Friday, October 19, 2012

خلاف قرآن جعلی مشاجرات صحابہ اکرام ؓ


خلاف قرآن جعلی مشاجرات صحابہ  اکرام ؓ

مشاجرات صحابہ کس چڑیا کا نام ہے ؟؟؟

قرآن کی شہادت کے باوجود یہ راویوں کی کھیپ اگر اصحاب محمد پر ارتداد اور قرآن میں تبدیلی کی جھوٹی حدیثیں گھڑ کر مشہور کریں تو سمجھ لو کہ ان کو دنیا میں قرآن کے خلاف بے اعتمادی پھیلانی مقصود ہے کہ اس کتاب کے حاملین اگر ایسے ویسے ہیں تو یقیناً کتاب محفوظ نہیں رہی ہوگی۔ اسی لئے تو راویوں اور اس کے ہمنواؤں نے مشہور کر رکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جمعہ کے خطبہ میں کہا کہ رجم کی آیت اور اپنے بڑوں کے کہنے پر چلا کرو۔ یہ دونوں آیتیں پہلے ہم پڑھا کرتے تھے آج کل وہ قرآن میں نظر نہیں آرہی ہیں ۔


ابن ماجہ رضاعۃ کبیر کی آیت کے لئے حدیث لائے ہیں کہ اس حکم کے بارے میں جو آیت اتری تھی اسے عائشہ کی بکری کھاگئی جو کھجور کے پتے پر لکھی ہوئی تھی ۔ تو اِن ان گنت راویوں کی حدیثوں میں اصحاب محمد صلے اﷲ علیہ و سلم کے کردار کے خلاف اور خود رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم کے خلاف جو جا بجا حدیثوں کے انبار ہیں وہ سب اس لئے ہیں کہ یہ لوگ قرآن کے محافظ تھے وکیل تھے نگران تھے۔ ان راویوں کے لشکر کا جھگڑا قرآن سے ہے ۔ یہ راویوں لوگ دنیا والوں کو قرآن میں شکوک و شبہات ڈالنے کے لئے یہ روایت بازی اور حدیث سازی کر رہے ہیں ۔

اس بحث میں ایک سازش سامنے آتی ہے جسے ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے ۔ وہ یہ کہ حدیث ساز راویوں کو شکست فارس اور فتح حجازی عربوں کے پس منظر میں جو اہم سبب نظر آیا وہ تھا محمد عربی صلے اﷲ علیہ و سلم کو قرآن کا ملنا اور اس کے انقلابی رنگ میں سارے حجازیوں کا رنگ جانا۔ اس حد تک کہ خود اللہ تعالیٰ نے شہادت دی کہ محمد ؐ کے ساتھی ایسے ہیں کہ ہم نے انہیں قرآن کی حفاظت کا وکیل بنا رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سر ٹیفیکیٹ پر ان فارسی اماموں نے سوچا کہ قرآن کو مشکوک بنانے کے لئے ضروری ہے کہ حاملین قرآن کو ان کے کردار کے حوالہ سے داغ دار کریں۔ جھوٹے اور جعلی قصوں اور شان نزول کی حدیثیں بنا کر ان کی وقعت کو عزت کو ، دیانت کو، مشکوک بنائیں ۔ ان پر آپس میں اقتدار ، دنیا داری اور عورتوں کی ہوس کے الزام لگا کر جعلی مشاجرات اور جھگڑے مشہور کریں اور ان کو آپس میں بغض رکھنے والے اور نفرت کرنے والے اور معاذ اللہ بد کردار متعارف کرائیں۔ یہ کارنامہ ان راویوں اور دانشوروں نے کرکے دیکھایا ۔ ان کی ان شعبدہ بازیوں سے ساری کتب احادیث بھری ہوئی ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ بھی ان کی چالوں کو خوب جانتا تھا اس لئے اس نے قرآن حکیم میں رسول اللہ صلے اﷲ علیہ و سلم اور اس کی انقلابی ٹیم کے ساتھیوں کی صفائی، بلند کرداری اور قربانیوں کو، ان کی آپس میں محبت اور ایثار کو اتنا سراہا ہے کہ پڑھنے والا بے اختیار پکار اُٹھتا ہے کہ اہل فارس میں سے رسولؐ کے قرآن کے اور صحابہ کی دشمنی میں جھوٹی حدیثیں گھڑنے پر امام کہلانے والو!

هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (3:119)
دیکھو تم ایسے (صاف دل) لوگ ہو کہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہو حالانکہ وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے اور تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو (اور وہ تمہاری کتاب کو نہیں مانتے) اور جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصے کے سبب انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں (ان سے) کہہ دو کہ (بدبختو) غصے میں مر جاؤ خدا تمہارے دلوں کی باتوں سے خوب واقف ہے۔

مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ
یعنی رسول اللہ کے ساتھی تو ایسے نہیں ہیں جس طرح تمہاری حدیثیں ان کی کردار کشی کررہی ہیں۔ تم قرآن کی شہادت کے بعد صحابہ دشمنی، قرآن دشمنی اور رسول دشمنی کے طیش میں ڈوب مرو ۔

قرآن حکیم تو جملہ اصحاب رسول صلے اﷲ علیہ و سلم کی شان میں شہادت دیتا ہے کہ :
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (9:100)
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔

معزز قارئین !
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام اصحاب رسول اور ان کے متبعین باحسان کو جنت کا حق دار قرار دیا ہے اور ساتھ یہ فرما کر کہ یہ جماعت صحابہ جنت میں ہمیشہ رہے گی ۔ اللہ ان سب سے راضی اور یہ سب اللہ سے راضی ۔ یہ سب لوگ فوز عظیم کے مالک ہیں ۔آیت ملا حظہ ہو۔
الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (9:20)
جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرتے رہے۔ خدا کے ہاں ان کے درجے بہت بڑے ہیں۔ اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں۔
يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ (9:21)
ان کا پروردگار ان کو اپنی رحمت کی اور خوشنودی کی اور بہشتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے نعمت ہائے جاودانی ہے۔
خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ (9:22)
(
اور وہ) ان میں ابدالاآباد رہیں گے۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کے ہاں بڑا صلہ (تیار) ہے۔
جو لوگ اﷲ پر ایمان لے آئے ، اور جنہوں نے اللہ کی حمایت میں اپنے دیس چھوڑے، اور اپنے مال وجان سے اس کی لڑائیاں لڑیں، ان کا اللہ کے ہاں سب سے بڑا درجہ ہے ! اور یہی وہ لوگ ہیں جو اس دنیا میں بھی فائز المرام ہوں گے ۔ ان کا پر وردگار انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی کی بشارت دیتا ہے اور نیز ان باغوں(جنت) اور سرسبز زمینوں کی حکومت کی جن میں ان کو دائمی نعمتیں اور آسائشیں حاصل ہوں گی ۔ وہ اس میں سدا سدا رہیں گے ۔ اے لوگو ! بے شک ایسے لوگوں کے لئے اﷲکے پاس اجر عظیم ہے ۔

دیکھا کہ قرآن حکیم نے کس طرح راویوں کی جھوٹی حدیثوں کی تردید کرکے بھانڈا پھوڑا ہے اور اصحاب رسول کی شان میں
رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ
فرما کر روایت سازوں کی مشاجرات صحابہ کے نام پر گھڑی ہوئی تمام حدیثوں کو یکلخت جھوٹ کا پلندا قرار دے دیا ہے ۔

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (48:29)
محمد خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل، (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں۔ اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔ (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔
اس جماعت صحابہ کا مقام اگر کسی نے سمجھنا ہے تو وہ سورۃ انعام کی آیت نمبر52پر غور کرے اور اپنے ایمان اور عقیدہ کو محفوظ بنانے کے لئے اس آیت سے رہنمائی لے ۔

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ (6:52)
اور جو لوگ صبح وشام اپنی پروردگار سے دعا کرتے ہیں (اور) اس کی ذات کے طالب ہیں ان کو (اپنے پاس سے) مت نکالو۔ ان کے حساب (اعمال) کی جوابدہی تم پر کچھ نہیں اور تمہارے حساب کی جوابدہی ان پر کچھ نہیں (پس ایسا نہ کرنا) اگر ان کو نکالوگے تو ظالموں میں ہوجاؤ گے۔

اس میں خود رسول اللہ کو حکم ہے کہ یہ تیرے ساتھی جو صبح و شام ہر وقت اپنے رب کے رابطے میں رہتے ہیں ۔ خبر دار! کبھی ان کو اپنے سے دور نہ کرنا یہ لوگ تو اللہ کے مخلص بندے ہیں انہوں نے تیری رسالت اور نبوت کے مشن اور تحریک کا اتنا حق ادا کردیا ہے کہ اب ان پر تیرا کوئی حساب نہیں ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اے محمدؐ ! تونے بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک برتا ہے ۔ تیرے اوپر بھی ان کا کوئی قرضہ نہیں یعنی تو بھی ان سے محبت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود ان کی سفارش اس لئے کی جاتی ہے کہ یہ لوگ اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں لہذا اے محمدؐ ! اگر تو ان کو تھوڑا سا بھی اپنے سے دور رکھے گا تو گویا کہ اپنی جان پر ظلم کرنے والوں میں شمار کیا جائے گا۔

مروج علم حدیث پر ہمارا اعتراض ہے کہ اس میں کئی جھول ہیں کئی مغلق باتیں ہیں یعنی علم حدیث قرآن کی کیا تفصیل کر سکتا ہے وہ تو خود ہی مجمل اور متضاد ہے اور محتاج تفصیل ہے اور ساتھ ساتھ خلاف قرآن بھی ہے۔

ابراہیم علیہ السلام کو قرآن نے
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (19:41)
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو۔ بے شک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے۔
کہا ہے۔

راوی نے اسے جھوٹا کہا ہے۔

قرآن نے رسول اللہ کے ساتھیوں کو
رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ
کہا ہے اور ان حدیث سازوں نے فرضی اور من گھڑت مشاجرات صحابہ کرام پر ابواب کے ابواب لکھے ہیں۔

قرآن نے حاملین قرآن کو
بِأَيْدِي سَفَرَةٍ (80:15)
(
ایسے) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں۔
كِرَامٍ بَرَرَةٍ (80:16)
جو سردار اور نیکو کار ہیں۔
کہا ہے ۔

جبکہ امام مسلم کے راوی نے قرآن پڑہنے والوں کو شیطان کہا ہے ۔

اس طرح کی اور کئی مثالیں ہیں۔

تو محترم عالی !
علیؓ کے دوسرے بیٹے حسنؓ و حسین علیؓ کی تربیت سے عثمان ؓ کے چوکیدار اور باڈی گارڈ بنتے ہیں اور محمد بن ابی بکر علیؓ کی تربیت سے اور گھر کے ماحول سے اپنے بھائیوں کے الٹ قاتل عثمان ؓ بنتا ہے اب کوئی بتائے کہ ان روایت سازوں کی کرشمہ سازیوں اور کرتبوں پر کس سے انصاف مانگیں؟

سو ان کی افسانہ سازیوں میں اتنے جھول ہیں کہ یقینا نہ ابو بکر صدیق ؓ کو بوڑھی بیوی سے بیٹا پیدا ہوا ہے اور نہ ہی اس کی وفات کے بعد اس کی بوڑھی بیوی کی جوان علیؓ سے شادی ہوئی ہے اور محمد بن ابی بکر کی شخصیت بھی فرضی اور کاغذی ہے۔ یہ سب جعل سازی روایات بنانے کے ٹکسال ان لوگوں کے ہیں جو مشاجرات صحابہ کے نام پر ہروقت خلاف قرآن اور ان کو آپس میں لڑتا بھڑتا دکھائی دینے کے درپے رہتے ہیں۔

یہ جعلی تاریخ ہے اور افسانہ سازی ہے۔ یہ جعلی مشاجرات کے قصوں سے بخاری و مسلم بھرے پڑے ہیں۔ اب غور فرمایا جائے کہ ان کی اس تاریخ میں محمد بن ابی بکر کی فرضی شخصیت اور جعلی نام سے کتنی بڑی کہانی ان سے منسوب کی ہوئی ہے۔ یہ تو میں نے عقلی تضادوں سے ان کے جھوٹ کی ایک چھوٹی سی مثال عرض کی ہے سو آگے کچھ اور ملاحظہ فرمایا جائے۔ اب عقل اور نقل یعنی خود قرآن بلکہ سائنس اور فطری قوانین کی روشنی میں بھی مندرجہ ذیل حقائق پر غور کرکے بتائیں تاریخ کی ان پیوند کاریوں پر سوچیں کہ

این راہ کجامے رود ۔

تلاطم تو آنے دو دریا میں۔
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے

از قلم : عزیزاللہ بوھیو 

No comments:

Post a Comment