Saturday, September 1, 2012

صحیح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ اور جواب در جواب


صحیح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ اور جواب در جواب

جواب در جواب:

اللہ پاک نے سارے قرآن میں عربی زبان کے لفظ "نیت" کو کسی ایک بھی موقعہ پر کہاں استعمال کیا ہے ؟؟؟
آپ کی مذکورہ آیات میں بھی نہیں کیا !!!

کیا آپ کو خواہش اور نیت کا فرق معلوم نہیں ؟؟؟


عادل سہیل نے کہا !!!

اسی بلاگ پر پوسٹ کی گئی تحریر 


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، 

احادیث شریفہ پر اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات دیکھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان ان لوگوں کی حالت زار کی عین ترجمانی کرتا ہے کہ :

:::وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا:::
 اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا اُس کی طرف آؤ اور رسول کی طرف آؤ تو (اے رسول)آپ دیکھتے ہیں کہ وہ منافق آپ کی طرف آنے سےکتراتے ہیں ۔
سُورت النِساء (4) / آیت 61

میری ان لوگوں سے گذارش ہے اور کوئی پہلی دفعہ نہیں کہ کچھ تو علمی دیانت داری سیکھ لیجیے ،کسی بات کو آگے پہنچانے سے پہلے اس کی صداقت کی کچھ تو چھان بین کر لیا کیجیے ۔

آج کل ایک صاحب کسی عزیز اللہ بوہیو نامی شخص کی لکھی ہوئی کچھ غلط ملط باتیں ادھر ادھر نشر کر تے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، اور وہ صاحب اپنی یہ کاروائیاں مجھے بھی گوگل پلس کے ذریعے ارسال کر رہے ہیں ، ان کاروائیوں میں سے ایک مضمون بعنوان """خلاف قرآن حدیث إنما الأعمال بالنيات کی فنی تحلیل"""ہے ۔

جبکہ اس مضمون میں سوائے خیانت پر مبنی جھوٹ الزام دھرنے کے فن کے علاوہ اور کوئی فن نظر نہیں آیا ، اور نہ ہی کسی """خلافء قران الزام تراشی ""' کے علاوہ کوئی اور تحلیل دکھائی دیتی ہے۔
جی ہاں ، ایسا ہی ہے ، اِن شاء اللہ ابھی آپ سب کو بھی یہ سب کچھ دکھائی دے گا۔

یہاں میں اس بات کی وضاحت بھی کرناضروری سمجھتا ہوں کہ میرے اس مضمون میں میری گفتگو کا انداز میرے عام معمول کے انداز کے مطابق نہیں ہو گا ، لہذا میں بوہیو اور اس کے مضامین نشر کرنے والے کا ذِکر اور ان سے بات اسی انداز میں کروں گا جس انداز میں وہ امت کے ائمہ کرام رحمہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں ۔

صحح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات پر مشتمل یہ مضمون بھی اُسی عزیز اللہ بوہیو نامی شخص کا لکھا ہوا ہے اور جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ جہالت یا رسول دشمنی کے علاوہ کسی اور سبب سے نہیں ہو سکتا ۔

اس مضمون کے لیے کسی لمبے چوڑے جواب کی ضرورت نہیں ، کیونکہ حسب عادت اس شخص نے ایک صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کو محض اپنی سوچ کے مطابق غلط بنانے کی کوشش کی ہے ، اور بد دیانتی کا سہارا لیتے ہوئے یہ کوشش کی ہے ۔ 

جی ہاں ، بد دیانتی کا سہارا  لیا ہے کہ ، حدیث شریف کی صرف ایک روایت کے الفاظ لے کر اپنی کہانیاں لکھ ڈالیں جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے تین مقامات پر جھوٹ بولنے والی خبر پر مشتمل حدیث کے ساتھ کیا ۔

اس مضمون میں لکھی گئی باتوں کو """ فنی تحلیل """ کہنے والے کو بھی اتنی سی توفیق نہیں ہوئی کہ کم از کم اس حدیث شریف کے بارے میں اپنے استاد کے لکھے ہوئے کے علاوہ کچھ تو معلوم کرتا ۔ 

نشر کرنے والے کے استاد نے اس حدیث شریف کی دوسری صحیح روایت یا تو دیکھی ہی نہیں یا اپنا مذموم مقصد پورا کرنے کی کوشش میں اس کا ذِکر نہیں کیا۔

اعتراض کرنے والے نے اپنی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحیح بخاری شریف میں سے صِرف وہ روایت ذِکر کی ہے جو سب سے پہلی روایت ہے۔

آیے میں آپ کو اس حدیث مبارک کی دوسری روایت دِکھاتا ہوں اور کسی دوسری کتاب میں سے نہیں ، اسی صحیح بخاری شریف میں سے دکھاتا ہوں، اور انہی علقمہ بن وقاص کی امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ سے ہی کی گئی روایت دکھاتا ہوں۔

::: الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ،وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى،فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ،فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ،وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا،أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا،فَهِجْرَتُ هُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ::: 
 عملوں)کے نتیجے ) کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کے لیے وہی (نتیجہ ) ہے جس کی اس نے نیت کی ، لہذا جِس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے ، تو اُس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہی ہے ،اور جس کی ہجرت دُنیا کمانے کے لیے ہے ، یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہے ، تو اُس کی ہجرت اسی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔
صحیح البخاری/حدیث54/کتاب الاِیمان/باب41،صحیح البخاری/حدیث2529/کتاب العتق/باب6،صحیح البخاری/حدیث3898/کتاب مناقب الانصار/باب45، صحیح البخاری/حدیث5070/کتاب النکاح/ باب5،صحیح البخاری/حدیث2289/کتاب الایمان و النذور/ باب23،صحیح البخاری/ حدیث6953/ کتاب الاِیمان/پہلا باب

اگر اعتراض نشر کرنے والا اپنی حدیث دشمنی کا چشمہ اتار کر صرف اُسی روایت کو معمولی سی توجہ سے پڑھے ، جو اعتراض کرنے والے نے نقل کی ہے تو بھی اسے سمجھ آ جانا چاہیے کہ
 
اس حدیث شریف میں وہ  کچھ نہیں ہے جو کسی کافر پوپ کی طرف سے اسلام پر لگائے گئے الزامات کی تائید مہیا کرنے کے لیے اُس کے استاد کی سمجھ میں آیا ، اور جسے اُس کے استادنے بظاہر اسلام کے دفاع کے طور پر ایک صحیح حدیث شریف پر اعتراض کرنے کا بہانہ بنایا لیکن درحقیت اُس کے استاد عزیز اللہ بوہیو  کا یہ فعل کیا اسلام کا دفاع ہے ؟ یا  کافر  پوپ کے الزام کا دفاع؟  یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے مسلمانوں کو دُور کرنے کی کوشش ؟ اس کا فیصلہ ہر وہ شخص کر سکتا ہے جسے اللہ پاک نے درست عقل عطاء کر رکھی ہے۔

 محترم قارئین کرام ،
 اگر آپ اس حدیث شریف پر بالکل معمولی سا ہی غور کیجیے تو آپ کو یہ سمجھ آنا چاہیے کہ اس حدیث پاک میں یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی نیک عمل اُس وقت تک نیکی نہیں بنتا جب تک کہ وہ عمل اللہ کے لیے خالص نہ ہو ، جب تک کہ وہ عمل کرنے کی نیت صِرف اللہ کی رضا کا حصول نہ ہو ۔
اس بات کو بالکل واضح الفاظ میں دوسری روایت میں نقل کیا گیا ہے ، وہ روایت جو بوہیو نے ذکر نہیں کی ۔
کیوں ذکر نہیں کی ؟

 جناب ناشر صاحب غور فرمایے ،  کیا اسے اس روایت کا پتہ نہیں تھا ، بس اپنی جہالت کی رَو میں بہتے بہتے اعتراضات داغ دیے ، یا خیانت کا تقاضا یہی تھا کہ صرف ایسی روایت کو ہی سامنے لایا جائے جس کے الفاظ کو کسی طور رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کی نفی کے لیے استعمال کیا جا سکے ،   یا  کافر پوپ کے الزامات کی تائید کے لیے یہ ضروری تھا کہ صرف ایسی روایت کو ہی سامنے لایا جائے جس کے الفاظ کو کسی طور اس پوپ کے عائد کردہ الزام کے مدد گار دکھا جا سکے ۔

غور کیجیے جناب ، حدیث شریف میں ایک بہترین نیک عمل کی مثال دی گئی ہے ، اور وہ نیک عمل ہے ہجرت کرنا ، 
اور بڑی وضاحت سے سمجھایا گیا ہے کہ یہ نیک عمل جس نیت سے ہوگا اسی کے مطابق اس کا اجر ہو گا ، 
یعنی ،
 اگر تو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت انہی کی طرف ہو گی اور اجر و ثواب والی ہوگی ، 
اور اگر  دنیا  کمانے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اس میں اس کے لیے کوئی اجر نہ ہوگا ، 
کیونکہ اس نے وہ ہجرت اللہ کی رضا کی نیت سے نہیں کی ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے لیے نہیں کی ،
 
لہذا اسے ایسی ہجرت پر کوئی اجر نہ ملے گا۔

ایسا ہر گز نہیں کہ ہجرت کو یا ہجرت کرنے والوں کو کچھ برا کہا گیا ہو ، 
اور نہ ہی ایسا ہے کہ کوئی برا عمل ، کوئی گناہ اگر کسی نیک نیتی سے کیا جائے تو وہ نیکی نیتی کی بنا پر نیکی بن جائے گا ، اگر اس حدیث شریف یہ وہ کچھ مراد لیا جاتا جو بوہیو نے سمجھانے کی کوشش کی ہے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ مبارک سے ہی گناہ گاروں اور مجرموں کو کوئی سزا نہ دی جاتی کہ ہر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے کام تو گناہ والا کیا تھا لیکن نیت اچھی تھی ، 
الحمد للہ کہ آپ کے استاد کی سمجھ داری اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس وقت کسی میں ظاہر نہ کی ،
اور نہ ہی اب تک اسلام کے علماء اور قاضیوں میں سے کسی میں ظاہر ہوئی ہے ، لہذا اسلامی تاریخ میں کہیں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ کسی قاضی نے کسی مجرم کو ، نیک نیتی کی بنا جرم کرنے کی وجہ سے سزا معاف کردی ہو ،
ایسا احمقانہ اندیشہ بھی بس حدیث شریف کو کسی بھی طور غلط دکھانے کے ناکام کوششوں کے نتائج میں سے ایک ہے۔

اعتراض کرنے والوں کو یہ بھی چاہیے کہ انصاف اور حقیقت پسندی کے ساتھ معاملات کو جانچنے کا حوصلہ پیدا کریں ،
اور اب قارئین کرام ،
چلیے اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی کتاب مبارک کی طرف جِس کی آڑ میں بوہیو نامی شخص نے ایک صحیح ثابت شدہ اور عین """مطابقء قران """حدیث شریف پر تبراء کیا ، اور ایک کافر پوپ کے الزام کی تائید مہیا کرنے کے لیے کیا ، جس کا اظہار اور اقرار اس شخص کے مضمون کے آغاز و اختتام میں مذکور ہے ۔ 

مندرجہ ذیل قرآنی آیات بھی اس حدیث کے موضوع کو ہی بیان کرتی ہیں: 

میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ببا نگ دہل کہتا ہوں کہ یہ حدیث شریف اور اس میں بیان کردہ قانون اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کے عین مطابق ہے ، کیونکہ یہ قانون اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے قران کریم میں بھی بیان فرمایا ہے ۔

 اللہ ہی جانے مضمون لکھنے، اور نشر کرنے والوں کو اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے یہ فرامین مُبارکہ نظر نہیں آئے ، یا اُن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دشمنی کے چاؤ میں ان فرامین مُبارکہ کو قصداً نظر انداز کیا ہے کہ:
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا ۗ وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ
 (3:145)
اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مر جائے (اس نے موت کا) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے اور جو شخص دنیا میں (اپنے اعمال کا) بدلہ چاہے اس کو ہم یہیں بدلہ دے دیں گے اور جو آخرت میں طالبِ ثواب ہو اس کو وہاں اجر عطا کریں گے اور ہم شکر گزاروں کو عنقریب (بہت اچھا) صلہ دیں گے۔
:::وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا:::
اور جو کوئی دُنیا کے ثواب کا اِرادہ کرے گا اُسے دُنیا کے ثواب میں سے ہی دِیا جائے گا ، اور جو کوئی آخرت کے ثواب کا اِرادہ کرے گا اُسے آخرت کے ثواب میں سے ہی دیا جائے گا۔
سُورت آل عمران (3)/آیت 145

مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ
 (42:20)
جو شخص آخرت کی کھیتی کا خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دیں گے۔ اور جو دنیا کی کھیتی کا خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے۔ اور اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہوگا۔
:::مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ::: 
جو کوئی آخرت کی کھیتی میں سے (حاصل کرنے کا) اِرادہ کرے گااُسے ہم اُس کی کھیتی میں بڑھاوا دیں گے ، اور جو کوئی دُنیا کی کھیتی میں سے (حاصل کرنے کا) اِرادہ کرے گااُسے اُسی کھیتی میں سے دیں گے ، اور اس کے لیے آخرت(کی خیر اور فلاح )میں کوئی حصہ نہ ہو گا۔
 سُورت الشُوریٰ (42)/آیت20

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بیان فرمودہ اس قانون کی گواہ ہیں کہ:
 :::الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ:::
عملوں (کے نتیجے )کا دارومدار نیتوں پر ہے۔

الحمد للہ ، ثابت ہوا ، اور قران حکیم کی آیات کریمہ کے ذریعے ثابت ہوا کہ یہ حدیث شریف قران کریم کے عین مطابق ہے ، خلاف نہیں ،
جی ہاں """ خلاف قران ، قران فہمی """ اور """ دشمنی ء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم""" اور """ تائید """ اور """ اسلام پر لگائے جانے الزامات کی تقویت کے امکانات""" کے مطابق نہیں ہے ۔
ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ، 

مضمون لکھنے والے شخص عزیز اللہ بوہیو نے اپنے اس اعتراض نامے کے آخر میں ایک اور بد دیانتی کا مظاہرہ کیا ہے کہ ، صحیح بخاری کی کتاب الحیل کے حوالے سے جو عبارت بطور حدیث نقل کی ہے وہ حدیث تو کیا کسی صحابی ، یا تابعی کا قول بھی نہیں ، لیکن مضمون لکھنے والا اسے حدیث کہہ کر دھوکہ دینے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔

جبکہ امام بخاری رحمہُ اللہ نے حدیث شریف ذکر کرنے کے بعد ، بڑے ہی صاف واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ:
 """ و قال بعض الناس::: اور کچھ لوگوں نے کہا"""،
یعنی یہ بات جو اب کہی جا رہی ہے وہ کچھ لوگوں کی بات ہے حدیث شریف نہیں ،
اور وہ کچھ لوگ کون ہیں ؟ 

اس کی تفصیل میں ، اسی حدیث شریف کی شرح میں ، حنفی علماء میں سے ایک "امام بدر الدین العینی الحنفی رحمہ اللہ "کی طرف سے یہ اعتراف مذکور ہے کہ :
) """ کچھ لوگوں سے) امام بخاری رحمہُ اللہ کی مراد امام ابو حنیفہ رحمہُ اللہ ہیں اور امام بخاری رحمہ ُ اللہ نے اپنی اس بات کے ذریعے امام ابو حنیفہ پر رد کیا ہے """۔

بوھیو نامی شخص نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے ، لیکن اپنی بد تہذیبی کے ساتھ ذِکر کیا ، اور اپنی دھوکہ دہی کو جاری رکھتے ہوئے اس طرح کی عبارت لکھی کہ گویا امام ابو حنیفہ رحمہُ اللہ اس حدیث کے روایوں میں سے ہوں ، اور گویا کہ امام بخاری رحمہُ اللہ اس غلط فتوے کی حمایت کر رہے ہوں ۔

جبکہ امام بخاری رحمہُ اللہ تعالیٰ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد ، اُس حدیث شریف کے ذریعے اس فتوے کو غلط قرار دینے کے لیے اس فتوے کا ذِکر کیا ۔
لیکن اپنے ایک مسلمان عالم بھائی کا نام لے کر اس پر رد کرنے کی بجائے اس کا ذکر """ بعض الناس::: کچھ لوگ""" کہہ کر غلطی کی نشاندہی کر دی ۔

لیکن،  یہ حیاء اور ادب نصیبوں والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے ،
امام بدر الدین العینی الحنفی رحمہ اللہ نے صدیوں پہلے امام بخاری رحمہُ اللہ کے اس قول کی وضاحت کر رکھی ہے کہ قول امام ابو حنیفہ پر رد کے طور پر لکھا گیا ہے ۔

قارئین کرام ،
 امید کرتا ہوں کہ یہاں تک گفتگو ان شاء اللہ یہ واضح کرنے کے کافی ہو گی کہ عزیز اللہ بوہیو نامی یہ شخص یا تو جاھل ہے یا پھر دانستہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف کے خلاف کام کرتا ہے ، اب خواہ ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت رہی ہو اس شخص کی بات سوائے جھوٹے الزامات کے اور کچھ نہیں ،
انہی الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی لگایا ہے کہ یہ حدیث "اصلاح کائنات " کے فلسفے کے خلاف ہے ،
پہلی بات تو یہ کہ اس شخص کو اسلامی تعلیمات اور فلسفوں کا فرق بھی معلوم نہیں ، اور اگر معلوم ہونے کے بعد بھی وہ اسلامی تعلیمات کو فلسفوں میں شمار کرتا ہے تو اس کی عقل کے رخصت ہوچکے ہونے کی تائید ہوتی ہے ،
دوسری بات یہ کہ اس شخص بوہیو کو شاید یہ بھی علم نہیں کہ کائنات کی اصلاح تو صرف اور صرف اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ ہی کر سکتا ہے ،
رہا معاملہ دُنیا میں بسنے والے انسانوں کی اصلاح کا تو کائنات کے پہلے انسان آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک یہ معاملہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانوں کی اصلاح صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے تقوے پر عمل پیرا لوگوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے ۔

اور تقویٰ کے بنیادی لوازمات میں سے ایک """اخلاص للہ """ ہے ، یعنی ہر کام خالصتا اللہ عزّ وجلّ کی خاطر کیے جانے کی نیت ، اور یہی اس حدیث شریف میں سکھایا گیا ہے ، کہ مسلمان کو اپنا ہر کام اللہ کے لیے ہی کرنا چاہیے ، دنیاوی فوائد کے لیے نہیں ، حتیٰ کہ وہ کام بھی جو بظاہر دنیاوی معاملات تک محدود نظر آتے ہیں اگر وہ کام بھی اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے کیے جائیں تو یقینا دنیا میں سے جو کچھ اللہ دینا چاہے گا وہ بھی دے گا اور آخرت کی خیر بھی دے گا ، اور جب کسی مسلمان کی نیت اس قدر خالص رہنے لگے تو پھر وہ انسانی معاشرے میں کسی برائی کو پھیلانے والا نہیں رہتا ، بلکہ انسانی معاشرے کی اصلاح کے اسباب میں سے ایک بنیادی سبب ہو جاتا ہے ،
اب اگر ہر مسلمان اس حدیث شریف کے مطابق اپنے اعمال کو اللہ کی خاطر کرنے کی نیت کر کے کرے تو انسانی معاشرے کی اصلاح ہو گی یا تخریب ۔

::: إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ:::
لیکن بے شک نصیحت عقل والے(ہی)حاصل کرتے ہیں۔
سُورت الرعد (13)/آیت19

و السلام علی من یتبع الھدی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتظامیہ سے خصوصی گذارش ہے کہ میرے اس مضمون کے جواب میں ارسال کیے جانے والا ہر وہ مراسلہ حذف کر دیا جائے جو کاپی پیسٹ کی کاروائی پر مشتمل ہو ، جس کسی کو بھی جو کوئی بھی بات کرنا ہے وہ اپنے الفاظ میں ، اور انسانوں کی سمجھ آ سکنے والے انداز میں کرے ، ورنہ خاموش رہے ۔

اور اگر کسی کو اس کی توفیق نہیں اوروہ بوہیو کی باتوں کا دفاع کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے بوہیو کو یہاں پاک نیٹ پر لے آئے ،
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لطف و کرم سے اس کی تمام تر دھوکہ دہیوں بالکل کھل کر سامنے آ جائیں گی ،
 والسلام علیکم۔ 

عادل سہیل

جواب در جواب:

اللہ پاک نے سارے قرآن میں عربی زبان کے لفظ "نیت" کو کسی ایک بھی موقعہ پر کہاں استعمال کیا ہے ؟؟؟
آپ کی مذکورہ آیات میں بھی نہیں کیا !!!

کیا آپ کو خواہش اور نیت کا فرق معلوم نہیں ؟؟؟

2 comments:

  1. جواب در جواب:

    اللہ پاک نے سارے قرآن میں عربی زبان کے لفظ "نیت" کو کسی ایک بھی موقعہ پر کہاں استعمال کیا ہے ؟؟؟
    آپ کی مذکورہ آیات میں بھی نہیں کیا !!!

    کیا آپ کو خواہش اور نیت کا فرق معلوم نہیں ؟؟؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    رانا صاحب ،
    ذرا غور فرمایے میں نے جو دو آیات مبارکہ ذکر کی ہیں اُن میں اللہ تعالیٰ نے """ ارادے """ کا ذکر فرمایا ہے ، جس کا مترادف ، ہم معنی ، اور ہم مفہوم لفظ """ نیت """ ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے """ خواہش""" کا ذِکر نہیں فرمایا ،
    کیا آپ کو "خواہش" اور "ارادے" کا فرق معلوم نہیں ؟؟؟
    خواہش کو عربی میں """ ارادَ، یُریدُ """ نہیں کہا جاتا جناب ،
    کیا آپ کو " ارادَ، یُریدُ """ اور """ شاء ، یَشاء ۔۔۔ تمنیٰ ، یتمنیٰ """ کا فرق معلوم نہیں ؟؟؟
    اور چلے ہیں قران فہمی کا لبادہ اوڑھ کر """ سنتءنبویہ علی صاحبھا افضل الصلاۃ والتسلیم """ پر اعتراضات جڑنے ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔

    ReplyDelete
  2. عادل سہیل جھوٹا ہے بلکہ جانو جرمن ہے۔ عربی میں گنتی پڑھ کر اپنے چینی ہونے کا یقین دلا رہا ہے۔

    ReplyDelete