Tuesday, February 5, 2013

ابن تیمیہ : جو شخص گوشت پکانے سے قبل اس کو دھولیتا ہے وہ کافر ہے۔



ابن تیمیہ  :  جو شخص گوشت پکانے سے قبل اس کو دھولیتا ہے وہ کافر ہے۔

سابق سعودی بادشاہ فہد بن عبدالزیز کے مشیر اور سابق انتہاپسند وہابی "ڈاکٹر علی الشعیبی" شیعہ ہوگئے ۔

سابق سعودی بادشاہ فہد بن عبدالزیز کے مشیر اور سابق انتہاپسند وہابی "ڈاکٹر علی الشعیبی" شیعہ ہوگئے
سابق سعودی بادشاہ فہد بن عبدالزیز کے مشیر اور سابق انتہاپسند وہابی "ڈاکٹر علی الشعیبی" شیعہ ہوگئے ہیں۔ الشعیبی 1983 سے 1989 تک "ملک فیصل تحقیقاتی مرکز کے سربراہ اور سعودی بادشاہ "فہد بن عبدالعزیز کے مشیر تھے۔ انھوں نے اس انٹرویو میں اپنے قبول تشیع کے عوامل و  اسباب نیز وہابیت کی سرگرمیوں، شیعیان آل محمد (ص) اور مزاحمت تحریک کے خلاف وہابیوں کی سا‌زشیں، یورپ میں وہابیت کی تبلیغ، ایران، افریقہ، یورپ اور مشرق وسطی کی سطح پر وہابیت کی کتب کی طباعت و تقسیم کی کیفیت، وہابی تبلیغات کی کیفیت اور افتاء کے لئے دروس کے انعقاد اور متعدد دیگر موضوعات کے بارے میں بات چیت کی ہے نیز انھوں نے 100 مجلدات پر مشتمل اپنی کتاب کا تعارف کرایا ہے جس کا عنوان ہے "اسلامی افکار حالات حاضرہ کے مطابق"۔
انٹرویو کا متن:

ــ ابتداء میں اپنا تعارف کرائیں۔

ــ میرا نام علی الشعیبی ہے؛ میں 1983 سے 1989 تک سابق سعود بادشاہ فہد بن عبدالعزیز کا مشیر خاص رہا۔ جزیرہ نمائے عرب کے اخبار "الاحد" میں ایک ثقافتی ضمیمہ بعنوان "بدھ کا خصوصی ضمیمہ" کے عنوان سے چھپتا تھا جس کے دو صفحات میرے لئے مختص تھے اور میں ان میں لکھتا رہا ہوں۔

ــ ہم نے سنا ہے کہ اس سے قبل آپ وہابی تھے؛ آپ اس تفکر سے متنفر کیوں ہوئے؟ آپ نے اپنی سوچ 180 درجے تبدیل کیونکر کی؟ آپ کی سرگرمیاں کیا تھیں؟ ہم نے سنا ہے کہ جزیرۃالعرب کی تیل کی آمدنی کا پانچ فیصہ حصہ وہابیت کے لئے خرچ ہوتا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟

ــ اگر آپ واقعی جاننا چاہتے ہیں کہ وہابی تفکر کی ترویج کے لئے کتنی سرمایہ کاری کی جاتی ہے تو میں کہنا چاہوں گا کہ وہابیت کی ترویج کے لئے پانچ فیصد بجٹ پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ترتیب پانے والے بجٹ کا 30 فیصد حصہ اس کام کے لئے مختص کیا جاتا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس موضوع کے لئے ان کے اپنے مراکز ہیں جو برسوں سے ان کے اہداف کے سلسلے میں سرگرم عمل ہیں۔ اس طرح کے مراکز پورے جزیرہ نمائے عرب بالخصوص جنوبی علاقوں میں زیادہ نمایاں ہیں البتہ الشرقیہ کا علاقہ اس فعالیت سے مستثنی̍ ہے کیونکہ وہاں شیعیان آل محمد (ص) کی اکثریت ہے؛ اطراف کے علاقوں جیسے جیزان، نجران، سودا، طائف حتی کہ دوسرے ممالک جیسے جبل الطارق کے علاقے اور جنوبی اسپین کے علاقے میں اربوں ڈالر وہابیت کی ترویج کے لئے خرچ کئے جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر میری ایک کتاب ہے جس کے 800 صفحات ان ہی مراکز میں سے ایک مرکز کی سرگرمیوں پر مشتمل ہیں۔ میں نے 1971 سے شام کے سلفیوں کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرلئے جن کا سعودی عرب کے وہابیوں کے ساتھ بہت قریبی تعلقات تھے۔ شام کے سلفیوں نے اس زمانے میں شیخ ناصر الدین الآلبانی سے درخواست کی کہ انہیں شام میں ایک سیاسی سلفی جماعت کی تشکیل کی اجازت دیں۔

اس زمانے میں ہم شام کی مساجد میں نماز فجر کے لئے جایا کرتے تھے اور نماز کے بعد ایک شخص کے گھر میں جمع ہوا کرتے تھے جس کو ہم "بھائی" کہا کرتے تھے۔ گوکہ شیخ ناصر الدین الآلبانی سلفی سیاسی جماعت کی تشکیل کے خلاف تھے تا ہم بعض لوگ ایسے بھی تھے جو ان کو اطلاع دیئے بغیر اس قسم کی جماعتیں تشکیل دیا کرتے تھے۔ سعودی وہابیوں کے اقدامات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ خطابت کے لئے محافل کا انعقاد کرتے ہیں۔

سعودی وہابیوں کا کہنا ہے کہ وہ خطابت کی محافل کے ذریعے مبلغ کی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی تسلسل میں وہ ہر ہفتے کے آخر میں ان محافل کے شرکاء سے امتحان لیتے ہیں۔ ان کا روزانہ پروگرام کچھ یوں ہے کہ وہ نماز صبح کے بعد ایک مشکل جسمانی فعالیت (ورزش) کرتے ہیں اور اس کے بعد ناشتہ کرتے ہیں اور ظہر تک درس اور خطابات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ہر ہفتے کے آخر میں قدر پیمائی اور جانچ پڑتال (Evaluation) ہوتی ہے اور ان کی پیشرفت دیکھی جاتی ہے۔

ہر مہینے کے آخر میں بھی ان سے امتحان لیا جاتا ہے۔ کبھی یورپ میں زیر تعلیم وہابیوں کو بھی ان کلاسوں میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ ان کا بورڈ ہے جس کا نام ہے "افتاء، ارشاد اور علمی معاملات بورڈ۔

شاید سوال اٹھے کہ "علمی معاملات" سے مراد کیا ہے؟ میں ایک مثال کے ذریعے اس مسئلے کی وضاحت کرنا چاہوں گا: انھوں نے ایک فتوے کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ "زمین کروی (Spherical) نہیں ہے بلکہ مسطح (Flat) ہے اور جو بھی اس تفکر کی مخالفت کرے گا وہ کافر قرار پائے گا اور اس پر حد جاری ہوگی اور اس کے اموال و املاک کو بیت المال کے حق میں ضبط کیا جائے گا!۔ اس اثناء میں ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ وہابیوں کی تمام مطبوعات کروڑوں کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں اور دنیا کے گوشے گوشے میں تقسیم کی جاتی ہیں اور حج اور عمرے کے مواقع پر دو مقدس شہروں "مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ" میں تقسیم کے اس کام کے لئے بھرپور اقدامات کئے جاتے ہیں اور تمام حجاج اور معتمرین تک یہ منشورات و مطبوعات پہنچائی جاتی ہیں۔

ــ کیا دوسرے ممالک میں یہ کتابیں شائع کی جاتی ہیں؟

ــ جی ہاں! جنوبی ایران اور ریاض میں بھی چھپتی اور شائع کی جاتی ہیں اور حتی انگریزی میں بھی ان کی کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔ حتی کہ وہ فارسی سمیت دوسری زبانوں میں کتب نشر کی جاتی ہیں۔

ــ شیعیان اہل بیت (ع) اور محاذ مزاحمت ـ بالخصوص حزب اللہ ـ کے خلاف وہابیوں کی سازشوں اور دشمنیوں کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

ــ عالم اسلام کو درپیش مسائل میں ایک نہایت اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہابیت اپنے آپ کو مطلقا برحق سمجھتی ہے؛ یہ ایک حقیقت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ وہابیت صرف اہل تشیع ہی سے اختلاف نہیں رکھتی بلکہ وہابی شیعہ اور سنی دونوں کی تکفیر کے قائل ہیں اور اپنے سوا سب کو کافر سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ وہابیت کے اختلافات 36 موضوعات میں ہیں۔ یعنی وہ 36 موضوعات میں دوسرے مسلمانوں سے اختلاف رائے و عقیدہ رکھتے ہیں جن میں سے بعض ظاہری اور مسائل کی صورت سے تعلق رکھتے ہیں جیسے افراد کی ظاہری وضع قطع اور لباس وغیرہ کی روش کا مسئلہ؛ جبکہ بعض دوسرے اختلافات کا تعلق باطنی موضوعات سے ہے۔

کلی طور پر وہ سلفی اور جہادی تبلیغ کے بہانے مسلمانوں کو عظیم ترین نقصانات پہنچارہے ہیں یا پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بورڈ کے سانچے میں، اپنے منحرف افکار کی ترویج کا اہتمام کرتے ہیں جن کا اسلام کے اصولوں سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہيں ہے۔ مؤخرالذکر بورڈ ابن تیمیہ کی کتب کو بہترین اور نہایت مہنگے اور عمدہ کاغذ کے اوپر طبع کرتا ہے اور بالکل مفت لوگوں کے درمیان تقسیم کرواتا ہے۔ کبھی وہابی، وہابیت کی ترویج و تبلیغ کے سلسلے میں ایک مکمل کتب خانہ بعض لوگوں کے سپرد کرتے ہیں اور اس طرح کے ہدایا اور عطایا ہر سال ہزاروں بار دیئے جاتے ہیں۔

انھوں نے گذشتہ 20 برسوں سے یورپ میں وہابیت کے تبلیغی مراکز کی تاسیس کا آغاز کیا ہے اور سوئس کے اطراف سمیت یورپ کے درجنوں مقامات پر وہابی تبلیغی مراکز موجود ہیں۔ وہابیت کے عجیب ترین مسائل میں سے ایک "تکفیر (کافر قرار دینے) کی کیفیت ہے۔ مثلا وہ غیراللہ پر قسم کھانے والے کو کافر قرار دیتے ہیں!۔

ــ علاقے میں اہل تشیع کے خاتمے کے لئے وہابی کیا کرتے ہيں؟

ــ وہابی اس سلسلے میں وسیع کوششیں کررہے ہيں اور ان ساری کوششوں کا واحد مقصد یہ ہے کہ دوسرے مسلمان تشیع سے نفرت کرنے لگیں اور تشیع کی مقبولیت کو کم کیا جائے۔ مثال کے طور پر وہ کم پڑھے لکھے اور اپنے مذہب سے کم آگہی رکھنے والے شیعہ افراد کو مناظرے کی دعوت دیتے ہیں اور اس سلسلے میں بڑی بڑی رقوم خرچ کرتے ہیں۔

[
اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ شیعہ کہلواتے ہوئے تشیع کی مقبولیت کو کم کرنے کا اہتمام کریں یا ایسی خرافات اور توہمات پر اصرار کریں جن کا تشیع سے کوئی واسطہ بھی نہيں ہے، کیا وہ وہابیت کا ہاتھ نہیں بٹا رہے ہیں؟]

ــ ڈاکٹر شعیبی صاحب! آپ وہابیت کے معاشرتی رویوں کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

ــ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بہت سے نمایاں سنی شخصیات نے امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اسی زمانے سے لندن میں "جماعت اسلامی" کے ٹیلی ويژن چینل "الحوار" میں متعدد شخصیات نے دو مکمل پروگراموں میں امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے بارے میں بات چیت کی اور میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ ایک بڑے عالم کا کہنا تھا کہ "عالم اسلام نے گذشتہ 1200 سال برسوں سے اتنی عظیم شخصیت کو نہیں دیکھا ہے"۔

نیز بہت سے بڑے علماء وحدت اسلامی اور اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان اتحاد میں امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے عظیم اور ناقابل انکار کردار پر روشنی ڈالتے رہے ہيں۔ ہم سب کو یاد رکھنا پڑے گا کہ "امام خمینی رحمۃاللہ محض ایک نظریاتی کردار (Simply a Theoretical Character) ہی نہ تھے بلکہ انھوں نے عملی میدان اسلامی وحدت کے سلسلے میں عظیم ترین خدمات انجام دیں؛ اور اسی وحدت پر مبنی کردار کو آج امام خامنہ ای دامت برکاتہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے زمانے سے ہی وہابی منطقۃالشرقیہ کے اہل تشیع اور جنوبی علاقوں کے اسماعیلیوں پر مسلسل دباؤ بڑھاتے آئے ہیں اور ان کی سرگرمیوں کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔

البتہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ بہت سے اقدامات، وہابی امریکیوں کی ہدایت پر انجام دیتے ہیں اور کبھی وہابی خود محسوس کرتے ہیں کہ یہ اقدامات سنگین ہیں۔ اگر بلادالحرمین میں کوئی شخص آپ کو قابل اعتماد سمجھے اور جان لے کہ آپ کی طرف سے اس کو کوئی خطرہ نہيں ہے تو وہ اپنے دل کا حال آپ کو سنائے گا اور اپنے دکھوں اور صدمات سے پردہ اٹھائے گا اور اپنے مشکلات بیان کرے گا جو اس کو سعودی عملداری میں درپیش ہیں۔ وہ آپ کو وہ مصائب بھی سنائے گا جو تکفیری وہابیت کی وجہ سے اس سرزمین کے لوگوں پر ٹھونس دیئے گئے ہیں۔ اس وقت وہابیت ـ جیسا چاہے ـ فتوی دیتی ہے [اور اس کے لئے کتاب و سنت کو فتاوی کی بنیاد بنانے کی بھی ضرورت نہيں ہوتی] کیونکہ اس کے پاس دولت ہے اور ہتھیار اور اقتدار بھی ہے۔

ــ جناب شعیبی! وہابیت کی برائیاں کیا ہیں اور آپ نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کئے ہیں؟

ــ مجھے ابن تیمیہ کی ایک کتاب تحفے کے طور پر ملی جس کا میں نے مطالعہ کیا اور اس کتاب میں میں نے عجیب و غریب قسم کے فتاوی دیکھے۔ ابن تیمیہ مسلمانوں کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہيں:

پہلا گروہ ابن تیمیہ اور ان کے ہم مسلک لوگوں کا ہے اور دوسرا گروہ اہل سنت اور اہل تشیع کا ہے جو ابن تیمیہ کے خیال میں خارج از اسلام اور کافر ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اہل سنت کے پیروکار نہیں جانتے کہ ابن تیمیہ نے انہیں کافر قرار دیا ہے!

ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ جو شخص "فلسفہ" پڑھتا ہے یا "عربی" کے بغیر کوئی دوسری زبان سیکھتا ہے اور گوشت پکانے سے قبل اس کو دھولیتا ہے وہ کافر ہے! ابن تیمیہ کے خیال میں،اگر میں کسی کو پھولوں کا تحفہ دوں تو میں بھی کافر ہوں اور پھولوں کا تحفہ وصول کرنے والا بھی کافر ہے!

میں نے تین سال کے عرصے تک ابن تیمیہ کے افکار پر کام کیا ہے اور اس کے فقہی نقائص کو اکٹھا کرلیا ہے۔ میں نے "اسلامی افکار حالات حاضرہ کے مطابق" ایک کتاب تالیف کی ہے جو 100 مجلدات پر مشتمل ہے اور اس کی فصل 37 و فصل 38 میں، میں نے سلفی وہابی تفکر کا مکمل جائزہ لیا ہے۔ میں نے اس مسئلے پر بحث کی ہے کہ "کیا وہابیت ایک فکر ہے یا یہ عصبیت کا دوسرا نام ہے؟"، ان دو فصلوں (جلدوں) کو میں نے 20 ہزار نسخوں میں چھپوا کر مسلمانوں کے مختلف طبقات میں تقسیم کروایا ہے۔ ان دو جلدوں میں نے فاش کردیا ہے کہ ابن تیمیہ ہر اس شخص کو کافر قرار دیتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر کی زیارت کرتا ہے جبکہ بہت سے لوگ ابن تیمیہ کی اس فکر سے ناواقف ہیں اور اس وہابی تفکر کی تردید اور ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کو رسوا کرنے کے سلسلے میں کوئی خاص کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔

مورخہ 29 جون 2007 ميں لبنان کے ولید جنبلاط نے سرحدوں کی نگرانی کے سلسلے میں مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کے لئے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا اور وہاں اسرائیل کی بدنام زمانہ جاسوسی ادارے "موساد" اور "تنظیم القاعدہ" کے درمیان ایک مفاہمت نامے پر بھی دستخط ہوئے۔ یہ مفاہمت نامہ بعد میں الیکٹرانک بیسز اور ویب سائٹوں پر شائع ہوا اور وہابیت اور اسرائیل کے درمیان قریبی رابطہ منظر عام پر آیا۔

وہابی ہمارے زمانے کے خوارج ہیں اور ہم دیکھتے ہيں کہ وہ یہودیوں پر الزام لگاتے ہيں، نہ ان کی توہین کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں کافر سمجھتے ہیں۔

لیکن کون ہے جس نے آکر اس منحرف ٹولے کے افکار کو فاش کیا ہو؟ پانچ یا دس جلد کتاب لکھنے سے اس گمراہ ٹولے کے افکار کو افشاء نہيں کیا جاسکتا؛ حالانکہ وہابی ہزاروں کتابیں لکھتے اور شائع کرتے ہیں اور بڑے وضوح و صراحت کے ساتھ اہل تشیع اور اہل سنت کو کافر قرار دیتے ہیں۔

جب ابن تیمیہ مرگئے تو بہت تھوڑے سے لوگوں نے اس کے جنازے میں شرکت کی لیکن وہابیت آئی تو اس نے ابن تیمیہ کے افکار کو زندہ کیا۔ وہابی یہود، صہیونیوں اور موساد کے خلاف نہیں لڑتی کیونکہ وہابیت اور صہیونی صہیونیت ایک ہی ہیں۔

ــ اب جب آپ اس گمراہ فرقے سے جدا ہوئے ہیں تو آپ کیسے محسوس کررہے ہيں اور آپ کے تاثرات کیا ہیں؟ الآن که از این فرقه ضاله جدا شده‌اید چه احساسی دارید؟

ــ میں نے یہ تفکر 1987 میں ترک کردیا ہے اور وہابیت کے تفکرات اور تصورات کو افشاء کرنے کی غرض سے متعدد کتب تالیف کی ہیں۔ میں ایک ہی جملہ آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ "جو بھی شخص اپنے اسلام و ایمان اور اپنی اسلامی فکر کی تائید کے لئے قرآن مجید اور احادیث شریفہ کا مطالعہ نہ کرے وہ مسلمانی اور اسلام سے کوسوں دور ہے"۔

ــ وہابیوں کے لئے کوئی تجویز!

ــ پہلی بات یہ کہ لوگوں کی تکفیر سے باز رہیں کیونکہ جو شخص شہادتین کا اقرار کرتا ہے وہ کفر سے دور ہوگیا ہے؛ دوسری بات میں عام مسلمانوں سے کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ بعض عظیم اسلامی شخصیات کی تعظیم کرنے اور انہیں محترم سمجھنے کو شرک نہ سمجھیں۔
ماخذ: ابنا
شفقنا اردو




1 comment: