Thursday, September 13, 2012

ڈاڑھی اور زیب و زینت کا قرآنی تصور

ڈاڑھی  اور زیب  و  زینت کا قرآنی  تصور

چہرہ کی زیب و زینت کے مختلف انداز آیا جائز ہیں یا نہیں

چہرہ کی زیب و زینت کے مختلف شیپ ،ڈیزائن ، انداز ،ماڈل اور نمونے آیا جائز ہیں یا نہیں


قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي
 (20:94)
کہنے لگے کہ بھائی میری ڈاڑھی اور سر (کے بالوں) کو نہ پکڑیئے۔ میں تو اس سے ڈرا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کو ملحوظ نہ رکھا۔

اسلامی نام کے قوانین میں قوموں کی تہذیبوں،  علاقائی کلچر،  رسم ورواج اور انسانی زیب و زینت کے لحاظ سے لباس اور چہرہ کے میک اپ اور بالوں کی وضع قطع کا تعین و تشریح کے حوالہ سے جو بھی تشریحات مذہبی اداروں نے مشہور اور معین کی ہوئی ہیں وہ سب خلاف قرآن ہیں۔
 ان کی بتائی ہوئی تشریحات اسلام کی روح کے خلاف ہیں۔


 ان کی تشریحات کا پس منظر انسانوں کو ذہنی طور پر پسماندہ رکھنا ہے اور ارتقاء کے خلاف رجعت پرستانہ سوچ کی طرف لگام دے کر آگے بڑھنے سے ہٹائے رکھنا ہے۔


 ایک تو یہ مذہبی مفتیان صاحب اپنی بتائی ہوئی حدود وقیود کی دلیل اور ماخذ ان روایات اور علم حدیث کو بنائے ہوئے ہیں جو ایجاد اور تخلیق ہے شکست خورد شاہ کسریٰ کے اساورہ شاہی کے تنخواہ خوار دانشور وں کی،
 جو امامت کے نام سے اسلامی فتاویٰ کے مرکز وں پر برا جمان کرائے ہوئے ہیں ان پر میرے لگائے ہوئے اس الزام کا ثبوت یہ ہے کہ حنفی ، شافعی ، جعفری، حنبلی ، مالکی ، اور اہل  حدیث  و  اہل سنت سب کے فقہی مسلکوں میں متفقہ طور پر نابالغ بچوں بچیوں کا نکاح جائز کیا ہوا ہے۔

 جبکہ قرآن حکیم نے نکاح کیلئے نہ صرف بلوغت کی شرط لگائی ہے بلکہ بلوغت کے ساتھ ساتھ سماجیات کو سمجھنے کیلئے کھرے کھوٹے میں تمیز اور رشد و عرفان کی بھی شرط لگائی ہے۔


 
وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا ۚ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا  
 (4:6)
اور یتمیوں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔

جناب قارئین!
اوپر ذکر کئے ہوئے پانچ چھ فقہی و حدیثی مسلکوں نے اسلام کے نام پر آج تک غلامی کو جائز رکھا ہوا ہے۔ ان سب کے ہاں آج بھی انسانوں کو غلام رکھا جا سکتا ہے جبکہ قرآن حکیم نے غلامی کی مرکزی بنیاد یعنی جنگوں میں دشمنوں کو قید کرکے گرفتار کرکے ہمیشہ کیلئے انہیں غلام بنائے رکھنے پر رسول اللہ کے ہاتھوں ممانعت کا اعلان کیا ہے اور مستقل طور پر اس رسم بد اور انسانیت دشمن ریت کی بیخ کنی کی ہے  او ر اعلان  فرمایا  کہ :

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ  
 (8:67)
پیغمبر کو شایان نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہا دے۔ تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور خدا آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔ اور خدا غالب حکمت والا ہے ۔
یعنی یہ غلامی کی رسم اور اس کی بنیاد کہ لڑائیوں میں دشمنوں کو قید کیا جانا ،اب ہم اپنے خاتم الانبیا ء محمد علیہ السلام کے ہاتھوں اس پر بندش لگارہے ہیں ۔

فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ
 (47:4)
جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اُڑا دو۔ یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو (جو زندہ پکڑے جائیں ان کو) مضبوطی سے قید کرلو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہیئے یا کچھ مال لے کر یہاں تک کہ (فریق مقابل) لڑائی (کے) ہتھیار (ہاتھ سے) رکھ دے۔ (یہ حکم یاد رکھو) اور اگر خدا چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا۔ لیکن اس نے چاہا کہ تمہاری آزمائش ایک (کو) دوسرے سے (لڑوا کر) کرے۔  اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کے عملوں کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔

لیکن دینیات کے نام پر فقہوں اور روایات پر مبنی یہ قرآن
 دشمن علوم پورے عالم اسلام میں مکہ مدینہ سے جامع ازہر سے دارالعلوم دیوبند تک داخل نصاب ہیں ۔
لیکن قرآن کو قرآن کے حوالہ سے نہ مکہ مدینہ کے تعلیمی اداروں میں پڑھا پڑھایا جاتا ہے نہ ایران کے شہر قم میں نہ برصغیر میں پڑھایا جاتا ہے۔

ہمارے اس مضموں میں چہرہ کی زیب و زینت کے مختلف شیپ ،
ڈیزائن ،  انداز ،ماڈل اور نمونے آیا جائز ہیں یا نہیں، اس باب میں داڑ ھی کے بال کترنے اور مونڈنے کے اوپر بالخصوص بحث مقصود ہے کیونکہ موجودہ  دور میں داڑھی کے بال مونڈنے اور اپنی مرضی اور پسند کی حد تک کترنے اور کاٹنے اور کلین شیو کرنے کے اوپر مذہبی فتویٰ گھروں کی بندش لگی ہوئی ہے۔

 اہل حدیث فرقہ والوں کی داڑھیاں سب سے لمبی ہیں ۔
چہار امامی فرقوں والے چار انگلیوں کے برابر داڑھی بڑھانا ضروری قرا ر دیتے ہیں اور اہل شیعہ کے دوازدہ امامی لوگوں کے ہاں سنا گیا ہے کہ ناپ ہے تو چار انگل لیکن وہ چار انگل نچلے ہونٹ سے شمار کئے جاتے ہیں پھر وہ نیچے ایک یا ڈیڑھ انگل بنتی ہے ۔
جناب ابوالاعلیٰ مودودی صاحب جو شیعہ اور سنیوں کی مکس پلیٹ،
 معجون مرکب تھے ان کے ہاں داڑھی کی مقدار اتنی ہی کافی ہے کہ کوئی شخص مثال کے طور پر مکمل طور پر کلین شیو کرتا ہو ۔ ایسا آدمی اگر دو چار دن شیو نہ کرے پھر اتنے وقت میں جتنے بال نکل آئیں تو جناب مودودی صاحب کے ہاں اتنی مقداراور ناپ کو بھی داڑھی رکھنے والا شمار کیا جائے گا تسلیم کیا جا ئے گا ۔

جناب قارئین محترم !
 لباس ،
 جسم اور چہرہ کی وضع قطع یہ زیب و زینت سے تعلق رکھتی ہے۔
 قرآن والے اسلام پر چھ سو چھپن ہجری میں منگولوں کے حملہ کے بعد امامی علوم اور امامی دینیات کا غلبہ ہوا ہے۔ پھر اس میں بھی دو ڈیپارٹمنٹ ہیں یعنی
 مذہبی مافیا نے اسلام کو دو قسموں میں بانٹا ہوا ہے ایک ظاہری دوسرا باطنی ۔

ان لوگوں نے قرآن کے بھی دو قسم کے معنی مشہور کئے ہوئے ہیں ۔
وہ بھی ایک ظاہری دوسرے باطنی۔

 اب ظاہری علوم یہی ان کی فقہ و حدیث اور حدیثوں کے تابع تفسیر قرآن جو ان کے ظاہری مشہور اماموں کے ناموں سے مروج ہیں اور باطنی علوم کا ڈیپارٹمنٹ تصوف کے نام سے اسلام میں پیوند کیا ہوا ہے جس کے بھی کئی نام ہیں مثلاً قادری،
 چستی ،  سہروردی،  نقشبند ی،  اویسی ، علاوہ ازیں اور کئی سارے بھی ۔

جناب عالی !
مافیا نے جس طرح اپنے مانوی اور زرتشتی مذہب جو حضرت محمد ﷺ سے کئی صدیاں پہلے کا ہے ،
اسے اپنے ہنر سے ظاہری مروج علوم کی آڑمیں اسلامائیز کئے ہوئے ہیں اور جو تصوف نامی شعبہ ہے باطنی علوم کے نام کا،  وہ انہوں نے یونان سے عاریتہ لیا ہوا ہے۔  وہ بھی ظہور اسلام سے کئی صدیاں پہلے کا ہے۔ جو حکماء  یونان فیثا غورث ،افلاطون،ارسطو وغیرہ کی ایجاد تھا تو  چہرہ  اور جسم کی زیب و زینت کو بگاڑے رکھنے کے احکامات کی فلاسفی ان کے تصوف کے ادارہ کی ایجاد ہے۔  مطلب کہ تصوف کے اس زیب و زینت کے معاملوں میں جو دلائل ہیں وہ سکھوں کے دلائل سے کچھ ہی مختلف ہیں اور کچھ مشترک بھی۔ متصوفین کا اصل مقصد ہے زیب و زینت پر بندشیں لاگو کرکے نفس کو مارنا، نفس کو لگام دینا۔  پھر ظاہری علوم کے اماموں نے بھی ان باطنی علوم والوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسی حدیثیں اور فقہ بنا ئی ہوئی ہیں کہ ان کا بھی آمیزہ قرآنی فلاسفی کے رد میں شامل ہو۔

 جناب قارئین!
 تصوف کے گروہ کی جو نفس کشی کی مشقوں اور فضائل کی جو تعلیم مشہور اور رائج کی ہوئی ہے قرآن ان کا رد کرتا ہے۔ نفس کو مشقتوں سے ملیا میٹ کرنے کی اہل تصوف والوں کی تعلیم کوقرآن رد کرتے ہوئے فرماتا ہے۔

 
وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا  
 (91:10)
اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا۔
یعنی جس نے اپنے نفس کو مٹی میں دھنسا ہوا ہے جو رنگ ہے ،کلرہے صوف کے مثل اہل تصوف والوں کا دنبے کے بالوں کی طرح کا وہ خائب و خاسر ہو گیا وہ ویران اور نابود ہو گا۔

 اور ان کے مقابلہ میں کامیاب اورکامران ہوا وہ آدمی جو

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا  
 (91:9)
کہ جس نے (اپنے) نفس (یعنی روح) کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا۔
جس نے اپنے نفس کو پالا پوسا جس نے اپنے نفس کی پرورش کی اسے قتل نہیں کیا جس نے نفس کشی نہیں کی ۔

 جناب قارئین!
 کیا کروں میں اپنا گناہ آپ سے کیا چھپاؤں۔
 میں نے بھی قادری طریقہ کے ایک پیر سے بیعت کی تھی اور اس کا مرید بنا تھا اور میں اس وقت بھی دستار بند جاہل تھا ۔
 مطلب کہ میرے اس پیرو مرشد نے بیعت کے وقت جو تلقین فرمائی تھی وہ یہ کہ میں جملہ خلائق عالم سے خود کو کمتر اور ادنیٰ سمجھوں ۔
حتیٰ کے خنزیر اور سور سے بھی خود کو کمتر سمجھوں اور خنزیر کو اعلیٰ اور بر تر سمجھوں ۔

 جناب قارئین!
 اس تلقین میں تو
 آیت
 
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا  
 (17:70)
اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔
کی صریح مخالفت اور رد ہے ۔
انسان کی اشرف المخلوقات ڈگری کا تو خانہ خراب ہو گیا۔
 اب میں نے تو اپنے جاہل اور اندھے ہونے کا اقرار کر ہی لیا لیکن افسوس کہ وہ میرے والا پیر پاکستان بھر میں تفسیر قرآن کا بھی بڑا ماہر مفسر اور مشہور عالم تھا۔

 جناب عالی!
 یہ ہے تفسیر بالا حادیث کا کرشمہ کہ قرآن کو بھی تصوف والوں کی سوچ کا تابع کئے ہوئے ہے اور نفس کشی کی تعلیم خلاف قرآن ان پیری مریدی کی خانقاہوں میں دی جارہی ہے تو جاننا چاہیئے کہ جنت کی زندگی میں جو بھی معمولات اور کلچر ہو گا وہ نہایت مہذب اور نہایت پاکیزہ معاشرہ ہو گا۔

 تو جناب قارئین !
 امامی علوم والے اپنی من گھڑت حدیثوں اور فقہ میں داڑھی مونڈنے مونڈوانے کو بھی حرام بنائے ہوئے ہیں۔
 مصیبت یہ ہے کہ یہ لوگ مذہب پر اپنا موروثی قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔
 یہ لوگ قرآن حکیم سے مسائل حیات اخذ نہیں کرتے اور نہ ہی قرآن کے اصولوں سے فقہی استنباط کرتے ہیں ۔

مثال کے طور پر مشکوٰۃ والے نے ترمذی کی حدیث نقل کی ہے
 کہ :
فرق ما بیننا وبین المشرکین العمائم علی القلانس
 یعنی رسول نے فرمایا ہے کہ ہمارے اورمشرکوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ مشرک لوگ صرف پگڑی باندھتے ہیں سو ان کے مقابلے میں ہمیں چاہیے کہ پہلے ٹوپی پہنیں پھر اس کے اوپر پگڑی باندہیں ۔
140 - لباس کا بیان : (205)
ٹوپی پر عمامہ باندھنا مسلمانوں کی امتیازی علامت ہے۔
وعن ركانة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " فرق ما بيننا وبين المشركين العمائم على القلانس " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن غريب وإسناده ليس بالقائم
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 270 
 اور حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" ہمارے اور مشرکوں کے درمیان (ایک ) فرق یہ (بھی ) ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں ۔" ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد درست نہیں ۔

تشریح
 اس حدیث کو ابوداؤد نے بھی روایت کیا ہے لیکن انہوں نے سکوت کیا ہے یعنی انہوں نے یہ نہیں کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد درست نہیں، لہٰذا ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کی اسناد اصل کے اعتبار سے درست ہو یا دونوں (ترمذی، ابوداؤد،) کے نقل کرنے کی وجہ سے اس کو " درستی " حاصل ہو گئی ہو ۔
بہرحال حدیث کی عبارت کے دو معنی محتمل ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ:
" ہم (مسلمان) تو ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں جب کہ مشرک لوگ بغیر ٹوپیوں کے (یعنی ننگے سر پر ) عمامہ باندھتے ہیں ۔"
 اور دوسرے یہ کہ :
" ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں جب کہ مشرک لوگ عمامہ باندھتے ہی نہیں صرف ٹوپی پہنتے ہیں ۔"
 شارحین نے لکھا ہے کہ ان دونوں معنوں میں سے پہلے ہی معنی مراد ہیں کیونکہ اس زمانہ کے مشرکین کا عمامہ باندھنا تو تحقیق کے ساتھ معلوم ہے لیکن ان کا صرف ٹوپی پہننا ثابت نہیں ہے (اگرچہ ملا علی قاری نے خدری سے نقل کیا ہے کہ دوسرے معنی بھی مراد لئے جا سکتے ہیں نیز انہوں نے کہا ہے کہ بعض علماء کے قول کے مطابق سنت یہ ہے کہ ٹوپی اور عمامہ استعمال کیا جائے صرف ٹوپی پہننا مشرکین کی علامت ہے ۔" )

 تو جناب قارئین !
 آج کے زمانہ میں تو عرب لوگ پگڑی بھی نہیں باندھتے عورتوں کی طرح دوپٹہ قسم کا رومال باندھے ہوئے پھرتے ہیں ۔
 ان اماموں نے رسول اللہ کے نام پریہ جھوٹ بنا دیا کہ مشرکوں سے مقابلہ کیلئے تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ وہ صرف پگڑی پہنتے ہیں تم پگڑی کے اندر ٹوپی کا اضافہ کرو۔

تو کوئی عقلمند سمجھائے کہ رسول اللہ کی قانون سازی کی فلاسفی تو ان حدیث سازوں نے مثبت اور پازیٹو کی جگہ پر کسی سے ضد اور مخاصمت کی بنیاد پر قرار
 دے دی  یعنی رسول اللہ کے پاس اللہ کی طرف سے دین کا نصاب انسانی فلاح کی مثبت ہدایت پر مشتمل موجود ہی نہیں تھا، ملا ہی نہیں تھا۔
 
وہ صرف دنیا جہان والوں سے فرقہ بندی کی بنیاد پر اپنی ضد اور دشمنی پال رہے تھے ۔

مشکوٰۃ کی حدیث ہے کہ
:
عن ابوہریرہ ان النبی ﷺ قال ان الیہود والنصاریٰ لا یصبغون فخالفوھم متفق علیہ
 یعنی رسول نے فرمایا کہ یہود اور نصاریٰ رنگ نہیں لگاتے اس لئے تم ان کی مخالفت کرو۔
43 - انبیاء علیہم السلام کا بیان : (585)
بنی اسرائیل کے واقعات کا بیان
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله قال حدثني إبراهيم بن سعد عن صالح عن ابن شهاب قال قال أبو سلمة بن عبد الرحمن إن أبا هريرة رضي الله عنه قال إن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال إن اليهود والنصاری لا يصبغون فخالفوهم
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 690    حدیث مرفوع        مکررات 11 متفق علیہ 3 
 عبدالعزیز بن عبداللہ ابراہیم بن سعد صالح ابن شہاب ابوسلمۃ بن عبدالرحمن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہود و نصاری (اپنے بالوں میں مہندی وغیرہ کا) رنگ نہیں دیتے تم (رنگ دے کر) ان کی مخالفت کرو۔

Narrated Abu Huraira:
Allah's Apostle said, "The Jews and the Christians do not dye (their grey hair), so you shall do the opposite of what they do (i.e. dye your grey hair and beards)."

اب کوئی اس لاجک منطق پر غور فرمائے کہ اس مذہب میں داڑھی کو رنگ لگانے یا کپڑے رنگنے کا کیا تو فلسفہ اور پس منظر ہوا۔

 اور مشکوۃ میں اسی جگہ دوسری حدیث ہے کہ
:
وعن ابن عمر قال قال رسول ﷺ خالفوالمشرکین اوفروااللحی واحفو الشوارب وفی روایۃ انکھو الشوارب واعفو اللحی متفق علیہ
 یعنی رسول نے فرمایا ہے کہ مشرکوں کی مخالفت کرنے کیلئے داڑھی بڑھاؤ، مونچھیں گھٹاؤ۔
140 - لباس کا بیان : (205)
اپنے کو اہل شرک سے ممتاز رکھو
وعن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم خالفوا المشركين أوفروا اللحى وأحفوا الشوارب . وفي رواية أنهكوا الشوارب وأعفوا اللحى .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 350 
 اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اہل شرک کے خلاف کرو یعنی وہ چونکہ داڑھیاں پست کراتے ہیں اور مونچھیں بڑھاتے ہیں اس لئے ہم بایں طور ان سے اپنے آپ کو ممتاز رکھو کہ تم داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں ہلکی کراؤ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ تم مونچھیں نہایت ہلکی کراؤ اور داڑھیاں چھوڑ دو۔" (بخاری و مسلم )

اب پڑھنے والے بتائیں کہ ان روایت سازوں نے اسلام کی قانون ساز ی کا اور رسول اللہ کی ذہنی اپروچ کا کیا تو تعارف کرایا ہے ؟
یعنی اسلامی ہدایت ساری کی ساری یہود و نصاریٰ سے ضد پالنے پر مبنی ہیں۔

 
ان روایتوں میں اگلی ساری امتوں سے نفرت سکھائی گئی ہے، سب کو گمراہ قرار دے کر خود کو ان کے ہر مسئلہ میں خلاف لائنوں پر چلانا ہے اور اپنے سوا دنیا جہان سے مخالف لائنوں پر چلنا ہے اور اپنا مثبت پروگرام تو یہ لوگ جانتے بھی نہیں جو قرآن میں ہے ۔

اب آئیں قرآن کی فلاسفی پر غور کریں فرمان ہے کہ :
يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ  
 (4:26)
خدا چاہتا ہے کہ (اپنی آیتیں) تم سے کھول کھول کر بیان فرمائے اور تم کو اگلے لوگوں کے طریقے بتائے اور تم پر مہربانی کرے اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔
 یعنی اللہ کی چاہت یہ ہے کہ تمہیں یہ امور کھول کھول کر سمجھنے چاہییں کہ جو قومیں جو امتیں تم سے پہلے گزر چکی ہیں اور ان میں بھی جو اچھی خصلتیں تھیں تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ تم بھی انہیں اپناؤ۔ اس طرح سے اللہ تمہیں ہدایت کی لائنوں پر لانا چاہتا ہے اور اللہ بڑا ہی علم اور حکمت والا ہے۔

 جناب محترم قارئین!
 آپ نے غور فرمایا کہ قرآن دنیا کی ہر خوبی کو دنیا والوں کی ہر اچھی چیز کو اپنانے کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن کے اس نظریہ سے کہ دنیا والوں کی ہر اچھی خصلت تمہاری اپنی ہے اس کی کاپی کرو،اسے اپناؤ ۔اب قرآن کی تعلیم میں جس کشادہ ظرفی کی تعلیم دی گئی ہے اور ابھی آپ نے حدیثوں کی سوچ بھی پڑھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث ساز مافیا مسلم امت کو اپنے من گھڑت علمی حرفتوں سے دنیا جہان کے ساتھ نفرت کرنے اور لڑائے رکھنے کے درپے رہتے ہیں ۔
یہ ہے مروج علم حدیث اور قرآن کے درمیان نظریاتی فرق۔

 میں یہاں امت مسلمہ کے بہی خواہوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ قرآن انسانوں کو ترقی، اخوت اور بھائی چارہ کے راستوں پر چلا کر محبتوں کی معراج پر چلانا چاہتا ہے لیکن روم اور فارس کی شکست خوردہ تلچھٹ کویہ اچھی تعلیم بھی مسلم امت کے اثاثہ میں نہیں بھائی کہ یہ لوگ اس پارس قسم کی دولت سے دنیا جہان میں ممتاز اور منظور نظر ہو کر رہیں۔ اس لئے جب انہوں نے دیکھا کہ مسلم امت کی کتاب قرآن کا مقابلہ کرنا تو مشکل ہے اس لئے اور نہیں تو اب ان کو رسول کے نام سے ہی بہکاؤ کہ اس نے تمہیں یہ نصیحت کی ہے کہ مشرک خالی پگڑی پہنتے ہیں تم اس میں ٹوپی کا اضافہ کرو یہودو نصاریٰ داڑھی کو رنگ نہیں لگاتے تم ان کے مقابلہ کی نیت سے رنگ لگایا کرو۔

 جناب قارئین !
 یہ موازنہ آپ نے ابھی ملاحظہ فرمایا کہ مروج حدیثوں کی تعلیم میں کتنی تنگ نظری ہے اور قرآن کتنی کشادہ ظرفی کی تعلیم دیتا ہے ۔اب آئیے دیکھیں کہ یہ قرآن حکیم انسان کو شکل و شباہت کے لحاظ سے وضع قطع کے لحاظ سے کیا ہدایت دیتا ہے۔

 وہ اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ تو اعلان کردے کہ :
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
 (7:32)
پوچھو تو کہ جو زینت (وآرائش) اور کھانے (پینے) کی پاکیزہ چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں ان کو حرام کس نے کیا ہے؟ کہہ دو کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن خاص ان ہی کا حصہ ہوں گی۔ اسی طرح خدا اپنی آیتیں سمجھنے والوں کے لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے۔
 
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ
یعنی اعلان کردے کہ اے رسول کہ کون ہے وہ شخص ،کہاں ہے وہ شخص جس نے اللہ کی پیدا کردہ زیب و زینت اور سنگھار کو حرام بتلایا ہے۔

 جناب قارئین!
 اس آیت میں زیب و زینت کیلئے قرآن حکیم لفظ
اخرج
لایا ہے جس کی معنی یہ ہیں کہ ہر دور میں زیب و زینت کے فیشن کے جو نت نئے ماڈل رواج میں آئیں گے ،
 انہیں اپنانے کی اختیار کرنے کی ہر ایک کو اجازت ہے پرمٹ دی جاتی ہے ۔

اب ان حدیث سازوں کے جانشین فقہا ئے امت نے منہ اور سر کے بالوں پر بھی ڈنڈا اٹھایا ہوا ہے ۔اب کسی کا دین و ایمان داڑھی کے بالوں اور شلوارکے پائنچوں کے حساب سے ناپا جاتا ہے ۔ اگر کسی کی داڑھی لمبی ہے اور پائنچے پنڈلی پر ہوں گے تو اس کا ایمان پورا ہو گا اور اگر داڑھی کے بال چھوٹے ہوں گے یا بالکل ہی گم ہوں گے اور پائنچے نیچے ٹخنوں کو ڈھانپنے والے لمبے ہوں گے تو اس کا ایمان اور دین چھوٹا اور ناقص ہو گا ۔

کیا کریں ان کی روایت بازی سے قانون بنانے والوں کو قرآن کی یہ آیت کہ کس نے حرام بنایا زیب وزینت کو، کون بتائے کون سمجھائے اللہ کی اتنی کشادہ دلی والی پرمٹ کہ جس کو جس طرح بھی اپنی صورت اور شکل اچھی لگتی ہو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی وضع و قطع اس طرح کی بنائے ۔
اگر کسی کو سر کے بال داڑھی کے بال ایک کو بڑھائے رکھنے میں اوردوسرے کو اپنی مرضی کی ناپ یا داڑھی کو بالکل ہی مونڈنے میں
حلق  کر نے  میں اپنی خوبصورتی محسوس ہوتی ہے تو وہ اس کا اپنا مسئلہ ہے ۔
جس کا اختیار اسے قرآن نے دیا ہے۔ کسی کو اس میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہے۔
 داڑھی مونچھیں دونوں مونڈے یا ایک رکھے ایک نہ رکھے اور جو رکھے اس کا جو بھی سائز ہوجو اسے اچھی لگتی ہو اسے کوئی منع نہیں ،روک ٹوک نہیں ہے ۔

بعض لوگ اعراف سورۃ کی اس آیت کے عموم کو تسلیم نہیں کرتے ۔

اس آیت سے داڑھی کیلئے صرف خضاب کے ذریعے سفیدی چھپا کر کالا بنانے اور کنگھی دینا تو مراد لیتے ہیں کترنے اور مونڈنے باقاعدہ شیو کرنے کو
 
حلق
 کرنے کو جائز نہیں مانتے ۔

اب ان مفتیان عظام سے کیا عرض کریں جو قرآن کے احکام عمومی کو تنگ بنا کر اپنی روایات کی من مانی چلانے پر مصر ہیں مصیبت یہ ہے کہ یہ لوگ روایتوں پر امت کو چلانے کے ساتھ
منکرین قرآن بھی ہیں جو بائی لاز اور فقہی جزئیات کے استخراج اور استنباط کیلئے قرآن کو تو اصل نہیں مانتے لیکن قرآن کے صریح احکامات کے بھی منکر ہیں ۔

ان دشمنان قرآن کی داڑھی کا شیوکرنے،  سر اورداڑھی اور مونچھوں کو
 
حلق
کرنے یا کترنے کا جو اختیار اور پر مٹ مکمل وضاحت کے ساتھ قرآن نے دیاہواہے اس پر بھی ان کی نظر نہیں پڑتی ۔

ملاحظہ ہو سورۃ فتح کی آیت نمبر27میں فرمان ہے کہ :
لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا
 (48:27)
بےشک خدا نے اپنے پیغمبر کو سچا (اور) صحیح خواب دکھایا۔ کہ تم خدا نے چاہا تو مسجد حرام میں اپنے سروں کو
 منڈوا تے ہوئے )  استرے سے ( اور بالوں کو ) قینچی سے ( کتروا تے ہوئے  امن وامان سے داخل ہوگے۔
بےشک خدا نے اپنے پیغمبر کو سچا (اور) صحیح خواب دکھایا۔ کہ تم خدا نے چاہا تو مسجد حرام میں اپنے سر منڈوا کر اور اپنے بال کتروا کر امن وامان سے داخل ہوگے۔
 اور کسی طرح کا خوف نہ کرو گے۔ جو بات تم نہیں جانتے تھے اس کو معلوم تھی سو اس نے اس سے پہلے ہی جلد فتح کرادی۔
 یعنی اللہ نے اپنے رسول کے خواب کو اپنے رسول کی دور اندیشی والی تدبیر کو سچا کرکے دکھایا ہے کہ تم ضرور اپنے مرکز بیت اللہ میں فتحیاب ہو کر داخل ہو گے او وہ بھی اس حال میں کہ بڑے سکون اور بے خوفی کے انداز سے جو تم نے باقاعدہ شیو کیا ہوا ہو گا۔ اور وہ شیو بھی ہر ایک کا اپنی اپنی پسند اور مرضی کے مطابق۔

حلق
کرنے کے ساتھ مونڈنے والوں کا شیو اور کترنے کے طریق پر شیو کرنے والوں کا اپنے پسند کے طریق پر۔

جناب قارئین!
 جو لوگ قرآن حکیم کی تفسیر اماموں کی روایتوں اور من گھڑت حدیثوں کے تابع کرتے ہیں ۔انہوں نے اس آیت کی یہ تفسیر گھڑی ہے کہ احکام حج پورے کرنے کے بعدصرف سر منڈوانافرض ہے۔

ولاتحلقوا رؤوسكم: [2:196] محلقين رؤوسكم [48:27]

فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ
 (56:83)
بھلا جب روح گلے میں آ پہنچتی ہے۔
 پھر کیوں نہیں (روح کو واپس لوٹا لیتے) جب وہ (پرواز کرنے کے لئے) حلق تک آپہنچتی ہے۔

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
 (2:196)
اور خدا (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو۔ اور اگر (راستےمیں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈالے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔ اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل وعیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔

جناب قارئین!
 عام مفسرین اس آیت سے
 
حلق
 اور
 
قصر
کے معنی مونڈنے کترنے کا اطلاق صرف سر کے اوپر کے حصہ کے بالوں پر منطبق کرتے ہیں اور یہی معنی غلط اور خیانت والے ہیں۔
 یہی معنی تلبیس والے معنی ہیں۔

یہ لوگوں کو دھوکہ دینے والی معنی ہیں۔

عربی لغت میں عربی زبان میں گردن سے اوپر کے سارے حصہ کو
 
رأس
کہا جاتا ہے ۔

منہ ہونٹ ناک کان ٹھوڑی آنکھیں یہ ساری چیزیں
رأس  کا حصہ ہیں ۔ رأس میں سے شمار ہوتی ہیں۔

سرہلانا سے مراد صرف ٹنڈہلانا نہیں ہے۔

طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ
 (37:65)
اُس کے خوشے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر۔

هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ
 (22:19)
یہ دو (فریق) ایک دوسرے کے دشمن اپنے پروردگار (کے بارے) میں جھگڑتے ہیں۔ تو کافر ہیں ان کے لئے آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے (اور) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔

وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ
 (32:12)
اور تم (تعجب کرو) جب دیکھو کہ گنہگار اپنے پروردگار کے سامنے سرجھکائے ہوں گے (اور کہیں گے کہ) اے ہمارے پروردگار ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہم کو (دنیا میں) واپس بھیج دے کہ نیک عمل کریں بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں۔

أَوْ خَلْقًا مِمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ ۚ فَسَيَقُولُونَ مَنْ يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ ۖ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا
 (17:51)
یا کوئی اور چیز جو تمہارے نزدیک (پتھر اور لوہے سے بھی) بڑی (سخت) ہو (جھٹ کہیں گے) کہ (بھلا) ہمیں دوبارہ کون جِلائے گا؟ کہہ دو کہ وہی جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا۔ تو (تعجب سے) تمہارے آگے سرہلائیں گے اور پوچھیں گے کہ ایسا کب ہوگا؟ کہہ دو کہ امید ہے جلد ہوگا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
 (5:6)
مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تم منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
 (4:43)
مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کرکے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں پر مسح (کرکے تیمم) کرلو بےشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

تو قرآن حکیم میں
 رأس  کے حلق   اور قصر یعنی باقاعدہ استرہ سے مونڈنے یا قینچی سے کترنے کا اختیار اور پسند  رأس کے اوپر والے حصے اور نیچے والے حصہ دونوں کیلئے یکساں مراد ہوگا تو
 مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ
میں لوگوں کی پسند کی وسعت داڑھی اور سر کے اوپر کے بالوں اور داڑھی موچھ دونوں میں
حلق  مونڈنے اور قصر یعنی کترنے کا ہر ایک آدمی کو اس کی پسند کے مطابق اختیار ہے۔
جو بھی شخص اپنی زیب و زینت جس طرح بھی قرار دے۔

اب یہاں میں داڑھی منڈوانے یا مونڈنے کے جواز کی بحث سے تھوڑا سا خارج از بحث یا خارج از موضوع مسئلہ کا اضافہ مناسب سمجھتے ہوئے لکھ رہا ہوں۔
 
سوال یہ ہے کہ اللہ نے قرآن میں حج کی بحث میں حلق اور قصر کا مسئلہ کیوں لایا ہے۔
 سو اس بات کو سمجھنے کیلئے خود حج کو سمجھنا پہلے ضروری ہے کہ وہ کیا ہے اور کیونکر ہے اور ساتھ ساتھ عام انسانی سوچ اور ایک ریت کہ وہ صدمہ اور حادثہ کے پہنچنے پر کیا کرتے ہیں۔

 تو میں نے جو اوپر عرض کیا ہے کہ ایک عام سی انسانی طبعی ریت ہے کہ جب کسی کو کوئی ذاتی صدمہ پہنچتا ہے یا بڑے لیول پر کسی قوم کا کسی دوسری قوم اور قبیلہ سے مقابلہ ہو جاتا ہے انہیں اس میں بڑا جانی نقصان ہو جاتا ہے ان کے عزیز ان کے پیارے ان کے قابل فخر لوگ قتل ہوجاتے ہیں تو ایسے موقعوں پر کئی لوگ جذبہ انتقام میں عہد کر بیٹھتے ہیں کہ جب تک میں یا ہم دشمنوں سے اتنا اتنا بدلہ نہیں لیں گے تو اتنے تک اپنی شیو نہیں کریں گے اتنے تک اپنی زیب و زینت نہیں کریں گے، اتنے تک بالوں کو کنگھی بھی نہیں کریں گے تو یہ ایک رواج تھا بلکہ آج بھی ایسا رواج پایا جاتا ہے جو تلاش کرنے سے مل جائے گا۔

 میں اپنے مشاہدے کی بات کروں کہ بعض لوگوں کے قتل ہوجانے پر کئی لوگ مقتول کے باپ یا بیٹے یا بھائی اس دور میں بھی میں نے دیکھے ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کے قتل پر صدمہ میں آکر شیو کرنا مکمل یا جزوی طور پر چھوڑا ہوا ہوتا ہے تو حج کے اجتماع میں چونکہ ماضی کے جھگڑوں کے قصاص اور بدلہ کے فیصلے ہوتے ہیں دشمنیاں دو ستیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
 تو ان فیصلوں کو دل سے ماننے اور تسلیم کرنے کیلئے قرآن نے فرمایا ہے کہ فیصلے تو ہوچکے اب وہ پرانے بدلوں اور انتقام کیلئے کی ہوئی شیو نہ کرنے کی باتیں علامتیں ختم کرو اور مسجد حرام جو عدالت عالیہ ہے سپریم کورٹ ہے تمہارے انقلاب کا مرکز ہے اس میں داخل ہونے سے پہلے باقاعدہ اب زیب و زینت کے ساتھ شیو کرکے ہی داخل ہوں۔

جناب قارئین !
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ  
 (2:196)
اور خدا (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو۔ اور اگر (راستےمیں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈالے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔ اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل وعیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے ۔

 آپ نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر196کو بھی غور سے پڑھا ہو گا کہ اس میں جب اجتماع حج کیلئے فیصلہ اور عدل و انصاف لینے کیلئے آنے والے وفد کو دوران سفر اجتماع
حج میں شرکت سے کوئی روک دیتا ہے تو قرآن دشمنوں کی اس طرح کی جسارت کو اتنا سنگین قرار دیتا ہے کہ وفد کے ممبروں کو حکم دیتا ہے کہ دوران بندش اور گھیراؤ کے اپنے ساتھ کے جانوروں میں سے جو  حج کے دن کیلئے میزبانوں کے ہدیہ کے طور پر ساتھ ہوتے ہیں ان میں سے جو بھی مناسب سمجھو وہ اندر حصار تم کھا سکتے ہو لیکن یہ یاد رہے کہ ابھی بندش کے عرصہ میں
وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ
اپنی شیو نہ بنانا جن لوگوں نے تمہیں
حج کے اجتماع میں شریک ہونے میں رکاوٹ ڈالی ہے پہلے ان سے اس شرارت کا حساب چکایا جائے جس طرح کہ تمہاری ریت ہے اس لئے شیو بعدمیں ہوگی پہلے رکاوٹ ڈالنے والوں سے حساب لیا جائے۔

 جناب قارئین!
 اس روایت ساز اور فقہ ساز گروہ نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ احکامات قرآن کو ایسے انداز میں تفسیر کیا جائے کہ نہایت غیر عقلی ہو اور احکامات کو معقولیت کی بجائے صرف رسومات کا پلندہ بنایا جائے۔
 اب اس حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے فلسفہ پر کتب احادیث میں باب لباس کے اندر
 دیکھنے پر کئی حدیثیں آپ کو ملیں گی  کہ جن میں یہ لوگ رسول کے نام پر بتاتے ہیں کہ میری امت کے مردوں پر دنیا میں ریشم کا کپڑا پہننا حرام کیا گیا ہے اور سونے کے زیور بھی مردوں پر حرام کئے گئے ہیں ۔ غور کیا جائے کہ یہ چیزیں جنت کی زندگی میں مردوں عورتوں کو استعمال کرنا جائز ہے لیکن انہوں دنیا میں مردوں پر زیب و زینت کی وجہ سے ریشم اور سونا حدیثوں کے ذریعے حرام کیا ہوا ہے۔

 جناب قارئین !
 یہ حدیثیں فرمان رسول نہیں ہو سکتیں کیونکہ رسول تو دین کے معاملات میں وحی کے بغیر بات نہیں کرتے تھے ۔ وحی تو صرف قرآن میں ہے اور قرآن میں تو اس طرح کی بندش کا ذکر نہیں ہے ۔

اگر یہ لوگ کہیں کہ حدیث کا علم وحی خفی اور غیر متلو ہے اس لئے قرآن میں ہو نہ ہو حدیث میں ایسے احکامات کا ہونا ہی کافی ہے تو بھی جناب عالی ! یہ ان کا جھوٹ ہے ۔

کیوں کہ وہ وحی خفی اور غیر متلو ان کے بقول لازمی طور پر اللہ کی طرف سے ہے تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ اللہ علم غیب نہیں جانتا جو اس نے رسول کے زمانے میں سونے اور ریشم کو تو زیب و زینت کا نشان اوررواج دیکھ کر انہیں تو مردوں کے لئے حرام کردیا لیکن اللہ کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ بیسویں اور اکیسویں صدی عیسوی میں زیب و زینت کے پیمانے بدل جائیں گے ۔

ریشم کی جگہ کاٹن کے کپڑے باعث فخر اور زیب و زینت بنیں گے اورسونے کی جگہ ہیرے اور موتی زیب و  زینت اور فخر کے نشان بنیں گے ۔
مجھے کراچی میں کسی سرمایہ دار کا بنگلہ کسی دوست نے دکھایا جس کے باتھ روم کی پانی کی ٹوٹیاں اور دروازوں کے کنڈے سونے کے تھے تو میں نے اس سے پوچھا اب سونے کی عزت اور اہمیت تو نہیں رہی۔

 اس نے کہا کہ ہاں اب ان کی عورتیں سونے کی جگہ ہیرے اور جواہرات کے زیورپہنتی ہیں اور مرد بھی ہیرے اور جواہرات اپنے گلے کی مالا میں فٹ کراکر پہنتے ہیں۔
 علاوہ ازیں میں نے خود ایک شادی کی تقریب میں ایک مرد کو گلے میں ہیروں اور موتیوں کی مالا پہنے ہوئے دیکھا ۔

عجب ہے کہ وحی خفی اور غیر متلو کا علم ان کو حرام بنانے سے بے خبر رہ گیا۔

 ہو سکتا ہے کہ پھر فقہی اماموں نے اس پر کوئی فقہ بنایا ہو ۔
کیا کریں کہ قرآن دشمنوں کی آنکھوں میں پانی کا کوئی قطرہ ہی نظر نہیں آتا۔

 ان لوگوں نے جناب رسول علیہ السلام کو فتح مکہ کے وقت اپنی حدیثوں کے ذریعے ایک دعا تعویذ اور دم کرنے والا شو شو کرکے پھونکیں دے کر ایک خانقاہی پیر کی طرح دکھایا ہے جبکہ فتح مکہ کا موقع تھا رسول اللہ ایک فاتح کمانڈر کی حیثیت سے اس وقت حکمران حجاز بھی تھے تو یہ امام مافیا اس وقت کیلئے حدیث بنا کر دنیا والوں کو رسول اللہ کو ایک پیر کی طرح دکھاتے ہیں ۔

یہ حدیث مشکوٰۃ والے نے ابو داؤ سے نقل کرتے ہوئے لکھی ہے جو باب الترجل کے فصل الثالث میں لایا ہے ترجل کامعنی ہے بالوں کوکنگھی دینا حدیث ہے کہ
:
 
لما فتح رسول اللہ المکہ جعل اہل مکہ یاتونہ بصبیانھم فیدعولھم بالبرکۃ ویسمح رؤسھم
یعنی فتح مکہ کے دن اہل مکہ رسول کے پاس اپنے بچے لارہے تھے اور رسول ان کو برکت کی دعائیں دے کر ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے جارہے تھے۔

140 - لباس کا بیان : (205)
مرد کے لئے رنگدار خوشبو کا استعمال ممنوع ہے۔
وعن الوليد بن عقبة قال لما فتح رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة جعل أهل مكة يأتونه بصبيانهم فيدعو لهم بالبركة ويمسح رؤوسهم فجيء بي إليه وأنا مخلق فلم يمسني من أجل الخلوق . رواه أبو داود .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 409 
 اور حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح حاصل ہوئی ( اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شہر میں رونق افروز ہوئے ') تو مکہ والوں نے اپنے بچوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لانا شروع کیا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان بچوں کے لئے برکت کی دعا کرتے اور (پیار و شفقت سے ) ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے اس موقع پر مجھے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا لیکن چونکہ میرے بدن پر (زعفران وغیرہ کی بنی ہوئی خوشبو) خلوق لگی ہوئی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو خلوق آلودہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ نہیں لگایا۔" (ابوداؤد )

تشریح
 خلوق چونکہ عورتوں کی مخصوص خوشبو ہے اس لئے اگر کوئی مرد اس خوشبو کو لگائے تو عورتوں کی مشابہت لازم آتی ہے لہٰذا مرد کے لئے خلوق کا استعمال ممنوع ہے ۔

 دیکھا جناب قارئین!
 ایک فاتح کمانڈر کا تعارف امامی روایت کے حوالہ سے کس طرح کرائے جارہے ہیں۔
جب کہ آج کے دور میں پاکستان کا صدر جنرل مشرف جو خود کو آل رسول بھی ڈکلیئر کرتا ہے اس کے پاس تو لوگ اپنے بچوں کو دم کرانے کیلئے نہیں لے جاتے۔
 تو اس ماجرا سے سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ اہل حدیث اہل فقہ اور اہل تصوف رسول کو بجائے ایک انقلابی حکمران کے ایک درگاہی پیر کے طور پر دنیا والوں کے پاس متعارف کرانا چاہتے ہیں اور ان کی سردار شاہی اور جاگیر داریت اور سرمایہ داریت کش انقلابی حیثیت اور تعارف کو چھپانا چاہتے ہیں ۔

از قلم : عزیزاللہ بوھیو

No comments:

Post a Comment