Saturday, October 20, 2012

امت کے مرکز سے قرآن پر حملہ : قرآن میں قرائت کے نام سے تحریف



امت کے مرکز سے قرآن پر حملہ

قرآن میں قرائت کے نام سے تحریف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پیش لفظ

محترم قارئین!
لاہور پاکستان سے شائع ہونے والے فرقہ اہل حدیث کے ماہوار رسالہ رشدنے اپنی اشاعت ماہ جون 2009ع کے شمارہ میں انکشاف کیا تھا کہ حکومت سعودیہ نے مجمع ملک فہد کے نام سے مختلف قرائات پر مشتمل قرآن حکیم کے چار عدد ایڈیشن شائع کئے ہیں رسالہ کے مضمون کے مطابق ان نسخوں میں قرائتوں کی آڑ میں کئی نئے حروف کا اضافہ بھی ہے اور تبدیلی بھی کی گئی ہے۔ جسکو انہوں نے جمع کتابی کا نام دے رکھا ہے۔ ہم نے رسالہ کے اس انکشاف پر ایسے ملاوٹی حروف والے مطبوعہ نسخوں کی بہت تلاش کی لیکن کہیں سے بھی وہ نہ مل سکے کسی باخبر آدمی نے بتایا کہ وہ ملاوٹ والے نسخے افریقہ میں تقسیم کئے جارہے ہیں۔ اور مجمع ملک فہد کے مطبوعہ قرآنی نسخوں کو دو نام دئے گئے ہیں ایک حفص۔ دوسرا ورش۔ سو حفص نامی نسخے برصغیر اور عرب کے مسلم ممالک میں تقسیم کئے جاتے ہیں اور ورش نامی نسخے جن میں قرائات والے حروف کے نام سے کٹوتی اور ملاوٹ کی ہوئی ہے وہ افریقی ممالک میں تقسیم کئے جارہے ہیں۔ افریقی ممالک تک تو ہماری رسائی نہیں تھی اب جو دنیا بھر میں امریکہ کی بنائی ہوئی جناب رسول علیہ السلام کے شان اقدس کے خلاف توہین اور گستاخی پر مشتمل فلم کو کمپیوٹر کی انٹرنیٹ کے یوٹیوب پر دکھایا گیا جس کے تفصیل میں ہمیشہ یہ عیسائی اور یہودی لوگ اہل حدیث لوگوں کی مسلمہ کتب احادیث بخاری مسلم وغیرہ کی حدیثوں میں سے گستاخیوں والی اسکرپٹ بناتے ہیں، بہرحال امت مسلمہ کے غیرت مند لوگوں کا ایسی فلم کے خلاف احتجاج کیلئے ایک سمندر اچھل پڑا جو تادم تحریر جاری ہے، سو ایک طرف یہ بحران جاری ہے تو عین ایسے دنوں میں حکومت سعودیہ کے مجمع ملک فہد کا چھپایا ہوا قرائتوں کے نام سے ملاوٹ اور تحریف کردہ ایک نسخہ قرآن کو انٹرنیٹ پر لایا گیا ہے، اس سلسلہ میں میرے دوستوں نے کمپیوٹر سے اس ملاوٹ کردہ قرآن کے ساتھ ایک انگریزی مضمون بھی پرنٹ شدہ ڈاؤن لوڈ کر کے دیا ہے جسکا عنوان ہے :
 
Which – Quran?

یعنی، کونسا قرآن؟

یہ سرخی اور عنوان پڑھتے ہی میں بدک گیا اور میرے کان کھڑے ہوگئے کہ یہ سوال تو ہم مسلم لوگ بلکہ پوری دنیا کے لوگ بائیبل کے متعلق انجیل کے متعلق کیا کرتے ہیں کہ کونسا انجیل؟ متی کا؟ مرقس کا؟ لوقا کا؟ یا یوحنا کا؟ سعودی حکومت اور ان کو یونین جیک کی طرف سے ملے ہوئے داڑھی پوش دم چھلوں کی اس کارستانی پر میں اپنے سر کو ہاتھوں میں تھام کر پیچھے صدیوں کی تاریخ میں گم ہوگیا۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ جب میں دسمبر 1970ء میں جیل کی سزا کاٹ کر باہر نکلا تھا تو تحصیل ٹھل ضلع جیکب آباد کے زمیندار سید احمد شاہ نے میری دعوت کی میرا ویسے بھی انکے پاس جمعیۃ علماء اسلام تنظیم کے تعلق کے حوالہ سے آنا جانا بہت تھا۔ وہاں شاہ صاحب نے مجھے کہا کہ محمد امین خان کھوسہ ہمارے پڑوس کے زمیندار ہیں انکی گائے چوری ہوگئی ہے میں بطور ہمدردی اسکے پاس جانا چاہتا ہوں آپ بھی میرے ساتھ چلیں اور میں ویسے بھی غائبانہ محمد امین خان سے عقیدت رکھتا تھا وہ اسلئے کہ امام انقلاب عبید اللہ سندھی جلا وطنی کے دنوں میں جب سعودی ملک میں رہے ہوئے تھے اور وہ واپس ہندستان آنا چاہتے تھے تو سندھ کے وزیر اعظم اللہ بخش سومرو کو محمد امین خان کھوسو نے ذہنی طور پر آمادہ کیا کہ وہ برطانیہ حکومت کو منوائے کہ عبیداللہ سندھی کو واپس ملک میں آنے کی اجازت دی جائے، پھر الھ بخش سومرو نے تاج برطانیہ کے باغی عبیداللہ سندھی کی ملک میں واپس آکر سیاسی سرگرمیاں نہ کرنے کی ضمانت خود دی اسطرح وہ واپس آئے بہرحال ہم محمد امین خان کے گاؤں جاکر اسے ملے دوران ملاقات میں نے خان صاحب کو کہا کہ لائل پور کی فری میسن لاج نے مطالبہ کیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کا وزیر اعظم بنایا جائے۔ کھوسہ صاحب نے مجھے جواب میں بڑے تلخ لہجہ سے کہا کہ جب پاکستان بنایا ہی فری میسن تنظیم نے ہے تو ان کو حق پہنچتا ہے کہ وہ جسے چاہیں اسے حکمران بنائیں، آپ ملا لوگوں کو کیا خبر؟ یہ ملک پاکستان اور سارے مسلم ممالک تمہارا مکہ مدینہ والا اسلامی ملک سعودی عرب ان سب کی حکمرانی کیلئے فری میسن تنظیم کے یہودی خود اپنے خاص لوگوں کو مقرر کراتی ہے۔ پھر تو علمی دنیا میں سعودی خاندان کی متداولہ تاریخ بھی میری آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی کہ یہ اصل میں نسلی طرح کون ہیں؟ اور خان صاحب عبدالولی خان پختوں لیڈر کا بتایا ہوا قصہ بھی یاد آیا کہ اسکی دہلی میں ایک ہندو اسکالر سے ملاقات ہوئی تھی جو عربی زبان بڑی فصاحت اور روانی سے بول رہا تھا اور معلوم کرنے پراس نے بتا کہ وہ غلام ہندستان کے زمانہ میں گورنمنٹ برطانیہ کا، سی۔ آئی ۔ ڈی انسپیکٹر تھا ایک دن اسکو ایک آڈر ملا جس میں اسکا تبادلہ، عرب ملک میں کیا گیا تھا، وہاں پہنچ کر اس نے آفیس والوں کو آرڈر دکھا یا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو تو کرنل لارنس صاحب نے منگوایا ہے، آپ اسے ملیں، مجھے اسکا کمرہ بتایا گیا میں اسے ملا تو اس نے مجھے حکم دیا کہ آپ آئندہ یہ لباس نہ پہنیں اور عربی جبہ سر پرکالی رسی وغیرہ پہنیں اور ہم آپکو عربی زبان سکھانے کا بندوبست کرتے ہیں جب آپکو عربی زبان پر عبور ہوگا تو آپکی اصل ڈیوٹی پھر شروع ہوگی اور اتنے عرصہ میں پڑوس کی مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرو اور نماز سے متعلق جملہ مسائل اورطریقہ کار کو بھی سیکھو، پھر جب میں عربی زبان مکمل طور پر سیکھ چکا تو پھر نیا آرڈر ملا تو، میں شہر مدینہ میں مسجد نبوی کا مؤذن بنایا گیا اور خودکرنل لارینس پیش امام بنا، پھر ہم دونوں وہاں سات سال اکٹھے ڈیوٹی ادا کرتے رہے اسطرح مجھے عربی زبان بولنے میں مہارت حاصل ہوگئی۔ دنیا میں انگریز سی آئی ڈی افسر ہمفرے کی جو ڈائری کتابی شکل میں متداول ہے، اس میں اس نے لکھا ہے کہ سعودیوں کا شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اسکا تیار کیا ہوا شیخ الاسلام تھا۔ جسکو شراب پینے اور متعہ کرنے کے جواز کا علمی طور پر اسے قائل کیا اور اس پر اسکو عمل بھی کرایا جب ہی تو آجکل سعودی حکومت نے بھی متعہ کو حلال قرار دیا ہوا ہے بعض اہل مطالعہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمفرے اصل میں کرنل لارینس کا ہی دوسرا نام ہے، پھر کرنل لارینس کا مسجد نبوی کی امامت سے تبادلہ کرکے اسے شمالی وزیرستان لایا گیا جہاں اسے ٹارگیٹ دیا گیا تھا کہ وہ افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ کو قتل کرائے یا معزول کرائے، سو کرنل لارینس نے کرم شاہ کے نام سے پیر بنکر میران شاہ شہر کے کنارہ پر خانقاہ قائم کی اور وہاں سے کرامات دکھا دکھا کر غازی امان اللہ کو معزول کروا کر ملک بدر کرایا۔

میں سال 1983ء میں حج کرنے پانی کے جہاز میں گیا تھا جو سفر کراچی سے جدہ تک اندازا آٹھ دن تک رہا، ایک دن ایک رفیق سفرنے کہا کہ میں نے جہاز کے کیپٹن کو کہا ہے کہ اس جہاز میں ہم تین چار عالم دین ہیں ہمیں آپ جہاز کا کنٹرول روم گھمائیں اور جہاز کے کچھ کوائف سمجھائیں سوا سنے میری بات قبول کی ہے دوسرے دوساتھی تیار ہیں آپ بھی اٹھیں تو اوپر چلیں، میں انکے ساتھ ہولیا، کیپٹن صاحب ہمیں ضروری چیزیں سمجھانے کے بعد جب فارغ ہوئے تو ہم سے کہا کہ مجھے آپکو کچھ اہم اور ضروری بات کرنی ہے، ہمنے کہا ضرور ضرور فرمائیں ہم سن رہے ہیں۔ تو اس نے کہا کہ آپ عالم لوگ ہیں آپ اپنے علائقوں میں مساجد میں ضرور لوگوں کو جمعہ جمعہ کے دن عوام میں تقاریر کرتے ہونگے آج کادور امت مسلمہ پر ازمنہ وسطی کی طرح کا دور ہے جس میں مسلم خلافت پر عیسائی دنیا کے لگاتار حملے ہوئے تھے ۔سو آپ مسلم امت والوں کو دشمنوں کی یلغار سے باخبر کریں اور انکے کارندے ہماری صفوں میں معاشرہ میں ضرور ہونگے آپ انکے خلاف ان کو ناکام بنانے کیلئے لوگوں کو تیار کریں، میں چونکہ نیوی میں انٹلیجنس کا کورس پڑھا ہوا ہوں اسلئے آپ کو آگاہ کرتاہوں کہ دشمنوں کے ایجنٹ ہماری صفوں میں ضرور ہونگے اسلئے انکی اسکیموں کو آپ ناکام بنائیں میں نے اسے گذارش کی کہ آپ ہمیں سمجھائیں کہ ہم دشمنوں کے کارندوں کو کسطرح پہچانیں تو اس نے تبایاکہ ہمیں کورس میں پڑھایا گیا ہے کہ دشمن مخالف قوم میں اپنے جاسوس کارندوں کو انکے مذہبی مراکز میں یعنی مساجد اور خانقاہوں میں فٹ کرتا ہے یعنی اسکے لوگ ہمارے مذہبی پیشوا بنکر ہمیں اپنی لائنوں پر چلانے کی سعی کرتے ہیں۔ میں اس کئپٹن صاحب کی تلقین کی روشنی میں سوچتاہوں کہ انگریز نے غلام ہندستان کے زمانے میں اپنی اسکیموں کیلئے بالخصوص مسلم امت کے مذہبی لائنوں میں بڑا کام کیا ہے امت مسلمہ میں ہندستان کے اندر ان دنوں اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی اور تبلیغی جماعت کے ناموں کی تاریخ پر غور کیا جائیگا تو یہ سب غلام ہندستان کے دنوں کی پیداوار ثابت ہوتے ہیں۔ اور انکے پسمنظر کو سمجھنا ہو تو ان کے آپس کے اختلافوں کے حوالہ سے ایک دوسرے کے خلاف جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ پڑھ کر دیکھیں تو سب کے ڈانڈے اور ناطے انگریز کلکٹروں سے لیکر گورنروں اور وائسراء ہند تک جا کر پہنچتے ہیں، علاوہ ازین خلافت ترکیہ کو برٹش کی طرف سے توڑنے کے بعد شریف مکہ کو عرب قائد بناکر پھر اس سے ملک حجاز چھین کر اس کو مملکت العربیہ السعودیۃ کا نام دیکر پیراشوٹ روٹ سے آئے ہوئے سعودی خاندان کو اقتدار پر اسٹبلش کرنے کی ساری تاریخ پڑھی جائے تو سفر حج والے بحری جہاز کے کئپٹن کے بقول مسلم امت کی مذہبی قیادت مرکز کعبہ سے لیکر ہمارے شہروں کی مساجد تک انکے جملہ فرقوں تک صفوں کی صفیں دشمنوں کی پلاننگ پر کام کر رہی ہیں، اہل مطالعہ کو یاد ہوگا کہ امریکی صدر بش نے عراق و افغانستان کی جنگ کے دنوں میں کہا تھا کہ ہم امت مسلمہ سے قرون وسطی کی جنگوں کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔

اور قارئین کو یہ بھی یاد ہوگا کہ اس جنگ میں افغان سر زمین کو صدر بش کی نیٹو والی برادری کی آماجگاہ بنانا اور عراق ایران جنگ سے لیکر پاکستان سے زمینی اڈے لینا اور نیٹو افواج کی مدد کیلئے سعودی حکومت کے توسط سے ملک کی مذہبی قیادت کو ریالوں اور ڈالروں کی سپورٹ سے "اسلام خطرہ میں ہے" کے نعروں سے مذہبی قیادت کو میدان میں لانا نیز پاکستان کی سرزمین پر ڈرون ٹیکنالاجی کے جہازوں کے ذریعے سبکو اپنے گھروں میں گھر بیٹھے مارنا، پھر اسکے خلاف ملکی قیادت خواہ وہ حکومتی صفوں سے ہو یا عوامی سیاسی صفوں سے ہو اسے ڈرون حملوں کے خلاف نورا کشتی کے نمونے پر چلانا یہ سب ہنر بڑے غور طلب ہیں۔

میں قارئین کو پھر متوجہ کرونگا کہ وہ اکیسویں صدی کے شروع میں ہندستان کے دورہ کے موقعہ پر آئے ہوئے آنجہانی پوپ پال کے اس اعلان پر غور کریں کہ اکیسویں صدی دنیا پر عیسائیت کے غلبہ کی صدی ہوگی، سو انکے ایسے غلبہ کی اگر سائنسی اور سیاسی لائنوں پر سوچ کرینگے تو عیسائی دنیا کی بیساکھی مسلم ممالک اور مسلم امت کی مذہبی پیشوائیت نظر آئیگی۔ اب اس کہانی کے مزید تفاصیل کہ ہماری مذہبی قیادت کے تل ابیب کے ساتھ کون کون سے رشتے ہیں کس کس کے ناطے ہیں ظاہر کرنا اپنے لئے میں خطرہ سمجھتا ہوں آخر میں بھی تو گوشت پوشت کا کمزور لتھڑاہوں مجھے ایک شیعہ عالم نے کہا تھا کہ بوہیو صاحب ! آپ نے اپنی تحریروں کی نشتروں سے ہم شیعوں سمیت کسی کو نہیں چھوڑا لیکن ایک بات یاد رکھنا ہم شیعہ لوگون کا مخالفوں کو مارنے کا وطیرہ نہیں رہا ہے آپکو کچھ بھی ہوا تو وہ آپکے اپنے ہی لوگوں سے ہوگا (وہ مجھے دیوبندی سمجھتے ہوئے یہ بات کہ رہا تھا)
سو اب حکومت سعودیہ نے پاکستانی پنجاب کے میڈ ان یوکے اہل حدیث مولویوں کی معاونت سے جو قرآن حکیم میں تحریفات کرکے اسکے متعدد نسخے چھپوائے ہیں مجھے اسکا جو نسخہ کمپیوٹر سے ملاہے جو ہر وقت ہر جگہ اس ایڈریس پر سب لوگ دیکھ سکتے ہیں (www.islamweb.net) انکے کئی سارے ملاوٹی حروف ہیں میں یہاں نہایت تھوڑے اور چند حروف کےمثال اس مضمون بنام "امت کے مرکز سے قرآن پر حملہ" کے نام سے پیش کررہا ہوں بعض غافل قسم کے مولوی لوگوں نے میرے ساتھ ان تبدیل شدہ حروف کے متعلق کہا کہ یہ تو صرف قرائت کی حد تک کی بات ہے آگے کچھ بھی نہیں۔

سو میں قارئین کی خدمت میں نہایت تفصیل کے ساتھ ان بدلائے ہوئے حروف کے معنوی پس منظر اور حقائق پیش کرتاہوں جس سے میری معنی کے رد کیلئے جملہ غافل قسم کے لوگوں اور تنخواہ خوروں کو میں چئلنج کرتا ہوں کہ وہ میری پیش کردہ معنوی تفاوت کو رد کرکے دکھائیں۔

محترم قارئین!
آپ لوگ ان تحریفی حروف سے دیکھیں گے کہ قرائت کی آڑ میں قرآن حکیم کے اصولوں کو توڑا گیا ہے۔ جناب رسول علیہ السلام کی تو ہین کی گئی ہے، جناب رسول علیہ السلام کے اصحاب کرام کو جناب رسول کی رسالت والی تحریک اور مشن سے علحدہ کرکے دکھایا گیا ہے، انکی قرائات سے، ان تحریفات سے جو کام ظاہری روپ میں یہودی مجوسی لوگ خود نہیں کرسکے، وہ کام روپ بدلنے کے بعد بہروپیا بنکر انہوں نے بڑے مہلک طریقوں سے کئے ہیں۔

قرآن کا سفر دشمنوں کی بیچ صفوں سے

جناب رسول علیہ السلام کی حیات طیبہ میں بھی قرآن بتاتا ہے کہ دشمن یہود جناب کی مجلس میں جا سوسی کی نیت سے آتے تھے۔ اور باہر اپنے غیر حاضر ساتھیوں سے کہتے تھے کہ رسول اس طرح کہے تو اسکی بات مانیں اگر اس طرح نہ کہے تو اسکی بات قبول نہ کریں (41-5) مجھے ایک شخص نے انٹرنیٹ کے حوالہ سے بتایا کہ جرمن کی بڑی لائبرری میں چھ سات سو سال کتابوں کے پرانے ردی قسم کے بوروں کو کھولا گیا تو ان میں کے کتابوں سے یہ خبر ملی کہ عیسائی عرب لوگ پرانے زمانے والے جناب عیسیٰ علیہ السلام کو محمد کہا کرتے تھے اب کوئی اس خبر اور کاریگری پر غور کرے کہ یہ تو بعد میں آنیوالوں کو دھوکا دینا ہوا کہ آخری رسول محمد بن عبداللہ جیسے کہ آیا ہی نہیں ہے، لوگوں کے پاس جو محمد نام کا رسول مشہور ہے وہ اصل میں عیسیٰ ہی ہے یہ بات تو ایسی ہوئی جیسے کہ سعودی حکمرانوں اور قرآن دشمنوں کو پاکستان کے شہر لاہور سے ماہوار رسالہ رشد کے شمارہ جون 2009ء میں قاری فہد اللہ مراد صاحب نے سعودی حکومت کو متعدد ملاوٹی قرآن چھپوانے پر اپنے مضمون میں پہلے انہیں خراج تحسین پیش کی ہے پھر مشورہ دیا ہے کہ یہ کام علمی ہے سو کہیں فتنہ کا شکار نہ ہوجائے۔ قاری فہد اللہ مراد صاحب نے اپنے اور اس سعودی فتنہ کو عوام کے ہاتھوں میں تقسیم کرنے سے روکتے ہوئے لکھا ہے کہ قرائات کی جملہ روایات میں قرآن کے جدا جدا ایڈیشن شائع کرنے کے بعدا سکو پوری دنیا کی لائبرریوں میں پہنچایا جائے، پھرراء عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے بعد ان نسخوں کو لائبرریوں میوزموں سے نکالکر پہلے نمائشوں میں لایا جائے۔ ( دیکھو کہ یہ حیلے چوروں کی ذہنیت کی طرح چوری چھپانے والے لگ رہے ہیں۔)

جناب قارئین!
قاری فہد اللہ مراد کا مضمون جو انیس صفحات پر مشتمل ہے اسے پڑھنے کے بعد اور اب انٹرنیٹ پر جرمن لائبرری کے حوالہ سے عیسائی عربوں کا سات سو سال پہلے اپنے نبی عیسیٰ کو محمد کے نام سے پکارنے کی خبر دینا اور اب لائبرری کے ان پرانے بوروں سے ایسا انکشاف اور قاری فہد اللہ کی تجویز میں بہت ہی بڑی مماثلت ہے جس سے کم سے کم قرآن دشمنوں کی عیسائیوں کے ساتھ رشتہ داری کی خبر تو ملگئی کہ قرآن دشمن لوگ کن حویلیوں کے تعلیم یافتہ ہیں، نیز دنیا والوں کے لئے جو بغیر نقطوں والے قرآنی نسخوں اور عربی خطوط کی جو میڈیا میں پراپگنڈا کی جاتی ہے یہ بھی شروع زمانہ اسلام کے قرآن دشمن ذہنوں کی اختراع ہے جو ان دشمنوں نے مکمل قرآن کے ایسے نسخے کرایہ کے کاتبوں سے لکھواکر لائبرریوں اور میوزموں میں رکھوا دیئے تھے، پھر انکے اندازہ کے مطابق کا وقت آیا تو انکا بھی اب ڈنڈھورا پیٹا جارہا ہے اب جب سے ان کو کرنل لارینس کی مدد سے کعبہ پر قبضہ مل گیا ہے تو ان کو انکے بڑوں پر سات قرئتوں والی حدیث بھی بنانے پر بڑا افسوس ہے اسلئے کہ یہ لوگ اب اس گھمنڈ میں ہیں کہ ہم اب تو سات قرئتوں میں جدا جدا قرآن چھپوانے کی جگہ بیسیوں جدا جدا قرآن چھپوا سکتے ہیں سو یہ لوگ آج سات قرئتوں والی جھوٹی حدیث کے راویوں کے ناموں کے تعداد کو دگنا، تین، چار یا پانچ گنا بنا کے قرآن کی وحدت، احدیت، اور لیس کمثلہ کتاب کی چئلنج کو توڑنے کیلئے کوشان ہیں۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
لفظ یریٰ کو تحریف کرکے تریٰ بنانے سے آدمی شان رسالت کا منکر ہو کر کافر ہوجا ئیگا۔
جس طرح کہ مکتبہ فہد کے مطبوعہ قرآن میں ایسی تحریف کی گئی ہے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً وَأَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ (165-2)
ترجمہ:
اور لوگوں میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو بنالیتے ہیں اللہ کے سوا (اسکے) برابر کے شریک انکے ساتھ اللہ کی (اطاعت والی) محبت کی طرح محبت کرتے ہیں، اور جو ایمان لائے ہیں وہ اللہ سے محبت کرنے میں بہت بڑھکر ہیں، اور اگر دیکھیں وہ لوگ جو ظالم ہیں عذاب کو (اپنے ساتھ ہو تا ہوا) دیکھیں گے (تو جان جائیں گے کہ) ٹوٹل طاقت تو اللہ کی ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (ترجمہ ختم)

اس آیت کریمہ کے لفظ "یری" کو تحریف کرکے "تری" بنا دیا گیا ہے، یری لفظ کا فاعل اصل متن قرآن کے حوالہ سے ظالم مشرک اور کافر لوگ ہیں، جو لوگ اصل میں جزا سزا کی طاقت کے معاملہ میں اللہ کے ساتھ اپنے باطل معبودوں کو بھی شریک ٹھہراتے تھے، سو انکے لئے اللہ پاک نے فرمایا کہ یہ لوگ جب اپنے ساتھ عذاب ہوتا ہوا دیکھیں گے اور اسوقت انکا کوئی پیر مرشد گرو اور امام ان کو چھڑانے کیلئے قریب نہیں آئیگا تو، پھر مان جائیں گے کہ ان القوۃ للہ جمیعا۔

رب پاک نے اس آیت میں لفظ "یری" کا استعمال فرماکر ان مشرکین کیلئے فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کی طاقت کا مشاہدہ اور اقرار ،ان کو عذاب ہوتے وقت مانینگے، اس سے پہلے نہیں مانینگے، سو اگر سعودی حکمرانوں اور انکے داشتہ پر داختہ داڑھیوں میں چھپے ہوئے محرفین قرآن کے بقول لفظ یری کو تری۔ پڑھا جائیگا تو اس تحریف کی صورت میں مخاطب جناب رسول علیہ السلام خود بن جائیں گے پھر معنی بنے گی کہ خود رسول اللہ۔ اللہ کو جمیع قوت کا مالک تسلیم نہیں کرتے تھے اسلئے اسے اس آیت میں کہا جا رہا ہے کہ ولو تری یعنی اگر آپ دیکھیں کہ جب ان ظالموں کو عذاب دکھایا جائیگا تو دیکھیں گے آپ کہ جمیع طاقت کا مالک اللہ ہی ہے، گویا اس سے پہلے رسول علیہ السلام اللہ کو جمیع قوت کا مالک تسلیم نہیں کرتے تھے۔ سو اللہ نے لفظ یری کے استعمال سے ظالموں اور کافروں کے لئے اللہ کی طاقت کو ماننے والوں اور قبول کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور اسکے مقابلہ میں لفظ یری کو تری بنانے والے سعودی حکمرانوں اور انکے عالموں نے جیسے کہ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ جناب رسول اللہ کو اللہ کی طاقت اور قوت کو نہ ماننے والا ثابت کیا ہے۔

مسلم امت والوں کو منافقوں کے اعمال سے بے خبر اور لاتعلق رکھنے کی سازش

محترم قارئین!
عالمی سامراج کی فکری لے پالک حکومت سعودی نے گندم نما جو فروش مذہبی ٹھیکہ داروں سے قرآن حکیم میں یہودیوں کی اتباع میں جو تحریف کرائی ہے اسکی ایک مثال آیت نمبر (53-5) کے شروع والے جملہ ویقول الذین اٰمنو۔ سے حرف "واو" کو نکالنا ہے، انہوں نے اس جملہ کو بغیر واو کے خالی ۔ یقول الذین آمنو۔ لکھا ہے۔

جناب قرائین!
اس جملہ کا حرف "واو" یہ علم نحو میں واو للجمع کہلاتا ہے، اب یہ بات سمجھنے والے اس طرح سمجھیں کہ جب اس آیت سے پہلی والی آیت (52-5) کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں گے، اس آیت میں ہے کہ اے مخاطب قرآن! دیکھیں گے آپ ان لوگوں کو جن کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے یہ لوگ (اہل باطل سے) جلدی کرتے ہیں دوستی رکھنے میں ، کہتے ہیں کہ ڈرتے ہیں ہم کہ کہیں ہم پر کوئی مصیبت نہ آجائے۔ سو قریب ہے کہ اللہ لائے فتح یا کوئی سی (تمہارے فائدہ کی) بات اپنی طرف سے پھر وہ (اپنی دلوں میں) چھپائی ہوئی باتوں پر شرمسار ہوجائیں گے (یہاں تک آیت 52 ختم کی گئی ہے) اس کے بعد والی آیت میں قرآن حکیم نے فرمایا ہے کہ:
وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُواْ أَهَـؤُلاء الَّذِينَ أَقْسَمُواْ بِاللّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُواْ خَاسِرِينَ (-53-5)
اور کہیں گے وہ لوگ جنہوں نے ایمان لایا (کیا) یہ ہیں وہی لوگ جنہوں نے بڑے بڑے قسم کھائے تھے اللہ کے نام کے کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں، انکے تو اعمال ضائع ہوئے اب یہ نقصان اٹھانے والے ہوگئے (آیت کاخلاصہ ختم)

اس آیت کے شروع میں اللہ عزوجل نے حرف "واو" لا کر اس سے یہ بات سمجھائی ہے کہ مؤمن لوگ دشمنوں کی ماضی اور حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ یہ منافق لوگ کل کو کیا کیا قسمیں کھا کر اپنے ایمان کی شاہدییں دے رہے تھے اور اب کس طرح اہل کتاب کفار کی جانب، انکے گروہوں میں شامل ہونے میں جلدی کر رہے ہیں۔

تو حکومت سعودی کے ریالوں سے پلنے والے لامحدود داڑھیوں اور بنڈلیوں تک محدود پائنچوں والے ان شیخ الحدیثوں کی جھرمٹ میں محرف قرآن سعودی کا مپلیکس کی اس ٹیم نے آیت نمبر 53 سے حرف"واو" کو نکالکر گویا کہ مؤمنوں کو بھی جناب رسالت مآب خاتم الانبیاء علیہ السلام کی مشن سے لاتعلق دکھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ اسطرح کہ آیت نمبر 5میں رب تعالیٰ اپنے نبی کو لفظ فتریٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ منافقین کا حال دیکھیں کہ یہ لوگ کسطرح اہل کتاب کی طرف بھاگے جارہے۔ یعنی اے نبی آپ تو انکے اس حال کو دیکھیں، لیکن صرف آپ اکیلے ہی نہیں آگے آیت نمبر 53 میں فرمایا کہ آپکے مؤمن ساتھی بھی انکی ہیرا پھیریوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

محترم قارئین !
آیت نمبر 52 میں جناب رسول کو منافقین کے عمل کی طرف متوجہ کرنے کے بعد اللہ نے آیت نمبر 53 میں مؤمنین کی اس معاملہ پر پہلے ہی نظرداری کا ذکر حرف "واو" کو ساتھ کرکے بتادیا ہے گویا کہ رب تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ بتلانا چاہا ہے کہ آپکے ساتھی بھی اس معاملہ میں چوکس ہیں اور منافقوں پر وہ کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں آپ اکیلے نہیں ہیں۔ اب قرآن کے طالب علم سوچیں کہ محرفین قرآن نے حرف "واو" کو نکال کر کس طرح تو جماعت مؤمنین کو اپنے رسول کی مشن سے جدا دکھانے کی سازش کی ہے وہ اس طرح کہ یہاں جو حرف واو ۔ اللہ نے مابعد کو ماقبل سے ملانے کیلئے دیاتھا اسے سعودی عالموں نے سرے سے اسے نکال دیا ہے۔

محترم قارئین!
قرائت تو نام ہے حروف کو اپنی اصل مخارج سے پڑھنے کا لیکن یہاں جب سرے سے ایک ضروری حرف کو ہی نکالا گیا ہے تو اب وہ پڑھا تو نہیں جاسکے گا۔

دنیا بھر سے مسلم امت کی نسل کشی کی سازش

عیسائی مذہب کا آنجہانی پوپ پال اس اکیسویں صدی کے شروع میں ہندوستان کے دورہ پر گیا تھا وہاں اس نے یہ اعلان کیا تھا کہ یہ صدی دنیا پر مذہب عیسائیت کے غلبہ کی صدی ہے۔ اسکے لئے مخفی طور پر عیسائی دنیا کے ملک گیروں نے کیا کیا، کیا ہے، یہ تو معلوم نہیں ہے، البتہ انہوں نے اپنے خواب اور خواہش کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے یہ ضروری سمجھاہے کہ جب تک دنیا سے کتاب قرآن کو ختم نہیں کرینگے تو اتنے تک انکا خواب انکی مطلوبہ مثبت تعبیر تک نہیں پہنچ پائے گا، اس کے لئے انکے آباء اجداد نے کتاب قرآن حکیم کے خلاف شروع اسلام میں کئی ساری ایسی مساعی ناجمیلہ کی تھیں کہ دنیا کے صفحہ ہستی سے قرآن کو مٹاڈالیں لیکن وہ اسمیں بری طرح ناکام ہوئے تو پھر آگےچلکر یہود مجوس و نصاریٰ نے اتحاد ثلاثہ بناکر قرآن حکیم کے مفاہیم کو ایسی باتوں سے توڑا اور مسخ کیا جن کو اقوال رسول اور احادیث رسول کا نام دیا گیا، جس علم روایات پر فخر کرتے ہوئے فارس کے دانشور جلال الدیں رومی نے کہا کہ :

ماز قرآن مغز را برداشتیم
استخوا نھارا پیش سگاں اندا ختیم

یعنی ہم نے قرآن سے کریم اور مغزنکال ڈالی ہے باقی ہڈیین بچاکر انہیں کتوں کے آگے پھینک دیا ہے، آگے چلکر عقل و فہم کو مہمیز آئی کارل مارکس کے نظریہ معیشت کے فکر اور نام سے، دنیا میں لینن نے انقلاب لایا علامہ اقبال نے جو مارکس ازم کو پڑھا تو وہ چیخ اٹھا کہ یہ تو اسکا معاشیات سے متعلق جملہ مواد :
وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ كَذَلِكَ يُبيِّنُ اللّهُ لَكُمُ الآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (219-2)
کی تعبیر ہے، جسکا جملہ تفصیل موسی سے مارکس تک کے ساتھ ساتھ نوح سے محمد علیھما السلام تک کے علم وحی میں موجود ہے، سو عالم نصرانیت نے کیپیٹلزم کو بچانے کیلئے پہلے تو کتاب قرآن کو صفحہ ہستی سے مٹاڈالنے کی اسکیم سوچی، جب وہ اس میں ناکام ہوئے تو انہوں نے الفاظ قرآن اور حروف قرآن میں کہیں قینچیین ڈالنی شروع کیں تو کہیں ترمیم اور تبدیل سے کام لینا شروع کیا سو ان کی ان کارستانیوں کی مزید مثال سورت المائدہ میں آیت 53 کے شروع سے حرف "واو" کو نکالنے کے بعد آیت نمبر 54 کے لفظ "یرتد" کو "یرتدد" بنا ڈالا۔

آپ قارئین کی خدمت میں، میں ذکر کرچکا ہوں کہ سعودی حکومت عالمی سامراج کو خوش کرکے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے قرآن میں تحریفات کروا رہی ہے۔

یرتد لفظ کو یرتدد بنانے کا پس منظر

ان دونوں صیغوں کا باب ایک ہی ہے جو کہ افتعال ہے، اس لفظ کی دونوں شکلوں میں معنی ہے لوٹنا (اپنے دین سے) مرتد ہوجانا، لیکن یہاں دو عدد، دالوں کو ادغام کی صورت میں یرتد کرکے، پڑھنے سے معنی بنے گی کسی خارجی محرک اور سبب سے مرتد ہونا اور لوٹ جانا خواہ وہ دنیا کی لالچ ہویا کرسی اور اقتدار کی لالچ ہو یا عورت اور دیگر عیاشیوں کی لالچ ہو۔ اور بغیر ادغام کے لفظ یرتدد کرکے پڑھنا جس طرح کہ سعودیوں کی تنخواہ پر تحریف کرنے والے عالموں نے یہ تحریف کی ہے، اسکی معنی ہے کہ کوئی خود بخود اپنی چاہت سے، اپنے ذہن کی تبدیلی سے اپنی دل کی تبدیلی سے اپنی سوچ کی تبدیلی سے مرتد ہوجائے اور اپنے پہلے مؤقف اور نظریہ سے لوٹ جائے۔

اب یہاں قارئین کو غور کرنا چاہیے کہ قرآن دشمن عالمی سامراج اور انکی مسلم امت میں دلال سعودی حکومت اور انکے کرایوں پر پلنے والے احبار و رہبان نے قران حکیم کے لفظ "یرتد" کو ہٹا کر۔ اور مٹاکر اسکی جگہ پر اپنے تحریفی نسخہ میں یرتدد لکھا ہے تاکہ ان کے لئے مسلم امت کے افراد کو لالچوں اور دنیاوی اثاثوں کی چمک سے خریدا جاسکے۔ رہا سوال کہ لفظ یرتد۔ اور یرتدد کا یہ معنوی فرق میں نے کہاں سے لایا؟ اس کے لئے میں علماء لسانیات اور مسلم امت کے عربی دان اور قرآن کے طالب علموں کی خدمت میں اسکا حوالہ عرض کرتا ہوں کہ وہ یہ معنوی فرق خود قرآن حکیم سے اسکی تصریف آیات والی رہنمائی سے سیکھیں مختصر مثال حاضر ہے :
فَلَمَّا أَن جَاء الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (96-12)
خلاصہ یعنی جب جناب یعقوب علیہ السلام کے سامنےخوشخبری دینے والا آیا اور اسکے سامنے جناب یوسف علیہ السلام کی قمیص پیش کی تو وہ یوسف سے متعلق اپنے پہلے مؤقف اور خیالات سے کہ میرا بیٹا ملیگا بھی یا نہیں۔ اور کس کس خستہ حالیوں میں ہوگا ان خیالوں سے لوٹ کر اسکے ملنے اور وہ بھی اسکے شاہی منصب پر فائز ہونے کا یقین کرنے والا ہوا۔ تو اس مقام پر لفظ ارتد کی جو معنی لوٹنا اور موقف بدلنا ہے سو اس معنی کا خارجی داعیہ اور محرک یوسف کا شاہی جبہ ہے۔ میں یہاں زیادہ مثالیں نقل نہیں کررہا صرف سعودی گماشتوں کی اس تحریف کے پسمنظر کی طرف اشارہ کافی سمجھتاہوں کہ عالم نصرانیت مستقبل میں ایک تو مسلم امت والوں کو اسپینی مسلموں کی طرح انکا قتل عام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ، اور اس سے انکی نسل کشی بھی کریگی ڈرون ٹئکنالاجی سے اور دوسری صورت اس تحریف سے یہ بھی انہوں نے ایجاد کی ہے کہ مسلم امت کے جو افراد دنیاوی اقتدار، کرسی کی لالچ اور دولت کے انباروں سے خریدے جائیں تو اس کے لئے بھی قرآنی لفظ یرتد کو یرتدد بناکر مرتد ہونے والوں کو بہانہ سکھا دیا کہ وہ دنیا والوں کو کہیں کہ وہ عقل و بصیرت سے عیسائی ہوئے ہیں جسکی قرآن میں اجازت ہے (29-8) انہوں نے اپنا ایمان بیچا نہیں ہے۔ لفظ یرتد کی جو معنی ہمنے خارجی محرکات سے بک جانا اور لوٹ جانا کی ہے اسکا ثبوت اور سعودی تحریف والے لفظ یرتدد کارد آیت کریمہ کا اگلا جملہ کررہا ہے وہ یہ کہ :
فسوف یاتی اللہ بقوم یجھم ویحبونہ
یعنی جسے مرتد ہونا ہے تو ہو جائے ہم انکی جگہ پر ایسی قوم لائینگے جو اللہ انکے ساتھ محبت کریگا اور وہ اللہ سے محبت کرینگے۔ اس جملہ نے بھی سمجھادیا کہ یرتدد کی معنی سے یعنی اپنی سوچ بچار سے پھرنے والا مرتد یہاں مراد نہیں ہے، یہاں صرف وہ مرتد مراد ہے جو اللہ کے مقابلہ میں دنیاوی اثاثوں سے محبت کرتا ہو۔اپنی عقل و سوچ کی روشنی میں اگر کوئی کافر بنتا ہے مرتد ہوتا ہے تو ایسے لوگوں کیلئے قرآن نے اعلان کیا ہواہے کہ :
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاء كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءتْ مُرْتَفَقًا (29-18)
یعنی اے نبی آپ دنیا والوں کو کہدیجئے کہ تمہارے رب کی طرف سے حق کا نظریہ دیا جا چکا ہے۔ آگے ہرایک کیلئے راستہ کھلا ہے کہ وہ چاہے تو ایمان لائے اور چاہے تو کفر کرے۔ جہاں تک احتساب کی بات ہے تو سبکو ہم تک پہنچنے دو، ہمنے ظالموں کیلئے ناری مقام اور معاشرہ تیار کرکے رکھاہے۔

میں امید رکھتا ہوں کہ قارئین لوگ یہاں لفظ یرتد اور یرتدد کے فرق سے قرآن حکیم کی باریکیوں کا اندازہ کر چکے ہونگے اور سعودی جبوں میں چھپے ہوئے عالمی سامراج کے تنخواہ خور قرآن دشمن علمی دانشوروں کی تحریفات سے بھی قارئین لوگ اسلام کے سینہ پر انکی نشتروں اور تیروں کے گھاؤں کو سمجھ چکے ہونگے۔

سعودی کا مپلیکس کے محرفین کا لفظ وتوکل کو فتوکل بنانے کا پس منظر

جناب قارئین!
سورۃ الشعراء کی آیت 216 اور 217 میں رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ :
فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ۔ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ ۔
ا س آیت کریمہ میں یہودی محرفین تو رات کی طرح سعودی محرفین قرآن نے لفظ وتوکل کو فتوکل بنا دیا ہے یعنی حرف "واو" کی جگہ حرف "فا" لگا دیا ہے۔

محترم قارئین!
آپ کو معلوم ہے کہ حرف واو ماقبل کی عبارت اور اسکے مفہوم کے ساتھ مابعد کی عبارت کو ملاکر پڑھنے اور سمجھنے کا عندیہ دیتا ہے۔ سو یہاں جوان دو آیات میں ہے کہ اگر آپکے معاشرہ والے قریبی دوست عزیز پڑوسی آپکی نافرمانی کریں تو انہیں یہ تو ضرور کہیں کہ میں آپ کے کرتوتوں سے بیزار ہوں۔ لیکن وتوکل علی العزیز الرحیم یعنی – اور ساتھ ساتھ اپنے غالب مہربان اللہ کی نصرت و امداد پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی مشن کو رواں دواں رکھیں، جو مشن آپکو آیات (214-215-26) میں سمجھادی گئی ہے۔

محترم قارئین!
یہ معنی ہوئی حرف واو کی صورت میں، لیکن اگر وتوکل کی جگہ حرف "فا" لاکر فتوکل پڑھا جائیگا تو آیت 216 کا آخری جملہ فقل انی بریء مما تعملون یعنی میں آپکے اعمال سے بری ہوں۔ تو بعد کے لفظ فتوکل کے لفظ میں اگر جو حرف فا ہوگا تو اس سے دشمن لوگ پراپگنڈا کرینگے کہ لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے رسول کی رسالت والی مشن بندہوگئی۔ حرف"فا" کی جو تعقیب والی معنی ہے یعنی بعد والی بات کو، پیچھے ہٹا دینا۔ تو دشمن لوگ اس حرف فا سے مستقل طور پر رسالت کو معطل بنانے کا مفہوم بنالیتے، اسلئے اللہ نے اس موقعہ پر حرف "فا" کے بجاء حرف "واو" کو لاکر دشمنوں کےمنہ پر مارا کہ میرے رسول کی رسالت والی مشن وانذر عشیرتک الاقربین جاری رہیگی۔ اللہ نے یہ لفظ توکل۔ واو کے ساتھ لاکر انذار کے حکم کو مستقبل کیلئے بھی رواں دواں کرنے کیلئے نتھی کردیا۔ قرآن حکیم کی اس رمز کو یہودیوں، عیسائیوں اور سعودیوں کے دانشور سمجھتے تھے اسلئے انہوں نے وتوکل کوفتوکل بنادیا ہے، جس سے یہ ان لمٹ داڑھیوں پنڈلیوں پر لمیٹڈ پائنچوں والے لوگ تحریک نبوت کے آگے کوئی بند باندھ سکیں۔ انکی اس تحریف پر کوئی غور کرے کہ کیا یہ لوگ قرآن میں اسطرح یہ تحریفات کرنے والے مسلم امت سے ہوسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں! یہ لوگ خود ہی جناب رسول اللہ کے اصحاب کی توہین کےمرتکب بھی ہیں۔ میں انکی ایسی اہانت آمیز جسارت کی مثال عرض کرتاہوں کہ انہوں نے اپنی تحریفات کے پلندے میں سورہ انفال کے لفظ :
إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ (11-8)
میں لفظ یغشیکم جو شین مشدد کے ساتھ اللہ حکیم نے نازل فرمایا ہے اسے سعودی پروردہ محر فیں ٹیم نے بغیر حرف شین کو شددینے کے مخفف کرکے لایا ہے اس تحریف میں اصحاب رسول کی بڑی توہین مضمر ہے وہ اسطرح کہ اس لفظ کے بعد نعاس کا لفظ ہے جسکی معنی ہے۔ "اونگھ" اور اونگھ اس شخص کو آتی ہے جو نیند کرنے کیلئے پوزیشن میں نہ ہو اور نیند نہ کرنا چاہتا ہو یعنی اللہ پاک لفظ غشی کو شین کی شد سے لاکر بتانا چاہتا ہے کہ میں اللہ تو اپنے رسول کے سپاہیوں کو امن والی بے فکری کی نیند دینا چاہتا تھا لیکن وہ ہر حال میں دشمن سے دوچار ہونے کیلئے تیار اور مستعد تھے، اسلئے ان کو آنے والی نیند پنکیوں اور اونگھ میں تبدیل ہوجاتی تھی۔ جاننا چاہیے کہ جو بھی آدمی کسی بے فکری اور غفلت میں ہوگا اسے اونگھ آتے ہی نیند آجائے گی، لیکن جس کسی کو کوئی الجھن ہوگی پریشانی ہوگی اور سامنے کوئی مہم سرکرنی ہوگی تو وہ اونگھ سےجھٹکوں سے نیند کو ٹالتارہے گا۔ اور اونگھ آتی ہی اسکو ہے جونیند نہ کرنا چاہے۔ سوجناب رسالت مآب کے سپاہی سامنے دشمن کی فوج سے ٹکر لینے کیلئے مستعد تھے اللہ نے انہیں سکون بخشنے کیلئے نیند دینی چاہی تو انہوں نے جھٹکوں سے اسے ہٹادیا کہ کہیں غفلت میں دشمن حملہ نہ کربیٹھے۔ سو لفظ یغشیکم میں حرف شین مشدد لاکر اللہ پاک بتارہا ہے کہ میں اپنے رسول کی فوج کے دلوں سے جنگ کا خوف ٹالنے کیلئے انہیں آرام بخشنا چاہتا تھا لیکن انہوں نے نیند کو اونگھ کے جھٹکے دے دے کر بھگادیا۔

سو محترم قارئین!
سعودی سامراج کےپروردہ محرفین قرآن کامپلیکس کے ممبران نے لفظ یغشیکم کو بغیر تشدید کے حرف شین لاکر بتاناچاہا ہے کہ نبی کے سپاہی تو نیند غفلت کیلئے تیار تھے۔ لیکن اللہ نے حرف شین کو شد کے ساتھ لاکر بتادیا کہ نبی کے سپاہی نیند غفلت کیلئے ہرگز تیار نہ تھے لیکن میں نے انہیں دشمن کے خوف سے امن میں بے خوف اور بیپرواہ کرنے کیلئے نیند دینی چاہی جسے انہوں نے بیدار رہنے کیلئے جھٹکے دے دے کر ہٹا دیا۔ کوئی اگر سوال کرے کہ یہ لفظ غشی کے حرف شین کو اگر شد دی جائیگی تو معنی ہوگی کہ جسکو ڈھانپا جارہا ہے وہ ڈھاپنپنے کو نہیں چاہتا اور قبول نہیں کرتا، میں نے یہ معنی کہاں سے لائی اسکا ثبوت چاہیے؟ تو جواب میں عرض ہے کہ یہ معنی میرے اور پوری کائنات کے مرشد ہادی اور مہدی امام کتاب قرآن نے سکھائی ہے، حوالہ کیلئے ملاحظہ فرمائیں آیت :
وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى۔ فَغَشَّاهَا مَا غَشَّى (54-53-53)
یعنی ان تباہ شدہ بستیوں کو پچھاڑ کر رکھدیا پھر ڈھانپ لیا ان کو (طوفانوں سے) لپیٹ کر۔ اس معنی پر غور کیا جائے جو اقوام عذابوں کی لپیٹ میں آئی ہونگی کیا وہ رضا خوشی سے آئی ہونگی؟ کیا انہوں نے ان مصائب سے چھڑانے کیلئے حیلے نہیں کئے ہونگے؟ یہ اور بات ہے کہ وہ انمیں ناکام ہوئی تھیں۔

سورت الانبیاء میں لفظ قال۔ کو قل بنانے کا پس منظر

جناب قارئین!
قرآن حکیم میں تحریف کا بیڑہ اٹھانے والی قوم یہودی نے سعودی جبہ پہن کر آیت نمبر (4-21) کے شروع والے لفظ قال کو قل بنایا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ آیات ایک تاتین تک میں، دشمنان انقلاب رسالت کی بات سنائی گئی ہے کہ وہ اللہ کے کلام کو بڑی بے توجہی سے سنا ان سنا کردیتے تھے اور نبی کی مجلس میں باقائدگی سے آنیوالوں کو نبی کے پاس جانے سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ تو تمہاری طرح کا آدمی ہے اسکی باتوں میں کیارکھا ہے تم لوگ خواہ مخواہ اسکی باتیں سننے کیلئے اسکی مجلس میں جاتے ہو، تو جناب رسول علیہ السلام بھی بہت حساس اور انٹیلیجنٹ انقلابی رہنما تھے جو دشمنوں کی مجلسوں میں انقلاب کے خلاف ہونے والی باتوں کی خبریں رکھتے تھے، اسی بنا پر جناب رسول نے جواب میں فرمایا کہ میری باتوں پر جو طنزکی جارہی ہے سن لو! میرا رب آسمان اور زمین کی سب باتوں کو سننے اور جاننے والا ہے۔ تم مخالفین یہ نہ سمجھو کہ ہم آپکی پروپگنڈا سے کوئی بے خبر رہتے ہیں۔

اہل حدیث لوگ منکر حدیث رسول ہیں

جناب قارئین!
محرف قرآن سعودی جبہ پوش کامپلیکس والوں نے جناب رسول کے اس قول کو اور اسکا اپنی طرف سے دشمنوں کو جواب دینے اور رد کرنے کا مقولہ قبول نہیں کیا، گویا یہ محرف سعودی لوگ جناب رسول کو اتنا با خبر اور مستعد تسلیم نہیں کررہیں، اسلئے انہیوں نے لفظ قال میں تحریف کرکے اسکی جگہ اسے قل بنا دیا ہے اس تبدیلی سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ جو میڈ ان یوکے لوگ خود کو اہل حدیث کے نام سے تعارف کراتے ہیں یہ جناب رسول کی سچی حدیثوں کے بھی منکر ہوئے ہیں اسی لئے قال سے نبی کا قول یہ تو نبی کی ایسی حدیث ہوئی جس کی شہادت قرآن نے دی، تو ان لوگوں نے ایسے قول نبی میں تحریف کرکے اسے قل بنا لیا ہے اور جبکہ آگے آیت (5-21) کی شروع میں کفار کا جواب جناب رسول کے قول کے مقابلہ میں بل قالوا۔ بھی ثابت کررہا ہے کہ آیت (4-21) کا پہلا لفظ قال ہے قل نہیں ہے جو انہوں نے اقوال رسول کو پریشان خواب قرار دیا اور من گھڑت باتیں بھی کہا بلکہ اقوال رسول کو شاعری بھی کہا۔ سو دشمنوں کی بھی یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ سعودی دانشوروں کی بات غلط ہے اس آیت میں لفظ قال ہے، قل نہیں ہے۔

آیت (36-18) لفظ منھا کو منھما بنانے کا پس منظر۔

جناب قارئین!
آپنے عالمی سامراج کی طرف سے اب تک کی سعودی حکومت کے قیام کے پسمنظر کو سمجھ لیا ہوگا کہ انہوں نے جو اہل حدیث فرقہ کے نام سے برطانیہ کی سفارش بلکہ حکم سے فوج ظفر موج پالی ہوئی ہے، جن کے سایہ عاطفت میں انگلینڈ کی جھنگل کی حویلی والا خلاف قرآن نصاب تعلیم حکومت سعودی کی قلمرو اور اسکی توسط سے عالم اسلام میں پڑھا اور پڑھایا جا رہاہے انکی من گھڑت روایات نے ثابت کردیا ہے کہ انکی اساسی مشن ہی قرآن کو دنیا والوں سے چھیننا اور گم کرنا ہے، جس میں اگر وہ کامیاب نہ ہوسکیں تو اسکو مختلف لہجوں اور متعدد قرائات کے بہانوں سے اسکے مفاہیم میں تفرق ہ تشتت ڈالکر لوگوں کے ذہنوں میں اسکے متعلق شکوک و شبہات ڈالنا ہے۔ جن شکوک کی بنیاد پر قرآن کیلئے بھی اناجیل کی طرح سوال کیا جائے کہ کونسا قرآن؟

آیت وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَى رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا (36-18)
میں آیت کے آخر میں منھا منقلبا کی جگہ تحریف کرتے ہوئے منھما بنادیا ہے۔ جس کا مقصد اس طرح بنتا ہے کہ رب تعالی نے فرمایا کہ دوعدد ساتھیوں میں سے ہم نے ایک کو انگوروں اور کھجور کے دوباغ عطا کئے تھے وہ ان میں سے اپنی پئداوار پر امیربن گیا اور دولت کے گھمنڈ میں آکر اس نے کہا کہ میری دولت اور کارندوں کا لشکر سب سے بڑا ہے اور یہ میرا ٹھاٹھ ہمیشہ رہے گا۔ مجھے کبھی زوال نہیں آئے گا۔ میرا گمان ہے کہ قیامت بھی نہیں آئے گی۔ اگر بالفرض آ بھی گئی تو اس دنیا سے وہاں بڑھکر دولت پاؤں گا (36 تا 32-18) سو سعودی محرفین نے منھا کو منھما بنا کر گویا دنیا کے ختم ہونے کا انکار کیا ہے۔ یا اس طرح بھی کہ آخرت کے جہان کے آنے اور اسمیں جزا سزا کا بھی انکار کیا ہے اور آخرت کیلئے یہ بھی کہا ہے کہ وہ آئی بھی سہی تو میں آج کی دنیا والے دونوں باغوں سے وہاں بہتر بدلہ پاؤں گا۔ یعنی تحریف کے ذریعے سے منھا کو منھما بنانے سے دنیا جہان کے ختم ہونے اور آخرت کے جہان کے آنے کے انکار کی تلمیح بھی دے گئے۔

اس تذکرہ میں مزید تحریف آیت نمبر (42-18) میں

جناب قارئین!
آپ اس سعودی چھاپ دانشوروں کی تحریفات پر غور کرینگے تو معنوی لحاظ سے اس نے گویا کہیں کہیں قرآن سے غلطییں بھی نکالی ہیں اور اس قرآن دشمن ہیرا پھیریوں کو حدیث پرست مولویوں نے متفرق قرائات کا نام دیا ہوا ہے، انکے ایسے جواب سے جو انہوں نے ایک من گھڑت حدیث کے نام سے مشہور کر رکھا ہے کہ :
نزل القرآن علی سبعة احرف
یعنی قرآن سات حرفوں میں نازل کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا یہ جملہ کہ سات جدا جدا حروف میں قرآن کا نازل ہونا ،ثابت کر رہا ہے کہ قرآن ایک نہیں ہے بلکہ سات ہیں۔ جبکہ قرآن حکیم میں ھٰذا کے اشارہ سے یہ اسم اشارہ واحد کا ہے اور محسوس مبصر کیلئے ہوتا ہے اس اسم اشارہ سے چودہ بار قرآن کو ایک قرآن، ایک نسخہ، ایک لہجہ، ایک قرائت والی کتاب کہ کر پکارا گیا ہے (6-87) غور کریں کہ چودہ بار قرآن کو ھٰذا کے اسم اشارہ سے مشارالیہ کیا گیا ہےجس سے یہ بات رب تعالیٰ جتلانا اور منوانا چاہتا ہے کہ میری یہ کتاب ایک ہے سات نہیں، دس نہیں، چودہ نہیں، جو لوگ سات قرائات کے نام سے سات حروف میں اسکا نزول کہہ کر پھر اسے دگنا بنا کر چودہ متفرق ایڈیشنوں میں قرآن شائع کرنے کی بات کر رہے ہیں، تو اللہ نے بھی چودہ بار قرآن حکیم کے متعلق ھٰذا کا اسم اشارہ دیکر گویا نولمٹ ڈاڑھیاں اور پنڈلیوں تک شلوار کے لمیٹڈ پائنچے پہننے والوں کی مشہور کردہ روایات کا رد کیا ہے کہ قرآن ایک ہے سات نہیں چودہ نہیں۔ سو آیت نمبر (42-18) میں جو سعودی محرفین قرآن نے جملہ واحیط بثمرہ کو جمع کے صیغہ میں لاکر واحیط بِثُمُرِہ کرکے لکھا ہے اس اعرابوں والی تحریف اور تبدیل سے گویا کہ ان دانشوروں نے اللہ کی غلطی نکالی ہے، وہ یہ کہ انکی دی ہوئی اعرابوں سے معنی ہوگی کہ اس باغ کے مالک کے جملہ میوہ جات خس و خاشاک ہوگئے۔ جبکہ اللہ نے اس جملہ میں جمع کا صیغہ نہیں لایا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اللہ نے جو جمع کا صیغہ نہیں لایا وہ اس وجہ سے کہ اللہ تو سوقت دیکھ رہا تھا کہ جس باغ کو میرے قانون نے اجاڑا ہے اس میں کچھ درختوں میں اکا دکا میوہ جات تو بچے ہیں جو باغ مثال کے طور پر اگر ایک ہزار من دیتا تھا تو اجڑنے کے بعد اگر اس کے دوچار من میوہ جات بچے ہوں تو اسے قرآن میں آئے ہوئے جملہ واحیط بِثمَرِہ سے تو پڑھا جاسکتا ہے لیکن اسے جمع کے صیغہ میں واحیط بِثُمُرِہ نہیں پڑھا جائیگا، سو اللہ پاک نے جمع کا صیغہ اسلئے نہیں استعمال فرمایا جو رب تعالیٰ وہاں موجود تھا اور صورتحال دیکھ بھی رہا تھا۔ جبکہ سعودیوں اور عالمی سامراج کے پروردہ دانشور لوگ وہاں موجود نہیں تھے جو انہوں نے جمع کا صیغہ استعمال کر کے اپنی چھوٹی علمی ناپ اور قدوقامت دکھانی چاہی ہے وہ یہ کہ پیچھے باغ میں کچھ بھی نہ بچا تھا۔

علم صرف کے حوالہ سے صرفی انداز میں تحریف کی مثال

سعودی حکومت کے ریالوں پر پلنے والے برطانیہ کی سفارش پر انکی کامپلیکس کے ممبروں نے تحریف کرتے ہوئے آیت (161-3) میں لفظ یَغُلَّ معلوم کو مجہول کا صیغہ بناکر یُغَلَّ لکھا ہے اس صیغہ کے معلوم والی صورت میں آیت کے جملہ کی معنی ہے کہ اور کسی نبی کی یہ شان نہیں کہ وہ خیانت کرے، اور جو خیانت کرے اس نے جو کچھ بھی خیانت کی ہوگی قیامت کے دن وہ اسے لائے گا۔ اب اس سعودی ایجنٹ مافیا کے تحریف کردہ صیغہ مجہول کی معنی ہے کہ کسی نبی کی یہ شان نہیں کہ اسکے ساتھ خیانت کی جاسکے۔ یعنی نبی کے ساتھ کوئی بھی شخص خیانت نہیں کر سکتا، اس تحریفی دعوی کی روشنی میں، میں قرآن کے طالب علموں کی توجہ اس مسئلہ میں خود قرآن کے موقف اور نظریہ کی طرف مبذول کروائوں گا، قرآن فرماتا ہے کہ :
الَّذِينَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لاَ يَتَّقُونَ (56-8)
یعنی جن لوگوں سے آپ معاہدے کرتے ہیں پھروہ لوگ ہر بار اپنا معاہدہ توڑتے ہیں انہیں اپنی عہد شکنی کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔

مزید دو آیات آگے فرمایا کہ :
وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاء (58-8)
یعنی اگر آپکو کسی قوم کی عہد شکنی والی خیانت کرنے کا خوف ہو تو ان سے کیا ہوا معاہدہ برابری کے حساب سے (انکے منہ پر) دے مارو۔

قارئین حضرات غور فرمائیں!
ان آیات میں جناب رسالت مآب سے دشمنوں کے خیانت کرنے کا ذکر موجود ہے پھر یہ سعودیوں کا تنخواہ خور ٹولہ جو قرآن میں تحریف کرتے ہوئے صیغہ معلوم کو بدل کر مجہول بنانے کے بعد یہ معنے نکال رہا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی نبی کے ساتھ خیانت اور فراڈ نہیں کرسکتا، لیکن آپنے سورت انفال میں دیکھا کہ لوگوں نے جناب رسول کے ساتھ خیانت کی ہے اور بدعہدی بھی کی ہے۔ تو بات کھل کر سامنے آگئی کہ یہ سعودی کامپلیکس کی ٹیم کے ممبران ان لوگوں کی طرفدار ہے جنہوں نے جناب رسول کے ساتھ خیانتیں کی تھیں بدعہدییں کی تھیں جنکی یہ لوگ پردہ داری کر رہے ہیں اسلئے کہ یہ لوگ بھی اپنی تحریفات سے علم نبوی میں خیانتیں کر رہے ہیں سو یہ تو حقیقت ہے کہ چور- چور کا یار ہوتا ہے۔ تحریف کی اس مثال کی روشنی میں ثابت ہوا کہ بقیہ جملہ تحریفات کا پس منظر بھی دشمنان رسول کی پردہ داری کرنی ہے اور انکی طرفداری کرنی ہے، نیز یہ بھی کہ قرآن میں قرائات کے بہانوں سے یہ لوگ کئی سارے حروف کاٹ رہے ہیں اور بڑھا بھی رہے ہیں اور انکا یہ عمل اللہ کے ساتھ اور نبی علیہ السلام کے ساتھ بھی تو خیانت ہے، اسلئے یہ لوگ نبی کے ساتھ خیانت نہ کرسکنے کی معنی کرکے اصل میں اپنی خیانتوں کو بھی مسلم امت سے چھپانا چاہتے ہیں۔

جناب قارئین!
میں اس عالمی سرمایہ داروں کی قرآن دشمن تحریک کی تفاصیل کیا کیا بتاؤں، انہوں نے تو کتاب قرآن حکیم جو مسئلہ معاشیات میں علی الاعلان ذاتی ملکیت کی نفی کرتی ہے (219-2) اسکے خلاف مذہبی کئمپوں سے اپنے لئے مذہبی پیشوائیت کو آئی ایم ایف اور نیٹو کے ممبر ملکوں نے خرید کیا ہوا ہے، جن سے مارکسسٹ نظریہ معیشت والی حکومت سوویت یونین کو ان دستار بند علماء مذہب کی معیت اور سر پرستی میں شکست دی گئی، ان بکا‍ؤ مال علماء اسلام نے جب اپنا دامن بچانے کیلئے کہا تھا کہ ہمنے بجاء امریکہ کی خدمت کے اپنی دینی اور ایمانی جذبہ سے یہ جنگ لڑی تھی تو انکے جواب میں امریکن وزارت خارجہ کی سیکریٹری نے فرمایا کہ آپنے جو بھی ہماری مدد کی ہے اسکا آپنے ہم سے ( ڈالروں کی صورت میں) بل وصول کیا ہے جس کا مکمل تفصیل ہمارے پاس موجود ہے اور اب بھی جو شان رسول کی توہین میں گستاخ فلم جس کے اسکرپٹ جزوی طور پر علم حدیث سے مأخوذ ہیں مارکیٹ میں لاکر احتجاج کرائے گئے تو عین ان احتجاجوں کے دوران سعودی حکومت کی طرف سے قرآن حکیم میں تحریف کردہ نسخہ کو انٹرنیٹ پر لاکر فٹ کردیا گیا، اور امت مسلمہ توہین رسالت کے غم میں منہمک تھی جسے کسی اور خنجر لگنے کا احساس خبر نہیں کہ کب ہوگا۔

جناب قارئین!
سعودی مجمع ملک فہد کامپلیکس کے قرآن دشمن ممبروں نے جو من گھڑت قرائات کے نام سے سورت النساء کی آیت نمبر 11 کے لفظ یوصی صیغہ واحد مذکر غائب فعل مضارع معلوم کو مجہول بنایا ہے یہ کوئی قرائت وغیرہ کا چکر نہیں ہے قرائت صرف بہانہ ہے جبکہ اس تحریف سے اصل مقصد یہ ہے کہ اللہ نے جو لوگوں پر مرنے سے پہلے اپنے مال کےبٹوارہ کیلئے اقرباء اور والدین کیلئے وصیت کرنی لازم قرار دی ہے چہ جائیکہ قرآن نے فوتی کے ورثاء کیلئے تقسیم مال کے حصص بھی مقرر کئے ہیں اسکے باوجود اللہ کا فرمان ہے کہ ہر شخص میری طرف سے مقرر کردہ حصوں کے دیئے جانے کے باوجود وصیت بھی کرے تو سعودی روایت پرست قرآن دشمنوں نے ایک طرف تو وصیت کے حکم کو احادیث کے حوالوں سے منسوخ مشہور کیا دوسری طرف پھر احادیث کے نام سے قرآن کے بتائے ہوئے مطلق حکم وصیت کو صرف متروکہ مال کے تیسرے حصہ کے اندر محدود وصیت کرنے کا حکم مشہور کیا گیا یہ لوگ اتنے پر بھی قانع نہیں ہوئے، اب دیکھا آپنے کہ قرائت کے نام سے یوصی کے معلوم صیغہ والے حکم کو مجہول بھی بنادیا، جس سے یہ سرمایہ پرست لوگ، لوگوں کو بتارہے ہیں کہ قرآن میں یوصی معلوم کا صیغہ نہیں جو تجھکو وصیت کرنی پڑے یہ تو یوصیٰ مجہول کا صیغہ ہے جسکا فاعل نامعلوم ہوتا ہے اس لئے آپ اپنے مال سے وصیت کرنے سے بری ہیں اور مجہول کا فاعل نہ ہوگا نہ ملیگا۔

ممکن ہے کہ قارئین حضرات سوچیں کہ ایسی کونسی وصیت ہوسکتی ہے جس کو منسوخ، محدود اور ممنوع قرار دیا جارہا ہے سوہمنے سنا ہے کہ یورپ کے مالدار لوگ مرتے وقت وصیت کرکے جاتے ہیں کہ میری دولت سے نادار لوگوں کے بچوں کو تعلیم دی جائے، ان کو اسکالر شپ دینے کیلئے لوگ وصیتوں کے ذریعے سے ٹرسٹ قائم کرتے ہیں، نیز مفلوک الحال لوگوں کے علاج کیلئے بھی اپنی رقمیں دینے کی وصیت کرکے جاتے ہیں نیزدیگر فلاحی انقلابی اور تحریکی کاموں میں پئسے خرچ کرنے کی وصیت بھی کرکے جاتے ہیں۔ تو رب تعالیٰ نے فوتی شخص کے ورثاء میں متروکہ مال سے حصص مقرر کرکے دینے کے بعد بھی وصیت کرنے کا حکم دیا ہے جسکو پہلے توحدیثیں بنانے والوں نے منسوخ بنایا تھا، اب رہی سہی کسر نکالنے کیلئے قرائت کے نام سے تحریف کرنے کا جو کھاتا قرآن نے تو ریت میں یہودیوں کے بارے میں بتایا تھا (46-4) اب وہ انکے بدلے قرآن میں انکے جانشین سعودیوں نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔

قارئین حضرات !
قرائات کی آڑ میں تحریفی ہنر پر بھی غور فرماتے جائیں کہ دشمنان قرآن نے جو سات قرائتوں کا چکر چلایا تھا اسکا پس منظر کیا ہے۔

لفظ لَا يَسَّمَّعُونَ کو لایَسۡمَعُون بنانے کا پس منظر

محترم قارئین!
لفظ لايِسّمّعونکو اللہ عزوجل نے باب استفعال میں سے استعمال فرمایا ہے لفظ سمع ثلاثی مجرد عموما فعل لازمی کی معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی اسکی معنی صرف فاعل کے ساتھ اپنے تک محدود ہوتی ہے لیکن اگر اسے باب ثلاثی مزید پر لایا جائیگا تو معنی میں تعدی بھی آجائیگی۔

آیت کریمہ لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِن كُلِّ جَانِبٍ۔ دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ (9-8-37)
یعنی ان پنڈت پروہت لوگوں کی ملأ اعلی تک رسائی نہیں ہے جو وہ وہاں کی باتیں سنکر لوگوں پر اپنی بزرگی جھاڑ سکیں ان کو اوپر جانے پر ہر طرف سے دھکار پڑتی ہے انکے لئے عذاب اسکے علاوہ بھی ہے۔یہاں اس آیت کریمہ میں لفظ سمع ثلاثی مجرد کو ثلاثی مزید کے وزن پر لاکر اسکی معنی لازمی سے متعدی بنائی گئی ہے یعنی اکیلے خود سے آگے یہ فعل دوسرے آدمی تک بھی پہنچے سو یہ لفظ باب ثلاثی مزید کے باب استفعال پر آنے کے بعد معنی دیتا ہے کہ پیر پنڈت لوگ ملأاعلی کی باتیں سنکر مریدوں کو سنائیں، وغیرہ سو اللہ نے انکے بارے میں یہ فرمایا کہ ان میں اتنا دم نہیں جو یہ لوگ ملأااعلیٰ کی باتوں تک رسائی کرکے کچھ سن سکیں۔ تو سعودی تحریف بازوں کے کامپلیکس والے جنگل کی حویلیوں والے ممبروں نے شاید خانقاہی دنیا کے کاروباری لوگوں کی وکالت اور حفاظت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے کہ یہ ایسے دندهوں والے نہیں ہیں اسلئے انکے بارے میں شکایت والے لفظ لَا يَسَّمَّعُونَ کو انہوں نے قرائت کے کورمیں چھپاکر ثلاثی مجرد کے صیغہ میں استعمال کیا، یعنی لا يسۡمَعُون یعنی خانقاہی کاروبار کرنے والے بہت ہی لائق اور اچھے لوگ ہیں اصلی اور خالص قرآن انکے بارے میں خواہ مخواہ شکایت کر رہا ہے، سو آئندہ لوگوں کو چاہئیے کہ اس شکایت والے باب استفعال پر پڑھے جانے والے لفظ کے بجاء انکی قرائت والے کور میں انہیں ثلاثی مجرد والے باب اور صیغہ میں پڑھا جائے۔

جناب قارئین!
غور فرماتے جائیں علم قرائات کے رنگ!!!
ہوئے مرکے تم جو رسوا کیوں نہ ہوئے غرق دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا۔

جناب قارئین!
انکی ان قرائات کے کرشموں کا کیا کہنا جو آیت کریمہ (8-37) میں اس لفظ کو سعودیوں کی قرائت پر لانے سے خانقاہی دنیا کیلئے اسلامی دنیا میں پیری مریدی کی بزنس کی پر مٹیں ملنے کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

قدم قدم پر قرائت کے نام سے فراڈ

علم قرائت سے تھوڑی سی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ جانتے ہونگے کہ اسک ا کل مطلب حروف ہجاء کو اپنی اصل مخرج سے ادا کرنا ہے جس سے ھ اور ح میں فرق سمجھا جائے۔ س – ث اور ص میں ادائگی کے وقت فرق سمجھا جائے حروف ء ۔ الف اور عین کے پڑھتے وقت انکی ادائگی میں تمیز کی جاسکے نیز حروف ک اور قاف میں ادائیگی کے وقت فرق سمجھا جائے۔ اور حرف زا – اور ض- اور ذ- کی ادائگی میں فرق سمجھاجائے سو اہل فارس کی کسروی سایوں میں تحریف قرآن کیلئے قائم کردہ امامی القاب سے علوم ایجاد کرنے والوں نے جہاں اپنا علم روایات ایجاد کیا ،علم فقہ ایجاد کیا اور اپنا علم اللغہ ایجاد کیا ،علم ادب اور علم منطق ایجاد کیا، وہاں قرائت کے نام سے بھی ایک علم ایجاد کیا۔ جناب قارئین! ایسے علوم ایجاد کرنے والوں کی اندر کی پلیتی اور بدباطنی کے تھوڑی سے مثالیں میری کتاب "امامی علوم اور قرآن" میں ملینگی جو سوا دو سو صفحات سے زائد صفحوں پر مشتمل ہے اور اب ختم ہوچکی ہے۔ (اسے ہرصاحب ذوق شخص چھپوا سکتا ہے) میں یہاں یہ علوم ایجاد کرنے والوں کی قرآن کے بارے میں انکی بدباطنی کی جو بات سمجھانا چاہتا ہوں اسپر غور فرمائیں! انہوں نے اس علم کا نام تو علم قرائت رکھا ہے لیکن اسکے ثبوت کیلئے جو من گھڑت حدیث جناب رسول علیہ السلام کے نام سے انہوں نے امامی ٹکسال سے جاری کی ہے اسکے الفاظ یہ ہیں کہ "نزل القرآن علی سبعة احرف" یعنی قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے۔ اب کوئی بتائے کہ کس سے انصاف مانگا جائے جو قرائت کا علم تو حروف کی انکے اصل مخارج سے ادائگی کے طور طریقوں کی پہچان والا علم ہے سو اسکے لئے بالفرض اگر حدیث کو درست قبول کیا جائے تو اس حدیث کے الفاظ تو اسطرح درست لگتے ہیں کہ "نزل القرآن علی سبع قرائات" اصل میں تو یہ عبارت بھی خلاف قرآن ہے (19-6) ( 6-87) لیکن ہم نے بات بالفرض کے طور پر کہی ہے۔ یعنی قرآن سات قرائتوں میں نازل کیا گیا ہے، لیکن اندر کے پلیت قرآن دشمن وہابیوں نے حدیث بنائی کہ قرآن سات قرائات کے بجاء سات حرفوں میں نازل کیا گیا ہے۔ اس سے تو یہ پکا ثبوت مل گیا کہ یہ لوگ ایسی حدیث بنانے کے سن اور سال سے لیکر اپنے اندر میں قرآن کے قریب المخارج حروف کی ادائگی کی تمیز اور فرق سمجھانے والا علم ایجاد کرنے کے بجاء اپنے اسلاف یہودیوں کی طرح :
يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ (46-4)
حروف اور کلمات تک کو بگاڑ دیں گے۔ والی نیت رکھتے ہوئے انہوں نے مذکورہ بالا حدیث بنائی ہے۔

جناب قارئین!
میری اس دعوی کا ثبوت ملاحظہ فرمائیں (پھر میں اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں ( اہل حدیث اور امامی علوم کے فرقوں والے لوگوں کو قرآن حکیم کی آیت کریمہ :
ا تَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ (3-7)
کے اوپر ان لوگوں کو بہت ہی شدید غصہ ہے ،اس لئے کہ اس میں حکم دیا گیا ہے کہ آپکی طرف نازل کردہ علم (قرآن) کی تابعداری کرو! اسکے سوا کسی بھی اور علم کو دوست اور خیر خواہ سمجھتے ہوئے اسکی تابعداری نہ کرو۔ تم لوگ بہت ہی کم اس نصیحت کو مانتے ہو۔

جناب قارئین!
اس آیت کریمہ میں صیغہ تذکرون جمع مذکر مخاطب فعل مضارع معلوم کا استعمال کیا گیا ہے، جس کی معنی ہے کہ اللہ عزوجل مؤمنوں کو مخاطب بنا کر انکی شکایت کر رہا ہے کہ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت اور حق سچ کو قبول کرنے اور ماننے والے ہو۔ سو قرائت کے نام سے محرفین قرآن نے اس میں یہ ترمیم اور تحریف کی کہ تذکرون کے بجاء اس لفظ کو یتذکرون کر ڈالا، اس صنعت میں دو عدد خیانتیں ہوئیں ایک تو صیغہ مخاطب کے بجاء غائب کا ہوگیا جس کا مطلب کہ مؤمن لوگ کھٹکا نہ کریں اللہ پاک انکی یہ شکایت نہیں کر رہا۔ دوسری خیانت یہ کی گئی کہ جمع مذکر مخاطب کو جب جمع مذکر غائب بنایا گیا تو ساتھ میں حرف "یا" کا اضافہ کرنا پڑا۔ جس سے قرآنی لفظ میں انہیں گویا کہ قرائت کی آڑ میں ترمیم بھی کرنی پڑی، جسکے لئے انکے نظریاتی باپ دادوں نے یہ سبعتہ احرف والی حدیث بھی بنائی تھی۔

محترم قارئین!
شریف مکہ کو خلافت ترکیہ کے زوال کے بعد اسے انگریزوں نے پورے عرب ممالک کا اسکی غداری کے صلہ میں بادشاہ بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن فری میسن والوں کی ایکسرے مشین کی رپورٹ کے مطابق دنیا سے قرآن کو ختم کرنے کا کام شریف جیسے لیڈر کے بس کا روگ نہیں تھا پھر یہودیوں اور برٹش ملی بھگت کے الٹراسائونڈ کی مشینوں نے اس کام کیلئے سعودی خاندان کو اسکا اہل قرار دیکر ملک حجاز کو مملکۃ سعودیہ بنادیا۔ پھر انہیں ہندستان میں شاہ اسماعیل شہید کی انگریزوں کے خلاف بغاوت والی تحریک کو نا کام بنانے والی سی آئی ڈی ٹیم جن کو شاہ شہید کی شہادت کے بعد بجاء واپس سی آئی ڈی محکمہ میں آنے کے اہل حدیث فرقہ کے نام سے شاہ اسماعیل کی باقیات کے تعارف سے شاہ کو ختم کرنے کے بعد دنیا سے قرآن کو ختم کرنے کی ڈیوٹی لگائی تھی، اسے رہنمائی کے لئے آل سعود کے حوالے کردیا۔ آل سعود کی باقیات نے یہ کام مجمع ملک فہد کے نام سے شروع تو کیا لیکن اسکی رفتار نیٹو برادری اور برٹش والوں کو کچھ سست محسوس ہوئی تو انہوں نے جب مصر اور لبیا کے فرماں روائوں کو تبدیل کیا تو سعودیوں کو بھی سردی لگ کئی کہ اب تو شاید انکی باری آرہی ہے۔ پھر انہوں نے یہ تیز رفتاری دکھائی ہے جو اب ملاوٹ والا قرآن بزریعہ انٹرنیٹ گھر گھر میں پہنچ گیا ہے جس کی ایڈریس (www.islamweb.net) ہے۔

قرآن میں قرائت کے نام سے تحریف

قرآن حکیم کے حکم سے قرائت کی صنف امالہ اور اشمام پر بندش۔

محترم قارئین!
فن قرائت صرف اور صرف اپنی اپنی مخرجوں سے حروف کی شستہ ادائگی کا نام ہے جو پڑھنے والا کاف اور ق، قاف کو اپنی اپنی مخرجوں سے ادائگی کے ساتھ پڑھے ایسے نہ ہو کہ پڑھنے والا ایک قریب المخرج حرف کو دوسرے حرف کی جگہ ادا کرے جن کے دوسرے مثال ۔س۔ث۔ ص ہیں اور ۔ ز۔ذ ۔ض۔ ہیں اور ۔ ھ۔ ح ہیں علوم قرآن میں سے جو علم قرائت مشہور کیا ہوا ہے یہ اصل میں قرآن دشمن مافیا جو کہ شروع اسلام سے ایک صدی یا سوا صدی تک زیر زمین کام کرتی رہی پھر جب عباسی خلافت آل رسول کے نعرے سے حکمران بنی تو ان کے دور اقتدار میں امامی علوم کو بجائے زیر زمین کے اوپن گرائونڈ پر کام کرنے کا موقعہ ملا۔

قرائت کے نام سے اسکی اصطلاح "امالہ اور اشمام" پر قرآن کی بندش

جناب رسول علیہ السلام کے زمانے میں بھی قرآن دشمن اور رسول دشمن لوگوں سے قرائت کے بہانے جناب رسول کی توہین کرنے کا احتمال تھا جسکا ذکر خود قرآن حکیم میں بھی موجود ہے کہ وہ لوگ جناب رسول اللہ کو لفظ راعنا سے فن قرائت کی امالہ اور اشمام والی شیطان گیری سے راعینا کہہ کر پکار سکتے ہیں اس لئے اللہ نے اس کی جڑ کو ختم کرنے کے لئے لفظ راعنا کو امالہ کے ساتھ راعینا کہہ کر استعمال کرنے پر قرآن میں بندش ڈال دی پھر جس "امالہ" اور "اشمام" کو شروع اسلام کے اہل کتاب یہودیوں نے جناب رسول اللہ کے توہین کے لئے استعمال کرنا چاہا تھا پھر ان پر اللہ نے بذریعہ قرآن بندش ڈال دی (104-2) لیکن عباسی دور کے بعد پھر مسلم نما یہودیوں نے فن قرائت کو حروف کی مخارج کے دائرہ سے آگے بڑھاکر اس میں حرفی امالہ اور اشمام جیسی ملاوٹ کو انہوں نے جمع کتابی کے نام سے مشہور کیا ہے اور اسے جاری بنا دیا ہے۔

مسلمانو! اٹھو کعبہ کو آزاد کرائیں-

 وحدہ لاشریک قرآن کو حکمران بنائیں۔

نظریہ لیس کمثل القرآن کو مولویوں سے منوائیں۔

از قلم : عزیزاللہ بوھیو

2 comments:

  1. اللہ آپ کو ہدایت عطا فرمائے۔ آپ ایک گمراہ شخص ہیں۔ اور لوگوں میں فتنہ پھیلا رہے ہیں۔ اللہ دے ڈر جاو اور اپنی خباثت کو بند کردو۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اللہ آپ کو بدگمانی پر معاف کرے، آپ نے کوئی دلیل نہیں دی۔

      Delete