذکرکردیاہے ،ایک ہی حدیث دوراویوں نے ذکرکی ہو۔ایک کی حدیث میں کوئی قصور(کمی )رہ گیاہودوسرے کی حدیث میں کوئی دوسراقصو ر۔ دونوں روایتیں جمع کرنے سے وہ روایت تام ہوجاتی ہے یااس کے قصورکی تلافی ہوجاتی ہے ۔ایسابھی ہواہے کہ بخاری نے ایک ہی سندسے پوری حدیث بتکرارنقل کردی ہے ،اس طرح کی حدیث جہاں پہلی بارآئی ہے وہیں مصنف نے اس کی جملہ روایتیں جمع کردی ہیں۔ہرحدیث کے طرق و روایات کوجمع کرنانہایت کٹھن ،صبرآزمااورزہرہ گداز کام تھا،لین اس کے بغیرکسی حدیث کوٹھیک ٹھیک سمجھناممکن نہیں ہے اس کے ذریعہ شاذ و متفق علیہ میں اورمعروف ومنکرمیں تمیز حاصل ہوجاتی ہے۔اس کے علاوہ مسلم ،ترمذی ،نسائی ،ابوداؤد،ابن ماجہ ،مؤطااورمسنداحمدبن حنبل ،دارمی ،دارقطنی ،بیہقی اورمعانی الآثاروغیرہ سے اس حدیث کے جملہ طرق جمع کرکے ان کی تحقیق کی ہے ۔شاذکومتفق علیہ سے اورمعروف کو منکرسے الگ کردیاہے اورقاری پر فہم حدیث کوآسان کردیاہے ۔
۲۔تراجم رواۃ کا رجال کی معروف کتابوں سے نقل کرنے کا التزام کیاہے ۔۔۳۔ تحقیق حدیث میں علم حدیث کے صول ثابتہ کا پورالحاظ رکھاہے ۔صاحب مستدرک اورترمذی کی تصحیح وتضعیف پر بھروسہ نہیں کیاکیونکہ صاحب مستدرک کی عادت ہے کہ وہ کسی حدیث کوصحیح علی شرط البخاری ، کسی کوصحیح علی شرط مسلم اورکسی کوعلی شرطہماکہ گزرتے ہیں اسی طرح ترمذی بھی حکم لگانے میں متساہل مشہورہیں اورکسی حدیث کوحسن اورکسی کو حسن صحیح کہ دیتے ہیں۔تحفۃ القاری کے مؤلف نے آنکھ بندکرکے حاکم یاترمذی کا فیصلہ قبول نہیں کیابلکہ ہرحدیث کوبے لاگ اندازمیں محدثین کے مسلمہ اصول وضوابط کے معیارپر پرکھاہے اوراس سلسلہ میں کسی شخصی اورمذہبی تعصب اورمسلکی قیودیاکسی کلامی مکتب فکرکی پابندی نہیں کی ۔
۴۔پھرحدیث کی شرح کی ہے جس میں سلف وخلف میں سے کسی شارح کی تقلیدجامدنہیں کی
۵۔ ترجمۃالباب کی حدیث سے مطابقت کوبیان کردیاہے ۔۶۔شرح کے ہرجزء میں محدثین کے اوہام بیان کردیے ہیں،یوںیہ کتاب حدیث کے پورے ذخیرہ میں ممتاز حیثیت کی مالک ہوگئی ہے۔بخاری کی اورجوشرحیں پائی جاتی ہیں جن میں فتح الباری اورعینی زیادہ مشہور ہیں ان دونوں پریہ فوقیت لے گئی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ علمی دنیامیں اس کا تعارف ہواوراس کومنظرعام پر لایاجائے تاکہ اس سے استفادہ عام ہوسکے ۔
۶۔ حدیث کی تحقیق ونقد: دوسرے شارحین کے برخلاف علامہ میرٹھی نے بخاری کی بہت سی حدیثوں کی تضعیف کی ہے ۔انہوں نے روایت ودرایت کے اصولوں کے مطابق ہی ایک ایک حدیث کی تحقیق کی اوراس تحقیقی سفرمیں ان کوبخاری کی بہت سی احادیث میں سقم محسوس ہوا،انہوں نے ان کوتاویل یاتحکم سے یونہی صحیح ٹھیرانے کے بجائے ان کاجائزہ لیااوراپنے نتائجِ تحقیق جرأت کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کردیے ہیں۔
بخاری کا مطالعہ : یہ کتاب تین حصوں میں ہے ۔جن میں سے دوشائع ہوچکے ہیں اورایک کی اشاعت ابھی نہیں ہوپائی ہے ۔اس کتاب میں مصنف علیہ الرحمہ نے صحیح بخاری کی (اپنی تحقیق کے مطابق ) کچھ کمزوراورضعیف روایتوں پر روایت ودرایت کے نقطہ نظرسے گفتگوکی ہے ۔لیکن چونکہ صحیحین پرنقدکا باب علماء نے بندکررکھاہے ،اس لیے اس بارے میں تھوڑی تفصیل کی ضرورت ہے ۔صحیحین کے بارے میں اکثرعلماء کا موقف بلاشبہ یہی ہے کہ اُن میں تمام احادیث صحیح ہیں۔خا ص طورپر علماء اہل حدیث اس میں بڑاغلوکرتے ہیں اوراس کوایک طرح سے عقیدہ کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیایہ موقف خودمحدثین کے منہج کے مطابق ہے ؟ اورکیاوہ واقعہ کے مطابق بھی ہے ؟پہلے خودعلامہ میرٹھی کا بھی یہی خیال تھا جیساکہ ان کی شرح مسنداحمدبن حنبل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ۔مگربعدمیں علامہ میرٹھی نے جب اس سوال کا تحقیقی جائزہ لیاتوان کوپتہ چلاکہ علماء کا یاجمہورامت کا یہ موقف نظرِثانی کا محتاج ہے ۔ اللہ تعالی ٰنے مسلمانوں کوصرف کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ کا پابندبنایاہے نہ کہ جمہورکے کسی قول کایامزعومہ اجماع کاجس کا واقعہ کی دنیا میں کوئی وجودہی نہیں پایاجاتا۔( 11) ) کتاب اللہ کے بعدعلامہ نے صحیح بخاری ہی کا سب سے زیادہ مطالعہ کیاہے ۔انہوں نے 40سال اس کا متواترہندکے بڑے مدارس میں درس دیا۔اورصحیح بخاری کی شرح لکھتے وقت جب انہوں نے بخاری کی ایک ایک حدیث کا مسلمہ اصولِ حدیث کی روشنی میں جائزہ لیا تو ان کومحسوس ہواکہ بخاری کے بارے میں مطلق صحت کا یہ دعوی نہ اجماعی ہے اورنہ تحقیقی ۔وہ تومحض نقل درنقل کا شاخصانہ ہے ۔واضح رہے کہ شارحین کے نزدیک بخاری ومسلم دونوں میں متکلم فیہ راویوں کی تعدادخاصی ہے ،چنانچہ بخاری کے 80 تومسلم کے ایک سوسے زائد راویوں پر جرح کی گئی ہے۔اس کے علاوہ خودمحدث دارقطنی نے بخاری کی بہت سی احادیث پر کلام کیاہے ۔ شارح بخاری علامہ ابن حجرنے ان سب کا اپنی شرح کے مقدمہ میں جواب دیاہے مگرخودتسلیم کیاہے کہ :
ھذاجمیع ماتعقبہ الحفاظ النقاد،والعارفون لعلل الاسانید،المطلعون علی خفایاالطرق،ولیست کلہامن افرادالبخاری بل شارکہ مسلم فی کثیرمنہا۔۔۔ولیست کلہاقادحۃ بل اکثرہاالجواب عنہاظاہر،والقدح فیہامندفع وبعضہاالجواب عنہ محتمل والیسیرفی الجواب عنہ تعسف :
یعنی یہ سب وہ احادیث ہیں جن پرحافظین وناقدین حدیث اوراسانیدکی علتوں اورسندوں کی چھپی ہوئی باتوں کے جاننے والوں نے کلام کیاہے اوریہ سب ایسی روایات ہیں جن میں بخاری تنہانہیں بلکہ بہت سی ایسی ہیں جومسلم میں بھی ہیں اوریہ علتین ساری کی ساری قادح نہیں بلکہ ان میں سے اکثرکا جواب ظاہرہے ،بعض کا جواب دیاجاسکتاہے مگرچندمقامات واقعی ایسے ہیں جن کا جواب تحکم کے سِوااورکچھ نہیں۔
(12)
اس سے ظاہرہے کہ حافظ ابن حجرخودحقیقت کا اعتراف فرماگئے ہیں۔ اسی طرح ماضی وحال کے بہت سے محدثین اوراہلِ علم نے بخاری کی مطلق صحت کے نظریہ پرسوال اٹھایاہے ۔جیساکہ ہم آگے واضح کریں گے ۔شیخین یعنی بخاری ومسلم سے علامہ میرٹھی کوغایت درجہ محبت وعقیدت تھی لیکن یہ عقیدت اندھی نہ تھی ۔اس نقدِحدیث کی معنویت سمجھنے کے لیے یہ ذہن میں رہے کہ قرآن کریم خداکی کتاب ہے اوراس کی حفاظت کی خوداللہ تعالی ٰ نے ذمہ داری لی ہے ۔انانحن نزلناالذکروانالہ لحافظون(ہم نے ذکر(قرآن) کونازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں( 13 ) چنانچہ قرآن کے کسی شوشہ اورحرف کے بارے میں بھی کسی غلطی ،خطایاوہم کا خیال بھی نہیں کیاجاسکتا۔کیونکہ راجح قول کے مطابق قرآن کی تدوین وترتیب رسول اللہ کے زمانہ میں تکمیل پاچکی تھی ( عام خیال یہ ہے کہ عہدنبوی میں ترتیب نہیں دیاگیاتھابلکہ عہدصدیقی میں مرتب ہوا،مگربہت سی تحقیقات منظرعام پرآچکی ہیں جن کی روسے کم ازکم یہ توصاف معلوم ہوتاہے کہ پوراقرآن لحف (کھجورکی چوڑی چھال)،چمڑے کے ٹکڑوں اورپتھرکی باریک سلوں پر لکھا جاچکا تھا اور ترتیب سے لکھاگیاتھا،عہدصدیقی میں اس کوکاغزکے اندرمنتقل کیاگیا اورمصحف (بین الدفتین )کی شکل دی گئی۔یہ ایک مستنداورباضابطہ سرکاری نسخہ ہوگیا ۔ جس کے نہ ہونے کی صورت میں امت میں اختلاف پیداہوجانے کا خطرہ تھا۔ جبکہ عہدعثمانی میں اس کی مختلف نقول بنوائی گئیں اورپوری قلمرومیں ان کی توسیع واشاعت کردی گئی ۔یہ برسبیل تنزل اورمختلف روایات واقوال کے مابین ترجیح کے طورپر ہماراخیال ہے جبکہ ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ نہیں پوراقرآن مصحف کی شکل میں عہدنبوی میں ہی مرتب ہوچکاتھا،اس خیال کے حامل ،مفتی عبداللطیف رحمانی ،اورتمناعمادی اوربہت سے اہل علم ہیں اور متعدد روایات اورتاریخی قرائن سے ا س کی تائیدہوتی ہے۔(14 )جہاں تک حدیث کا مسئلہ ہے تواس سلسلہ میں ایسی کوئی کوشش رسول اللہ یااجلۂ صحابہ کی جانب سے نہیں کی گئی ۔بعض صحابہ نے فردافرداحدیث کولکھا،اوراس کی ترتیب وتدوین کا کام بہت بعدمیں عہدعمربن عبدالعزیز ؒ میں شروع ہوا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ خداورسول کویہ منظورنہ تھاکہ خداکی کتاب میں کسی انسانی کلام کی آمیزش ہو۔تقدس صرف اسی کتاب کا حق تھا کسی اورکتاب کا نہیں۔اورامام شافعی تویہاں تک کہتے ہیں کہ کتاب اللہ کے علاوہ کسی اورچیز کو’’نص ‘‘نہیں کہاجاسکتا ( الام میں امام صاحب نے اس بات کومختلف انداز سے اوربارباردہرایاہے ۔ ( 15)ظاہرہے کہ قرآن کتاب منزل ہے ۔اس کے حروف اورمعانی سب اللہ کی طرف سے ہیں جبکہ حدیث کا معاملہ ایسانہیں ہے ۔حدیث کومن حیث المجموع وحی غیرمتلوکہاجاتاہے ۔حدیث کی کسی ایک متعین کتاب (مثلابخاری ومسلم ) کووحی متلوکا کامل مجموعہ نہیں کہاجاسکتاہے ۔ پھریہ ہے کہ حدیث کابہت چھوٹاساحصہ ہے جس کوباللفظ بھی روایت کیاگیاہے زیادہ ترحدیثیں بالمعنی روایت ہوئی ہیں۔ ہیں۔متواترحدیثوں کی بات الگ ہے ۔البتہ وہ بھی کسی ایک کتاب کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔وجہ صاف ظاہرہے کہ قرآن کتاب منزل من اللہ ہے حدیث کی کوئی کتاب بعینہ منزل من اللہ نہیں ہے ۔بحیثیت مجموعی حدیث کتاب اللہ کی شرح یقیناہے ۔مگرکسی شرح کواصل متن پرفوقیت حاصل نہیں ہوتی ۔امام شافعی کے نزدیک حدیث سراسرکتا ب اللہ ہی سے مستنبط ہے لہذاوہ کتاب اللہ ہی کے تابع ہوگی اس پر حاکم نہیں۔
یہ تواصولی بات ہوئی اب رہی یہ بات کہ بخاری کے حرف بہ حرف صحیح ہونے پر امت کا اجماع ہے ۔توپہلی بات تویہ ہے کہ صحیح قول کے مطابق جیساکہ امام شافعی ؒ کہتے ہیں اجماع صرف صحابہ کا معتبرہے (یہی امام ابن تیمیہ کا بھی موقف ہے ) بعدوالوں کا نہیں ۔( 16)اورپھراجماع شرعیات میں ہوتاہے اخباروقائع میں نہیں۔اس لیے یہ کہنااصولی طورپربالکل غلط ہے کہ کہ بخاری ومسلم کی مطلق عصمت وصحت پر اجماع امت ہوچکاہے ۔کیونکہ بخاری ومسلم عہدصحابہ توکجاعہدتابعین وتبع تابعین کے بھی بعدکے ہیں۔یعنی قرون مشہودلہابالخیرکے بعدکے ۔لہٰذااجماع کا دعوی توبالکل ہی درست نہیں۔بخاری کی جلالت شان کے پیش نظرکسی نے یہ بات کہ دی تھی کہ اس میں کوئی حدیث ضعیف نہیں اسی کولوگ نقل درنقل کرتے چلے گئے ۔جیساکہ علامہ خودلکھتے ہیں:
عموما اہل علم ونظرکوصحیح بخاری کی حدیثوں کوپرکھنے سے تین وجوہ نے روکاہے ۔اول : یہ کہ کسی نے اس کے متعلق یہ مبالغہ آمیز بات کہ دی تھی کہ اصح الکتاب بعدکتاب اللہ صحیح البخاری ایسی ہی مبالغہ آمیز بات پہلے امام مالک کی مؤطاکے بارے میں کہی گئی تھی مگرصحیح بخاری کے متعلق کہی گئی بات زیادہ پھیل گئی ۔بے علم واعظین اور غیرمحتاط مصنفین نے اسے خوب ہوادی ۔۔۔ ۔۔۔یہ مبالغہ آمیز جملہ نہ صرف پڑھے لکھے بلکہ تمام دیندارمسلمانوں کے دلوں میں بیٹھاہواہے ۔ اس لیے اورتواورعلماء کے تصورمیں بھی نہیں آتاکہ صحیح بخاری میں کوئی ایسی بھی حدیث ہوسکتی ہے جس کی صحت میں کلام کرنے کی گنجائش ہو۔کسی حدیث کے متعلق یہ معلوم ہوجائے کہ وہ صحیح بخاری میں ہے علی الفوراس کی صحت کا یقین کرلیاجاتاہے ۔۲۔اسی کا یہ برانتیجہ نکلاہے کہ صدیوں سے صحیح بخاری کورحمت وبرکت کے حصول اوردعاؤں کی پذیرائی کا تیربہدف ذریعہ اورنقدونظرسے بالاترمقدس کتاب ماناجاتاہے ۔۔۔۔۳۔صحیح بخاری کی حدیثوں کے معنی ومطلب سے خودعلماء کرام کی بے توجہی کا حال بھی بڑاماتم انگیز ہے ۔۔۔۔۴۔ خودامام بخاری کے حفظ وضبط کی اعجازی قوت اورتیقظ کے متعلق بھی تذکرہ نویسوں نے افراط وتفریط میں گندھی ہوئی حکایتیں وضع کرڈالی ہیں جوصحیح بخاری کی دراست کے آغاز میں طلبہ کوسنائی جاتی ہیں۔حالانکہ خودصحیح بخاری کی شہادت یہ ہے کہ اس لحاظ سے امام بخاری کوئی غیرمعمولی شخص نہ تھے ۔وہ ایک ثقہ محدث تھے اوردیگرثقہ محدثین کی طرح بخاری کے یہاں بھی بھول چوک اورقصوربیان اورغلط فہمی کی سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔الغرض امام بخاری وصحیح بخاری کے متعلق پھیلائی ہوئی مبالغہ آرائیوں کی وجہ سے عرب وعجم کے اہل علم ونظرصحیح ڈھنگ سے صحیح بخاری کا مطالعہ کرنے سے قاصررہے ۔(17)
ہمیں تسلیم ہے کہ بہت بڑے بڑے محدثین ،ائمہ اورعلماء یہی مانتے ہیں کہ صحیحین کی صحت پر اتفاق ہے اوران کی کسی حدیث پر نقدکرناصحیح نہیں ہے لیکن ہمارا کہنایہ ہے کہ یہ ان کی رائے ہی توہے کوئی نص شرعی تونہیں جواس کومانناواجب اورضروری سمجھاجائے۔تقلیدائمہ پر سینکڑوں علماء کے اسی طرح کے اقوال مل جائیں گے جن میں بڑے بڑے محدثین بھی ہیں اورتقلیدکوواجب اورعدم تقلیدکوگمراہی قراردیتے ہیں۔ مگر غیر مقلدین حضرات ان سب اقوال کودیوارپر دے مارتے ہیں ۔رکعات تراویح کے مسئلہ میں اورطلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں یہ لوگ حضرات صحابہؓ کے اجتہاداوراقوال کوبھی نظرانداز کردیتے ہیں کیونکہ ایساان کے نزدیک روحِ دین (یعنی قولی احادیث )کے خلاف ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ بخاری ومسلم پرنقدکرنے کا مسئلہ بھی ایساہی ہے ۔جولوگ اُسے غلط سمجھتے ہیں وہ سمجھتے رہیں۔ہم اس مسئلہ میں اقوال الرجال کونص شرعی نہیں سمجھتے لہٰذاوہ دلیل شرعی کیوں کرہوجائیں گے ؟اوران کے خلاف جانے والے کوکس دلیل سے غلط سمجھاجائے گاجب کہ روایت ودرایت سے ان کی نقدثابت بھی ہوجائے !!
پھرعلامہ میرٹھی توخودامام بخاری ومسلم سے بہت محبت کرنے والے اورعقیدت مندتھے جیساکہ اپنی کتاب کے مقدمہ میں ان کویوں خراج تحسین پیش کیاہے :
’’
شیخین یعنی امام محمدبن اسماعیل البخاری اورامام مسلم بن حجاج قشیری اس امت کے گرامی مرتبہ محسنین میں سے ہیں۔امام بخاری نے الجامع الصحیح المسندمیں جسے صحیح بخاری کہاجاتاہے اورامام مسلم نے صحیح مسلم میں صرف وہی حدیثیں ثبت فرمائی ہیں جوان کے نزدیک صحیح تھیں ۔ صحت احادیث کا التزام کرکے عالی مرتبہ شیخین نے علماء معاصرین اوربعدمیں آنے والے مصنفین ومحدثین کے لیے نہایت اچھی مثال پیش کردی تھی اورتحقیق کی وہ صحیح راہ دکھادی تھی جس پر چلنے سے سنت نبویہ کی غل وغش سے حفاظت ہوسکتی تھی ۔لیکن شیخین رحمہمااللہ کی یہ مبارک سعی بہرکیف ایک انفرادی سعی تھی ضرورت اس کی مقتضی تھی اورمقتضی ہے کہ جیسے حضرت ابوبکرصدیق اورحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہماکی سرکردگی میں قرآن کریم کویکجاکرنے اورایک مصحف میں ثبت کرنے کا کام اجتماعی طورپر ہواتھا،اسی طرح احادیث صحیحہ کویکجاکرنے کا کام امت مسلمہ کے کسی متفق علیہ امیرالمومنین کی نگرانی میں اجتماعی طورپر انجام دیاجائے ،اللہ ہی جانے کہ وہ وقت سعیدکب آئے گا۔اس وقت تک علم وتحقیق کے سلسلہ میں انفرادی کوششیں ہی ہوتی رہیں گی اورایسی ہرکوشش نقدونظرکی محتاج رہے گی ۔‘‘(18)
عام علماء اوربالخصوص اہل حدیث زوروشورسے یہ دعوی کرتے ہیں کہ صحیحین کی صحت پر اجماع ہے ۔( پاکستان کے اہل حدیث عالم حافظ زبیرکا ایک مقالہ ہمارے پیش نظرہے ۔شروع میں موصوف نے کہاہے : ’’صحیح بخاری وصحیح مسلم کی بعض روایات پر خودائمہ سلف میں بعض اہل علم نے نقدکیا ہے اس لیے یہ عقیدہ رکھناکہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کاایک ایک شوشہ بھی قطعی طورپر صحیح ہے اوراس کی صحت پر اجماع ہے ایک قابل اصلاح عقیدہ ہے ‘‘۔(19)کہاں توموصوف کا یہ کہناہے جوبالکل صحیح ہے مگرپھرپورامقالہ اپنی اسی بات کی تردیدکے لیے وقف کردیاہے اوریہ نتیجہ نکالاہے کہ : خلاصۂ کلام یہی ہے کہ صحیحین کی غیرم نتقد روایات کی صحت قطعی ہے ۔امام شوکانی کے نزدیک اب کسی بھی عالم کے لیے صحیحین کی کسی سندپرکلام کی گنجائش باقی نہیں رہی (20 )حالانکہ شوکانی توبہت متاخرعالم ہیں ۔حدیث اوردوسرے علوم اسلامیہ میں ان سے زیادہ تبحرتوانورشاہ کشمیری کوحاصل تھا۔شوکانی کا یہ علمی مرتبہ نہیں کہ وہ قطعیت کے ساتھ کسی چیز کا فیصلہ کردیں ۔جس کے بارے میں ان سے بڑے بڑے علماء حدیث مختلف رائے رکھتے آئے ہیں۔تعجب اس بات پر ہوتاہے کہ ائمہ اربعہ کی تقلید کو کفر و شرک کی مثل سمجھنے والے امام بخاری ،ابن تیمیہ ،ابن قیم اورقاضی شوکانی کی کس دھڑلے سے تقلیدکرتے ہیں اورآنکھ بندکرکے ان کے اقوال پر آمنا و صدقناکہتے ہیں!ان کوحجت مانتے ہیں اورپھربھی اپنے آپ کواجتہادکا قائل اورتقلیدکامخالف قراردیتے ہیں،عبدالفتاح ابوغدہ ؒ جیسے فقیہ ومحدث کبیرنے بھی ان کی اس روش سے بے ذاری کا اظہارکیاہے ۔ (21) (حافظ زبیرپورے مقالہ میں اقوال الرجال کے علاوہ کوئی ایسی چیز پیش نہیں کرسکے جس کو سند سمجھا جاسکے ۔اوراقوال الرجال اہل حدیثوں کے ہاں سندنہیں ہوتے لہٰذاان سے استشہادکرناتوخوداپنے آپ کوغلط ثابت کرناہے !!اورحافظ زبیرپر کیاموقوف ہے ،یہ لوگ زبان سے تونہیں کہتے مگرعملی رویہ اہل حدیثوں کا یہی ہے کہ صحیحین گویاان کے لیے قرآن مقدس ہیں۔اس میں ذرابھی مبالغہ نہیں کہ راقم نے خود اپنے کانوں سے سناہے کہ ایک بڑے اہل حدیث عالم اورخطیب نے جمعہ کے خطبہ میں یہ با ت کہی کہ مسلمانوں پر قرآن کے ساتھ ہی بخاری ومسلم میں اترے ہوئے احکام پر ایمان لاناواجب ہے ۔یہ تعبیریقیناغلط ہے چاہے اس کی کتنی بھی تاویل کی جائے اوراس کوسبقت لسانی کہنے کی کوشش کی جائے ۔جو بات دل میں ہوتی ہے وہ زبان پر آکررہتی ہے ۔اہل حدیثوں کوصحیحین سے متعلق اپنے عقیدہ کودرست کرناچاہیے ۔قرآن کے بارے میں کوئی کچھ کہ دے کسی اہل حدیث میں کوئی غیرت پیدانہیں ہوگی مگرذراصحیحین پر نقدکسی نے کیاتوان کی بلی تھیلے سے باہرآجاتی ہے۔
ہماراکہنایہ ہے کہ نمبرتوایک کوئی اجماع موجودنہیں کیونکہ نقل درنقل کو اجماع نہیں کہتے اگربعض علماء نے ایساکہاہے تووہ ان کی رائے ہے ۔بہتیرے علماء کہتے ہیں کہ تقلیدِائمہ پر اجماع ہے ۔ہزاروں علماء وائمہ کہتے ہیں کہ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر اجماع ہے ،بہت سے کہتے ہیں کہ بیس رکعات تراویح پر اجماع ہے ۔اجماع اجماع چلانے والے اہل حدیث پہلے ان اجماعات کومانیں تب صحیحین کے حرف حرف صحیح ہونے کے اجماع کی بات کریں۔اچھابالفرض مان لیاکہ ماضی کے علماء کا اس بات پر اجماع ہے توکہاجاسکتاہے کہ اُس اجماع کوآج کے متعددعلماء نے توڑدیاہے لہٰذااب ایسے کسی اجماع کااعتبارنہیں رہ گیا۔واضح رہے کہ صحیحین پر نقدکرنے والے علماء کی تعدادکثیرہے اوران میں بعض علماء تووہ ہیں جنہیں خودعلم حدیث میں امامت کا درجہ حاصل ہے ۔اوران معاصر علماء ومصنفین کی تعدادتوبے شمارہے جوصحیحین پر نقدکرتے ہیں۔مگریہاں ان کا ذکرطوالت کا موجب ہوگا۔اول الذکرمیں خودعلامہ البانی کا شمار یوں کیا جاسکتاہے کہ انہوں نے بخاری ومسلم کے کئی رواۃ کی تضعیف کی ہے جوایک درجہ میں صحیحین پر نقدکی گنجائش کے مترادف ہے ۔اوربخاری کی حدیث: ثلاثۃ اناخصمہم یوم القیامۃ رجل اعطی بی ثم غدر،ورجل باع حرافاکل ثمنہ ورحل استاجراجیرافاستوفی منہ ولم یعط اجرہ ( تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں ان کی طرف سے لڑوں گا،ایک وہ شخص جس نے میرے نام پردیاپھراس کے ساتھ دھوکہ کیاگیا،دوسراوہ شخص جس نے کسی آزادآدمی کوبیچ کراس کی قیمت کھاگیاہوتیسراوہ شخص کہ جس نے کوئی مزدورکیااوراس سے پوراکام لیامگراس کی اجرت نہیں دی ،رواہ البخاری ) کی تضعیف کی ہے ۔(22)یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ البانی کوعلماء اہل حدیث بالخصوص حدیث کا مطلق امام تسلیم کرچکے ہیں اوران کا حوالہ ویسے ہی دیتے ہیں جیسے ابن حجر،عینی اورقسطلانی کا دیاجاتاہے ۔
دوسری بڑی مثال مصری عالم حدیث علامہ زاہدالکوثری (1371-ھ1296ھ) حنفی کی ہے جن کے علم وفضل اورامامتِ حدیث کے قائل مولاناابوالحسن علی ندوی ،علامہ حبیب الرحمن محدث اعظمی ،اورکوثری کے شاگردرشیدعلامہ عبدالفتاح ابوغدہ ؒ توہیں ہی خودالبانیؒ بھی ہیں جنہوں نے ساری زندگی ان کومہذب گالیاں دیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں : الذی کان ۔والحق یقال ۔علی حظ وافرمن العلم بالحدیث ورجالہ (جوکہ حق بات یہ ہے ،اورحق کوکہناہی پڑتاہے کہ حدیث اوررجالِ حدیث کابہت زیادہ علم رکھتے تھے ( 23 )والفضل ماشہدت بہ الاعداء ، کوثری نے بخاری کی تقریبا ۷حدیثوں کوبالکل ردکردیاہے ۔جن کی تفصیل یہ ہے :
۱۔وہ حدیث جس میں آیاہے کہ لیلۃ الاسراء میں اولاپچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں اورموسی ٰعلیہ السلام کے بارباراصرارپر آپ ؐ نے رب تعالی ٰ سے ان میں کمی کرائی ،بیہقی کی الاسماء والصفات پر اپنی تعلیق میں ص 189
(
۲) یہ حدیث کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ منافقین کے پاس دوسری صورت میں آئے گا۔ اسی کتاب کے ص292پر
۳۔ یہ حدیث کہ زمین قیامت میں روٹی بن جائے گی (اسی کتاب کے ص320پر
۴۔وہ حدیث جس میں ہے کہ آپ یہودی کی تصدیق میں ہنس پڑے۔ اسی کتاب کے ص336پر
۵۔ حدیث الحشروالساق، اسی کتاب کے ص344پر
۶۔حدیث مالک بن الحویرث کہ نبی نے رفع الیدین کیارکوع میں جاتے اوراٹھتے وقت (ص 83تانیب الخطیب )
۷۔حدیث انس کہ یہودی جس نے ایک جاریہ کا سرکچل دیاتھا’اُس کا بھی سرکچلاگیااسی کتاب کے ص23پر۔ (24)۔
یہ ضروری نہیں کہ اہل علم کوکوثری کی ان رایوں سے اتفاق ہی ہوچنانچہ علامہ یمانی معلمی نے النکیل بمافی تانیب الکوثری من الاباطیل لکھی ہے ۔اوران کا تعاقب کیاہے ۔مگراس سے یہ پتہ توچلتاہے کہ سبھی محدیثین بخاری ومسلم کی اندھی تقلیدنہیں کرتے ۔اسی طرح پنجاب کے ایک عالم شیخ التفسیروالحدیث مرحوم علامہ احمدسعیدخاں ملتانی نے قرآن مقدس بخاری محدث کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جوانٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے ۔اس میں انہوں نے بخاری کی بہت سی احادیث پر قرآن کی روشنی میں نقدکیاہے ۔ ایک بڑی وجہ اس تنقیدی مطالعہ کی معنویت کی یہ ہے کہ آج دنیائے تنقیدکا مسلمہ اصول یہ ہے کہ متن کی روشنی میں کسی نص (Text) کی قدروقیمت متعین کی جاتی ہے ۔اس کوتنقیداعلی ( Higher criticism) کہتے ہیں ۔اس حوالہ سے بھی کتاب اللہ کوجن لوگوں نے بھی نقدونظرکی کسوٹی پرپرکھااوردوسرے صحف سماویہ سے ان کا تقابلی مطالعہ کیاوہ خودقرآن کی حقانیت کے لیے برملاپکاراٹھے مثال کے طورپر مشہورفرانسیسی نومسلم محقق مورس بوکائے کی کتاب قرآن ،بائبل اور سائنس (25) ۔ یقیناصحیح وثابت حدیث بھی اس معیارپر پوری اترتی ہے ،مگراس کے لیے اس کا روایت ودرایت کی روسے جائزہ لیناہوگا،ظاہرہے کہ کتب حدیث کا معاملہ ایسانہیں ہے ۔کیونکہ علماء نے بالخصوص بخاری ومسلم پر نقدونظرکا با ب ہی بندکررکھاہے ۔حالانکہ جب علامہ میرٹھی نے بخاری کی ایک ایک روایت کا علم حدیث کی روشنی میں جائزہ لیاتوپایاکہ کتنی ہی حدیثیں ایسی ہیں جنہیں صحت سے کچھ علاقہ نہیں ۔اس کے علاوہ کتنی ہی حدیثیں ایسی ہیں جوبذات خودصحیح ہیں مگران کے بعض اجزاء میں غلطی ہوگئی ہے ۔اسی طرح تفسیرقرآن کے باب میں بخاری کی روایات نیز بخاری کے بعض فقہی اجتہادات اورکچھ ان کے تراجم ابواب میں امام عالی مقام امام بخاری ؒ سے غلطیاں ہوگئی ہیں۔اوران کی تقلیدِجامدمیں وہ لوگ بھی قرآن کی تفسیرمیں اورفقہ حدیث میں غلطیاں کررہے ہیں جوتقلیدجامدکے خلاف زمانہ میں سب سے زیادہ شوربھی مچاتے ہیں۔
بخاری کی اصل اہمیت کیاہے اس کوجاننے کی ضرورت ہے ۔راشدشاز لکھتے ہیں: (26)
’’
حدیث کی ارتقائی تاریخ میں بخاری کوایک غیرمعمولی حیثیت حاصل ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ تدوین حدیث میں بخاری نے جس زبردست ذہانت ،معیارعلمی ،تاریخی تنقیح اورتدوینی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیاہے ان سے پہلے آثارواحادیث کی تاریخ کسی ایسی کوشش سے متعارف نہ تھی ۔ایک ایسی کتاب جس میں زندگی کے جملہ امورسے متعلق اقوال وآثاراورایام رسول سے رہنمائی ملے اورجہاں تقریباہربات کے آغاز میں قرآن مجیدکی آیتوں کوابتدائیہ کے طورپر استعمال کیاگیاہو،ایک ایسانابغۂ روزگارخاکہ تھاجوان سے پہلے کسی انسانی ذہن کی گرفت میں نہیں آیاتھا۔پھربخاری نے ایک ہمہ گیرReference bookتیاری پر ہی اکتفانہ کیابلکہ اس کی ترتیب میں اپنی دانست میں اعلی ترین تحقیق کا مظاہرہ کیااورکسی ایسی تحقیق کوبروئے کارلانے کے لیے اس وقت جووسائل مہیاتھے ان کے استعمال کی ہرممکن کوشش کی ۔اس اعتبارسے دیکھاجائے توصحیح بخاری کی ترتیب وتدوین وحی کے ایک الگ مأخذ کی تشکیل کے بجائے ایک ایسی Reference bookکی تیاری معلوم ہوتی ہے جوزندگی کے تمام ہی پہلوؤں پر معروف انسانی ترتیب (تراجم ابواب ) کے حوالہ سے عام انسانوں کے لیے دینی رہنمائی فراہم کرسکے ۔ہر موضوع کے تحت پہلے آیت قرآنی نقل کی جائے اورپھرآثارواحادیث سے جومستندترین معلومات مل سکتی ہواسے روایت کیاجائے تاکہ طالبین حق کے لیے ایک ایسا انسائکلوپیڈیاوجودمیں آجائے جس میں وحی قرآنی کے ساتھ ساتھ آثاروروایات سے بھی استدلال موجودہو۔بخاری اپنے اس خاکہ میں رنگ بھرنے میں بڑی حدتک کامیاب رہے ۔الجامع الصحیح ان کی زندگی کا ایک ambitious project تھاجس پر سوانح نگاروں کے مطابق وہ سولہ سال تک کام کرتے رہے ۔اس طویل غوروفکرکے باوجودواقعہ یہ ہے کہ بہت سے عنوان جوآپ نے اس امیدمیں قائم کیے تھے کہ ان سے متعلق روایات وآثارمتعلقہ ابواب میں درج کیے جائیں گے وہ خالی رہ گئے ایک ecnyclopeccفقہی کتاب کا یہ خاکہ نامکمل رہ گیا۔گویایہ اس بات کی طرف اشارہ تھاکہ شایدآنے والے دنوں میں علماء ومحققین اس طرز پر عام رہنمائی کے لیے کچھ ایسی کتابیں تیارکریں گے جن کا یہ صرف ایک ابتدائی خاکہ تھا۔واقعات کی دنیامیں ایساہوابھی ۔‘‘
خودامام بخاریؒ کے معاصرین نے ان کوتقدیس مقام نہیں دیاجبھی توحاکم نے مستدرک علی الصحیحین لکھی اوردارقطنی نے بخاری ومسلم کی احادیث پر سندکی رو سے نقدکیا۔ان حضرات کے نقدکا علمی دنیامیں جوبھی مقام ہواورچاہے ان کا جواب دے دیاگیاہومگراس سے یہ توپتہ چلتاہی ہے کہ اس دورکے محدثین بخاری کی تصحیح وتضعیف کی جامدتقلیدنہیں کرتے تھے ۔اس کارواج بعدمیں دورزوال میں جاکرہوا۔ پھرآج کے زمانہ میں رسل ورسائل کی ،نت نئے مصادر و مراجع کی دستیابی کی جوصورتیں پیداہوگئی ہیں ان سے پہلے کے مقابلہ میں آج کہیں زیادہ یہ آسان ہوگیاہے کہ آپ نقدحدیث کے پیمانوں اورروایت و درایت کے مسلمہ اصولوں کوکام میں لاکرمحدثین رحمہم اللہ کی سعی مشکورکی قدرکریں اوران کی ہی راہ پر چل کرصحیح کوضعیف سے اورسقیم کوسلیم سے ممیز کردیں،لیکن اس کے لیے صحیحین سمیت تمام کتابوں پر نقدکا دروازہ کھولناہوگااورتقلیدِجامدکو خیربادکہ کرکمرہمت کسنی ہوگی ۔جن لوگوں نے اصول حدیث کی روشنی میں ہی ان پر تنقیدکی ہے ان کے کام کا جائزہ لینا ہوگا ۔ ہمارا کہنا یہ نہیں ہے کہ ناقدین بخاری ومسلم کی ہرتنقیدکوقبول کرلیاجائے ۔نہیں، بلکہ ان کی تنقیدکوبھی نقدونظرکی کسوٹی پر پرکھاجائے اس کے بعدفیصلہ کیاجائے ۔اس کے بغیرہی کسی بھی ناقدحدیث کومحض منکرِحدیث کہدینااوربغیراس کے دلائل کوجانچے اورپرکھے اس کی تنقیدکوردکردینانہ علمی طریقہ ہے اورنہ عقل ونقل سے اس کی پشت پر کوئی دلیل ہے۔قرآن منزل من اللہ تو ایک ہی ہے یہ حضرات اپنے تقدیسی رویہ سے بخاری کوعملادوسراقرآن بناڈال رہے ہیں۔بخاری میں قرآن کی کئی آیات کوغلط نوٹ کیاگیاہے۔شارحین اورعلماء ایسے مقامات پر بخاری کی غلطی مان لینے کی بجائے بے جا تاویل سے بات بنانے کی کوشش کرتے ہیں اورمختلف قرائتوں کا حوالہ دیتے ہیں ۔حالانکہ مختلف قرائتوں کا ثبوت توخودہی محل نزاع اور محتاج ثبوت ہے !!
امام بخاریؒ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ سے کدورت رکھتے تھے چنانچہ ان کا نام لے کرذکربھی نہیں کرتے بلکہ قال بعض الناس کہ کران کا حوالہ دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بعض علماء حنفیہ نے ایک مستقل رسالہ اس موضوع پر لکھاجس کا نام دفع الوسواس عن بعض الناس ہے اورہندوستان میں یہ بخاری کے ساتھ ہی چھاپا جاتا ہے ۔یادرہے کہ امام ابوحنیفہ امام بخاری کے استادوں کے استادوں کے شیخ ہیں ،پھربھی ان کا نام لیناگوارانہیں کیاگیا۔بخاری کے حاشیہ پر مولانااحمدعلی سہارنپوری محدث نے لکھاہے کہ :حافظ ابن حجرمقدمہ فتح الباری میں بخاری کے رواۃ پر طعن کا جواب دیتے ہوئے ان تمام اسباب کوبیان کرتے ہیں جن پر طعن کیاجاسکتاہے اس کے بعدکہتے ہیں: کہ صحیح بخاری میں یہ اسبا ب نہیں ہیں پھرلکھتے ہیں: وقدیشتدالمخالفۃ اویضعف الحفظ فیحکم علی مایخالفہ فیہ بکونہ منکراوہذالیس بصحیح سوی نزویسیر۔یعنی کبھی راوی کی دوسرے راویوں سے مخالفت شدیدہوتی ہے اورکبھی اس کا حافظہ بھی کمزورہوتاہے ایسی صورت میں وہ جس روایت کی مخالفت کررہاہے اس کومنکرکہاجائے گااورصحیح میں یہ قسم بھی نہیں ہے سوائے چندروایات کے ۔(27)اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ حافظ بھی چندروایتوں میں منکرہونے کاامکان تسلیم کرتے ہیں۔ظاہرہے بخاری کی (مکرر) بارہ ہزارروایتوں میں سے اگرسوپچاس روایتیں علامہ میرٹھی کے نزدیک کمزوروضعیف ہیں تویہ چندہی توہوئیں۔ابن تیمیہ نے بھی جہاں بخاری ومسلم کوصحیح ترین کتاب قراردیاہے وہاں صاف کہ دیاہے کہ ان کاغالب حصہ اسی طرح کاہے اورظاہرہے کہ اس میں کسی کواختلاف نہیں ہے۔ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ :فان جمہورمافی البخاری ومسلم ممایقطع بان النبی قالہ لان غالبہ من ہذاالنوع ۔(28)آگے چل کرخودابن تیمیہ لکھتے ہیں: (29)وان ماوقع فی بعض طرق البخاری ’’ا ن النارلاتمتلئی حتی ینشئی اللہ لہاخلقاآخرمماوقع فیہ الغلط وہذاکثیریعنی بخاری کی بعض روایتوں میں جویہ آیاہے کہ نارجہنم کا پیٹ نہیں بھرے گایہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک دوسری مخلوق پیداکرے گاتواس میں غلطی ہوئی ہے اورایسابہت ہوتاہے ۔
صحیحین کے تعلق سے صحیح نقطہ نظرکااظہارفقہ القرآن کے مصنف مولاناعمراحمدعثمانی نے کیاہے جن کی علوم الحدیث پر گہری نظرتھی اوروہ اوران کے والدعلامہ ظفراحمدتھانوی خودایک بڑے محدث تھے ۔انہوں نے اپنی کتاب فقہ القرآن جلداول کے شروع میں ایک نہایت قیمتی اورعلمی مقدمہ لکھاہے جس میں ایک عنوان قائم کرتے ہیں: صحیحین کی حدیثیں تنقیدسے بالاترنہیں ۔اس میں لکھتے ہیں: لوگوں نے یہ سمجھ لیاہے کہ بخاری ومسلم میں جوحدیثیں آگئی ہیں ان پر تنقیدکی ہی نہیں جاسکتی حالانکہ صحیحین میں ایسی بہت سی احادیث ہیں جن پر خودمتقدمین نے تنقیدین فرمائی ہیں اورصحیحین کی بہت سی احادیث کوغلط کہاہے ‘‘۔( 30) چندسطربعدلکھتے ہیں: تصحیح وتضعیف ایک امراجتہادی ہے ۔امام بخاری اورامام مسلم کا کسی حدیث کوصحیح قراردے کراپنی جامع صحیح میں درج کردینے کے معنی یہ ہیں کہ وہ ان دونوں اماموں کے خیال میں صحیح ہیں ان کا اجتہادان کوصحیح قراردے رہاہے ۔‘‘ اس کی تائیدمیں انہوں نے ابن تیمیہ کی کتاب رفع الملام سے ایک لمبااقتباس دیاہے ۔( 31)انہوں نے ہی لکھاہے : دارقطنی نے اپنی ’’الاستدراکات میں اور’’التتبع‘‘ میں بخاری ومسلم کے خلاف دوسوحدیثوں میں کلام کیاہے اورابومسعوددمشقی نے بھی ان دونوں کتابوں پر استدراکات لکھے ہیں ایسے ہی ابوعلی غسانی نے بھی اپنی کتاب تقییدالمہمل ‘‘میں دونوں کتابوں کی روایات پر اعتراض کیے ہیں(انتھی(32 )حافظ عراقی نے اپنے الفیے کی شرح میں (جلد۱ص71 ) میں بخاری اورمسلم کی دوحدیثیں بیان کی ہیں جن پر تنقیدکی گئی ہے ۔اس کے علاوہ عراقی نے خودایک کتاب بھی لکھی ہے جس میں ان دوکے علاوہ اوربھی بہت سی حدیثیں ذکرکی ہیں جن میں صحیحین کی حدیثوں پر تنقیدکی گئی ہے اوران کا جواب بھی دیاہے ( 33 ) امام ابن ابی الوفاء قریشی اپنی کتاب ’’الکتاب الجامع ‘‘ج۲ص428( جوالجواہرالمضیۂ کے حاشیہ پر ہے ) میں تحریرفرماتے ہیں:
’’
جولوگ یہ کہ دیتے ہیں کہ جس راوی سے شیخین نے روایت کردی وہ پل سے پارہوگیا(یعنی اس پر کوئی تنقیدنہیں کی جاسکتی )یہ محض شخصیت پرستی ہے ۔اس بات میں کوئی قوت نہیں ‘‘(34 )حافظ رشیدالدین عطارنے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے الفؤائدالمجموعہ فی شان ماوقع فی مسلم من الاحادیث المقطوعہ جس کے نام سے ہی ظاہرہے کہ مسلم میں متعددحدیثیں ضعیف سندوں سے مذکورہیں۔بخاری ومسلم میں بہت سی حدیثیں منقطع بھی ہیں لوگوں نے شخصیت پرستانہ انداز میں ایک قاعدہ بنالیاہے کہ اس قسم کی حدیثیں صحیحین کے علاوہ دوسری کتابوں میں پائی جائیں تووہ منقطع ہیں لیکن اسی قسم کی حدیثیں اگرصحیحین میں پائی جائیں تووہ اتصال پر محمول ہوں گی ۔مسلم نے اپنی کتاب میں حضرت جابراورابن عمرسے حجۃ الوداع کے سلسلہ میں نقل کیاہے کہ نبی کریم یوم النحرمیں مکہ تشریف لے گئے ،طواف افاضہ کیاپھرمکہ ہی میں ظہرکی نماز پڑھی اورپھرمنی لوٹ آئے لیکن خودمسلم ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے طواف افاضہ کیاپھرلوٹ آئے اورظہرکی نماز منی میں پڑھی ۔ دونوں روایتوں میں تضادہے شارحین نے بات بنانے کی کوشش کی ہے لیکن بنتی نہیں اس لیے امام ابن حزم کہتے ہیں کہ دونوں میں سے ایک روایت یقیناجھوٹی ہے ( 35)
کسی نے بخاری ومسلم کی کسی حدیث پر ذراتنقیدکرداہل حدیث علماء کاایمان خطرہ میں پڑجاتاہے فوراان کا لشکراس ناقدکا ناطقہ بندکردینے کے لیے نکل کھڑاہوتاہے کیونکہ خلیجی ممالک کی مہربانیوں سے وسائل کی کمی نہیں اس لیے مخالفانہ پروپیگنڈے کے ساراسازوسامان مہیاہے ۔مگریہ حضرات یہ نہیں دیکھتے کہ حافظ ابوذرعہ جیسے بڑے پایہ کے محدث نے بھی مسلم پر نقدکیاتھا۔(36 )علامہ ظفراحمدتھانوی فرماتے ہیں: ’’امام مسلم نے جوایسی حدیثیں نقل کردی ہیں جن میں ضعیف راوی منفرد ہیں توان کوصحیح قراردینابہت مشکل ہے ۔۔۔حق بات وہی ہے جوہم نے پہلے کہی تھی کہ دونوں کتابوں کا اصح ہونادوسری کتابوں کے مقابلہ میں صرف مجموعی اوراجمالی حیثیت سے ہے ،تفصیلی طورپرایک ایک حدیث سے متعلق نہیں ہے ۔( 37 )بخاری ومسلم میں یہ حدیث کہ حضور پر سحرکیاگیاتھا کئی جگہ آئی ہے ۔مگرمشہورفقیہ ومفسرامام ابوبکرجصاص اس قسم کی حدیثوں کے بارے میں سخت لفظوں میں فرماتے ہیں: ’’اس طرح کی حدیثیں ملحدوں کی وضع کردہ ہیں جورذیلوں اوراوباشوں کی بات کواہمیت دینے اوربتدریج لوگوں کواس بات کے لیے تیارکرنے کے واسطے گھڑی گئی ہیں کہ انبیاء کے معجزات کوباطل کیااوران میں شبہ ڈالاجائے ‘‘۔(38)
اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کذبات ثلاثہ کی حدیث بخاری میں ہے اس پر سلف وخلف میں کئی لوگوں نے سخت تنقیدکی ہے اس لیے قرآن ابراہیم علیہ السلام کوصدیق کہاہے اوربخاری کی یہ روایت ان کوجھوٹاقراردے رہی ہے ۔اسی طرح بخاری کی وہ حدیث جس کے راوی عمروبن میمون ہیں پر بھی نقدکیاگیاہے ۔عمروبن میمون کہتے ہیں : رأیت فی الجاھلیۃ قردااجتمع علیھاقردۃ قد زنت فرجموھامعہم(البخاری جلداول ،کتاب بنیان الکعبۃ باب القسامۃ فی الجاھلیۃ:جاہلیت کے زمانہ میں میں نے ایک بندرکودیکھاجس نے زناکیاتھاکہ اس کے اوپر کئی بندرجمع تھے اوراس کوپتھرروں سے سنگسارکررہے تھے اورمیں نے بھی ان کے ساتھ اسکوپتھرمارے ۔ حافظ ابن عبدالبرجیسے محدث اس پر نکیرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:اضافۃ الزناالی غیرالمکلف واقامۃ الحدودفی البہائم عندجماعۃ اہل العلم منکراہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک زناکی اضافت ایک غیرمکلف کی طرف اورجانوروں پر حدودکا اجراء ایک منکربات ہے (39)بخاری کی ایک اورحدیث ہے: خلق اللہ آدم وطولہ ستون ذراعا(40)کتاب الانبیاء باب خلق آدم وذریتہ ۔اللہ تعالی نے جب آدم کوپیداکیاتوان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ کے برابرتھی ۔یہ روایت بخاری جلداول میں ہے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجرجن کولوگوں نے بخاری پرست قراردیاہے اورجوکذبات ثلاثہ اورتلک الغرانیق العلاجیسی واہیات حدیثوں کوکچھ نہ کچھ تاویل کرکے قبول کرلیتے ہیں خود ان کواس حدیث میں اشکال پیش آیاہے لکھتے ہیں: (41)ویشکل علی ھذامایوجدالآن من آثارالامم السالفۃ کدیارثمودفان مساکنھم تدل ان قاماتہم لم تکن مفرطۃ الطول علی حسب ماتقتضیہ الترتیب السابق ۔۔۔ولم یظھرلی الی الآن مایزیل ہذالاشکال :اس پر یہ اشکال ہے کہ گزشتہ اقوام کے جوآثارقدیمہ پائے جاتے ہیں مثال کے طورپر ثمودوالوں کے آثارتوان کے مکانات اتنے بڑے نہیں جیسے ان کے جسم (آدم سے لیکران کے عہدتک ) ہونے چاہیے تھے ۔اس اشکال کودورکرنے والی کوئی چیز ابھی میرے سامنے نہیں آئی ۔
موجودہ دورکے توبہت سے علما ء ہیں جنہوں نے بخاری ومسلم کی حدیثوں کوردکیاہے ،جن میں مولاناعبداللطیف رحمانی نے جمع وتدوین قرآن سے متعلق بخاری کی کئی حدیثوں پر نقدکیاہے (42)اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تذکرہ میں کذبات ثلاثہ کی حدیث کوردکیاگیاہے ۔اورردکرنے میں سلف میں امام رازی اورحال کے علماء میں مولانامودودی جیسے لوگ ہیں ۔علم رجال حدیث کے ماہر علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی نے اورعلامہ تمناعمادی نے صحیحین کی متعددحدیثوں پر نقدکیاہے ۔اس کے لیے ملاحظہ ہوں اول الذکرکی کتاب مذہبی داستانیں اوران کی حقیقت اورثانی الذکرکی متعددکتب ۔
بخاری کے بارے میں خودیہ بھی معروف ہے کہ جب امام صاحب نے اپنی کتاب الجامع لکھ کراپنے اساتذہ اوراقران ومعاصرین کوپیش کی توانہوں نے بھی تمام تراحادیث سے اتفاق کیامگرچارحدیثوں سے نہیں کیا۔اس کے علاوہ یہ بھی پیش نظررہے کہ بعض محققین کے نزدیک بخاری زیرتصنیف کتاب تھی اورامام صاحب اس میں برابرترمیم کرتے رہتے تھے جیساکہ جامع صحیح کی داخلی شہادت بھی یہی ہے ۔پھریہ کہ مشہورہے کہ صحیح کوبخاری سے ہزاروں لوگوں نے سماعت کیااوراس کی نقلیں لیں مگرصرف چارنسخے ہی مرورایام سے بچ سکے اورلطف یہ ہے کہ صحیح کے ان چاروں نسخوں میں کمی وزیادتی اورتقدیم وتاخیرکے بہتیرے اختلافات ہیں۔بخار ی میں موقوفات ،منقطعات ،مرسلات اوراقوالِ رجال بھی ہیں،مرسلات میں بہت سی روایات زہری کی بھی ہیں جن کے بارے میں خودعلماء جرح وتعدیل کہتے ہیں کہ مرسلات الزہری کالریح ،اورمراسیل الزہری لاشئی ،مرسلات الزہری شبہ کالریح ،مگرحیرت ہے کہ جب یہی مراسیل بخاری میں آتے ہیں توان کوتحکم سے صحیح قراردے دیاجاتاہے اوراتصال پر محمول کرلیاجاتاہے ۔اورایسابالکل بے دلیل کیاجاتاہے محض یہ فرض کرکے کہ ضروریہ متصل ہوں گی البتہ چونکہ امام صاحب کی شرط پر پوری نہیں اترتی تھیں اس لیے ان کی سندکوذکرنہیں کیا۔جب ان کی شرط پر پوری نہیں اترتیں تواس کا صاف مطلب ہے کہ ان میں کچھ کمی ہے ۔پھران کی چھان بین کیوں نہ کی جائے ؟
خلاصہ یہ ہے کہ صحاح ستہ کی دوسری کتابوں کی طرح صحیحین پر بھی نقدکیاجاسکتاہے مگرہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ نقدکرنے کا ضروری سامان بھی ہوناچاہیے یعنی ناقدعلم اصول حدیث پر پوری مہارت رکھتاہوہرہماوشمایہ کام نہیں کرسکتااورہردوحرف پڑھ لینے والے کواس کی اجازت دی جائے جیساکہ آج انٹرنیٹ پرلکھاری حضرات نے بخاری ومسلم اوردوسری کتابوں کواپناتختۂ مشقِ ستم بنارکھاہے ۔
علامہ میرٹھی کے نقدِحدیث کی نوعیت کے پیش نظریہ راقم خاکسارتویہ سمجھتاہے کہ موصوف کے ذریعہ شرح بخاری کی تکمیل اوربخاری پر نقدونظر(بخاری کامطالعہ ) یہ خداکی خصوصی توفیق سے ہی ہوپایاہے ۔یہ ایک الہامی اورمن جانب اللہ کام تھا جوعلامہ سے لیاگیا۔دوسری وجہ اس تحقیقی اورتنقیدی کام کی یہ ہے کہ تفسیرمفتاح القرآن کی تالیف کے زمانہ میں علامہ نے سینکڑوں تفسیری روایات پر کلام کیا۔ان کی تحقیق وتنقیدکی جن میں سے بہت سی روایات خودبخاری ومسلم کی ہیں اوران روایات سے کتاب اللہ کے صحیح معانی ومطالب تک پہنچنے میں مشکل پیداہوگئی ہے ۔بخاری ،مسلم یادوسرے محدثین فن حدیث میں امام تھے ۔روایتوں کے حفظ وتلقی اورتحدیث وسماع میں انہوں نے زندگیاں لگائیں مگران کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ قرآن پر ان کی نظرگہری نہ تھی ۔اس لیے بخاری ومسلم کے تعلق سے جوغلط خیال امت میں جڑپکڑچکاہے اس غلط خیال کی اصلاح ضروری تھی ،چنانچہ تمام ترنامساعدحالات ،علماء کی مخالفت اورحدیث حدیث چلانے والوں کی سرکشی کے باوجودعلامہ نے اس کام کا بیڑہ اٹھالیا۔اوراس کوانجام دیا۔ضرورت اس با ت کی ہے کہ اس تنقیدی کام کواہل علم غورفکراوربحث وتحقیق کا موضوع بنائیں۔
صحیحمسلم کا تنقیدی مطالعہ : بخاری کا مطالعہ اورشرح بخاری کے بعدآپ نے مسلم کا تنقیدی مطالعہ شروع کیامگربہت ہی تٰھوڑاساکام ہوسکاتھاکہ اللہ کے ہاں سے بلاواآگیا۔چنانچہ مسلم کی تقریبا40احادیث پرتنقیدی کلام ہے ۔اس کے بعدآپ کی وفات ہوگئی ،کوشش کی جارہی ہے کہ آپ کایہ کام بھی شائع ہوجائے ۔تاہم واضح رہے کہ بخاری کا مطالعہ اوراحادیث دجال کے مطالعہ کے ضمن میں بھی مسلم کی متعددروایتوں پر کلام آچکاہے ۔اس طرح اگران دونوں کتابوں سے مسلم کی روایتوں کوالگ کیاجائے تومسلم کی خاصی روایتیں زیرنقدآچکی ہیں۔
تفسیرمفتاح القرآن میں تفسیری روایات کا تحقیقی مطالعہ : یہ اس تفسیرکا وہ علمی پہلوہے جس میں یہ تفسیرتمام قدیم وجدیدعربی واردوتفاسیرپر فوقیت رکھتی ہے ۔اوراس کی وجہ یہ ہے کہ مفسرگرامی علوم قرآن کے ساتھ ہی علوم حدیث کے بھی امام تھے ۔اورعلم الحدیث پر ان کو اتناعبورحاصل تھا کہ انہوں نے صحیحین پر بھی نقدکیاہے ۔اصل میں تفسیری روایات کا بیشترحصہ بے سروپاباتوں پر مشتمل ہے ،اس میں مرفوع احادیث کاحصہ بہت کم ہے ۔یہاں تک بخاری میں تفسیرقرآن کے باب میں جو احادیث وآثارجمع کیے ہیں ،ان میں امام بخاری نے تقریبامکمل طورپراوصالح ، علی بن ابی طلحہ ،نافع اور دوسرے راویوں کے تفسیری اقوال پر اعتمادکرلیاہے۔امام احمدکا مشہورقول ہے کہ : تین چیزیں ایسی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں : ثلاثۃ لااصل لہا: المغازی والملاحم والتفسیر۔ابن تیمیہؒ نے امام احمدکے قول کی توجیہ یہ کی ہے ای لااسنادلہا،اوراس کے بعدلکھاہے لان الغالب علیہا المراسیل کہ تفسیری روایات کا بیشترحصہ مرسلات پر مشتمل ہے ۔(43)لیکن بہت ساری تفسیری روایات جو حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں اور یہاں تک کہ بخاری ومسلم میں بھی جن کو مفسرین بالعموم نقل کرتے آرہے ہیں ان میں سے بھی اکثروبیشترغلط سلط رواتیں ہیں جیساکہ علامہ نے تفصیل سے اپنی تفسیرکے مختلف متعلقہ مقامات پر ہرایک روایت کاتفصیلی مطالعہ کرکے ثابت ومحقق کردیاہے۔ تفسیری روایات کے تحقیقی مطالعہ وتجزیہ کے اس کام کو مزیدآگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔راقم کا اندازہ ہے کہ یہ تفسیری روایات کم ازکم تین سوسے زائدہیں جوپوری تفسیرمیں جابجابکھری ہوئی ہیں۔راقم الحروف کوشش کررہاہے کہ علامہ کے اس کام تحقیقی کام کویکجاکتابی صورت میں منظرعام پر لے آیاجائے ۔
مصادرومراجع :
-1
سید رشیدرضا،مفتاح کنوزالسنہ،ص ق مقدمۃ الکتاب ،داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1982 )اورڈاکٹرمسعوداحمداعظمی حیاۃ ابوالمآثرجلدثانی صف38مرکزتحقیقات وخدمات علمیہ مؤ طبع2011 -2
-2
ان حضرات کے مختصرحالات کے لیے ملاحظہ ہوالسیدغلام علی آزادالبلگرامی ،سبحۃ المرجان فی آثارہندوستان ،تحقیق الدکتورمحمدفضل الرحمن الندوی ،معہدالدراسات الاسلامیہ جامعہ علی جراہ الاسلامیہ الطبعۃ الاولی 1976)
-3
علامہ کے مختصرحالات کے لیے ملاحظہ ہو،غطریف شہباز الندوی ،الشریعہ ماہنامہ (پرنٹ اورآن لائن ،اورغلام نبی کشافی ،افکارملی کا شخصیات نمبرجولائی 2005ذاکرنگرنئی دہلی 632/9اوراس سائٹ پر دیکھیں تفسیرمفتاح القران کا تنقیدی مطالعہ :
فتنۂ انکارِ قرآن ، کب اور کیسے ؟: تفسیرمفتاح القرآن کا ایک مطالعہ (مخطوطہ ومطبوعہ اجزاء)
اس کے علاوہ NewageIslamپر بھی انگریزی میں علامہ کے مختصرحالات مل جائیں گے ۔راقم ان کی حیات وخدمات پر ایک مبسوط کام کررہاہے ۔
-4
تحفۃ القاری شرح صحیح البخاری کے شروع میں علامہ نے اپنے حصول علم اوراساتذہ کبارجن سے علوم شرع اورعلوم حدیث حاصل کیے ان کا اوراپنی اسانیدکا تذکرہ کیاہے)
-5
البعث الاسلامی ص 99 ابریل 2005) ندوۃ العلماء لکھنؤ
-6
ماہنامہ الرشاد،ص۳۴مارچ اپریل 2005 )رشادنگراعظم یوپی انڈیا
-7
علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ،نہایۃ التحقیق ،شرح مسنداحمدبن حنبل صفحہ۱۱۱/۳مکتبہ ازہریہ رادھنہ ضلع میرٹھ یوپی )
-8
مختلف مسائل کے باب میں میں تمام مذاہب کی آراء اوران کے دلائل ذکرنے کے ساتھ دلائل کی روشنی میں جورائے زیادہ مضبوط محسوس ہوتی اس کا اظہارکرتے ہیں اوراس میں کسی مسلکی وجماعتی تعصب کوراہ نہیں دیتے ۔
-9
اس علمی کام کی وسعت کا اندازہ یوں کیاجاسکتاہے کہ شائع شدہ پہلے حصہ میں صرف 30احادیث کی ہی تحقیق آسکی ہے ۔جبکہ مسنداحمدمیں 40ہزارروایتیں بتائی جاتی ہیں۔
-10
اس شرح کی اصل اہمیت یہی ہے کہ اس پر کسی مسلکی تعصب کا رنگ بالکل نہیں چڑھانہ کسی مذہب کی زبردستی پچ کی گئی ہے ۔یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے حافظ ابن حجراپنی تمام ترجلالت علمی کے باوجوددامن نہیں بچاسکے اورحنفی مذہب پر شافعیہ کی ترجیح فتح الباری میں صاف ظاہرہے ۔
-11
اجماع کو عموماً شرع کے چار ماخذمیں سے ایک سمجھا جا تاہے۔ لیکن یہ واضح رہنا چاہئے کہ اجماع محض اکثریت کی رائے کو نہیں کہاجا سکتا ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کتاب و سنت کے تابع ہو۔مثال کے طورپریہ مسئلہ کہ انسان اللہ کا خلیفہ ہے، اکثر مفسرین کرام انسان کو اللہ کا خلیفہ مانتے ہیں لیکن ان کی یہ رائے غلط اور کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ اس لئے یہاں بھی اکثریت کے قول کا (بدلیل اجماع) اعتبار نہ ہوگا۔ اجماع کا مأخذ اصولیین سورۂ نساء کی آیت نمبر۵ ۱۱(وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ م بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ الآیۃ)کو قرار دیتے ہیں۔ تاہم مفسرابو حیان اندلسی نے اس پر شدید نقد کیا ہے: لکھتے ہیں:
’’
والآیۃ بعد ہذا کلہ ہی وعید للکفار فلا دلالۃ فیھا علی جزئیات فروع مسائل الفقہ‘‘ (البحر المحیط المجلد الثالث ص۰۵۳)اوپرکی بحث کے بعدثابت ہواکہ یہ آیت کفارکے لیے وعیدہے اس میں فقہ کے فروعی مسائل کے سلسہ میں کوئی دلالت نہیں)
امام ابن تیمیہؒ کا رجحان یہ ہے کہ اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم تو حجت ہے، بعد کے لوگوں کا حجت نہیں۔یہی امام شافعی کا بھی مسلک ہے ۔۶ ماضی قریب کے ایک محقق اسکالر ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ نے اجماع کے بارے میں اپنے ایک لیکچر میں کہا:
’’
اتفاق رائے یا کثرت سے فیصلہ کرنے کے لئے اجماع کی اصطلاح کا بہت ذکر کیا جا تاہے۔لیکن علماء کرام مجھے معاف فرمائیں تو میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اجماع فقط ایک مفروضہ اور افسانہ ہے۔ اس کا کوئی وجود نہیں اور چودہ سو برس میں اجماع کے ذریعہ فیصلہ کا کوئی طریقہ مقرر نہیں کیا گیا۔‘‘
(
ؐ۶)غطریف شہباز ندوی: ڈاکٹر محمد حمید اللہ مجدد علوم سیرت‘‘صفحہ ۸۷۔ فاؤنڈیشن فار اسلامک اسٹڈیز نئی دہلی طبع ۳۰۰۲ء)
-12
شیخ الاسلام ابن حجرالعسقلانی ،مقدمہ فتح الباری صفحہ524 طبع المطبعۃ البھیۃ المصریہ 1348
-13
سورہ حجرآیت 9
-14
مثال کے طورپرملاحظہ ہوسیدصدیق حسن آئی سی ایس،رسالہ جمع وتدوین قرآن ، ،طبع دارالمصنفین اعظم گڑھ طبع دوم 1987)
-15
ملاحظہ ہوڈاکٹرطہٰ جابرعلوانی کی کتاب مفاہیم محوریہ فی المنہج والمنہجیہ باب ثانی مفہوم النصدارالسلام ،القاہرہ ،الطبعۃ الاولی، 2009 )
-16
الامام محمدابوزہرہ ، الشافعی حیاتہ وعصرہ فقہہ وآراۂ طبع ثانی دارالفکرالعربی 1978 ص 87
-17
علامہ میرٹھی ،دیکھیں خاتمہ صحیح بخاری کامطالعہ قسط دوم صفحہ 382تا384)
-18
علامہ میرٹھی مقدمہ بخاری کا مطالعہ حصہ اول صفحہ ۱مکتبہ ازہریہ رائدھنہ )
-19
حافظ زبیرعلی ،ماہنامہ محدث لاہورمارچ 2008مضمون کیاصحیحین کی صحت پر اجماع ہے ؟
-20
ایضاص 39
-21
دیکھیے تراجم ستۃ من فقہاء العالم الاسلامی فی القرن الرابع عشرالہجری،دارالبشائربیروت ،1997 صفحہ42 ترجمۃ الامام الکشمیری : -22 ( ملاحظہ ہوناصرالدین البانی ،سلسۃ الاحادیث الضعیفہ واثرہاالسئی علی الامۃ جلد14 ص 589 حدیث نمبر:6763 طبع اول دارالمعارف ریاض 1992 )
-23
صلاح الدین مقبول احمدکی کتاب زوابع فی وجہ السنہ قدیماوحدیثاص28 مجمع البحوث العلمیۃ مرکزابی الکلام آزادللتوعیۃ الاسلامیۃ جوگابائی نیودلہی ،الطبعۃ الاولی 1991
-24
یہ تفصیل ملاحظہ کریں صلاح الدین مقبول احمدکی کتاب زوابع فی وجہ السنہ قدیماوحدیثاص28پر
-25
ملاحظہ ہوبابئبل قرآن اورسائنس کریسنٹ پبلشنگ کمپنی بلی ماراں دہلی اورمثال کے طورپر ملاحظہ ہومولاناوحیدالدین خاں کی کتاب علم جدیدکا چیلنج ،باب قرآن خداکی آواز ،صفحہ 145 طبع چہارم مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنؤ1990
-26
راشدشاز،ادراک زوال امت جلداول ملی پبلی کیشنز نئی دہلی طبع2003
-27
مقدمہ التحشیہ علی البخاری ازمولانااحمدعلی السہارنپوریْ بخاری طبع الہندکتب خانہ رشیدیہ دہلی جلداول صفحہ)
-28
مقدمہ فی اصول التفسیرص67 )
-29
مقدمہ فی اصول التفسیرص 79)
-30
مولاناعمراحمدعثمانی ،فقہ القرآن جلداول مقدمہ ادارہ فکراسلامی کراچی طبع اگست 1980
-31
ایضا
-32
ایضا
-33
ایضا
-34
ایضا
-35
ایضا
-36
ایضا
-37
ایضا
-38
ایضا
-39
دیکھیں حاشیہ نمبر۶ محشی محدث احمدعلی السہارنپوری بخاری طبع الہندکتب خانہ رشیدیہ دہلی جلداول صفحہ 543
-40
ایضاحاشیہ نمبر16ص 668 ایضا)
-41
ایضا
-42
ملاحظہ ہومولاناعبداللطیف رحمانی کی کتاب تاریخ القرآن ،مولانارحمانی کوئی متجددنہیں قدیم وضع کے ایک متبحرعالم دین تھے جنہوں نے ترمذی کی شرح بھی لکھی ہے جوغالباابھی تک شائع نہیں ہوسکی ہے۔ان کے تبحرعلمی کی شہادت ابوالکلام آزادنے بھی دی ہے ۔انہوں نے اپنی کتاب تاریخ القرآن میں ان احادیث اورروایات کا جائزہ لیاہے جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ قرآن کی تدوین عہدنبوی میں نہیں ہوسکی تھی اوریہ محقق کردیاہے کہ یہ پھیلاہواعام تصوربالکل غلط ہے صحیح بات یہ ہے کہ قرآن پاک کی تدوین عہدنبوی میں ہی مکمل ہوچکی تھی )
-43
ملاحظہ ہومقدمہ فی اصول التفسیرلابن تیمیہ ؒ صفحہ ۷۰ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*سب ایڈیٹر افکار ملی، مصنف،مترجم و صحافی اور ڈائرکٹر فاؤنڈیشن فار اسلامک اسٹڈیز
C-303/3
شاہین باغ جامعہ نگر نئی دہلی 110025
ٓای میل : mohammad.ghitreef@gmail.com
ghitreef1@yahoo.com

No comments:

Post a Comment